رضا کار اُستاد نے پوچھا!بیٹا آپ کیا پڑھنا چاہتے ہو؟۔
حمزہ بولا!مجھے کچھ نہیں پڑھنا۔۔۔آپ بس رنگ بھرنا سکھا دیجیئے۔۔
ماروی (استاد )کے لئے یہ قدرے انوکھا جواب تھا۔عموماً بچے آٹھ دس سال کی عمر میں کافی کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔لیکن حمزہ کی بے پرواہی،عمومی کاموں سے اجتناب اور طبیعت کی سنجیدگی یہ بتاتی تھی کہ اس بچے کا مزاج خاصا مختلف ہے۔صبح سویرے نرسیں وقت پر دوا دے جاتیں،کھانے کا انتظام بھی معقول ہو جاتا،، ،اکثر و بیشتر تکلیف دہ ٹیکے بھی لگتے اور پھر سر شام ہی حمزہ اپنی ماں کے ساتھ بستر پر آرام کرتا ۔ایک دن کسی خاص جنون سے ہانکے ہوئے کچھ لوگ ادھر آنکلے جنہوں نے سب بچوں کو بتایا کہ وہ انہیں پڑھنا لکھنا سکھائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ کھیل کود کے لئے بھی تمام سامان مہیا کیا جائے گا۔یہ سُنتے ہی درجنوں چہرے کھِل اُٹھے۔رنگ برنگے کھلونے ،کاپیاں،کتابیں اور پنسلیں دیکھ کر بچوں کے چہرے ایسے تھے جیسے بہار کی آمد بھانپتے ہی بُلبُل چہک اُٹھے۔
یہ چند ایک جنونی لوگ ہر بچے کے پاس گئے اور پوچھا”آپ کیا لینا پسند کرو گے؟کتاب ،کاپی،بلّا گیند یا کچھ اور؟”ہر بچے نے اپنے مزاج کے مطابق اپنی اپنی پسند کا انتخاب کیا۔انہی میں سے ایک ماروی بھی تھی،حمزہ کے قریب آتے ہی اُس نے پوچھا بیٹا!آپ کیا لو گے؟حمزہ نے بِنا کسی توقف پُر اعتماد لہجے میں صرف ایک جملہ کہا”مجھے صرف رنگ دے دیں”۔ماروی نے رنگوں کا ڈبہ تو اُسے ضرور دیا لیکن ایک چھوٹے بچے کے چہرے پراس قدر سنجیدگی،انتہائی مختلف اور مختصر جواب نے ماروی کو قدرے چُونکا ضرور دیا۔اگلے دن جب یہ لوگ دوبارہ آئے تو انہوں نے بچوں کے گروپس بنا کر انہیں پڑھنے لکھنے اور مختلف کھیلوں میں مصروف کر لیا۔ماروی نے بخوبی محسوس کیا کہ تمام بچے بڑے جوش و خروش اور انہماک سے اس ایکسر سائز میں محو ہیں لیکن حمزہ اپنے بیڈ پررنگ ہاتھ میں تھامے بدستور خاموشی سے لیٹا ہے۔وہ حمزہ کی جانب گئی اور پوچھا”بیٹا ! آپ پڑھ لکھ رہے ہو اور نہ ہی کسی کھیل میں مصروف ہو خیریت تو ہے؟”حمزہ بولا”مجھے صرف رنگ بھرنا سکھا دیں۔۔۔! مجھے اور کچھ بھی نہیں سیکھنا”۔
ایک لمحہ فیصلے کے لئے کافی ہوتا ہے وگرنہ عمر بھر کی ریاضت بھی رایئگاں ٹھہرتی ہے۔۔ماروی نے اُس “لمحہ موجود”میں فیصلہ کر لیا کہ وہ حمزہ کو خود رنگ بھرنا سکھائے گی اور یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ آخر یہ بچہ اس قدر مختلف کیوں ہے۔ماروی ایک سرکاری یونیورسٹی کے شعبہء فائن آرٹس کی طالبہ تھی۔کلاسوں سے فراغت کے بعد ماروی اور اُس کے چند سر پھرے دوست روزانہ حمزہ اور اس جیسے دیگر بچوں کو دو چار گھنٹوں کا وقت ضرور دیا کرتے تھے۔ ۔فائن آرٹس سے تعلق ہونے کی بِنا پر ماروی کے لئے حمزہ کو رنگوں سے متعارف کروانا قطعا مشکل نہ تھا۔لہذا وہ دس سالہ حمزہ کو رنگوں کی زبان سکھانے لگی۔الغرض یہ کہ حمزہ اب ڈرائنگ شیٹ پر رنگوں کی زُبان بولنے لگ گیا۔۔وہ دن کا اکثر وقت شیٹ نما کینوس پر رنگ بکھیرتا۔رنگ بھرتے ہوئے حمزہ کا چہر ہ ایک خاص قسم کی روشنی سے روشن ہو جاتا۔۔اس کی آنکھوں میں ایک طمانیت امڈ آتی ،، اسی روشنی اور طمانیت کا راز ماروی جاننا چاہتی تھی۔
دن بھر حمزہ رنگوں کے ساتھ کھیلتا اور رات بھر اُس کی ماں اس کے سرہانے بیٹھی رہتی۔حمزہ رات بھر ماں کو سونے نہ دیتا ۔وہ کہتا کہ “ماں! بس میری آنکھوں میں دیکھتی رہو” اور اس کی ماں نم آنکھوں سے بیٹے کو بس تکتی رہتی۔۔۔ کیونکہ ایک ڈر تھا جو حمزہ کی ماں کو سونے نہیں دیتا تھا ۔۔ تابش صاحب نے کہا تھا
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
رضا کار استاد ماروی کو جب پتہ چلا کہ اصل معاملہ کیا ہے تو وہ اپنی یونیورسٹی سے اسی وقت بھاگ دوڑی۔کینسر وارڈ میں داخل ہوتے ہی وہ حمزہ کے بستر کی جانب لپکی جہاں حمزہ مدتوں بعد سو رہا تھا۔۔وہ ناممکن کو ممکن کر چکا تھا۔۔
حمزہ کو آنکھوں کا کینسر تھا۔ڈاکٹرز کہہ چُکے تھے کہ بینائی جاتی رہے گی اور۔ زندہ رہنے کی خاطر۔۔!! پہلے ایک آنکھ نکلے گی اور اُس کے بعد اسی طرح دوسری بھی نکالناپڑے گی۔۔۔ سانسوں کا ربط بحال رکھنے کے لیے شاید میڈیکل سائنس کے پاس یہی ایک واحد حل تھا۔۔ حمزہ فطرتا سمجھدار واقع ہوا تھا اور وہ کسی بھی ایسے وقت کے آنے سے پہلے رنگ بھرنا چاہتا تھا۔ وقت کم تھا اور حمزہ کو بینائی کھو جانے سے ڈر لگتا تھا۔۔اس سے پہلے کہ بینائی جاتی رہتی حمزہ اپنے لا شعور میں تمام رنگ بھر چُکا تھا۔وہ اپنی ماں کا چہرہ بھی اپنی آنکھوں میں خوب اچھی طرح سے سمو چُکا تھا۔”ہارے بھی تو بازی مات نہیں “کے مصداق اب اُسے کوئی ڈر نہ تھا۔اسے ماں کا چہرہ بھی ہو بہو یاد تھا اور دُنیا جن رنگوں سے تعبیر کی جاتی ہے وہ رنگ بھی اَز بر تھے۔۔ ماروی کو رنج تھا کہ وہ چاہ کر بھی حمزہ کے لئے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔لیکن اصل میں وہ حمزہ کے لئے نا ممکن کو ممکن کر چُکی تھی۔وہ ۔۔۔جو دُنیا کا کوئی بھی ڈاکٹر کرنے سے قاصر تھا ۔۔ماروی وہ کام کر چُکی تھی۔۔۔! وہ حمزہ کے لاشعور میں تمام رنگ بھر چکی تھی۔۔ شاید ماروی کے اندر بھی ہیلن کیلر کی سی روح اتر آئی تھی جس نے حمزہ کو تمام رنگوں سے مکمل طور پر آشکار کر دیا تھا۔ لیکن کیا کیجئے کہ زندگی کبھی رُکتی نہیں۔۔ چلتی رہتی ہے ۔ کیونکہ ہر مدار کا اپنا دائرہ کارہوتا ہے ۔۔حمزہ کی بینائی اور سانسیں اپنی مدت پوری کر چُکی تھیں ۔۔
ماروی اب بھی رنگوں کے نجانے کتنے قِصے کینوس پر اُتارتی ہے ۔۔ اس کے رنگ باتیں کرتے ہیں، اور ان باتوں سے خوشبو آتی ہے ۔۔ لیکن اس کے ہاں کہانیاں کہتے خواب بُنتے رنگوں میں جو ایک رنگ سب سے نمایاں ہے وہ رنگ” حمزہ رنگ “ہے۔۔!!
4 Responses
Hamza’s mother was not the only one who had a film of moisture in her eyes… and as I progressed down the lines, he lump in my throat grew bigger. Bless u Ajmal Jami
though its bitter, but yes..!! When I came to know about that teacher and Hamza I also had “tears’ in my eyes. I think If readers have felt it then I am done with my purpose. Thanks for your words…
نہ جانے اور کتنے ہی حمزہ ۔۔۔ رنگ بھرنے کے لیئے بیتاب ہوں گے ۔۔ اور نہ جانے کتنی ہی مارویاں ۔۔۔ انھیں رنگ سکھانے کے لیئے ۔۔۔ دعا یہ ہے کہ حمزہ کی طرح، باقیوں کے زندگی کے رنگ پھیکے نہ پڑیں ۔۔ آمین
breath taking story