نام کتاب: سرخ میرا نام (My Name is Red)
مصنف: اورحان پاموک (ترجمہ: ہما انور)
صفحات: 456
قیمت: 780
ناشر: جمہوری پبلیکیشنز، 2 ایوان تجارت روڈ، لاہور
پچھلے قرنوں کے جو احوال ہم تک پہنچتے ہیں، جسے ہم تاریخ کہتے ہیں، پہلی نظر میں ہمیں جنگاہوں میں مرنے مارنے والوں کے معرکوں کے ایک نقشے، یا محبت کرنے والوں کے راز و نیاز کے شاعرانہ دیوان کی طرح نظر آتی ہے۔ شیرین اور خسرو کی محبت اور سلطان محمد فاتح کے فتح استنبول کی کہانیاں ہم تک شاہی کتب خانوں میں بنائی گئی خوشنما منی ایچر مصوری اور نفیس خط میں لکھے ہوئے رزمیوں کی صورت میں پہنچی ہیں، جنہیں سونے اور یاقوت میں جڑی دقیق نقاشی والی جلدوں میں محفوظ کر کے تاریخ کے کتاب دار نے ہم تک پہنچایا ہے۔ لیکن عظیم بادشاہوں کے ان نگارخانوں کے اندر، ان کہانیوں کے جامد منظروں پر سبز، بنفشی، آبی اور طلائی رنگوں سے زندگی پھونکنے والے منی ایچر مصوروں کے اپنے ناموں اور کہانیوں کو تاریخ سے اوجھل رکھا جانا، ایک عرصہ تک اس پیشے کے اپنے ادب آداب میں بھی شامل رہا ہے۔
ترکی کے معاصر ادب میں سب سے نمایاں نام اورحان پاموک، کا ناول “سرخ میرا نام” ایک سنسنی خیز تاریخی کہانی ہونے کے ساتھ ساتھ، اواخر سولہویں صدی کے استنبول میں، عثمانی سلطان مراد سوم کے کتاب خانے میں کام کرنے والے منی ایچر فنکاروں کی زندگی، موت، سیاست اور فنی مباحثوں کی ایک عالمانہ دستاویز ہے۔ کہانی کے پہلے باب کا راوی ایک ایسا شخص ہے جو مارا چکا ہے، وہ پرلوک سے اپنے پیشے، اپنے سفاکانہ قتل، موت کی ساعت اور موت کے بعد کے کچھ لطیف احساسات ہمیں سناتا ہے۔ ایک نامعلوم قاتل نے شاہی کتاب خانے کے طلاکار نفیس آفندی کا سر کچل کر اسے ایک کنویں میں پھینک دیا ہے۔ قرہ آفندی (قرہ بمعنی سیاہ) اس سرما میں مشرق کے سفر سے، ایک بالکل بدلے ہوئے استنبول میں لوٹا ہے، جو صفویان ایران سے لڑائیوں کے بعد ادھ جلے کھنڈرات پر مشتمل ایک اداس شہر ہے، جہاں شاہی ٹکسال کا سیمیں سکہ یونانی اور اطالوی سکے کے مقابلے میں اپنی وقعت کھو رہا ہے، جہاں قرہ بارہ سال پہلے اپنے خالو انشتے آفندی کی بارہ سالہ، سیاہ چشم بیٹی شکورے کو چھوڑ گیا تھا۔ منی ایچر کے ایک بوڑھے مصور انشتے آفندی کی بیٹی شکورے، جو اب جنگ میں لاپتہ ہو چکے اپنے فوجی شوہر کے انتظار میں نیم بیوہ، لیکن ایک چوبیس سالہ سیانی اور زیرک حسینہ بن چکی ہے۔ ترکی پے در پے جنگوں، وباؤں، مہنگائی اور جرائم کی لپیٹ میں ہے اور بایزید مسجد کے بااثر امام نصرت حوجا کا کہنا ہے کہ ان آفات کی اصل وجہ مصوری، میخواری اور خانقاہی موسیقی ہے۔ قرہ کو اس کے خالو انشتے آفندی نے نئی طرز کےایک خفیہ منی ایچر نسخے پر کام میں معاونت کے لیے استنبول بلایا ہے، جو سلطان عثمانی کے حکم خاص پر تیار کیا جا رہا ہے۔
کہانی کے بہاؤ میں ہی قاری کو استنبول کے قہوہ خانوں میں شاموں کو داستان گو عجیب و غریب کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں، جن میں وہ عجیب کرداروں کے ذریعے موت و حیات، حیوان و انسان، معیشت اور سکّوں کی قدر جیسے کئی ایک موضوعات کو مروّجہ علمیات کے ذریعے زیر بحث لا رہے ہیں۔ کتاب خانوں میں منی ایچر مصور، مغرب کے وینسی (یا فرینکش) انداز کے حقیقت نگارانہ طرز مصوری سے متعارف ہونے پر پریشان ہیں۔ مصوروں کا ایک حلقہ عظیم مصور بہزاد کے مکتب ہرات، ایرانیوں کے صفوی طرز اور عثمانیوں کے جداگانہ کلاسیکی طرز مصوری کی بقاء کے لیے کوشاں ہیں، جو اپنے آپ میں عظیم اسلامی روایات اور مشرقی اخلاقیات کے رنگوں میں گندھا ہوا ہے۔ کچھ مصور چوری چھپے مغربی حقیقت نگار تناظری طرز مصوری سے متاثر ہو کر کلاسیکی روایت میں اجتہاد کرنے کے حامی ہیں۔ پس منظر کے دھندلکوں میں نصرت حوجا کے پیروکار مصوروں اور خانقاہیوں کے کفر سے لڑتے اور قہوہ خانوں پر حملے کرتے ہوئے بھی دکھائی سنائی دیتے رہتے ہیں۔ شاہی کتاب خانے میں مصوروں کے دونوں مکاتب کی سیاست جاری ہے اور اچانک ایک اور اہم منی ایچر مصور کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
ناول نگار نے کہانی کے اتار چڑھاؤ اور مکالموں میں اس صدی کے منی ایچر فن کی باریکیوں اور فن پاروں پر جس بصیرت سے بات کی ہے، وہ اسے ایک قتل کی تفتیش کی کہانی سے کہیں بڑا فن پارہ بنا دیتی ہے۔ ناول کے بیچوں بیچ استنبول، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے مصوروں، درویشوں اور بادشاہوں کی بیسیوں چھوٹی چھوٹی حکایتیں موضوع اور منی ایچر روایت کے بہت سے لطیف پہلؤوں پر روشنی ڈالتی رہتی ہیں۔ یہ کتاب منی ایچر مصوری کی اس صدیاں پرانی عظیم روایت کا رزمیہ ہے جس میں فن کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر چکے فنکار موقلم ہاتھ میں لیے کتاب خانوں میں کاغذ پر جھکے اپنی عمروں سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں، اور ہر ماہر مصور اواخر عمر میں اندھا ہو جاتا ہے، لیکن اس اندھے پن کو پرانے منی ایچر مصوروں میں وقار اور کمال فن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ معذوری ان کے فن میں رکاوٹ بننے کی بجائے ان کو داخلی نور سے بہرہ ور کرتی ہے، وہ خارجی مداخلتوں سے آزاد ہو جاتے ہیں اور ان کا قلم زیادہ مستعدی سے وہ لکیریں کھینچتا رہتا ہے، جن کے لیے ان کے ہاتھ، بینائی کے احتیاج کے بغیر بلا تامل پہلے سے بہتر تصویر کشی کر رہے ہیں۔ اورحان پاموک ہمیں سلاطین عثمانی کے اس خفیہ مخزن تک لے کے جاتا ہے جہاں کسی بھی عام و خاص کا جانا شاہ کے حرم خاص میں جانے کی طرح ممنوع اور مخصوص ہے۔ منی ایچر کے اس خفیہ عجائب گھر میں شاہنامۂ فردوسی کا 25 برس میں مکمل ہونے والا تصویری نسخہ، ہرات کے استاد بہزاد کے فن پارے، منگول خوانین کے سب رنگ رزمیے، خسرو و شیرین کی خلوتوں اور ہخامنشی، ساسانی، صفوی اور عثمانی شاہوں کے جاہ و جلال کے حیران کن آثار کے پشتے رکھے ہوئے ہیں۔ اس حیرت کدے میں پہلی بار آنے والے بوڑھے استاد عثمان کے ساتھ ساتھ قاری کے دھیان سے بھی ایک لحظہ کے لیے یہ بات نکل جاتی ہے کہ یہاں داخل ہونے کی خصوصی اجازت انہیں ایک سربستہ معمے کی تفتیش کے لیے دی گئی ہے۔ اسے عظیم بہزاد کے ایک نسخے کے ساتھ پڑی وہ سوئی ملتی ہے جس سے بہزاد نے اپنی آنکھوں کے چراغ گل کیے تھے، وہ اس سوئی کو تھامے اپنی آنکھوں دیکھے ان عجائب کو اپنی آنکھ کی پتلی میں امر کرنا چاہتا ہے۔
اس کہانی میں موجود عاشق، معشوق اور رقیب کی ایک کڑی مثلث محبت کے بارے میں اس داستانی خیال کو مسترد کرتی ہے کہ محبت، محبوبی اور رقابت کے جذبوں کا صدور محض دل سے ہوتا ہے، دماغ سے اس کا سروکار نہیں ہے۔ اسی طرح “موت” جیسے گنجلک موضوع پر ایک گونہ سہولت سے بڑی پُرکار باتیں کر جانا بھی اورحان پاموک ہی کا حصہ ہے۔ کسی بھی ہنر سے وابستہ دو ماہر کلاکاروں کے بیچ فنکارانہ حسد کے رشتے کا فن کے مستقبل پر کیا اثر ہے، فن کی سیاست میں معقول مباحثے اورجذباتی مجادلے کی دونوںمتوازی روایتوں کا توازن اہل مشرق کے ہاں کیا رہا، عہد سلاطین میں عامۃ الناس اور سلطان کے ذوق میں فاصلے کا اجمال۔۔ اورحان پاموک کا ناول بیسیوں سوالات کا جواب دینے کے باوجود اپنی جگہ ایک عارفانہ پہیلی ہے۔
کتاب کا ترجمہ ہما انور نے کیا ہے اور اچھے ترجمے کے جملہ محاسن اس میں نظر آتے ہیں۔ پیش لفظ اردو کے ممتاز ناول نگار مستنصر حسین تارڑ نے لکھا ہے۔ سرورق دیدہ زیب اور حسب موضوع ہے۔ طباعت معیاری اور کتابت املا کی اغلاط سے تقریبا ًپاک ہے۔ نوبیل یافتہ ناول نگار کی یہ کتاب فکشن اور آرٹ، دونوں فنون کے شیداؤں کے لیے بلاشبہ ایک گرانقدر تحفہ ہے۔
مصنف: اورحان پاموک (ترجمہ: ہما انور)
صفحات: 456
قیمت: 780
ناشر: جمہوری پبلیکیشنز، 2 ایوان تجارت روڈ، لاہور
پچھلے قرنوں کے جو احوال ہم تک پہنچتے ہیں، جسے ہم تاریخ کہتے ہیں، پہلی نظر میں ہمیں جنگاہوں میں مرنے مارنے والوں کے معرکوں کے ایک نقشے، یا محبت کرنے والوں کے راز و نیاز کے شاعرانہ دیوان کی طرح نظر آتی ہے۔ شیرین اور خسرو کی محبت اور سلطان محمد فاتح کے فتح استنبول کی کہانیاں ہم تک شاہی کتب خانوں میں بنائی گئی خوشنما منی ایچر مصوری اور نفیس خط میں لکھے ہوئے رزمیوں کی صورت میں پہنچی ہیں، جنہیں سونے اور یاقوت میں جڑی دقیق نقاشی والی جلدوں میں محفوظ کر کے تاریخ کے کتاب دار نے ہم تک پہنچایا ہے۔ لیکن عظیم بادشاہوں کے ان نگارخانوں کے اندر، ان کہانیوں کے جامد منظروں پر سبز، بنفشی، آبی اور طلائی رنگوں سے زندگی پھونکنے والے منی ایچر مصوروں کے اپنے ناموں اور کہانیوں کو تاریخ سے اوجھل رکھا جانا، ایک عرصہ تک اس پیشے کے اپنے ادب آداب میں بھی شامل رہا ہے۔
ترکی کے معاصر ادب میں سب سے نمایاں نام اورحان پاموک، کا ناول “سرخ میرا نام” ایک سنسنی خیز تاریخی کہانی ہونے کے ساتھ ساتھ، اواخر سولہویں صدی کے استنبول میں، عثمانی سلطان مراد سوم کے کتاب خانے میں کام کرنے والے منی ایچر فنکاروں کی زندگی، موت، سیاست اور فنی مباحثوں کی ایک عالمانہ دستاویز ہے۔ کہانی کے پہلے باب کا راوی ایک ایسا شخص ہے جو مارا چکا ہے، وہ پرلوک سے اپنے پیشے، اپنے سفاکانہ قتل، موت کی ساعت اور موت کے بعد کے کچھ لطیف احساسات ہمیں سناتا ہے۔ ایک نامعلوم قاتل نے شاہی کتاب خانے کے طلاکار نفیس آفندی کا سر کچل کر اسے ایک کنویں میں پھینک دیا ہے۔ قرہ آفندی (قرہ بمعنی سیاہ) اس سرما میں مشرق کے سفر سے، ایک بالکل بدلے ہوئے استنبول میں لوٹا ہے، جو صفویان ایران سے لڑائیوں کے بعد ادھ جلے کھنڈرات پر مشتمل ایک اداس شہر ہے، جہاں شاہی ٹکسال کا سیمیں سکہ یونانی اور اطالوی سکے کے مقابلے میں اپنی وقعت کھو رہا ہے، جہاں قرہ بارہ سال پہلے اپنے خالو انشتے آفندی کی بارہ سالہ، سیاہ چشم بیٹی شکورے کو چھوڑ گیا تھا۔ منی ایچر کے ایک بوڑھے مصور انشتے آفندی کی بیٹی شکورے، جو اب جنگ میں لاپتہ ہو چکے اپنے فوجی شوہر کے انتظار میں نیم بیوہ، لیکن ایک چوبیس سالہ سیانی اور زیرک حسینہ بن چکی ہے۔ ترکی پے در پے جنگوں، وباؤں، مہنگائی اور جرائم کی لپیٹ میں ہے اور بایزید مسجد کے بااثر امام نصرت حوجا کا کہنا ہے کہ ان آفات کی اصل وجہ مصوری، میخواری اور خانقاہی موسیقی ہے۔ قرہ کو اس کے خالو انشتے آفندی نے نئی طرز کےایک خفیہ منی ایچر نسخے پر کام میں معاونت کے لیے استنبول بلایا ہے، جو سلطان عثمانی کے حکم خاص پر تیار کیا جا رہا ہے۔
کہانی کے بہاؤ میں ہی قاری کو استنبول کے قہوہ خانوں میں شاموں کو داستان گو عجیب و غریب کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں، جن میں وہ عجیب کرداروں کے ذریعے موت و حیات، حیوان و انسان، معیشت اور سکّوں کی قدر جیسے کئی ایک موضوعات کو مروّجہ علمیات کے ذریعے زیر بحث لا رہے ہیں۔ کتاب خانوں میں منی ایچر مصور، مغرب کے وینسی (یا فرینکش) انداز کے حقیقت نگارانہ طرز مصوری سے متعارف ہونے پر پریشان ہیں۔ مصوروں کا ایک حلقہ عظیم مصور بہزاد کے مکتب ہرات، ایرانیوں کے صفوی طرز اور عثمانیوں کے جداگانہ کلاسیکی طرز مصوری کی بقاء کے لیے کوشاں ہیں، جو اپنے آپ میں عظیم اسلامی روایات اور مشرقی اخلاقیات کے رنگوں میں گندھا ہوا ہے۔ کچھ مصور چوری چھپے مغربی حقیقت نگار تناظری طرز مصوری سے متاثر ہو کر کلاسیکی روایت میں اجتہاد کرنے کے حامی ہیں۔ پس منظر کے دھندلکوں میں نصرت حوجا کے پیروکار مصوروں اور خانقاہیوں کے کفر سے لڑتے اور قہوہ خانوں پر حملے کرتے ہوئے بھی دکھائی سنائی دیتے رہتے ہیں۔ شاہی کتاب خانے میں مصوروں کے دونوں مکاتب کی سیاست جاری ہے اور اچانک ایک اور اہم منی ایچر مصور کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
ناول نگار نے کہانی کے اتار چڑھاؤ اور مکالموں میں اس صدی کے منی ایچر فن کی باریکیوں اور فن پاروں پر جس بصیرت سے بات کی ہے، وہ اسے ایک قتل کی تفتیش کی کہانی سے کہیں بڑا فن پارہ بنا دیتی ہے۔ ناول کے بیچوں بیچ استنبول، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے مصوروں، درویشوں اور بادشاہوں کی بیسیوں چھوٹی چھوٹی حکایتیں موضوع اور منی ایچر روایت کے بہت سے لطیف پہلؤوں پر روشنی ڈالتی رہتی ہیں۔ یہ کتاب منی ایچر مصوری کی اس صدیاں پرانی عظیم روایت کا رزمیہ ہے جس میں فن کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر چکے فنکار موقلم ہاتھ میں لیے کتاب خانوں میں کاغذ پر جھکے اپنی عمروں سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں، اور ہر ماہر مصور اواخر عمر میں اندھا ہو جاتا ہے، لیکن اس اندھے پن کو پرانے منی ایچر مصوروں میں وقار اور کمال فن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ معذوری ان کے فن میں رکاوٹ بننے کی بجائے ان کو داخلی نور سے بہرہ ور کرتی ہے، وہ خارجی مداخلتوں سے آزاد ہو جاتے ہیں اور ان کا قلم زیادہ مستعدی سے وہ لکیریں کھینچتا رہتا ہے، جن کے لیے ان کے ہاتھ، بینائی کے احتیاج کے بغیر بلا تامل پہلے سے بہتر تصویر کشی کر رہے ہیں۔ اورحان پاموک ہمیں سلاطین عثمانی کے اس خفیہ مخزن تک لے کے جاتا ہے جہاں کسی بھی عام و خاص کا جانا شاہ کے حرم خاص میں جانے کی طرح ممنوع اور مخصوص ہے۔ منی ایچر کے اس خفیہ عجائب گھر میں شاہنامۂ فردوسی کا 25 برس میں مکمل ہونے والا تصویری نسخہ، ہرات کے استاد بہزاد کے فن پارے، منگول خوانین کے سب رنگ رزمیے، خسرو و شیرین کی خلوتوں اور ہخامنشی، ساسانی، صفوی اور عثمانی شاہوں کے جاہ و جلال کے حیران کن آثار کے پشتے رکھے ہوئے ہیں۔ اس حیرت کدے میں پہلی بار آنے والے بوڑھے استاد عثمان کے ساتھ ساتھ قاری کے دھیان سے بھی ایک لحظہ کے لیے یہ بات نکل جاتی ہے کہ یہاں داخل ہونے کی خصوصی اجازت انہیں ایک سربستہ معمے کی تفتیش کے لیے دی گئی ہے۔ اسے عظیم بہزاد کے ایک نسخے کے ساتھ پڑی وہ سوئی ملتی ہے جس سے بہزاد نے اپنی آنکھوں کے چراغ گل کیے تھے، وہ اس سوئی کو تھامے اپنی آنکھوں دیکھے ان عجائب کو اپنی آنکھ کی پتلی میں امر کرنا چاہتا ہے۔
اس کہانی میں موجود عاشق، معشوق اور رقیب کی ایک کڑی مثلث محبت کے بارے میں اس داستانی خیال کو مسترد کرتی ہے کہ محبت، محبوبی اور رقابت کے جذبوں کا صدور محض دل سے ہوتا ہے، دماغ سے اس کا سروکار نہیں ہے۔ اسی طرح “موت” جیسے گنجلک موضوع پر ایک گونہ سہولت سے بڑی پُرکار باتیں کر جانا بھی اورحان پاموک ہی کا حصہ ہے۔ کسی بھی ہنر سے وابستہ دو ماہر کلاکاروں کے بیچ فنکارانہ حسد کے رشتے کا فن کے مستقبل پر کیا اثر ہے، فن کی سیاست میں معقول مباحثے اورجذباتی مجادلے کی دونوںمتوازی روایتوں کا توازن اہل مشرق کے ہاں کیا رہا، عہد سلاطین میں عامۃ الناس اور سلطان کے ذوق میں فاصلے کا اجمال۔۔ اورحان پاموک کا ناول بیسیوں سوالات کا جواب دینے کے باوجود اپنی جگہ ایک عارفانہ پہیلی ہے۔
کتاب کا ترجمہ ہما انور نے کیا ہے اور اچھے ترجمے کے جملہ محاسن اس میں نظر آتے ہیں۔ پیش لفظ اردو کے ممتاز ناول نگار مستنصر حسین تارڑ نے لکھا ہے۔ سرورق دیدہ زیب اور حسب موضوع ہے۔ طباعت معیاری اور کتابت املا کی اغلاط سے تقریبا ًپاک ہے۔ نوبیل یافتہ ناول نگار کی یہ کتاب فکشن اور آرٹ، دونوں فنون کے شیداؤں کے لیے بلاشبہ ایک گرانقدر تحفہ ہے۔
One Response
اورحان پاموک کی کتاب کا زبردست تعارف پیش کیا ہے