سینیٹ انتخابات میں حکمران جماعت نے پنجاب میں تمام نشستیں حاصل کیں تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد نے سندھ میں صفایا کردیا۔ بلوچستان میں بھی حکمران اتحاد نے کامیابی سمیٹی جب کہ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کر لی۔ بظاہران انتخابات میں کسی قسم کی انہونی دیکھنے کو نہیں ملی لیکن اس کے باوجود سینیٹ انتخابات وفاق میں حکمران جماعت کے لیے کوئی اچھا پیغام لے کر نہیں آئے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کو سینیٹ میں پہلےسے زیادہ نشستیں مل گئی ہیں لیکن اس کے باوجود حکمران جماعت اپنا چیئرمین سینیٹ لانے میں ناکام رہی اور بادل نخواستہ رضا ربانی صاحب کی حمایت کا راگ الاپنا پڑا ۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کو سینیٹ میں پہلےسے زیادہ نشستیں مل گئی ہیں لیکن اس کے باوجود حکمران جماعت اپنا چیئرمین سینیٹ لانے میں ناکام رہی اور بادل نخواستہ رضا ربانی صاحب کی حمایت کا راگ الاپنا پڑا ۔
پنجاب میں اگرچہ کسی انہونی کی توقع نہیں تھی اس کے باوجود سب کی نظریں ندیم افضل چن پہ تھیں اور حیران کن طور پر وہ توقع سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ان کے مخالفین کا کہنا تھا کہ وہ 8 سے 10 ووٹ ہی حاصل کر سکیں گے لیکن وہ تقریباً 27 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حکمران جماعت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کے ایم پی ایز نے بھی ندیم افضل چن کو ووٹ دیا ۔ ان کے نام شاید سامنے نہ آئیں لیکن جنوبی پنجاب کی محرومیاں کھل کہ سامنے آ رہی ہیں۔ شاید زرداری صاحب کا مقصد ندیم افضل چن صاحب کو الیکشن جتوانا نہیں تھا بلکہ وہ میاں صاحب کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ جب چاہیں چھید کر کے ان کے لوگوں کو ساتھ ملا لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور میاں صاحب بھی یقیناًاپنے "بڑے بھائی” کی صلاحیتوں کے اب پہلے سے زیادہ معترف ہو جائیں گے۔ زرداری صاحب کی یہی صلاحتیں اگلے عام انتخابات میں نون لیگ کے لیے مزید مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔
سندھ کے لوگوں کو پنجاب سے جتوانا بھی میاں صاحب کے خلاف گیا۔ شیخ رشید صاحب کے بقول ان سینیٹ انتخابات میں میاں صاحب نے ان کے حلقے پر خصوصی توجہ دی لیکن یہ توجہ میاں صاحب کے حق میں اس لیے مفید نہیں کیوں کہ اس سے باقی علاقے نظرانداز ہوئے۔ چن صاحب یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہیں کہ اگر پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں ووٹ ڈالتی تو یقیناًحکمران جماعت کو ایک یا دو نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑ جاتے۔
ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا نہیں لیکن حکمران جماعت کو وہ نتائج نہیں مل سکے جن کی توقع سینیٹ انتخابات سے کی جا رہی تھی اور پنجاب میں حکم ران جماعت کے اختلافات بھی واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بلوچستان میں بھی حکمران جماعت کو توقع کے مطابق نشستیں نہ مل سکیں اور حیران کن طور پر نواز لیگ کے سردار یعقوب ناصر صرف چھ ووٹ حاصل کر پائے اور آزاد امیدوار یوسف بادینی سے شکست کھا گئے۔ جان محمد جمالی پہلے شخص ثابت ہوئے جنہوں نے پارٹی کے برعکس اپنی بیٹی کو ووٹ دیا،کلثوم پروین صاحبہ کی نامزدگی سے حکمران جماعت پہلے ہی اختلافات کا شکار ہو گئی تھی اور اس سلسلے میں خواجہ سعد رفیق کی کوششیں بھی کوئی معجزہ نہ دکھا سکیں۔ نتائج سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نواز لیگ کے ایم پی ایز نے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دیے جس کی وجہ سے بادینی صاحب جیت گئے لہذا بلوچستان میں تین نشستیں حاصل کرنے کے باوجود نواز لیگ کی شکست ہی تصور کی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں چھوٹی جماعتوں نے بھی جس طرح نشستیں حاصل کیں اس سے نوازلیگ کو عبرت حاصل کرنی چاہیے لیکن عبرت صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں ۔
خیبر پختونخواہ میں ہنگامہ خیزی کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہو گئی اور پارٹی کے منحرف رکن صوبائی اسمبلی جاوید نسیم نے ووٹ کاسٹ نہ کر کہ یہ ثابت کیا کہ ہارس ٹریڈنگ نہیں کی گئی۔ اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود پولنگ کا عمل رات آٹھ بجے تک جاری رہا اور نتائج حسب توقع رہے جس سے یہ تاثر عام ہوا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
سندھ کے لوگوں کو پنجاب سے جتوانا بھی میاں صاحب کے خلاف گیا۔ شیخ رشید صاحب کے بقول ان سینیٹ انتخابات میں میاں صاحب نے ان کے حلقے پر خصوصی توجہ دی لیکن یہ توجہ میاں صاحب کے حق میں اس لیے مفید نہیں کیوں کہ اس سے باقی علاقے نظرانداز ہوئے۔ چن صاحب یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہیں کہ اگر پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں ووٹ ڈالتی تو یقیناًحکمران جماعت کو ایک یا دو نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑ جاتے۔
ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا نہیں لیکن حکمران جماعت کو وہ نتائج نہیں مل سکے جن کی توقع سینیٹ انتخابات سے کی جا رہی تھی اور پنجاب میں حکم ران جماعت کے اختلافات بھی واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بلوچستان میں بھی حکمران جماعت کو توقع کے مطابق نشستیں نہ مل سکیں اور حیران کن طور پر نواز لیگ کے سردار یعقوب ناصر صرف چھ ووٹ حاصل کر پائے اور آزاد امیدوار یوسف بادینی سے شکست کھا گئے۔ جان محمد جمالی پہلے شخص ثابت ہوئے جنہوں نے پارٹی کے برعکس اپنی بیٹی کو ووٹ دیا،کلثوم پروین صاحبہ کی نامزدگی سے حکمران جماعت پہلے ہی اختلافات کا شکار ہو گئی تھی اور اس سلسلے میں خواجہ سعد رفیق کی کوششیں بھی کوئی معجزہ نہ دکھا سکیں۔ نتائج سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نواز لیگ کے ایم پی ایز نے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دیے جس کی وجہ سے بادینی صاحب جیت گئے لہذا بلوچستان میں تین نشستیں حاصل کرنے کے باوجود نواز لیگ کی شکست ہی تصور کی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں چھوٹی جماعتوں نے بھی جس طرح نشستیں حاصل کیں اس سے نوازلیگ کو عبرت حاصل کرنی چاہیے لیکن عبرت صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں ۔
خیبر پختونخواہ میں ہنگامہ خیزی کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہو گئی اور پارٹی کے منحرف رکن صوبائی اسمبلی جاوید نسیم نے ووٹ کاسٹ نہ کر کہ یہ ثابت کیا کہ ہارس ٹریڈنگ نہیں کی گئی۔ اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود پولنگ کا عمل رات آٹھ بجے تک جاری رہا اور نتائج حسب توقع رہے جس سے یہ تاثر عام ہوا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا نہیں لیکن حکمران جماعت کو وہ نتائج نہیں مل سکے جن کی توقع سینیٹ انتخابات سے کی جا رہی تھی اور پنجاب میں حکم ران جماعت کے اختلافات بھی واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
فاٹا کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب بھی حکومت سے شکوہ کناں ہیں کہ یہ صدارتی آرڈیننس کس ڈر کے پیش نظر اور کیوں آیا ؟ اپناچیئر مین سینٹ منتخب کرانے کے لیے مزید نشستوں کے حصول کی خواہش بھی اس آرڈیننس کی ایک وجہ تھی اب فاٹا کے ووٹ شاید اتنی اہمیت کے حامل نہیں رہے کیوں کہ رضا ربانی صاحب کے متفقہ انتخاب کی صورت میں زرداری صاحب میاں صاحب کو شکست دے چکے ہیں لہٰذا فاٹا میں الیکشن بھی اب اتنے اہم نہیں رہے۔ مزید برآں فاٹا کے بارے میں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنے کا وقت بھی شاید آن پہنچا ہے، قبائلی علاقوں کے لوگوں خیبر پختونخواہ کا حصہ بننے یا ایک الگ صوبے کا درجہ حاصل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک جمہوری عمل مکمل ہو گیا ہے لیکن حکمران جماعت کا تھنک ٹینک یقیناًابھی تک دریائے حیرت میں ہی غوطہ زن ہو گا کہ زرداری صاحب ایک بار پھر ان پر بازی لے گئے۔
میاں صاحب کے نئے چیئرمین سینیٹ کے لیے رضا ربانی صاحب کی حمایت کے بیان کے بعد یارانِ نکتہ چیں ایک بار پھر سے میاں صاحب کے بڑے بھائی یعنی زرداری صاحب کی صلاحیتوں کے معترف ہو گئے ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ایک طرف زرداری صاحب نے پنجاب میں چن صاحب کو ووٹ ڈلوا کر میاں صاحب کو اپنی اہمیت کا احساس دلا دیا ہے اور دوسری طرف مولانا صاحب اور اے این پی کو ساتھ ملا کر نئے چیئرمین سینیٹ کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ میاں صاحب کے پاس شاید رضا ربانی صاحب کی حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ یا شاید یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ زرداری صاحب نے ایک ایسا کھلاڑی میدان میں بھیجا جس کی وجہ سے میاں صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو گئے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے یہ بات یقیناًباعث فخر ہے کہ جمہوری عمل مکمل ہوا لیکن یارانِ عقل و دانش زیر لب دبی دبی سے مسکراہٹ لیے ہوئے ہیں۔ کہیں اس مسکراہٹ کی وجہ یہ تو نہیں کہ حکمران جماعت ہوتے ہوئے بھی میاں صاحب شکست کا بوجھ کندھوں پہ لادھے ہوئے رضا ربانی صاحب کی حمایت کرنے پہ مجبور ہیں؟
میاں صاحب کے نئے چیئرمین سینیٹ کے لیے رضا ربانی صاحب کی حمایت کے بیان کے بعد یارانِ نکتہ چیں ایک بار پھر سے میاں صاحب کے بڑے بھائی یعنی زرداری صاحب کی صلاحیتوں کے معترف ہو گئے ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ایک طرف زرداری صاحب نے پنجاب میں چن صاحب کو ووٹ ڈلوا کر میاں صاحب کو اپنی اہمیت کا احساس دلا دیا ہے اور دوسری طرف مولانا صاحب اور اے این پی کو ساتھ ملا کر نئے چیئرمین سینیٹ کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ میاں صاحب کے پاس شاید رضا ربانی صاحب کی حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ یا شاید یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ زرداری صاحب نے ایک ایسا کھلاڑی میدان میں بھیجا جس کی وجہ سے میاں صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو گئے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے یہ بات یقیناًباعث فخر ہے کہ جمہوری عمل مکمل ہوا لیکن یارانِ عقل و دانش زیر لب دبی دبی سے مسکراہٹ لیے ہوئے ہیں۔ کہیں اس مسکراہٹ کی وجہ یہ تو نہیں کہ حکمران جماعت ہوتے ہوئے بھی میاں صاحب شکست کا بوجھ کندھوں پہ لادھے ہوئے رضا ربانی صاحب کی حمایت کرنے پہ مجبور ہیں؟
Leave a Reply