اسے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ انہوں نے ایک ایسی اتحادی حکومت کی سربراہی کا راستہ چنا جس کے پاس نہ اختیارات تھے نہ پوری مدت۔ نواب ثناء اللہ زہری جیسا قد آور قبائلی سردار اگر امیدوار ہو تو ڈاکٹر عبدالمالک جیسوں کی کون سنتا ہے۔
2013ء میں بلوچستان میں برائے نام انتخابات ہوئے اور ایک ایسی کمزور حکومت سامنے آئی جس کے پاس اختیارات کم اور مسائل زیادہ تھے۔ اڑھائی سال بلوچستان اسمبلی محاز آرائی کا شکار رہی۔ زیادہ تر وقت رسہ کشی میں گزر گیا۔ حکومت کے اندر بھی اور باہر بھی اقتدار کی کھچڑی پکتی رہی۔ موجودہ بندوبست کبھی ڈانواڈول ہوا تو کبھی مالک صاحب نے اپنی حیثیت منوائی۔ مسلم لیگ نواز کے پاس ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے بہتر انتخاب شاید ہی کوئی اور ہو سکتا تھا۔ لیکن مالک صاحب کی بدقسمتی کہ مسلم لیگ نواز کے پاس اکثریت تھی اور مالک صاحب ایک معاہدے کے تحت وزیراعلیٰ بنے تھے۔ شروع میں مری معاہدے کو صیغہ راز میں رکھا گیا لیکن کسی نہ کسی طرح بند کمروں کی گفتگو باہر آ ہی جاتی ہے، اڑھائی برس تک میڈیا پر مری معاہدے کا راگ الاپا گیا۔ نواب ثناء اللہ زہری کبھی اپنے حواریوں کے پہلو میں بیٹھے نظر آئے تو کبھی غصے کا اظہار کرکے پارٹی کی صوبائی حکومت سے علیحدگی کے منصوبے بناتے رہے۔ اسے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ انہوں نے ایک ایسی اتحادی حکومت کی سربراہی کا راستہ چنا جس کے پاس نہ اختیارات تھے نہ پوری مدت۔ نواب ثناء اللہ زہری جیسا قد آور قبائلی سردار اگر امیدوار ہو تو ڈاکٹر عبدالمالک جیسوں کی کون سنتا ہے۔
جیسے تیسے کرکے ڈاکٹر مالک نے اڑھائی سال گزارے اور پھر میڈیا اور سیاسی حلقوں میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ کسی نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اگلے انتخابات تک وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رکھا جائے گاتو کسی نے پیش گوئی کہ مری معاہدے پر عمل ہو گا۔ یہ قیاس آرائیاں اس وقت دم توڑ گئیں جب میاں نواز شریف نے نواب ثناء اللہ زہری کو اسلام آباد بلا کر ان سے ملاقات کے بعد یہ اعلان کیا کہ نواب ثناء اللہ زہری بقیہ مدت کے لیے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہیں گے۔ اس سے نہ صرف مسلم لیگ نواز کی بلوچ قیادت میں خوشی کی لہڑ دوڑ گئی بلکہ ایک نیا سیاسی تنازعہ سر اٹھانے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔
اگرچہ ہر جگہ میاں نواز شریف کے گن گائے جا رہے ہیں اور بروقت اور ‘درست’ فیصلہ کرنے پر انہیں سراہا جا رہا ہے لیکن یہ سوال کوئی نہیں اٹھا رہا کہ بلوچوں کے حقوق کے فیصلے ہمیشہ وفاق ہی سے کیوں کرائے جاتے ہیں؟ جب بلوچستان کی اپنی اسمبلی موجود ہے تو پھر اختیارات وفاق کے پاس کیوں ہیں؟ اگر یہ اسمبلی بااختیار ہوتی تو اپنے فیصلے خود کرتی لیکن ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی جھولی وفاق کے سامنے پھیلائی گئی اور ہر جماعت نے اپنی بات منوانے کی کوشش کی۔ بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک بلوچستان کے لیے ڈاکٹر مالک ہی بہترین انتخاب تھے لیکن شاید نواب ثناءااللہ زہری بلوچستان کی سیاست میں اتنے بااثر ہیں کہ ان کی ناراضی نوازشریف مول لینا نہیں چاہتے۔ ایک بار پھر بلوچوں کے مفاد پر سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دی ہے۔
گوادر بندرگاہ کب فعال ہوگی، قتصادی راہداری کس چڑیا کا نام ہے، گوادر کی مقامی آبادی کا کیا ہو گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بلوچوں کو اس سب بکھیڑے سے کیا ملے گا ان میں سے کسی معاملے پر بلوچستان اسمبلی کو فیصلہ سازی کا اختیار نہیں دیا گیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ بلوچستان میں آزادازنہ اور شفاف انتخابات نہیں ہوئے بلکہ خوف کے ماحول میں انتخابات کرائے گئے۔ بلوچستان میں ہونے والے انتخابات میں وہ بھی الیکشن جیت گئے جنہوں نے پانچ سو ووٹ حاصل کیے۔ ستم ظریفی یہ کہ ان اصحاب نے اپنی کامیابی کو فخریہ انداز میں عوامی مینڈیٹ قرار دیا۔ بلوچوں کی اکثریت مختلف وجوہ کی بناء پر ا س انتخابی عمل سے دور رہی سو جب کامیاب امیدوار بھی عوامی مینڈیٹ کے حامل نہیں تو پھر بھلا ان پر مشتمل اسمبلی کی کیا وقعت ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان سے متعلق آج تک جتنے فیصلے کیے گئے وہ بلوچستان اسمبلی سے پوچھے بغیر کیے گئے۔ گوادر بندرگاہ اور اس سے وابستہ بڑے منصوبوں کی تعمیر کے تمام فیصلے اسمبلی اور وزیراعلیٰ سے پوچھے بغیر کیے گئے۔ موجودہ اسمبلی وفاق کے “احسانات” اور مری معاہدے تلے دبی اپنی وزارتوں کا راگ الاپتی رہی اور فیصلے اوپر ہی اوپر ہوتے رہے۔ گوادر بندرگاہ کب فعال ہوگی، قتصادی راہداری کس چڑیا کا نام ہے، گوادر کی مقامی آبادی کا کیا ہو گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بلوچوں کو اس سب بکھیڑے سے کیا ملے گا ان میں سے کسی معاملے پر بلوچستان اسمبلی کو فیصلہ سازی کا اختیار نہیں دیا گیا۔ اہم امور پر "منتخب” نمائندوں کے ذریعے عوامی تائید حاصل نہ کرنا اور بلوچوں کو اعتماد میں نہ لینا اس بات کی واضح دلیل تھی کہ موجودہ صوبائی اسمبلی ایک ربر اسٹیمپ کے سوا کچھ نہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلوچوں کی زندگی کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہاں کے باسیوں کی رائے کا بھی احترام کیا جاتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر بلوچستان کی تقدیر کا فیصلہ اسلام آباد کی بجائے یہاں کے مقتدر حلقے اور نمائندے خود کرتے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلوچستان کے معدنی وسائل کے اصل وارثوں سے پوچھ کر وسائل کی تقسیم کی جاتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر بلوچستان کا احساسِ محرومی دور کرنے کی کوشش کی جاتی اور یہاں کا بسنے والا ہر گھرانہ خوشحال ہوتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود اپنی سرزمین اور وسائل پر بلوچوں کا حق تسلیم نہیں کیا گیا۔ جب بھی بلوچستان کا معاملہ زیر بحث آتا ہے بلوچوں کے احساس محرومی کا ذکر کیا جاتا ہے، مقتدر حلقوں کی جانب سے سابقہ غلطیوں پر شرمندگی کا اظہار کیا جاتا ہے، وعدے وعیدیں ہوتی ہیں لیکن یہاں کی تقدیر کبھی نہیں بدلتی۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک غیر سردار سیاستدان اقتدار میں آیا تھا لیکن جو امیدیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے وابستہ کی گئی تھیں بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب اور ان کی حکومت ان پر پورے نہیں اترے۔ انتخابات سے پہلے ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کی جماعت کو اقتدار نصیب ہوگا اس لیے بھی وہ پورے اعتماد کے ساتھ حکومت نہیں کر سکے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ اس منصب کے لیے منتخب نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ کسی اور کی خواہش پر یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں اور جب بھی ‘وہ’ چاہیں وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔
ان اڑھائی سالوں کے دوران بلوچستان اسمبلی میں جاری رہنے والے جوڑ توڑ سے یہ بات عیاں تھی کہ یہاں کی اسمبلی کے پاس بلوچستان کی تقدیر بدلنے کا کوئی چھو منتر موجود نہیں، فیصلے کہیں اور ہوتےرہے اور یہ اسمبلی محض ان کی "توثیق” کرتی رہی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف صاحب کے حالیہ فیصلے نے نہ صرف سیاسی ناقدین کو حیران کیا بلکہ صحافی حلقوں میں جاری قیاس آرائیاں بھی مری معاہدے پر عملدرآمد کے اعلان کے ساتھ دم توڑ گئیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ اس منصب کے لیے منتخب نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ کسی اور کی خواہش پر یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں اور جب بھی ‘وہ’ چاہیں وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔
اسے بلوچستان والوں کی بدقسمتی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کا متوسط طبقہ یہاں کے عوام کی ترجمانی نہیں کر سکا اور اسمبلی میں موجود نمائندوں کا واحد مقصد وزارت عظمیٰ کا حصول رہا۔ بلوچستان کے عوام کی خواہشات کیا ہیں، وہ کیا چاہتے ہیں اس جانب توجہ دینے کی کسی کو فرصت ہی نہیں ملی جیسے یہ ان کے حصے کا کام ہی نہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے بیشتر اراکین عوامی ووٹوں سے منتخب ہی نہیں ہوئے تو پھر بھلا وہ عوام کی ترجمانی کیا کرتے۔ عوام جھوٹے خداؤں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، اختیار کسی کے پاس ہے، فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ ہم سب بس ایک ہی فریاد کر سکتے ہیں رحم کیجیئے عالیجاہ، رحم۔
Dr.malik saab to bahot achay insan thay par uno nay jo team chuni wo ghalat decision tha.jaisay kay addissional sectary younas sarparah .principal sectary naseem lehri aur kch log jo unkay apnay thay.kch unki majbooratan ghalat logo ko support karna jaisa k pashtoon khaw.aur jo black mailers uni k party may say aur kch intaqami karwaian .kaan k kachay koi kch bi keh dayta wo baghair tasdeeq kay yaqeen kar laytay .main nay unko kareeb say deka hay.