ٹن ٹن ٹن ۔۔۔گھنٹی کی آواز پورے محل میں گونجی تو رحم دل بادشاہ ہڑ بڑا کر اُٹھا اور برہنہ پا اپنی خوا بگاہ سے باہر نکل کر دروازے پر کھڑے دربان سے تشویش بھری آواز میں پوچھا "یہ کس نے زنجیر عدل ہلائی ہے ؟ ضرور کوئی مجبور فریادی ہوگا, جاؤ دیکھو کیا فریاد لایا ہے اور فوراً اس کی دادرسی کرو۔”
درباری:” حضور کا اقبال بلند ہو آپ نے بجا فرمایا فریادی ہی ہے۔”
” کیا چاہتا ہے؟”
” حضور کچھ نہیں بس زار قطار رو رہا ہے اور ایک ہی راگ الاپ رہا ہے کہ مجھے حضور سے ملنا ہے وہی میری فریاد سنیں گے”۔
یہ سن کر رحم دل بادشاہ تڑپ اٹھا اور دربارن سے کہا "فورا جاؤ اور اس فریادی کو ہمارے روبرو پیش کیا جائے”۔
"کہو فریادی ایسی کونسی اُفتاد پڑی تھی کہ تمہیں رات کے اس پہر یہاں آنا پڑا”۔ فریادی روتے ہوئے بڑے درد بھرے انداز میں تڑپ کر بولا” حضور میں اُجڑ گیا ہوں، برباد ہو گیا، میرا کچھ نہیں بچا میری مدد کریں، للہ میری مدد کریں۔ میرے ،میرے بچے، میرے بچے مر جائیں گے”۔ بادشاہ تڑپ کر بولا "کیا ہوا انہیں؟ ہمیں شروع سے لیکر آخر تک ساری داستان سناو” ۔
درباری:” حضور کا اقبال بلند ہو آپ نے بجا فرمایا فریادی ہی ہے۔”
” کیا چاہتا ہے؟”
” حضور کچھ نہیں بس زار قطار رو رہا ہے اور ایک ہی راگ الاپ رہا ہے کہ مجھے حضور سے ملنا ہے وہی میری فریاد سنیں گے”۔
یہ سن کر رحم دل بادشاہ تڑپ اٹھا اور دربارن سے کہا "فورا جاؤ اور اس فریادی کو ہمارے روبرو پیش کیا جائے”۔
"کہو فریادی ایسی کونسی اُفتاد پڑی تھی کہ تمہیں رات کے اس پہر یہاں آنا پڑا”۔ فریادی روتے ہوئے بڑے درد بھرے انداز میں تڑپ کر بولا” حضور میں اُجڑ گیا ہوں، برباد ہو گیا، میرا کچھ نہیں بچا میری مدد کریں، للہ میری مدد کریں۔ میرے ،میرے بچے، میرے بچے مر جائیں گے”۔ بادشاہ تڑپ کر بولا "کیا ہوا انہیں؟ ہمیں شروع سے لیکر آخر تک ساری داستان سناو” ۔
ہم اپنے علاقے سے دور ایک خیمہ گاہ میں ہیں،ہمارا گھر تباہ ہو چکا ہےاور میرے بچے خوف سے بیمار پڑ گئے ہیں، ان کے پیٹ میں کئی دنوں سے ایک دانہ تک نہیں گیا وہ بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور موت ان کے سروں پر پرمنڈلا رہی ہے۔ ان کی ماں کی امید بھری نگاہیں جب میری طرف اُٹھتی ہیں تو میری روح تک کو چھلنی کر کے رکھ دیتی ہیں۔
فریادی نے روتے ہوئے اپنی درد بھری داستان سنانا شروع کی۔ "حضور میرے چھےچھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن میں سے دو بچیاں سکول جاتی تھیں ، میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ شمال کی کوہستانی ولائیت میں رہتا تھا۔ میرا چھوٹا سا کاروبار تھا جس سے میں اپنی بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ زندگی سکھ دکھ میں گزر رہی تھی پھر یوں ہوا کہ ہمارے علاقے میں کچھ شر پسند جنگجو پہاڑوں کے پار سے آنا شروع ہوگئے اور دیکھتے دیکھتے وہ پورے علاقے میں پھیل گئے انہوں نے اپنی طاقت کے زور پر لوگوان کو خوفزدہ کرنا شرو ع کردیا۔ انہوں نے بچیوں کے سکولوں کو جلادیا جس سے علاقہ کےاور میرے بچے پڑھنے لکھنے سے محروم ہو گئے۔ مجھے اپنی قلیل آمدن سے ان کا حصہ بھی نکا لنا پڑتا جس کی باعث میری مالی حالت اور بھی دگر گوں ہو گئی۔ میں اپنا پیٹ کاٹ کر اپنا گھر بار چلا رہا تھا کہ کچھ دن پہلےان شرپسندوں کی بیخ کنی کے لئے لشکر کشی شروع ہو گئی۔ چاروں طرف توپیں اور بندوقیں سر ہو رہی تھیں، ہم خوف زدہ اپنے گھروں میں بند تھے۔ پھردربار کی سپاہ نے ہمیں علاقہ خالی کرنے کا حکم دیا، ہمیں جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور ہم سب ڈرے ہوئے تھے چارو ناچار ہمیں اپنا سب مال و متاع اپنا گھر، اپنا سب کچھ چھوڑ کر حکم کی تعمیل میں نکل پڑے۔ اب ہم اپنے علاقے سے دور ایک خیمہ گاہ میں ہیں،ہمارا گھر تباہ ہو چکا ہےاور میرے بچے خوف سے بیمار پڑ گئے ہیں، ان کے پیٹ میں کئی دنوں سے ایک دانہ تک نہیں گیا وہ بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور موت ان کے سروں پر پرمنڈلا رہی ہے۔ ان کی ماں کی امید بھری نگاہیں جب میری طرف اُٹھتی ہیں تو میری روح تک کو چھلنی کر کے رکھ دیتی ہیں۔ مگر میں کیا کر سکتا ہوں ایک مجبور باپ جسکا گھر، کاروبا ہرچیزتباہ ہو گئی ہو، جو خود شکستہ حال اور فاقہ زدہ ہو وہ کیا کر سکتا ہے۔ اس مجبور باپ کے پاس بیمار بچوں کی دوائیں تو کجا ان کے سکڑتے معدوں میں ایک نوالہ ڈالنے کو کچھ نہیں بچا۔ میں در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہوں۔ میرے بس میں ہوتا تو میں بھیک مانگ کر بھی اپنے بچوں کو ایک وقت کا کھانا لا دیتا۔ پر میں مانگوں کس سے؟ میرے ارد گرد تو سب تباہ حال اور اجڑے ہوئے میری طرح کے لوگ ہیں۔ وہ بھلا میری کیا مدد کر سکتے ہیں”۔
"ظلِ الٰہی ،آپ کی سخاوت، غریب پروری، دریا دلی اور ہمدردی کا شہرہ چار سو ہے۔ سنا ہے آپ کے در سے کوئی سوالی مایوس نہیں لوٹتا بس یہی فریاد لے کر آپ کے پاس آیا ہوں کہ میرے بچوں کو بچا لیجئے انہیں دواؤں اور خوراک کی ضرورت ہے۔ للہ میری مدد کریں، میری مدد کریں”
"ہوں!!! فریادی تمہاری داستان بہت درد ناک ہے اس نے ہمارے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہم تمہاری مدد کریں گے اورضرور کریں گے۔ آخر کو ہمیں یہ حکومت، شان و شوکت عوام ہی کی بدولت ملی ہے۔ تم لوگوں کی خدمت ہی ہمارا فرض اور نصب العین ہے۔ اس نیکی کے کام میں ہم بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ ہمیں تمہاے مسائل کا ادراک اور مصیبتوں کا احساس ہے اور اس مصیبت کی گھڑی میں مابدولت تمہارے ساتھ کھڑے ہیں”۔
فریادی نے خوش ہو کر بادشاہ کی شان میں قصیدے پڑھنے شروع کر دئیے” حضور کا اقبال بلند ہو، حضور کی کرسی سلامت رہے حضور ہزاروں سال کی عمر پائیں، حضور کی دریا دلی، نیک نامی اور بلند بختی تا قیامت قائم و دائم رہے”۔
حضور نے بڑی شان بے نیازی سے دربان کو سر کا اشارہ کیا اور کہا ” دربان، فریادی کو شاہی خزانے سے ایک لیپ ٹاپ دے دیا جائے”
"ظلِ الٰہی ،آپ کی سخاوت، غریب پروری، دریا دلی اور ہمدردی کا شہرہ چار سو ہے۔ سنا ہے آپ کے در سے کوئی سوالی مایوس نہیں لوٹتا بس یہی فریاد لے کر آپ کے پاس آیا ہوں کہ میرے بچوں کو بچا لیجئے انہیں دواؤں اور خوراک کی ضرورت ہے۔ للہ میری مدد کریں، میری مدد کریں”
"ہوں!!! فریادی تمہاری داستان بہت درد ناک ہے اس نے ہمارے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہم تمہاری مدد کریں گے اورضرور کریں گے۔ آخر کو ہمیں یہ حکومت، شان و شوکت عوام ہی کی بدولت ملی ہے۔ تم لوگوں کی خدمت ہی ہمارا فرض اور نصب العین ہے۔ اس نیکی کے کام میں ہم بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ ہمیں تمہاے مسائل کا ادراک اور مصیبتوں کا احساس ہے اور اس مصیبت کی گھڑی میں مابدولت تمہارے ساتھ کھڑے ہیں”۔
فریادی نے خوش ہو کر بادشاہ کی شان میں قصیدے پڑھنے شروع کر دئیے” حضور کا اقبال بلند ہو، حضور کی کرسی سلامت رہے حضور ہزاروں سال کی عمر پائیں، حضور کی دریا دلی، نیک نامی اور بلند بختی تا قیامت قائم و دائم رہے”۔
حضور نے بڑی شان بے نیازی سے دربان کو سر کا اشارہ کیا اور کہا ” دربان، فریادی کو شاہی خزانے سے ایک لیپ ٹاپ دے دیا جائے”
Leave a Reply