Laaltain

راولپنڈی اسلام آباد میٹروبس منصوبہ

1 مئی, 2014
Picture of نصیر جسکانی

نصیر جسکانی

کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے راست اقدام کرنا اور شہریوں کے لیے ترقی و خوشحالی کے مساوی مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اگرہم کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ کرنا چاہیں تو معلوم کرنا ہوتا ہے کہ وہ ملک اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کو فراہم کرنے کے لئے کس حد تک متوجہ ہے اور اس کے بعد دیگر سہولیات کی فراہمی پر توجہ دی جاتی ہے۔ نقل و حمل کی سہولیات کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے اور ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں کلیدی کردار ہوتا ہے ۔ لاہور میں پنجاب حکومت نے شہریوں کی بہتر سفری سہولت کے لیے میٹروبس کا آغاز کیا۔ گو کہ اس منصوبے پر تنقید بھی بہت ہوئی اور اس منصوبے کی تعریف کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ پنجاب خصوصاً لاہور کو مسلم لیگ کا قلعہ جانا جاتا ہے اور نون لیگ کی حکومت کی یہ اولین ترجیح تھی کہ کوئی ایسا منصوبہ شروع کیا جائے جس کو الیکشن میں اپنی عظیم خدمت کے حوالے سے پیش کیا جا سکے ۔ میٹروبس کا منصوبہ جو ترکی کے تعاون سے شروع کیا گیا تھا ، حکومت نے 10ماہ میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ پنجاب حکومت نے پنجاب کے دیگر اضلاع میں میٹرو بس چلانے کا اعلان کیا اور اس حوالے سے اسلام آباد راولپنڈی میٹروبس منصوبے کو شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ۔

راولپنڈی، اسلام آباد میڑو بس منصوبے میں مری روڈ اور اسلام آباد میں بننے والے 24 اسٹیشنوں کا مجوزہ ماڈل

راولپنڈی، اسلام آباد میڑو بس منصوبے میں مری روڈ اور اسلام آباد میں بننے والے 24 اسٹیشنوں کا مجوزہ ماڈل

 

خبر رساں ادارے اے این این کی رپورٹ کے مطابق قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے راولپنڈی اسلام آباد میٹروبس پراجیکٹ کو

16 مارچ 2014 کو منظوری کیا ۔ یہ منصوبہ راولپنڈی میں فلش مین ہوٹل صدر سے شروع ہوگا اور پاک سیکرٹریٹ اسلام آباد پر ختم ہوگا ، اسلام آباد کے حصے کی لمبائی 13 کلومیٹر ہوگی ۔ منصوبے پر کل 23 ارب 83 کروڑ 90 لاکھ روپے لاگت آئے گی ۔ اس منصوبے کی فنڈنگ وفاقی اور پنجاب حکومت مل کر کررہی ہیں جس میں وفاقی حکومت 13 ارب 41 کروڑ 90 لاکھ روپے جبکہ پنجاب حکومت 10 ارب 41 کروڑ 90 لاکھ روپے دے گی ۔ میٹروبس اسلام آبادمیں پشاور موڑ سے گزرے گی جہاں انٹرچینج تعمیر کیاجائےگا جس سے دیگر گاڑیوں کو بھی بہت سہولت ہوگی اور وقت بچے گا ۔
میٹروبس فلش مین ہوٹل سے فیض آباد آئے گی جس کےلئے ایلیو یٹڈ ایکسپریس وے تعمیر کی جائے گی اس کے بعد یہ بس آئی جے پرنسپل روڈ کے ذریعے نائنتھ ایونیو پر جائے گی اور براستہ جناح ایونیو پاک سیکرٹریٹ تک پہنچے گی ۔ اسلام آباد میں 14 بس سٹیشن تعمیر کئے جائیں گے جبکہ پشاور موڑ انٹرچینج سی ڈی اے کے ڈیزائن کے مطابق تعمیر کیاجائےگا ۔ یہ منصوبہ سگنل فری ہوگا اور میٹروسڑک کی چوڑائی ۔9.60 میٹر سے 10.10 میٹر تک ہوگی جبکہ بس سٹیشنوں کی چوڑائی 19 سے 21 میٹر تک ہوگی
حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں پر رقم خرچ کیا جانا خوش آئند ہے تاہم اس سلسلے میں پسماندہ
طبقات اور علاقوں کو بنیادی سہالیات کی فراہمی کے منصوبوں کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ پینے کے صاف پانی ، صحت اور تعلیم کی فراہمی کے منصوبوں پر زیادہ سے زیادہ رقم صرف کرنے سے نہ صرف عام شہری کے مسائل میں خاطر خواہ کمی ہو گی بلکہ ترقی کے یکساں موقع فراہم کرنے کے باعث پسماندہ علاقوں کی سیاسی تنہائی بھی دور ہو گی۔وفاق اور پنجاب حکومت پر پہلے ہی یہ اعتراض ہےکہ پاکستان اور پنجاب کا بجٹ لاہور اور بڑے شہروں پر خرچ کیا جاتا ہے اور پسماندہ اضلاع خصوصا” جنوبی پنجاب کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے، ایسے میں اربوں روپے سے پنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس کی تعمیر سے جنوبی پنجاب اور چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی میں اضافہ کسی طرح پاکستان کی سالمیت کے لئے مناسب نہیں۔
وفاق اور پنجاب حکومت پر پہلے ہی یہ اعتراض ہےکہ پاکستان اور پنجاب کا بجٹ لاہور اور بڑے شہروں پر خرچ کیا جاتا ہے اور پسماندہ اضلاع خصوصا” جنوبی پنجاب کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے، ایسے میں اربوں روپے سے پنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس کی تعمیر سے جنوبی پنجاب اور چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی میں اضافہ کسی طرح پاکستان کی سالمیت کے لئے مناسب نہیں۔
میٹروبس منصوبے کی جاری سرگرمیوں کی وجہ سے روالپنڈی کے مصروف اور مشہور مری روڈ کی رونقین مدہم پڑ چکی ہیں ۔ روڈ کو دھول ، مٹی اور کیچڑ نے مکمل طور پر ڈھانپ رکھا ہے اور شہری شدید مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شدید ٹریفک جام بھی معمول بنتا جا رہا ہے۔ میٹروبس کے منصوبے سےجہاں شہریوں کا ایک طبقہ خوش ہے تو وہاں تاجر برادری اور چھوٹے کاروبار سے وابستہ افراد خاصے پریشان نظر آتے ہیں کہ اس منصوبے سے ان کے کاروبار شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے دوران ہونے والی سڑکوں اور عمارتوں کی توڑ پھوڑ اور اکھاڑ پچھاڑ کی بحالی پر خصوصی توجہ دی جائے اور اس سے پیدا شدہ مسائل کو بھی جلد حل کیا جائے تاکہ ایسے منصوبے زحمت کی بجائے رحمت کا تاثر دیں۔ ایک اچھی حکومت کا فرض بھی یہی ہے کہ وہ عوام کو آمدورفت کی زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرے۔ دوسری طرف حکومت کا یہ دعوی ہے کہ حکومت کا مقصد ان منصوبوں کی بدولت پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنا ہے اور ملک کو جدید و مستحکم بنیادوں پر استوار کرنا ہے ۔ حالانکہ موجوہ حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ وطن عزیز کو بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے جن میں سر فہرست دہشتگردی، مہنگائی، کمزور اقتصادیات، انرجی کے مسائل، آبادی کا بڑھتا ہوا سیلاب ، غربت ، بے روز گاری ، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی کمی وغیرہ۔ گو کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں سڑکوں، سفری سہولیات اور ٹرانسپورٹ کی حالت بھی کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں ہے اور اس تناظر میں اچھی کشادہ سٹرکوں اور بہتر ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان مسائل سے زیادہ اور گھمبیر مسائل موجود ہیں جن کو حل کرنے کیلئے فوری اور راست اقدام کی ضرورت ہے تاہم لگتا یہ ہے کہ حکومت کی ترجیحات کی سمت کسی اور طرف ہے ۔ حکومت فوری اور ضروری مسائل سے پہلو تہی کر کے ثانوی درجے کے مسائل کو حل کرنے میں کوشاں ہیں ۔ حکومت کے ان اقدامات کی بدولت پاکستان صحیح معنوں میں ترقی و خوشحالی کے راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا جب تک حکومت اپنی ترجیحات کو عوامی امنگوں سے ہم آہنگ نہیں کرتی اور ملک کے اصل اور حقیقی مسائل پر توجہ نہیں دیتی۔

ہمارے لیے لکھیں۔