Laaltain

راجا ہریش چندر

10 مئی، 2016
Picture of لالٹین

لالٹین

[blockquote style=”3″]

پران ہندوستانی دیو مالا اور اساطیر کے قدیم ترین مجموعے ہیں۔ ہندوستانی ذہن و مزاج کی، آریائی اور دراوڑی عقائد اور نظریات کے ادغام کی، اور قدیم ترین قبل تاریخ زمانے کی جیسی ترجمانی پرانوں کے ذریعے ہوتی ہے، کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ یہ الہامی کتابوں سے بھی زیادہ مقبول اور ہر دل عزیز ہیں۔ مشہور رزمیہ نظموں رامائن اور مہابھارت کو بھی لوک کتھاؤں کے مآخذ کے اعتبار سے اسی زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان میں اس برصغیر میں نسل انسانی کے ارتقا کی داستان اور اس کے اجتماعی لاشعور کے اولین نقوش کچھ اس طرح محفوظ ہوگئے ہیں کہ ان کو جانے اور سمجھے بغیر ہندوستان کی روح کی گہرائیوں تک پہنچنا مشکل ہے۔
تاریخی اعتبار سے پران ہندو مذہب کے ارتقا کی اس منزل کی ترجمانی کرتے ہیں، جب بدھ مت سے مقابلے کے لیے ہندو مذہب تجدید اور احیا کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس سے پہلے ویدوں کی رسوم پرستی اور برہمنیت کے خلاف ردعمل کے طور پر بدھ مت اپنی سادگی، معاشرتی عدل اور عملی روح کی وجہ سے قبول عام حاصل کرچکا تھا۔ لیکن بدھ مت میں خدا کا تصور نہیں تھا۔ اپنشدوں کا برہمہ (مصدر ہستی)کا تصور بھی انتہائی تجریدی اور فلسفیانہ ہونے کی وجہ سے عوام کی دسترس سے باہر تھا۔ ہندو مذہب نے اس کمی کو اوتاروں کے آسانی سے دل نشین ہونے والے عقیدے سے پورا کیا اور رام اور کرشن جیسے مثالی کرداروں کو پیش کرکے عوام کے دلوں کو کھینچنا شروع کردیا۔ یہ انہیں کی شخصیت کا فیض تھا کہ ہندو مذہب کو پھرسے فروغ حاصل ہوا۔ پران اسی دور تجدید کی یادگار ہیں، اور انہیں نے ایک بار پھر مذہب کو عوام کے دل کی دھڑکنوں کا رازدار بنایا۔
پرانوں کی کہانیوں میں برہما، وشنو، شو، پاروتی، اُما، درگا، لکشمی کے علاوہ دیوی دیوتاؤں اور رشیوں منیوں کے سینکڑوں کردار ایسے ہیں جو بار بار رونما ہوتے ہیں، ورُن، اگنی، اِندر، مارکنڈے، نارد، دُرواسا، سرسوتی، اوشا، ستیہ، ویاس، مارتنڈ، منو، مینکا، اُروشی، کَپِلا، راہو، کیتو،کام، کالندی، دکش، کادمبری، ہوتری، ماروتی، اشونی وغیرہ۔ ان میں سے کچھ تو انسانی کردار ہیں جو ایک بار سامنے آکر ختم ہوجاتے ہیں لیکن کچھ آسمانی کردار ہیں جو وقت کے محور پر ہمیشہ زندہ ہیں، اور جو کسی بھی یُگ یا کلپ میں رونما ہوسکتے ہیں۔ آسمانی اور زمینی کرداروں کے اس باہمی عمل سے ان کہانیوں کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔ ان کرداروں کی تاریخی حیثیت سے سروکار نہیں۔ اصل چیز ان کی معنویت ہے۔ ان کی تکرار سے ان سے منسوب صفات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔ ہر کردار رمز ہے، علامت ہے، کسی تصور یا کسی قدر کی، جس کے ذریعے ذہن انسانی اپنے عالم طفولیت میں بدی اور نیکی کی طاقتوں کی حشر خیز کشمکش کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
(گوپی چند نارنگ)

[/blockquote]

مزید ہندوستانی کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

پرانے زمانے کی بات ہے اجودھیا میں راجا ہریش چندر راج کرتے تھے۔ وہ سچ بولنے، خیرات دینے اور اپنی رعایا کا خیال رکھنے میں مشہور تھے۔ ان کے راج میں کوئی بھوکا ننگا نہیں تھا اور تمام رعایا سُکھ چین سے رہتی تھی۔ ایک دن دیوتاوں کی محفل میں بڑے بڑے رشی منی جمع تھے۔ اِندر نے پوچھا، آج کل سب سے نیک نام راجا کون ہے؟

 

ایک دن دیوتاوں کی محفل میں بڑے بڑے رشی منی جمع تھے۔ اِندر نے پوچھا، آج کل سب سے نیک نام راجا کون ہے؟
وِششٹھ جی نے کہا، ‘اس وقت روئے زمین پر ہریش چندر جیسا دان کرنے اور سچ بولنے والا راجا نہیں۔ وِششٹھ جی کی تائید نارد منی اور کئی دوسرے منیوں نے بھی کی مگر وشوا متر خاموش بیٹھے رہے۔ ان میں اور وِششٹھ میں کچھ لگتی تھی۔ کہنے لگے،’میں ہریش چندر کو خوب جانتا ہوں، وہ نہ تو دان ہی دے سکتا ہے، نہ سچائی کی کسوٹی ہی پر پورا اتر سکتا ہے۔ یقین نہ ہو تو امتحان لے کر دیکھ لو۔’

 

چنانچہ وشوا متر نے راجا ہریش چندر کو نیچا دکھانے کی ایک ترکیب سوچی۔ ایک دن شکار کھیلتے کھیلتے ہریش چندر ایک گھنے جنگل میں اکیلے جا نکلے۔ وشوا متر نے برہمن کا بھیس بدلا اور وہاں پہنچ گئے۔ کہنے لگے “مہاراج یہاں پاس ہی بڑا پوتر تیرتھ ہے، اشنان کر کے دان پُن کیجیے۔ میں آپ کو ایودھیا کا راستہ بھی بتا دوں گا۔”

 

اشنان سے فارغ ہونے کے بعد ہریش چندر نے پوچھا، “برہمن دیوتا جس چیز کی ضرورت ہو مانگ لیجیے۔”

 

برہمن نے کہا “میرے بیٹے کی شادی ہے۔ کچھ روپیہ مل جائے تو بڑی عنایت ہو۔”

 

برہمن نے ہریش چندر کو اپنے بیٹے اور بہو سے بھی ملایا، اور راجا کی موجودگی میں شادی کی رسم ادا کر دی۔ ہریش چندر دیدی میں بیٹھے تھے جب دان کا وقت آیا تو انہوں نے کہا “آپ جو چاہیں مانگ لیں۔”

 

اس پر برہمن نے کہا “مہاراج اگر آپ میرے بیٹے کو اپنا پورا راج دان کر دیں تو ہم آپ کا احسان کبھی نہیں بھول سکیں گے”۔

 

ہریش چندر نے بغیر تامل کے اس کا اقرار کر لیا۔ تب برہمن نے کہا، “مہاراج! آپ جیسا سخی راجا اس روئے زمین پر دوسرا نہیں۔ منہ مانگا دان تو آپ نے دے دیا، اب اس کی دکھشنا بھی تو دیجیے۔ جتنا بڑا دان آپ نے دیا ہے، دکھشنا بھی اتنی ہی بڑی ہونی چاہیے۔ دکھشنا کے بغیر تو دان بے کار ہے”۔

 

راجا نے پوچھا “مہربانی کر کے بتائیے، کتنی دکھشنا دینی ہو گی”۔

 

وشوا متر نے کہا “ڈھائی من سونا کافی ہے”۔ راجا نے سر جھکا کر وعدہ کر لیا۔

 

یہ سب راج پاٹ آپ کو سونپ رہا ہوں۔ میں آج ہی کہیں اور چلا جاوں گا۔ یہ راج چھوڑنے کے بعد میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ حیران ہوں کہ آپ کو ڈھائی من سونا کہاں سے دوں۔
اتنے میں راجا کے سپاہی انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے جنگل آ نکلے۔ برہمن غائب ہو گیا۔ اب راجا کو دھیان آیا کہ میں نے تو سارا راج پاٹ دان دے دیا۔ ضرور اس برہمن کے سوال کے پیچھے کوئی گہری بات ہے۔ محل پہنچنے پر راجا کو پریشان دیکھ کر رانی شِویا نے وجہ پوچھی۔ راجا نے ساری بات بتا دی۔ سوچتے سوچتے اور کروٹیں بدلتے بدلتے ساری رات گزر گئی۔ صبح پوجا پاٹھ کر کے اٹھے ہی تھے کہ وشوا متر اسی برہمن کے بھیس میں پھر آ پہنچا۔

 

راجا نے کہا “یہ سب راج پاٹ آپ کو سونپ رہا ہوں۔ میں آج ہی کہیں اور چلا جاوں گا۔ یہ راج چھوڑنے کے بعد میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ حیران ہوں کہ آپ کو ڈھائی من سونا کہاں سے دوں۔ تھوڑی سی مہلت دیجیے۔ جیسے ہی انتظام ہو جائے گا میں دکھشنا بھی دے دوں گا”۔ یہ کہہ کر ہریش چندر رانی شِویا اور بیٹے روہتاس کے ساتھ محل سے باہر آئے۔ لوگوں کو راجا کے جانے کا بہت دکھ ہوا لیکن وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ اب ہریش چندر گاوں گاوں شہر شہر بھٹکنے لگے۔ جب برہمن کا اصرار بڑھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بنارس جا کر خود کو بیچ دیں گے؛ اور اس طرح جو کچھ بھی ملے گا، برہمن کی دکھشنا دیں گے۔ اس پر رانی نے روتے ہوئے کہا:

 

“میں آپ کو اپنا آپ کبھی نہ بیچنے دوں گی۔ میں ہزار بار قربان ہونے کو تیار ہوں۔ کیوں نہ آپ مجھے کسی امیر کے ہاتھ بیچ دیں، گھر کے کام کاج کے لیے داسی کی ضرورت سبھی کو ہوتی ہے”۔

 

رانی کی بات سن کر ہریش چندر غش کھا کر گر پڑے۔ جب ہوش میں آئے تو زار زار رونے لگے اور کہنے لگے: “رانی میرے جیتے جی ایسا نہ ہو گا”۔

 

کل کے راجا اور رانی اب بھکاریوں کی طرح مارے مارے پھرنے لگے۔ ان کا بیٹا روہتاس بھی کئی دنوں کا بھوکا پیاسا تھا۔ اس بے چارے کو کیا پتا کہ اس کے والدین پر کیا مصیبت ٹوٹی ہے۔ اگلے دن وشوا متر پھر آ نکلے۔ کافی دیر بحث و تکرار ہوتی رہی۔ آخر رانی کے کہنے پر راجا ہریش چندر نے کہا: “اچھا تو ایسا ہی سہی۔ اپنے وعدے کو نبھانے کے لیے وہ کام بھی کروں گا جو ذلیل سے ذلیل آدمی بھی نہیں کر سکتا”۔

 

چناچہ وہ بنارس کے سب سے بارونق چوراہے پر جا کھڑے ہوئے اور رُندھے ہوئے گلے سے اونچی آواز میں کہنے لگے: “لوگو! میں اپنی جان سے بھی پیاری بیوی کو بیچ رہا ہوں۔ گھر کے کام کے لیے جس کو داسی کی ضرورت ہو، جلدی سے اس کے دام لگائے۔ اس مصیبت میں میری جان نکلنے سے پہلے سودا طے کر لو”۔

 

آپ اس بچے کو بھی خرید لیجیے، نہیں تو میرا خریدنا بھی بے کار ہے۔ میں اس کی ماں ہوں، اس کے بغیر نہیں جی سکتی۔
وشوا متر اب ایک بوڑھے شخص کے بھیس میں نمودار ہوئے اور رانی کو چند سونے کی مہروں کے بدلے خرید لیا۔ جب بوڑھا رانی کو گھسیٹ کر لے جانے لگا تو رانی نے کہا “مجھے ایک بار اپنے پیارے بیٹے کو گلے سے لگا لینے دو۔ کون جانے پھر اسے دیکھ بھی سکوں گی یا نہیں”۔

 

بیٹا ماں سے لپٹ گیا۔ جب بوڑھے نے دیکھا کہ بیٹا ماں کو چھوڑتا ہی نہیں، تو اس نے معصوم بچے کے منہ پر طمانچہ جڑ دیا اور کھینچ کر ماں سے الگ کر دیا۔ ماں کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ رانی نے بوڑھے سے کہا “آپ اس بچے کو بھی خرید لیجیے، نہیں تو میرا خریدنا بھی بے کار ہے۔ میں اس کی ماں ہوں، اس کے بغیر نہیں جی سکتی۔ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ یہ میری آنکھوں کے سامنے رہے گا تو میں آپ کی سیوا اچھی طرح کر سکوں گی”۔

 

بوڑھے نے بچے کو بھی خرید لیا۔ رانی نے ہریش چندر کو پرنام کیا اور آنسو بہاتی ہوئی بولی “اے بھگوان، اگر میں نے کبھی غریبوں اور محتاجوں کی کچھ بھی مدد کی ہو، اگر میں نے دنیا میں کوئی بھی نیک کام کیا ہو یا اگر میں نے برہمنوں کی کچھ بھی خدمت کی ہو تو میرا پتی مجھے واپس مل جائے”۔

 

ہریش چندر اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ان کے ہاتھ پاوں جواب دے گئے۔ درخت کی چھاوں اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جاتی، پھر رانی انہیں چھوڑ کر کیسے چلی گئی۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، یا انہیں کن برے کرموں کا پھل مل رہا ہے۔ انہیں راج پاٹ اور جلا وطنی کا ذرا بھی افسوس نہ تھا لیکن بیوی اور بچے کی جدائی کو وہ کیسے برداشت کریں گے؟ انہیں وہ منظر کبھی بھی نہیں بھولتا تھا جب رخصت ہوتے وقت رانی اور بچہ مڑ مڑ کر ہریش چندر کی طرف دیکھتے تھے اور بوڑھا انہیں کوڑے مار مار کر آگے کی طرف گھسیٹتا تھا۔

 

تھوڑی دیر میں برہمن اپنی دکھشنا لینے پہنچ گیا۔ ہریش چندر نے اس کے پاوں چھوئے اور جو مہریں بیوی اور بچے کے بیچنے سے ملی تھیں، اسے دے دیں۔ وشوا متر نے کہا، “پہلے یہ بتاو کہ یہ مہریں تم نے کیسے حاصل کیں۔ کیا یہ تمہاری کمائی کی ہیں؟”

 

ہریش چندر بولے “یہ معلوم کر کے آپ کیا کریں گے۔ ان کی کہانی بہت دردناک ہے۔ میں نے اپنی بیوی اور بچے کو بیچ کر یہ مہریں حاصل کی ہیں۔ آپ انہیں قبول کیجیے”۔

 

سورج غروب ہونے سے پہلے ہریش چندر اپنے آپ کو بیچنے کے لیے چوک میں پہنچ گئے اور اپنی بولی لگوانے لگے۔
لیکن وشوا متر اتنی مہروں سے خوش نہ ہوئے اور بولے: “یہ تو بہت کم ہیں۔ مجھے پورا روپیہ چاہیئے اور آج سورج غروب ہونے سے پہلے چاہیے۔ میں اور انتظار نہیں کر سکتا۔ نہیں دے سکتے تو صاف صاف منع کر دو”۔

 

ہریش چندر بولے “مہاراج، دوں گا اور ضرور دوں گا۔ تھوڑا سا وقت اور دیجیے”۔

 

چنانچہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہریش چندر اپنے آپ کو بیچنے کے لیے چوک میں پہنچ گئے اور اپنی بولی لگوانے لگے۔ کچھ دیر میں دھرم راج۔ چنڈال کے بھیس میں وہاں پہنچا۔ کالا رنگ، بڑے بڑے باہر نکلے ہوئے پیلے دانت، بھیانک شکل، سارے جسم سے بدبو آ رہی تھی۔ چنڈال نے کہا:

 

“مجھے ایک خدمت گار کی ضرورت ہے۔ میں چنڈال ہوں۔ میرا کام مردے کا کفن لینا ہے۔ یہی تمہیں بھی کرنا ہو گا۔ بولو، منظور ہے؟”

 

ہریش چندر پہلے ہی دکھوں کی مار سے بے حال ہو رہے تھے۔ بھیانک چنڈا کو دیکھ کر ان کی روح تک لرز گئی۔ لیکن کوئی اور خریدار بھی نہیں تھا اور سورج بھی ڈوبنے والا تھا۔ ہریش چندر نے ذرا سی دیر کے لیے سوچا کہ میں سورج بنسی کھتری خاندان سے ہوں، چنڈال کی غلامی کیسے کروں گا؟ لیکن وعدہ خلافی سے تو چنڈال کی غلامی ہی اچھی۔ اتنے میں وشوا متر آ پہنچے۔ ہریش چندر نے چنڈال کے سامنے سر جھکا دیا اور روپیہ لے کر وشوا متر کے قدموں میں رکھ دیا۔

 

چنڈال نے شمشان کا کام ہریش چندر کو سونپ دیا اور کہا “خبردار جو شمشان میں بغیر کفن کے کوئی بھی مردہ جلنے دیا۔ دن رات یہیں رہنا ہو گا۔ ذرا بھی غلطی کی تو کھال کھینچ لوں گا”۔

 

جب کافی رات گئے شِویا اکیلی اپنے بیٹے کی لاش کے پاس پہنچی اور زور زور سے بین کرنے لگی تو لوگوں نے سمجھا کہ یہ کوئی بچے مارنے والی ڈائن ہے۔
کاشی کا یہ شمشان بہت خوفناک تھا۔ گنگا کنارے ہونے کی وجہ سے دور دور کے مرنے والوں کی لاشیں یہاں لائی جاتی تھیں۔ ہریش چندر ہر وقت وہیں لٹھ لیے چکر لگاتے رہتے۔ نہ دن کو چین تھا نہ رات کو آرام۔

 

ادھر ایک اور مصیبت ٹوٹی۔ ایک دن روہتاس اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے کے بعد گھر واپس آ رہا تھا کہ اچانک اسے ایک کالے ناگ نے ڈس لیا۔ بچوں نے آ کر اس کی موت کی خبر اس کی ماں کو سنائی۔ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ ہوش آنے پر اس نے اپنے مالک سے اپنے بیٹے کی لاش لانے کی اجازت مانگی تو اس نے کہا، پہلے گھر کا کام کاج ختم کر لو، پھر جا کر لاش کو دیکھ لینا۔

 

جب کافی رات گئے شِویا اکیلی اپنے بیٹے کی لاش کے پاس پہنچی اور زور زور سے بین کرنے لگی تو لوگوں نے سمجھا کہ یہ کوئی بچے مارنے والی ڈائن ہے۔ لوگ اسے گھسیٹتے ہوئے چنڈال کے پاس لے گئے اور کہا کہ اس بچے مار کر کھانے والی ڈائن کو قتل کر دیا جائے۔ چنڈال نے رسی باندھ کر شویا کو خوب پیٹا پھر ہریش چندر کو بلا کر حکم دیا کہ “تلوار سے اس کا سر اڑا دو”۔

 

ہریش چندر ایک عورت کے قتل کا کلنک اپنے ماتھے پر نہیں لینا چاہتے تھے، انہوں نے کہا “یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکے گا”۔

 

چنڈال نے کہا “ڈرو مت، تلوار نکالو اور اس کا سر الگ کر دو۔ یہ پاپ نہیں پُن ہے”۔

 

رات کے اندھیرے میں نہ ہریش چندر نے شِویا کو پہچانا اور نہ شِویا نے ہریش چندر کو۔ جب شِویا نے نجات کی کوئی صورت نہ دیکھی تو بولی: “میرے ہاتھوں میں میرے ہی بیٹے کی لاش ہے۔ پہلے مجھے اسے جلا لینے دو پھر شوق سے مجھے مار ڈالنا”۔

 

اب بھی دونوں ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکے۔ لیکن جب شِویا نے روتے روتے روہتاس کا نام لیا تو ہریش چندر پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ وہرتاس کی لاش کو سینے سے لگا کر زور زور سے رونے لگے۔ لمحے بھر کو شِویا اپنے بیٹے کا صدمہ بھول گئی لیکن ہریش چندر کو چنڈال کا کام کرتے دیکھ کر اس کا کلیجہ پھٹ گیا۔ “اے بھگوان! جو کچھ میں دیکھ رہی ہوں وہ خواب ہے یا حقیقت؟ اگر حقیقت ہے تو دنیا میں دھرم کرم اور نیک کاموں کا پھل کیا ہے؟”

 

اب بچے کی لاش جلانے کے لیے ہریش چندر نے کہا کہ چنڈال کا حکم ہے کہ بغیر کفن لیے کسی کو بھی مردہ نہ جلانے دیا جائے۔ تمہیں بھی کہیں نہ کہیں سے کفن لانا ہوگا۔ شِویا نے کہا “سوامی اگر آپ چنڈال کے داس ہیں تو میں بھی کسی کی داسی ہوں۔ بیٹا جیسا میرا ہے ویسا ہی آپ کا بھی ہے۔ اس لاش کو جلانا آپ کا فرض ہے۔ میں کفن نہیں دے سکتی یہ آپ کو معلوم ہے۔”

 

اس وقت آسمان سے امرت کی بوندیں ٹپکنے لگیں اور روہتاس زندہ ہو اٹھا۔ ہریش چندر اور شِویا کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔
ہریش چندر کا دل غم سے پھٹا جا رہا تھا۔ جس دھرم کو بچانے کے لیے انہوں نے اتنی مصیبتیں اٹھائی تھیں، وہی دھرم ان کے راستے میں روکاوٹ بن رہا تھا۔

 

“کچھ بھی ہو، کہیں سے بھی لاو۔ میں کفن لیے بغیر لاش نہیں جلانے دوں گا”۔

 

تب رانی نے اپنی دھوتی کا آدھا حصہ پھاڑ کر کفن کے طور پر دے دیا اور باقی حصے سے جیسے تیسے اپنے بدن کو ڈھانپ لیا۔ جب چِتا جلنے کو تھی تو شِویا نے کہا “اب آپ چاہیں تو اپنے مالک کے حکم کے مطابق میری گردن اڑا دیں”۔
ہریش چندر کی قوت برداشت جواب دے رہی تھی۔ انہوں نے کہا “یہ مجھ سے نہ ہو گا۔ میں بھی اسی چتا میں کود کر خود کشی کر لوں گا”۔ یہ کہتے ہوئے وہ چتا میں کودنے کے لیے آگے بڑھے۔

 

اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ آسمان سے پھولوں کی بارش ہونے لگی، اور سبھی بڑے بڑے دیوتا دھرتی پر اتر آئے۔ دھرم راج بولے “مبارک ہو ہریش چندر! تم ہر آزمائش میں پورے اترے۔ فرض کی ادائیگی اور سچائی میں تم سے کوئی بازی نہیں لے جا سکتا”۔ اِندر نے کہا: “ہریش چندر، سچ کو نہ چھوڑنے سے تم نے تینوں دنیاوں پر فتح پا لی”۔
اس وقت آسمان سے امرت کی بوندیں ٹپکنے لگیں اور روہتاس زندہ ہو اٹھا۔ ہریش چندر اور شِویا کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ انہوں نے سب دیوتاوں کو پرنام کیا اور روہتاس کو چھاتی سے لگا کر پیار کرنے لگے۔

 

ایودھیا لوٹ آنے کے بعد پھر سے راجا ہریش چندر کے نام کا ڈنکا بجنے لگا، اور وہ اپنی رعایا کے دلوں پر راج کرنے لگے۔

 

(ماخوذ از پرانوں کی کہانیاں، مرتبہ گوپی چند نارنگ)

 

لالٹین پر ہندوستانی کہانیوں کا یہ سلسلہ تصنیف حیدر (ادبی دنیا) کے تعاون سے پیش کیا جا رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *