گھڑی کی ہچکیوں میں
ایک انتھک گھنٹہ
ایڑھیاں رگڑھتا
اپنے تعاقب میں
مگن
میں ایسے ہی پی گیا
رات کا آخری پہر
سڑک کنارے بھتّنی خاموشی کا رقص
اشارہ توڑ کر نکلتی گاڑی کی بےحسی
اور شہری درختوں کی بوڑھی تنہائی کا آسیب
رات کا آخری پہر
میں ایسے ہی پی گیا
جیسے کوئی اکیلا بیٹھا خدا کو دیکھے
پیدائش چیختی رہ گئی
پھول کی پتی میں چمن بچھڑ گیا
سانسیں اپنے وعدوں سے مکریں
دل روہانسا یوں بھاگا
جیسے کوئی دل ٹوٹا بچہ
جیسے کسی معذور پرندے کے پروں سے
روتی دھوتی امیدیں
ہم زندہ ہیں
یہ بات بھلانی پڑے گی
رات بہت لمبی ہے
دنوں کے سینوں پر محیط
جیسے دماغ پر سوار پاگل پن
یہ رات مٹانی پڑے گی
ٹھنڈے گھروں میں
ہوا روک دی جاتی ہے
خیال کے آنگن میں اگتا
ایک سمندری گہرائی کا مفروضہ
چپ چاپ بیٹھا ہے
کاہل دھوپ میں جیسے
پتھر پڑے رہتے ہیں
میرا بدن خواب کا ہے
میری آنکھوں پر جن کا سایہ ہے
اور یہ دل کا پرزہ
کب سے اٹک اٹک کر چل رہا ہے
کوئی نہیں جانتا کے ہم
کس تخلیق شدہ بے خیالی میں
جی رہے ہیں
سب کچھ بھولنا پڑے گا
خود کو مٹانے کے بعد
تب ہی اس کاغذی دیوانے میں
بوسیدہ پاگل پن کی سفیدی کا الہڑ بادل
دل کھول کر برسے گا
جیسے بارش کی بغاوت
جیسے رات کی سردی میں
چھوٹ جاۓ سوچ کی تاریں
جیسے کوئی ریشمی کپڑا
گر جاۓ الگنی سے
ایک انتھک گھنٹہ
ایڑھیاں رگڑھتا
اپنے تعاقب میں
مگن
میں ایسے ہی پی گیا
رات کا آخری پہر
سڑک کنارے بھتّنی خاموشی کا رقص
اشارہ توڑ کر نکلتی گاڑی کی بےحسی
اور شہری درختوں کی بوڑھی تنہائی کا آسیب
رات کا آخری پہر
میں ایسے ہی پی گیا
جیسے کوئی اکیلا بیٹھا خدا کو دیکھے
پیدائش چیختی رہ گئی
پھول کی پتی میں چمن بچھڑ گیا
سانسیں اپنے وعدوں سے مکریں
دل روہانسا یوں بھاگا
جیسے کوئی دل ٹوٹا بچہ
جیسے کسی معذور پرندے کے پروں سے
روتی دھوتی امیدیں
ہم زندہ ہیں
یہ بات بھلانی پڑے گی
رات بہت لمبی ہے
دنوں کے سینوں پر محیط
جیسے دماغ پر سوار پاگل پن
یہ رات مٹانی پڑے گی
ٹھنڈے گھروں میں
ہوا روک دی جاتی ہے
خیال کے آنگن میں اگتا
ایک سمندری گہرائی کا مفروضہ
چپ چاپ بیٹھا ہے
کاہل دھوپ میں جیسے
پتھر پڑے رہتے ہیں
میرا بدن خواب کا ہے
میری آنکھوں پر جن کا سایہ ہے
اور یہ دل کا پرزہ
کب سے اٹک اٹک کر چل رہا ہے
کوئی نہیں جانتا کے ہم
کس تخلیق شدہ بے خیالی میں
جی رہے ہیں
سب کچھ بھولنا پڑے گا
خود کو مٹانے کے بعد
تب ہی اس کاغذی دیوانے میں
بوسیدہ پاگل پن کی سفیدی کا الہڑ بادل
دل کھول کر برسے گا
جیسے بارش کی بغاوت
جیسے رات کی سردی میں
چھوٹ جاۓ سوچ کی تاریں
جیسے کوئی ریشمی کپڑا
گر جاۓ الگنی سے
ہم زندہ ہیں
یہ بات بھلانی پڑے گی
رات بہت لمبی ہے
دنوں کے سینوں پر محیط
جیسے دماغ پر سوار پاگل پن
یہ رات مٹانی پڑے گی