یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب ہم چھوٹے ہوا کرتے تھے اور آپ تو جانتےہی ہیں ہمارے مُلک میں انسان کا بچہ ہونا کتنا مشکل کام ہے، کوئی بھی، کبھی بھی، کہیں بھی آپ کی پھینٹی لگانے کا پورا پورا آئینی، جمہوری اور اخلاقی حق اپنی جیب میں لئے گھومتا پھرتا ہے۔ ابُو سے امی تک، چاچُو سے ماما تک ، محلے کی دکان والے بھائی صاحب سے محلے کے شمیم انکل تک اور اِس سب میں سب سے آگےاورہمیشہ سے ہمیشہ تک رہنے کا اعزاز صرف اور صرف پی ٹی ماسٹر اور مدرسے کے مولوی صاحب کے پاس ہی رہا ہے۔
باقی سب کے ہاتھوں لگی مار تو شائد میں کبھی بھول بھی جاوٴں مگر جناب مولوی صاحب کے مولا بخش کی مار میں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں
مجھے آج بھی یاد ہے کہ اگر میں کسی بات پر اپنے ماں باپ سے سب سے زیادہ پِٹا ہوں تووہ ہے سچ نہ بولنے پراور حقیقت تو یہ ہے کہ اساتذہ بشمول پی ٹی ماسٹر کا بھی یہی کہنا تھا کہ بڑے سے بڑا نقصان ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑ جائے کوشش کرو کہ سچ ہی بولو۔ البتہ مدرسے کے مولوی صاحب نے سچ جھوٹ کے جھگڑے میں پڑکر وقت ضائع کرنے کی بجائے صرف اور صرف سبق یاد کرنے پر زور دیا اور سبق یاد نہ ہونے پر جی بھر کے ہماری ٹھُکائی کی۔ باقی سب کے ہاتھوں لگی مار تو شائد میں کبھی بھول بھی جاوٴں مگر جناب مولوی صاحب کے مولا بخش کی مار میں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں اور اسی لئے اُن کا دیا ہوا درس (باوجود اپنےذہن میں اُبھرتے بے تحاشہ سوالوں کے) میں آج تو کیا مرتے دم تک شائد کبھی بھی بھول نہ پاوٴں۔
خیر صاحب یہ تو ٹھہریں پرانی باتیں آج وقت اور حالات بدل چکے ہیں، وقت اورحالات کیا اب تو انسان اور اس کا رہن سہن بھی بدل چکا ہے، اب نہ والدین کی وہ سختیاں رہیں، نہ بچوں کی وہ خرمستیاں ہیں اور نہ ہی اساتذہ کی وہ مار دھاڑ، بس رہ گئی ہے تو ایک ہی چیز اور وہ ہے مولوی صاحب کا ڈنڈا جس کے نام سے آج بھی ہم سب تھرتھر کانپتے ہیں۔
خیر یہ سب باتیں ایک طرف مگر دنیا ترقی کی راہ پر گامزن پتہ نہیں کون کون سے “جی” بناتی پھر رہی ہے کہیں ٹُو، کہیں تھری اور کہیں تو فور جی تک بات جا پہنچی ہے۔ تیز رفتاری کے اِس دور میں بھلا اپن کا مُلک کیسے پیچھے رہ سکتا تھا سو ٹی وی، ڈرائیونگ اوراسلحہ کے بعد ٹُوجی اور تھری جی ٹائپ کےلائسنس بھی دھڑادھڑ جاری ہونے شروع ہوگئے۔ کسی اور شعبے میں ترقی ہوئی یا نہیں اِس کا اندازہ تو ہمیں بالکل بھی نہیں ہاں اتنا ضرور پتہ ہے کہ لائسنس جاری کرنے میں ہم دُنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔سب سے تباہ کُن بات یہ ہے کہ ہرقسم کا لائسنس جاری کرنے کا اختیارحاصل کرنے کے لئے آپ کوکسی بھی قسم کا لائسنس لینے کی ضرورت نہیں ۔ آپ کبھی بھی کہیں بھی بیٹھ کر یا پھر کھڑےکھڑے بھی اپنے منظورِ نظر دوستوں اور اپنے بد ترین دشمنوں سمیت کسی بھی شخص کو کسی بھی قسم کا کوئی بھی لائسنس جاری کر سکتے ہیں۔
خیر صاحب یہ تو ٹھہریں پرانی باتیں آج وقت اور حالات بدل چکے ہیں، وقت اورحالات کیا اب تو انسان اور اس کا رہن سہن بھی بدل چکا ہے، اب نہ والدین کی وہ سختیاں رہیں، نہ بچوں کی وہ خرمستیاں ہیں اور نہ ہی اساتذہ کی وہ مار دھاڑ، بس رہ گئی ہے تو ایک ہی چیز اور وہ ہے مولوی صاحب کا ڈنڈا جس کے نام سے آج بھی ہم سب تھرتھر کانپتے ہیں۔
خیر یہ سب باتیں ایک طرف مگر دنیا ترقی کی راہ پر گامزن پتہ نہیں کون کون سے “جی” بناتی پھر رہی ہے کہیں ٹُو، کہیں تھری اور کہیں تو فور جی تک بات جا پہنچی ہے۔ تیز رفتاری کے اِس دور میں بھلا اپن کا مُلک کیسے پیچھے رہ سکتا تھا سو ٹی وی، ڈرائیونگ اوراسلحہ کے بعد ٹُوجی اور تھری جی ٹائپ کےلائسنس بھی دھڑادھڑ جاری ہونے شروع ہوگئے۔ کسی اور شعبے میں ترقی ہوئی یا نہیں اِس کا اندازہ تو ہمیں بالکل بھی نہیں ہاں اتنا ضرور پتہ ہے کہ لائسنس جاری کرنے میں ہم دُنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔سب سے تباہ کُن بات یہ ہے کہ ہرقسم کا لائسنس جاری کرنے کا اختیارحاصل کرنے کے لئے آپ کوکسی بھی قسم کا لائسنس لینے کی ضرورت نہیں ۔ آپ کبھی بھی کہیں بھی بیٹھ کر یا پھر کھڑےکھڑے بھی اپنے منظورِ نظر دوستوں اور اپنے بد ترین دشمنوں سمیت کسی بھی شخص کو کسی بھی قسم کا کوئی بھی لائسنس جاری کر سکتے ہیں۔
جب تک کافر کافر چلاتا ایک مجمع ہماری طرف دوڑ نہ لگا دے تب تک ہم دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے سے گریز نہیں کرتے۔
عام طور پر یہ لائسنس ایک ہی نسل کے ہوتے ہیں مگرانہیں جاری کرنے کا اختیار ہمارے معاشرے میں رہنے والے بِلا تفریقِ رنگ و نسل کسی بھی شخص کےپاس کبھی بھی آجاتا ہے۔ اِن لائسنسوں کی چند مشہور زمانہ قسموں میں عورت کو بدکردار قرار دینا، محلے کی کسی بھی لڑکی کا کسی بھی نوجوان سے چکر ڈھونڈ نکالنا، کسی بھی شرارتی بچے کا آوارہ کہہ دینا، کسی بھی داڑھی والے باریش شخص کو مولوی صاحب ،معزز یا معتبر ثابت کرنا، کسی بھی آزاد خیال اور پڑھے لکھے شخص کے کفر کی تصدیق کر دینا، کسی بھی غیر مسلم کا شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دے دیا جانا اور کسی بھی سیاسی مخالف کو غدارِوطن کہہ ددینے جیسے لائسنس سرِفہرست ہیں۔
کمال تو یہ ہے کہ جب بچپن میں محلے کے دوستوں کو اپنی بات کا یقین دلانا ہوا کرتا تھا تو ہم سب ایک جملہ تواتر سے کہا کرتے تھے کہ “سچ بول رہا ہوں جو جھوٹ بولے وہ کافر”۔ ظاہر ہے یہ جملہ بھی ہم ماں کے پیٹ سے سیکھ کر تو آئے نہیں تھے یہ جملہ بھی ہم بچوں کے کچے ذہنوں تک اِسی معاشرے کی لائسنس جاری کرنے کی ذہنیت نے بیٹھائی ہے۔ آج جبکہ ہمارے بچپن کو گزرے دو سے تین دہائیاں بیت چکی ہیں اِس کافرانہ سوچ نے ہمیں کتنا کافر کر دیا ہے اِس کا اندازہ ہمیں صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب “تم کافر ہوتم کافر ہو” کی صدائیں ہمیں اپنے آس پاس یااپنے گھر کے دروازے تک پہنچتی محسوس ہوتی ہیں۔ حد تویہ ہے کہ ہم کسی کو کچھ بھی کہہ جاتے ہیں، ٹھٹھے لگا لگا کر ہنستے ہیں، ویڈیو بھی بنوا ہی لیتے ہیں لیکن جب تک وہ ویڈیو منظرِعام پر نہیں آتی اور کوئی اُس ویڈیوکو بنیاد بنا کرہم پرتوہینِ رسالت کا مقدمہ درج کرانے تھانے نہیں پہنچتا ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ جب تک کافر کافر چلاتا ایک مجمع ہماری طرف دوڑ نہ لگا دے تب تک ہم دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ اور پھر جب اِس کافر کافر کی صدا اور ایمان والوں کے بپھرے ہوئے ہجوم کے جذبات کے بیچ کہیں دُور سےخوف ہمارا زور زور سے مُنہ چِڑھا رہا ہوتا ہے بس اُسی وقت ہم خوف سےدہل جاتےہیں۔ خوف بہت ظالم شے ہے، یہی خوف اگر خُدا کا ہو تو انسان ایک ایک لفظ سے پہلے کم از کم سو دفعہ سوچے گا اور یہی خوف اگر خُدا کے پیدا کیے ہوئے بندوں کا ہو تو انسان سوچے بغیر ہی اپنی ناکردہ غلطیوں کی بھی سو سو دفعہ معافی مانگے گا، گِڑگِڑائے گا اور رو رو کراپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
ایسی ہی روتی دھوتی کئی داستانیں اب تو ہم تقریباً روز ہی سنتے ہیں، خوفناک انسانی چیخوں کی آوازیں کبھی جوزف کالونی لاہور سےاٹھتی ہیں تو کبھی کوٹ رادھا کشن کے دہکتے بھٹے میں جلتے بھُنتے شہزاد اور شمع کی طرف سے آتی ہیں ۔ آسیہ بی بی کو تو عدالت نے ہی سزا دے دی۔ چلو کم سے کم مقدمہ تو چلا ، کیا ہوا کہ استغاثہ کے مقابلے میں وکیل صفائی کی بات نہ سنی گئی پھر بھی کچہری تک کم از کم کچھ گواہ تولائے گئے۔معافی تلافی کی دہائیاں اگرچہ آسیہ بی بی کی کوٹھڑی سے بھی آ رہی ہیں مگر کیا کریں جب بات ویڈیو کلپ تک آگئی ہو اورپورے پاکستان کو ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر مذہبی درس دینے والا ایک باریش شخص رو رو کر اپنے جاہل اور کم علم ہونے کا اعتراف کر رہا ہو، دینی معاملات میں اُس کے اُستادکا درجہ رکھنے والے ایک جید عالمِ دین اُس شخص سے اظہارِ لا تعلقی کر رہے ہوں، ایک دوسرے مولوی صاحب ایک علیحدہ ویڈیو کلپ کے ذریعے اُس کی معافی قبول فرما رہے ہوں اور اِس ویڈیو معافی کے بعد اِس مسئلے پر بات کرنے والے کو فتنہ قرار دینے کا فتویٰ بھی ہاتھ کے ہاتھ جاری فرمارہے ہوں تو ایسے میں قوم کو پھر وہی مولوی صاحب کا ڈنڈا یاد نہ آئے تو اور کیا ہو۔
کمال تو یہ ہے کہ جب بچپن میں محلے کے دوستوں کو اپنی بات کا یقین دلانا ہوا کرتا تھا تو ہم سب ایک جملہ تواتر سے کہا کرتے تھے کہ “سچ بول رہا ہوں جو جھوٹ بولے وہ کافر”۔ ظاہر ہے یہ جملہ بھی ہم ماں کے پیٹ سے سیکھ کر تو آئے نہیں تھے یہ جملہ بھی ہم بچوں کے کچے ذہنوں تک اِسی معاشرے کی لائسنس جاری کرنے کی ذہنیت نے بیٹھائی ہے۔ آج جبکہ ہمارے بچپن کو گزرے دو سے تین دہائیاں بیت چکی ہیں اِس کافرانہ سوچ نے ہمیں کتنا کافر کر دیا ہے اِس کا اندازہ ہمیں صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب “تم کافر ہوتم کافر ہو” کی صدائیں ہمیں اپنے آس پاس یااپنے گھر کے دروازے تک پہنچتی محسوس ہوتی ہیں۔ حد تویہ ہے کہ ہم کسی کو کچھ بھی کہہ جاتے ہیں، ٹھٹھے لگا لگا کر ہنستے ہیں، ویڈیو بھی بنوا ہی لیتے ہیں لیکن جب تک وہ ویڈیو منظرِعام پر نہیں آتی اور کوئی اُس ویڈیوکو بنیاد بنا کرہم پرتوہینِ رسالت کا مقدمہ درج کرانے تھانے نہیں پہنچتا ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ جب تک کافر کافر چلاتا ایک مجمع ہماری طرف دوڑ نہ لگا دے تب تک ہم دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ اور پھر جب اِس کافر کافر کی صدا اور ایمان والوں کے بپھرے ہوئے ہجوم کے جذبات کے بیچ کہیں دُور سےخوف ہمارا زور زور سے مُنہ چِڑھا رہا ہوتا ہے بس اُسی وقت ہم خوف سےدہل جاتےہیں۔ خوف بہت ظالم شے ہے، یہی خوف اگر خُدا کا ہو تو انسان ایک ایک لفظ سے پہلے کم از کم سو دفعہ سوچے گا اور یہی خوف اگر خُدا کے پیدا کیے ہوئے بندوں کا ہو تو انسان سوچے بغیر ہی اپنی ناکردہ غلطیوں کی بھی سو سو دفعہ معافی مانگے گا، گِڑگِڑائے گا اور رو رو کراپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
ایسی ہی روتی دھوتی کئی داستانیں اب تو ہم تقریباً روز ہی سنتے ہیں، خوفناک انسانی چیخوں کی آوازیں کبھی جوزف کالونی لاہور سےاٹھتی ہیں تو کبھی کوٹ رادھا کشن کے دہکتے بھٹے میں جلتے بھُنتے شہزاد اور شمع کی طرف سے آتی ہیں ۔ آسیہ بی بی کو تو عدالت نے ہی سزا دے دی۔ چلو کم سے کم مقدمہ تو چلا ، کیا ہوا کہ استغاثہ کے مقابلے میں وکیل صفائی کی بات نہ سنی گئی پھر بھی کچہری تک کم از کم کچھ گواہ تولائے گئے۔معافی تلافی کی دہائیاں اگرچہ آسیہ بی بی کی کوٹھڑی سے بھی آ رہی ہیں مگر کیا کریں جب بات ویڈیو کلپ تک آگئی ہو اورپورے پاکستان کو ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر مذہبی درس دینے والا ایک باریش شخص رو رو کر اپنے جاہل اور کم علم ہونے کا اعتراف کر رہا ہو، دینی معاملات میں اُس کے اُستادکا درجہ رکھنے والے ایک جید عالمِ دین اُس شخص سے اظہارِ لا تعلقی کر رہے ہوں، ایک دوسرے مولوی صاحب ایک علیحدہ ویڈیو کلپ کے ذریعے اُس کی معافی قبول فرما رہے ہوں اور اِس ویڈیو معافی کے بعد اِس مسئلے پر بات کرنے والے کو فتنہ قرار دینے کا فتویٰ بھی ہاتھ کے ہاتھ جاری فرمارہے ہوں تو ایسے میں قوم کو پھر وہی مولوی صاحب کا ڈنڈا یاد نہ آئے تو اور کیا ہو۔
آخری اطلاعات آنے تک بروزِقیامت جو عدالت لگے گی اسے کوئی مولوی صاحب ڈنڈا لئے نہیں ہانک رہے ہوں گے اور نہ ہی وہاں پیٹی بھائیوں کےلئے کوئی “اسپیشل ڈسکاونٹ آفر” ہوگی۔
ہم تو اب تک یہی سمجھتے تھے کہ معافی کی قبولیت کا معاملہ اللہ پاک نے اپنے ہاتھ رکھ رکھا ہے ، ہم تو یہی سنتے آئے ہیں کہ توہین رسالت کے ہر ملزم کو جرم ثابت ہونے کے بعد بھی توبہ کرنے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کا اختیار ہے پر معلوم نہیں کہ کب یہ کارِخیرمولوی صاحب عملداری میں داخل ہوا اور اب وہ جسے چاہتے ہیں معاف کرتے ہیں جسے چاہتے ہیں الٹا لٹکا دیتے ہیں۔ اور اگر مولوی صاحب کے پاس یہ اختیار آہی گیا تھا تو تھوڑی دریا دلی دکھا کر اب تک توہینِ رسالت کے معاملات میں بِنا شُنوائی موت کے گھاٹ اتارے گئے ہندوٴوں، عیسائیوں اور بغیر داڑھی والے مسلمانوں کو معاف کرتے نہ کرتے کم از کم معافی مانگنے کا ایک موقع تو عطا فرماتے مگر صاحب کیا کریں پیٹی بھائی تو پھر پیٹی بھائی ہوتا ہے اتنا خیال تو کرنا پڑتا ہے ۔وہ الگ بات ہے کہ یہ مضمون کسی کو توہینِ رسالت کا مرتکب ٹھہرانے کی کوئی کاوش نہیں ہاں مگر اتنا باور کروانا ضرور ہے کہ آخری اطلاعات آنے تک بروزِقیامت جو عدالت لگے گی اسے کوئی مولوی صاحب ڈنڈا لئے نہیں ہانک رہے ہوں گے اور نہ ہی وہاں پیٹی بھائیوں کےلئے کوئی “اسپیشل ڈسکاونٹ آفر” ہوگی۔
تو ذرا خیال کیجیئے!
تو ذرا خیال کیجیئے!