قرون وسطیٰ میں یورپ کے پادریوں کے حالات بھی تقریباً وہی تھے جو آج کل ہمارے علما کے ہیں۔اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ فرانسس بیکن سے منسوب ہے جس میں وہ لکھتاہے کہ1432ءمیں دو پادریوں کے درمیان بحث ہوگئی کہ گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں۔ بحث و مباحثہ نے مناظرے کی صورت اختیار کر لی۔ تیرہ دن تک فریقین ہر قسم کی مذہبی کتب سے اپنے موقف کے حق میں دلائل دیتے رہے مگریہ “مشکل مسئلہ” حل نہ ہو سکا۔تیرھویں دن ایک نوجوان نے یہ کہہ کر”لا دین“ ہونے کا ثبوت دیا کہ کیوں نا گھوڑے کا منہ کھول کر اس کے دانت گن لےے جائیں تاکہ فیصلہ ہو جائے۔ یہ سن کر گھوڑے کے دانتوں کی تعداد پر تیرہ دن سے بر سر پیکار پادریوں نے اس لڑکے کو کوڑے مارنے کامشترکہ فتویٰ جاری کیا کیونکہ وہ ”مذہبی معاملات“ میں عقل استعمال کرنے کی بات کررہا تھا۔ یہ وہی پادری ہیں جو صدیوں تک جدید فکر کی راہ میں حائل رہے اور بیشتر علمبردارانِ خرد کی پیٹھوں پر ان کی مشق ِستم کے نشان ابھی تک باقی ہیں۔ یہی خرد دشمن ذہنیت آج کے مسلم علماء کی بھی ہے جو حلال اور حرام کے سوا کسی نظر سے کسی معاملہ کو دیکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ انہیں چاند دیکھنے کی شہادت سے لے کر ملک دشمن عناصر سے مذاکرات سمیت ہر معاملے میں اپنی رائے مسلط کرنے کا جنون ہے۔
بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جو مُلا بھی اسلام کا نعرہ لگاتا ہے اس کے نزدیک اسلام کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اس کے سپرد کر دی جائے۔بزعم خود ہر ملا “امیر المومنین” کی سیٹ کے لیے کوالیفائی کرتا ہے اور کسی بھی دوسرے کی حکومت کو اسلامی ماننے کے لےے تیار نہیں ۔
شاعر مشرق اسی لیے ملا سے ہمیشہ شاکی رہے کہ ذہن کی وسعت کو بدعت گردانتا اور تازہ خیالات کو اپنے مذہبی اقتدار کے لےے خطرہ سمجھتا ہے۔بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جو مُلا بھی اسلام کا نعرہ لگاتا ہے اس کے نزدیک اسلام کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اس کے سپرد کر دی جائے۔بزعم خود ہر ملا “امیر المومنین” کی سیٹ کے لیے کوالیفائی کرتا ہے اور کسی بھی دوسرے کی حکومت کو اسلامی ماننے کے لےے تیار نہیں ۔ جان کی امان تو خیر اب اس ملک کے محافظوں کو بھی حاصل نہیں ورنہ جان کی امان مانگ کر یہ پیش گوئی کرتا کہ ان ملا حضرات کا “مطلوبہ اسلام” نافذ کر بھی دیا جائے توجو ایک خلیفہ بن بیٹھے گا اس کے خلاف اسلام کے نام پر ہی خروج کا سلسلہ جاری ہو جائے گا کیوں کہ خلافت سے محروم رہ جانے والے دیگر “حق دارانِ خلافت” بھی تو فارغ نہیں بیٹھیں گے اورایسا فساد مچے گا کہ لوگ غدر کو بھول جائیں گے۔ جن لوگوں کو ملائیت سے کچھ بھی حسن ِظن تھا، مولانا عبدالعزیز کے حالیہ کچھ دنوں میں ارشادات عالیہ صادر ہونے کے بعد یہ حسنِ ظن بھی جاتا رہا۔حد درجہ حیرت ہوتی ہے کہ چند نادان ابھی بھی ان “علما” سے توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ اگر اس طبقے سے ذرہ بھر بھی خیر کی توقع ہوتی تو اقبال جیسا نشاة ثانیہ کا علمبردار کہیں گنجائش ضرور رکھتا لیکن وہ علماء کے کردار سے اس درجے بد دل ہو گئے تھے کہ انہوں نے اجتہاد جیسے باقاعدہ مذہبی معاملے کو بھی اپنی روحانی جمہوریت کے تصور میں علما کی بجائے منتخب پارلیمنٹ کے حوالے کرنے کا تصور پیش کیا۔
ہر وقت”جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ الاپنے والوں کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ اقبال کے نظریات میں ریاست اور سیاست میں ملا کا کردارکیا تھا۔اندازہ کیجیے کہ نیل کے ساحل سے کاشغر تک ایک ملت کا خواب دیکھنے والا بھی اس ”مجوزہ ریاست“ کے نقشے میں کسی ملا کو اہم کردار دینے کا قائل نہ تھا۔
ہر وقت”جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ الاپنے والوں کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ اقبال کے نظریات میں ریاست اور سیاست میں ملا کا کردارکیا تھا۔اندازہ کیجیے کہ نیل کے ساحل سے کاشغر تک ایک ملت کا خواب دیکھنے والا بھی اس ”مجوزہ ریاست“ کے نقشے میں کسی ملا کو اہم کردار دینے کا قائل نہ تھا اور ہمارے حکمران لال مسجد کے”برقع فیم“بھگوڑے مولانا کوملک و قوم کی فیصلہ سازی میں شریک کرنے پر مجبور ہیں۔ قرون ِوسطیٰ کے قبائلی رسوم و رواج کو اسلام سمجھنے والوں کے ہاتھ میں ایک جدید ریاست کی قسمت کا فیصلہ دے دینا ایسے ہی ہے جیسے کسی لوہارکوایف سولہ کی باڈی تیار کرنے کا ٹھیکہ دے دیا جائے۔
بدقسمتی سے وطنِ عزیز کے خدائی فوجدار وہی علماء ہیں جو شدت پسندی کی جڑوں کو اپنے افکار سے سینچتے رہے ہیں ، ہتھیار اٹھانے والوں کواقبال کا مردِ مومن اور گلے کاٹنے والوں کو قوم کے گمراہ نوجوان قرار دیتے ہیں۔ معلوم نہیں ہمارے حکمران مذاکرات کا عمل معطل ہو جانے کے باوجود بھی ایسے دہشت گردوں سے مذاکرات کے متعفن انڈوں سے نجانے کون سے چوزے نکالنا چاہ رہے ہیں ،جب کہ دوسری طرف “خلیفة الباکستان” جناب ملا ریڈیوکی پالیسی واضح تر ہےوہ “شوقِ مذاکرات” کے دیوانے حکمرانوں کو لارے لپے اورایف سی جوانوں کی لاشیں ایک ساتھ دے کر اپنی “نیتِ مطہرہ” کا ثبوت دیےجا رہا ہے اور مذاکرات کو سنت قرار دینے والے لکھاری بغلیں بجائے جا رہے ہیں۔ لیکن مذاکرات کے حامی اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ اگر ملک میں یا ملک کے کسی مخصوص حصے میں مذاکرات کے بعد طالبانی شریعت نافذ ہو جائے تو کیا طالبان سے ستر ہزاربے گناہ پاکستانیوں کے قتل کا قصاص لیا جائے گا؟؟ املاک کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی ہو گی یا نہیں۔
بدقسمتی سے وطنِ عزیز کے خدائی فوجدار وہی علماء ہیں جو شدت پسندی کی جڑوں کو اپنے افکار سے سینچتے رہے ہیں ، ہتھیار اٹھانے والوں کواقبال کا مردِ مومن اور گلے کاٹنے والوں کو قوم کے گمراہ نوجوان قرار دیتے ہیں۔ معلوم نہیں ہمارے حکمران مذاکرات کا عمل معطل ہو جانے کے باوجود بھی ایسے دہشت گردوں سے مذاکرات کے متعفن انڈوں سے نجانے کون سے چوزے نکالنا چاہ رہے ہیں ،جب کہ دوسری طرف “خلیفة الباکستان” جناب ملا ریڈیوکی پالیسی واضح تر ہےوہ “شوقِ مذاکرات” کے دیوانے حکمرانوں کو لارے لپے اورایف سی جوانوں کی لاشیں ایک ساتھ دے کر اپنی “نیتِ مطہرہ” کا ثبوت دیےجا رہا ہے اور مذاکرات کو سنت قرار دینے والے لکھاری بغلیں بجائے جا رہے ہیں۔ لیکن مذاکرات کے حامی اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ اگر ملک میں یا ملک کے کسی مخصوص حصے میں مذاکرات کے بعد طالبانی شریعت نافذ ہو جائے تو کیا طالبان سے ستر ہزاربے گناہ پاکستانیوں کے قتل کا قصاص لیا جائے گا؟؟ املاک کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی ہو گی یا نہیں۔
One Response
شاعر مشرق اسی لیے ملا سے ہمیشہ شاکی رہے کہ ذہن کی وسعت کو بدعت گردانتا اور تازہ خیالات کو اپنے مذہبی اقتدار کے لےے خطرہ سمجھتا ہے