حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ طالبان کی طرف سے مسلسل دہشتگرد ی کی کارروائیوں کے نتیجے میں کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ سے چند مذہبی جماعتوں اور تحریک انصاف کے سوا کسی پاکستانی کی حمایت حاصل نہیں تھی عملاً اس وقت مکمل طور پر رک گیا جب طالبان کی طرف سے 2010 میں اغواء کیے گیے 23ایف سی اہلکاروں کو طالبان نے دردناک طریقے سے شہید کر دیا۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے مذاکرات کے عمل کو مزید جاری رکھنے سے معذرت کر لی جس کے بعد وزیر اعظم نے آرمی چیف اور پاک فوج کے اہلکاروں کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد پاک فضائیہ کو طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی باضابطہ منظوری دے دی ، جس کے بعد پاک فوج ، آئی ایس آئی ، اور پاک فضائیہ نے باہمی مشاورت کے بعد طالبان کے مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی اور پاک فضائیہ نے وزیر اعظم کی ہدایت کی روشنی میں شمالی وزیرستان کے علاقوں حسو خیل، خید خیل ، ایدک اور خوشحال کے علا قوں میں اپنی پہلی کارروائی کا آغاز کیا ، اس فضائی کاروائی کے دوران 6 اہداف کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 47 سے زائد دہشتگرد ہلاک ہوئے ۔
طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ جسے چند مذہبی جماعتوں اور تحریک انصاف کے سوا کسی پاکستانی کی حمایت حاصل نہیں تھی عملاً اس وقت مکمل طور پر رک گیا جب طالبان کی طرف سے 2010 میں اغواء کیے گیے 23ایف سی اہلکاروں کو طالبان نے دردناک طریقے سے شہید کر دیا۔
اس کارروئی کا پہلا ہدف “کمانڈر عبدالستار ” کا مرکز بنا ، دوسرے حملے میں ازبکستان کے دہشتگردوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ تیسرے اور چوتھے حملے کا نشانہ ترکمانستان اور تاجکستان کے دہشتگرد بنے ۔ اسی طرح پانچواں حملہ ٹی ٹی پی کے دہشتگرد “جہاد یار” کے ٹھکانے پر کیا گیا جس کے نتیجے میں پندرہ دہشتگردوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں ۔ جہاد یار اپنے مرکز پر نہ ہونے کی وجہ سے بچ گیا ہے جبکہ مرکز مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ چھٹا حملہ کالعدم تحریک طالبان کے کمانڈر عبدالرزاق کے مرکز پر کیا گیا جس میں تیس سے زائد دہشتگردوں کے ہلاک ہو نے کی تصدیق ہوئی ۔ اس کارروائی میں دہشتگردوں کے زیر استعمال بھاری اسلحہ اور بارود بھی تباہ ہو گیا ہے اور غیر ملکی دہشتگرد کافی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں ۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے دوسرے مرحلے میں ہنگو کی تحصیل ٹل اور وسطی کرم ایجنسی کے سرحدی علاقوں در سمند اور تورا وڑی میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے دہشتگردوں کے اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں 9 دہشتگرد جسں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے اہم رہنماء گل نواز، ارشد اور ولی زمان کے ہلاک ہونے اور متعدد کے زخمی ہونے کی مصدقہ اطلاعات ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کے چار اہم ٹھکانے بھی مکمل طور پر تباہ کر دئیے گئے ۔ تیسرے مرحلے میں سکیورٹی فورسز نے خیبر ایجنسی کی وادی تیرہ میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے حملہ کر کے 13 دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا ۔ تاہم وزیرستان کے علاقوں میں صحافیوں اور خبر رساں اداروں کی رسائی نہ ہونے کے باعث عام شہریوں کی ہلاک ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کوئی خبر سامنے نہیں آسکی ۔
اس کارروائی کو پاکستان کی اکثریت نے بھر پور انداز سے خوش آمدید کہا ہے جس کی مثال ہنگو میں بنگش اور طوری قبائل کے جرگے میں پاکستان فوج کو اپنی مکمل مدد اور حمایت کا یقین دلایا گیا ہے اسی طرح ایم کیو ایم کی کراچی میں فوج کی حمایت میں نکالے جانے والی ریلی میں پاکستان کی سنی ، شیعہ خصوصاً سنی اتحاد کونسل ، سنی تحریک ، مجلس وحدتِ مسلمین اور دیگر جماعتوں سمیت اقلیتی جماعتوں کی تنظیموں نے بھر پور شرکت کی اور پاک فوج کو اپنی حمایت کا مکمل یقین دلایا۔ پاک فوج کے ادارے آئی ایس پی آر نے اپنی پریس بریفنگ میں وزیر اعظم کو یقین دلایا ہے کہ پاک فوج شمالی وزیرستان جو کہ طالبان اور دیگر دہشت پسند تنظیموں کی جائے پناہ ہے کو چند ہفتوں میں دہشتگردوں سے آزاد کرالے گی اور حکومت کی رٹ کو مکمل طور پر بحال کر دیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاک فوج نے کہا ہے کہ پاک فوج پاکستانی عوام کی خواہشات پر اپنی بے مثال کارکردگی کی بنا پر پورا اترے گی اور دہشتگردوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر دے گی۔ حکومت کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کا فیصلہ خوش آئند ہےتاہم ان علاقوں سے دہشت گرد تنظیموں کے انخلاء کے بعد ان علاقوں میں شدت پسندوں کی دوبارہ واپسی کو روکنے کے لئے طویل مدتی منصوبہ بندی کرنا ہوگی ۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے دوسرے مرحلے میں ہنگو کی تحصیل ٹل اور وسطی کرم ایجنسی کے سرحدی علاقوں در سمند اور تورا وڑی میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے دہشتگردوں کے اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں 9 دہشتگرد جسں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے اہم رہنماء گل نواز، ارشد اور ولی زمان کے ہلاک ہونے اور متعدد کے زخمی ہونے کی مصدقہ اطلاعات ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کے چار اہم ٹھکانے بھی مکمل طور پر تباہ کر دئیے گئے ۔ تیسرے مرحلے میں سکیورٹی فورسز نے خیبر ایجنسی کی وادی تیرہ میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے حملہ کر کے 13 دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا ۔ تاہم وزیرستان کے علاقوں میں صحافیوں اور خبر رساں اداروں کی رسائی نہ ہونے کے باعث عام شہریوں کی ہلاک ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کوئی خبر سامنے نہیں آسکی ۔
اس کارروائی کو پاکستان کی اکثریت نے بھر پور انداز سے خوش آمدید کہا ہے جس کی مثال ہنگو میں بنگش اور طوری قبائل کے جرگے میں پاکستان فوج کو اپنی مکمل مدد اور حمایت کا یقین دلایا گیا ہے اسی طرح ایم کیو ایم کی کراچی میں فوج کی حمایت میں نکالے جانے والی ریلی میں پاکستان کی سنی ، شیعہ خصوصاً سنی اتحاد کونسل ، سنی تحریک ، مجلس وحدتِ مسلمین اور دیگر جماعتوں سمیت اقلیتی جماعتوں کی تنظیموں نے بھر پور شرکت کی اور پاک فوج کو اپنی حمایت کا مکمل یقین دلایا۔ پاک فوج کے ادارے آئی ایس پی آر نے اپنی پریس بریفنگ میں وزیر اعظم کو یقین دلایا ہے کہ پاک فوج شمالی وزیرستان جو کہ طالبان اور دیگر دہشت پسند تنظیموں کی جائے پناہ ہے کو چند ہفتوں میں دہشتگردوں سے آزاد کرالے گی اور حکومت کی رٹ کو مکمل طور پر بحال کر دیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاک فوج نے کہا ہے کہ پاک فوج پاکستانی عوام کی خواہشات پر اپنی بے مثال کارکردگی کی بنا پر پورا اترے گی اور دہشتگردوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر دے گی۔ حکومت کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کا فیصلہ خوش آئند ہےتاہم ان علاقوں سے دہشت گرد تنظیموں کے انخلاء کے بعد ان علاقوں میں شدت پسندوں کی دوبارہ واپسی کو روکنے کے لئے طویل مدتی منصوبہ بندی کرنا ہوگی ۔
نظریاتی میدان میں مذہب کی بنیاد پر آئین اور جمہوریت کی نفی کرنے والی تنظیموں اور شدت پسندی کو فروغ دینے والے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا بھی ضروری ہے۔ شدت پسند تنظیموں کے لٹریچر اور ویب سائٹس تک آسان رسائی کے باعث نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو جہادی تنظیموں میں شمولیت پر آمادہ کئے جانے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
ماضی میں سوات سے دہشت گردوں کے انخلاء کے بعد سےفوج ان علاقوں میں موجود ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے وسائل اور تربیت کی کمی کے باعث دہشت گرد تنظیموں کے انخلاء کے بعد ان علاقوں پر حکومت کی رٹ قائم رکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ ریاستی خارجہ پالیسی میں بھی ماضی کی طرح افغانستان میں موجود مسلح غیر ریاستی گروہوں کی حمایت کی بجائے عوام کی نمائندہ جماعتوں اور سیاسی حکومت کی حمایت کی پالیسی اپنانا ہو گی ۔ ریاست اور عوام کو یہ سمجھنا ہو گا کہ دہشت گردی کے خلاف اصل جنگ ہتھیاروں کی نہیں بلکہ نظریات کی ہے، انسانی آزادی، حقوق اور جمہوری نظام کی کامیابی کی جنگ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے گزشتہ تین دہائیوں سے جاری مختلف حکومتوں کی دہشتگردی سے پہلو تہی ، در پردہ حمایت اور سٹریٹجک ڈیپتھ (strategic depth) کے نظریات کو رد کرتے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف فوجی، سیاسی ، ثقافتی اور فکری سطح پر جنگ لڑی جائے ۔ نظریاتی میدان میں مذہب کی بنیاد پر آئین اور جمہوریت کی نفی کرنے والی تنظیموں اور شدت پسندی کو فروغ دینے والے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا بھی ضروری ہے۔ شدت پسند تنظیموں کے لٹریچر اور ویب سائٹس تک آسان رسائی کے باعث نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو جہادی تنظیموں میں شمولیت پر آمادہ کئے جانے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ ایسے میں پاکستانی معاشرے ، عوام اور ریاست کی طرف سے شدت پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے صرف وزیرستان میں فوجی کاروائی کافی نہیں بلکہ نظریاتی سطح پر شدت پسند سوچ کے خلاف فکری محاذ پر بھی جنگ لڑنا ہوگی۔
ضرورت اس امر کی ہے گزشتہ تین دہائیوں سے جاری مختلف حکومتوں کی دہشتگردی سے پہلو تہی ، در پردہ حمایت اور سٹریٹجک ڈیپتھ (strategic depth) کے نظریات کو رد کرتے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف فوجی، سیاسی ، ثقافتی اور فکری سطح پر جنگ لڑی جائے ۔ نظریاتی میدان میں مذہب کی بنیاد پر آئین اور جمہوریت کی نفی کرنے والی تنظیموں اور شدت پسندی کو فروغ دینے والے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا بھی ضروری ہے۔ شدت پسند تنظیموں کے لٹریچر اور ویب سائٹس تک آسان رسائی کے باعث نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو جہادی تنظیموں میں شمولیت پر آمادہ کئے جانے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ ایسے میں پاکستانی معاشرے ، عوام اور ریاست کی طرف سے شدت پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے صرف وزیرستان میں فوجی کاروائی کافی نہیں بلکہ نظریاتی سطح پر شدت پسند سوچ کے خلاف فکری محاذ پر بھی جنگ لڑنا ہوگی۔