زکی نقوی
چک جھمرہ کے اس چھوٹے اور دور افتاد سے گاؤں کے باسی آج پہلی بار ٹیلیویژن اور اخباری نمائندوں کو اپنی گلیوں میں دیکھ کر حیران ہوئے جا رہے تھے کہ یہ داستانی کردار یہاں کیا کرنے آئے ہیں۔ ان کی دنیا میں تو نمبردار، پٹواری، تھانیدار اور ایک آدھ ڈاکٹر صاحب کے سوا اور کوئی ‘بڑا آدمی’ نہیں ہوتا۔ دراصل یہ مہمان بھی انہی ‘بڑے لوگوں’ میں سے ایک کے ‘کارناموں’ کی داستان سن کر کشاں کشاں چلے آئے تھے۔یہ پڑھے لکھے شہری لوگ دیر تک یہاں کےباسیوں سے اس واقعے کی تفصیلات پوچھتے اور ریکارڈ کرتے رہے کہ کس طرح ایک ایس ایچ او صاحب نے گیارہ سال قبل پولیس مقابلے میں مارے جانے والے ایک اشتہاری کے یتیم بچوں، بیوی اور بوڑھے باپ کو مرنے والے اشتہاری کے مبینہ جرائم کی سرِ عام سزا دے کر نشانِ عبرت بنایا تھا۔ چیختی چلاتی یتیم لڑکیاں، اَسی سالہ بوڑھا دیہاتی اور اس کا پندرہ سالہ پوتا، جن کے چہروں پر کیچڑ کا لیپ کر کے پورے گاؤں میں پھرایا گیا اور وہ پولیس کے بوٹوں کی ٹھوکر سے فٹ بال کی طرح لڑھکتےشیرخوار بچے… اس واقعے کی یادیں اہلِ دیہہ کی پرامن زندگی میں ایک ارتعاش پیدا کر کے، اور صحافیوں کو ایک روز کی سنسنی خیز خبر اور دیہی پنجاب کی سیر کا ایک موقع فراہم کر کے قصۂ پارینہ بن گئیں۔ لیکن واقعے کی بست و کشاد میں بہت سے سوالات سر اٹھائے کھڑے ہیں۔
اِس نوعیت کے واقعات ہماری سماجی زندگی کا معمول ہیں اور دیہی علاقوں میں تو بقولِ غالب؛ ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے…پھر چند روز کے لیے میڈیا کے توسط سے عوام و خواص پولیس ٹارچر کے مسئلے پر شور و غوغا کرتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے کئی معاملات چند دن میں ہی اسے ہماری ترجیحات کی قطار سے پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ ایذا رسانی (ٹارچر) کا مسئلہ ہماری سماجی زندگی کے دیگر مسائل، جو کہ براہِ راست حکومتی اداروں سے منسلک ہیں میں سے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اور شومئی قسمت کہ جس قدر سنجیدہ مسئلہ ہے، اس سے ہمارے عوام اور متعلقہ ادارے اسی قدر بے خبر ہیں۔ ان اداروں میں پولیس، عدلیہ، صحافی اور سیاسی شخصیات شامل ہیں۔اس پر طرہ کہ اس حوالے سے ہمارا بنیادی اندازِ فکر بھی ازحد ناپختہ ہے۔
۲۰۱۰ء میں پاکستان نے ایذا رسانی کے خلاف اقوامِ متحدہ کے کنونشن (یونائیٹڈ نیشنز کنونشن اگینسٹ ٹارچر) میں دستخط کر کے مہذب دنیا سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم اپنے ملک کے حکومتی اداروں کی طرف سے ایذا رسانی کو ختم کرنے کی حتی الوسع کوشش کریں گے اور اس ضمن میں قانون سازی کی جائے گی۔لیکن اس پر ابھی تک کوئی مناسب قانون سازی نہیں ہو سکی، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایذا رسانی کے مسئلے پر کوئی واضح قانون سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کی چند شقیں تشدد سے متعلق ضرور ہیں، لیکن وہ ایذا رسانی کی تکنیکی تعریف پر پورا نہیں اترتیں۔ اسی طرح قانونِ شہادت بھی ایذا رسانی کے محض ایک ہی پہلو کو مخاطب کرتا ہے۔ جس کے مطابق اقبالِ جرم کے لیے پولیس کے تشدد کی ممانعت ہے۔ درحقیقت ایذا رسانی کی تعریف، اس کے مظاہر اور ریاستی اداروں پر اس کے اطلاق کی کئی صورتیں ہیں، جوکہ اقوامِ متحدہ کے کنونشن پر دستخط کرنے کی صورت میں لاگو ہوتی ہیں۔
عموماٹارچر کا مطلب ‘تشدد’ لیا جاتا ہے، جو کہ ایک مغالطہ ہے۔ تشدد دراصل انگریزی کی اصطلاح Violenceکے لیے مستعمل لفظ ہے، جو کسی بھی فرد یا گروہ کے رویے سے متعلق ہےجبکہ ٹارچر یا ایذا رسانی کی اصطلاح کسی بھی حکومتی ادارے کی طرف سے فرد یا افراد کو کسی بھی نوعیت کی ذہنی، نفسیاتی یا جسمانی اذیت پہنچانے (جس میں سماجی اہانت بھی شامل ہے) کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ریاستی اداروں میں مختلف سطحوں پرنااہلی اور بے حسی، اور عوام میں شعور کی کمیاس مسئلے کی سنگینی کے ادراک کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ ہیں۔ایک غیر سرکاری ادارے کے سروے کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی بڑی تعداد کو ایذا رسانی کا مفہوم ہی واضح ہی نہ تھا۔اس مغالطے کے علاوہ جو قابلِ ذکر بات دیکھنے میں آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے ذمہ دار تعلیم یافتہ طبقہ میں کافی افراد اور بہت بڑی تعداد میں دیہی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ٹارچر قانون کے نفاذ کے لیے ناگزیر ہے۔ اسیاندازِ فکر کی وجہ سے ہم اپنے حقوق کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارے سادہ لوح عوام آج بھی ایسے واقعات پر سیاسی دباؤ، خوف، قانون کی کمزوری اور عدم شعور کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتے اور ہر سال پولیس ٹارچر سے اوسطاً سو سے ذیادہ اموات واقع ہوتی ہیں(ری پریو انٹرنیشنل کی رپورٹ)۔
انسدادی قوانین اور عمومی شعور کی غیر موجودگی میں ٹارچر سرکاری اداروں کے ہاتھ ایک ایک ایسا آلہ ہےجسے ناصرف بے لگام ریاستی ادارے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، بلکہ اس سے انصاف کی فراہمی کے امکانات بھی معدوم ہو جاتے ہیں۔ٹارچر دنیا بھر میں آمرانہ حکومتوں کا سکہ بندہتھیار رہا ہے۔ اس سے سیاسی مخالفین کو دبانے کے علاوہ کمزور طبقات کو اس قدر بے بس کر دیا جاتا ہے کہ معاشرتی سطح پر ظلم عام ہوجاتاہے۔آج ہمارے معاشرے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پولیس اور ظلم و ذیادتی کا ذکر لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔
جہاں عوام میں اپنے حقوق کا شعور ضروری ہے، وہاں یہ بھی ضروری ہے، بلکہ بنیادی ضرورت ہے کہ ریاستی ادارے ٹارچر کے انسدادکے لیےمناسب قانون سازی کریں اور متاثرین کے لیے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔اربابِ اختیار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پولیس کی افرادی قوت میں بہتر ٹریننگ اور تشویق (Motivation) کے ذریعے یہ شعور پیدا کرے کہ مہذب دنیا سے کیا گیا ایذا رسانی کو ختم کرنے کا وعدہ پورا کیے بغیر ہم اپنے معاشرے کو جرائم اور عدم برداشت کے کلچر سے پاک نہیں کر سکتے۔ پولیس ٹریننگ سنٹروں میں پڑھے لکھے باشعور انسٹرکٹروں اور تھانوں میں غیر سیاسی پس منظر کے حامل قابل افسران کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ان مسائل پر خصوصی توجہ دینا بھی پولیس افسران کی ذمہ داری ہے، جن کی وجہ سے پولیس کی نفری میں بددلی پھیلتی ہے اور وہ اپنے افسرانِ بالا کی بے توجہی کا غصہ عوام پر نکالتے ہیں۔ جب گاردوں کی سپاہ بڑی تعداد میں وی.آئی.پی ڈیوٹیوں پر تعینات ہوگی تو ‘عوامی’ ڈیوٹیوں پر مامور شب زندہ دار سپاہیوں سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہےکہ وہ کسی ملزم یا بے قصور کی ڈنڈے، رولر، منجی یا ڈولی کے ذریعے ‘تواضع’ کر کے اپنی تھکن نہیں اتارے گا؟؟
پولیس اہلکاروں کے ساتھ مقامی سیاستدانوں، وڈیروں اور بااثر افراد کے اتحاد نے تھانہ کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سی.ایس.پی افسران بھی تھانہ کی سطح پر اصلاحات نافذ کرنے کے لیے درکار اضافی محنت اور تھانیداروں اور عوام سے نسبتاً قریبی اور براہِ راست تعلق کو اپنی افسری کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے محکمہ جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل تھانیداروں (جن میں ڈی.ایس.پی صاحبان بھی شامل ہیں) کے رحم و کرم پر ہے۔پنجاب ہائی وے پیٹرول جیسے نسبتاً بہتر ڈسپلن اور تعلیم یافتہ نوجوان نفری کے حامل ادارے میں بھی ان تھانیدار صاحبان کے آنے سے تھانہ کلچر فروغ پا رہا ہے۔
عوام میں اپنے معزز شہری ہونےکا احساس اجاگر کرنا جہاں ‘رائے ساز’ حلقوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، وہاں سماجی و سیاسی شخصیات اور عدلیہ پر لازم ہے کہ سب کے یکساں حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ جہاں وہ کسی تھانیدار کی وردی میں چھپے فرعون کو بے نقاب کریں، وہاں ایک کم مراعات یافتہ مجبور کانسٹیبل کی وفاداری خرید کر اسے اپنے سیاسی رعب اور دبدبہ کا آلۂ کار بنانے والے سیاستدانوں اور وڈیروں کا اصلی چہرہ بھی عوام کو دکھائے۔ اس پر عدالتوں کہ ذمہ داری ہے کہ ان بے نقاب چہروں پر سزا کی مہر ثبت کر کے انہیں دوسروں کے لیے سبق بنا دے۔
گیارہ سال قبل پولیس مقابلے میں مارے جانے والے اشتہاری کا بیٹا اب چک جھمرہ کے ایک اسکول میں پڑھ رہا ہے اور مستقبل میں ایک معزز شہری بن کر اپنی غریب بیوہ ماں کا مان بڑھانا چاہتا ہے۔ لیکن یہ ہماری سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے ایک پرامن ماحول کو یقینی بنائیں ورنہ وہ اپنی بہن کے کان کی زخمی لو دیکھ دیکھ اس لمحے کی ذلت کا انتقام لینے کے بارے میں سوچتا رہے گا جب عوام کے خون پسینے کی محنت سے بُنی سرکاری وردی والے تھانیدار صاحب نے اس یتیم لڑکی کے کان سے جھمکے نوچ لیے تھے ۔ تھانیدار صاحب کے ان لفظوں کا زہر کب تک اس کی زندگی میں اترتا رہے گا کہ “یہ مجرم کا بیٹا ہے، اسے جان سے مار دو اور اس سنپولیے کو سانپ نہ بننےدو…”
اِس نوعیت کے واقعات ہماری سماجی زندگی کا معمول ہیں اور دیہی علاقوں میں تو بقولِ غالب؛ ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے…پھر چند روز کے لیے میڈیا کے توسط سے عوام و خواص پولیس ٹارچر کے مسئلے پر شور و غوغا کرتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے کئی معاملات چند دن میں ہی اسے ہماری ترجیحات کی قطار سے پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ ایذا رسانی (ٹارچر) کا مسئلہ ہماری سماجی زندگی کے دیگر مسائل، جو کہ براہِ راست حکومتی اداروں سے منسلک ہیں میں سے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اور شومئی قسمت کہ جس قدر سنجیدہ مسئلہ ہے، اس سے ہمارے عوام اور متعلقہ ادارے اسی قدر بے خبر ہیں۔ ان اداروں میں پولیس، عدلیہ، صحافی اور سیاسی شخصیات شامل ہیں۔اس پر طرہ کہ اس حوالے سے ہمارا بنیادی اندازِ فکر بھی ازحد ناپختہ ہے۔
۲۰۱۰ء میں پاکستان نے ایذا رسانی کے خلاف اقوامِ متحدہ کے کنونشن (یونائیٹڈ نیشنز کنونشن اگینسٹ ٹارچر) میں دستخط کر کے مہذب دنیا سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم اپنے ملک کے حکومتی اداروں کی طرف سے ایذا رسانی کو ختم کرنے کی حتی الوسع کوشش کریں گے اور اس ضمن میں قانون سازی کی جائے گی۔لیکن اس پر ابھی تک کوئی مناسب قانون سازی نہیں ہو سکی، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایذا رسانی کے مسئلے پر کوئی واضح قانون سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کی چند شقیں تشدد سے متعلق ضرور ہیں، لیکن وہ ایذا رسانی کی تکنیکی تعریف پر پورا نہیں اترتیں۔ اسی طرح قانونِ شہادت بھی ایذا رسانی کے محض ایک ہی پہلو کو مخاطب کرتا ہے۔ جس کے مطابق اقبالِ جرم کے لیے پولیس کے تشدد کی ممانعت ہے۔ درحقیقت ایذا رسانی کی تعریف، اس کے مظاہر اور ریاستی اداروں پر اس کے اطلاق کی کئی صورتیں ہیں، جوکہ اقوامِ متحدہ کے کنونشن پر دستخط کرنے کی صورت میں لاگو ہوتی ہیں۔
عموماٹارچر کا مطلب ‘تشدد’ لیا جاتا ہے، جو کہ ایک مغالطہ ہے۔ تشدد دراصل انگریزی کی اصطلاح Violenceکے لیے مستعمل لفظ ہے، جو کسی بھی فرد یا گروہ کے رویے سے متعلق ہےجبکہ ٹارچر یا ایذا رسانی کی اصطلاح کسی بھی حکومتی ادارے کی طرف سے فرد یا افراد کو کسی بھی نوعیت کی ذہنی، نفسیاتی یا جسمانی اذیت پہنچانے (جس میں سماجی اہانت بھی شامل ہے) کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ریاستی اداروں میں مختلف سطحوں پرنااہلی اور بے حسی، اور عوام میں شعور کی کمیاس مسئلے کی سنگینی کے ادراک کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ ہیں۔ایک غیر سرکاری ادارے کے سروے کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی بڑی تعداد کو ایذا رسانی کا مفہوم ہی واضح ہی نہ تھا۔اس مغالطے کے علاوہ جو قابلِ ذکر بات دیکھنے میں آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے ذمہ دار تعلیم یافتہ طبقہ میں کافی افراد اور بہت بڑی تعداد میں دیہی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ٹارچر قانون کے نفاذ کے لیے ناگزیر ہے۔ اسیاندازِ فکر کی وجہ سے ہم اپنے حقوق کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارے سادہ لوح عوام آج بھی ایسے واقعات پر سیاسی دباؤ، خوف، قانون کی کمزوری اور عدم شعور کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتے اور ہر سال پولیس ٹارچر سے اوسطاً سو سے ذیادہ اموات واقع ہوتی ہیں(ری پریو انٹرنیشنل کی رپورٹ)۔
انسدادی قوانین اور عمومی شعور کی غیر موجودگی میں ٹارچر سرکاری اداروں کے ہاتھ ایک ایک ایسا آلہ ہےجسے ناصرف بے لگام ریاستی ادارے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، بلکہ اس سے انصاف کی فراہمی کے امکانات بھی معدوم ہو جاتے ہیں۔ٹارچر دنیا بھر میں آمرانہ حکومتوں کا سکہ بندہتھیار رہا ہے۔ اس سے سیاسی مخالفین کو دبانے کے علاوہ کمزور طبقات کو اس قدر بے بس کر دیا جاتا ہے کہ معاشرتی سطح پر ظلم عام ہوجاتاہے۔آج ہمارے معاشرے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پولیس اور ظلم و ذیادتی کا ذکر لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔
جہاں عوام میں اپنے حقوق کا شعور ضروری ہے، وہاں یہ بھی ضروری ہے، بلکہ بنیادی ضرورت ہے کہ ریاستی ادارے ٹارچر کے انسدادکے لیےمناسب قانون سازی کریں اور متاثرین کے لیے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔اربابِ اختیار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پولیس کی افرادی قوت میں بہتر ٹریننگ اور تشویق (Motivation) کے ذریعے یہ شعور پیدا کرے کہ مہذب دنیا سے کیا گیا ایذا رسانی کو ختم کرنے کا وعدہ پورا کیے بغیر ہم اپنے معاشرے کو جرائم اور عدم برداشت کے کلچر سے پاک نہیں کر سکتے۔ پولیس ٹریننگ سنٹروں میں پڑھے لکھے باشعور انسٹرکٹروں اور تھانوں میں غیر سیاسی پس منظر کے حامل قابل افسران کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ان مسائل پر خصوصی توجہ دینا بھی پولیس افسران کی ذمہ داری ہے، جن کی وجہ سے پولیس کی نفری میں بددلی پھیلتی ہے اور وہ اپنے افسرانِ بالا کی بے توجہی کا غصہ عوام پر نکالتے ہیں۔ جب گاردوں کی سپاہ بڑی تعداد میں وی.آئی.پی ڈیوٹیوں پر تعینات ہوگی تو ‘عوامی’ ڈیوٹیوں پر مامور شب زندہ دار سپاہیوں سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہےکہ وہ کسی ملزم یا بے قصور کی ڈنڈے، رولر، منجی یا ڈولی کے ذریعے ‘تواضع’ کر کے اپنی تھکن نہیں اتارے گا؟؟
پولیس اہلکاروں کے ساتھ مقامی سیاستدانوں، وڈیروں اور بااثر افراد کے اتحاد نے تھانہ کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سی.ایس.پی افسران بھی تھانہ کی سطح پر اصلاحات نافذ کرنے کے لیے درکار اضافی محنت اور تھانیداروں اور عوام سے نسبتاً قریبی اور براہِ راست تعلق کو اپنی افسری کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے محکمہ جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل تھانیداروں (جن میں ڈی.ایس.پی صاحبان بھی شامل ہیں) کے رحم و کرم پر ہے۔پنجاب ہائی وے پیٹرول جیسے نسبتاً بہتر ڈسپلن اور تعلیم یافتہ نوجوان نفری کے حامل ادارے میں بھی ان تھانیدار صاحبان کے آنے سے تھانہ کلچر فروغ پا رہا ہے۔
عوام میں اپنے معزز شہری ہونےکا احساس اجاگر کرنا جہاں ‘رائے ساز’ حلقوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، وہاں سماجی و سیاسی شخصیات اور عدلیہ پر لازم ہے کہ سب کے یکساں حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ جہاں وہ کسی تھانیدار کی وردی میں چھپے فرعون کو بے نقاب کریں، وہاں ایک کم مراعات یافتہ مجبور کانسٹیبل کی وفاداری خرید کر اسے اپنے سیاسی رعب اور دبدبہ کا آلۂ کار بنانے والے سیاستدانوں اور وڈیروں کا اصلی چہرہ بھی عوام کو دکھائے۔ اس پر عدالتوں کہ ذمہ داری ہے کہ ان بے نقاب چہروں پر سزا کی مہر ثبت کر کے انہیں دوسروں کے لیے سبق بنا دے۔
گیارہ سال قبل پولیس مقابلے میں مارے جانے والے اشتہاری کا بیٹا اب چک جھمرہ کے ایک اسکول میں پڑھ رہا ہے اور مستقبل میں ایک معزز شہری بن کر اپنی غریب بیوہ ماں کا مان بڑھانا چاہتا ہے۔ لیکن یہ ہماری سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے ایک پرامن ماحول کو یقینی بنائیں ورنہ وہ اپنی بہن کے کان کی زخمی لو دیکھ دیکھ اس لمحے کی ذلت کا انتقام لینے کے بارے میں سوچتا رہے گا جب عوام کے خون پسینے کی محنت سے بُنی سرکاری وردی والے تھانیدار صاحب نے اس یتیم لڑکی کے کان سے جھمکے نوچ لیے تھے ۔ تھانیدار صاحب کے ان لفظوں کا زہر کب تک اس کی زندگی میں اترتا رہے گا کہ “یہ مجرم کا بیٹا ہے، اسے جان سے مار دو اور اس سنپولیے کو سانپ نہ بننےدو…”
One Response
very important issue.. and very useful analysis.
Thanks