Laaltain

دھابے جی آئے تو بتانا

10 ستمبر، 2015
مہاتما بدھ نے کہا تھا کہ لوگ بچوں کی طرح ہوتے ہیں، یہ قصے کہانیوں، واقعات اور داستانوں میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں اور انہیں سننے اور دیکھنے کی تمنا بھی رکھتے ہیں۔ لفظ ڈرامہ یونان سے نکل کر جہاں بھی گیا اس کا ایک ہی مطلب لیا گیا کہ افعال و اعمال کی نقالی سے کئی کہانیاں، کئی قصے، کئی واقعات اور کئی داستانوں کو تمثیل کی شکل میں پیش کرنا یا کرکے دکھانا۔ یہ ساٹھ اور ستر کی دہائی کی بات ہےابھی پاکستان میں ٹی وی ایک بہت ہی محدود طبقے کی دسترس میں تھا، لہٰذا خبروں سے لےکر ڈراموں تک کو سننے کا واحد ذریعہ ریڈیوتھا۔ ا ُس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے ڈرامے بہت مقبول ہوا کرتے تھے۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے سربراہ کی حیثیت سے سید ذوالفقارعلی بخاری نے ریڈیو پاکستان کراچی کے افتتاح کے فوراً بعد ہی ڈرامہ کلچر پیدا کرنے کے لیے اپنے تھیٹر کے تجربے کو کام میں لانا شروع کردیا۔ خوش قسمتی سے کراچی میں عبدالرحمن کابلی، مغل بشیر، امیر خان، عرش منیر، فاطمہ خانم اور عبدالماجد جیسے صداکاروں کی ٹیم موجود تھی جس کی وجہ سے سید ذوالفقار علی بخاری کے خواب کو تعبیر ملی۔
8 ستمبر 1998ء کو ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کی مشہور صداکارہ اور اداکارہ عرش منیر کراچی میں وفات پاگیں۔ اپنی وفات سے پہلے عرش منیر نےریڈیو پاکستان میں لاتعداد ڈراموں میں صداکاری کی تھی
صداکاروں کی ٹیم کی ایک رکن عرش منیر کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ ان کے شوہر شوکت تھانوی اردو کے معروف ادیب تھے اور آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ تھے۔ انہی کی کہنے پر عرش منیر نے آل انڈیا ریڈیو سے صداکاری کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئیں اور ریڈیو پاکستان سے بطور اسٹاف آرٹسٹ وابستہ ہوگئیں۔ ٹیلی وژن کے آغاز کے بعد انہوں نے متعدد ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ 1983ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔8 ستمبر 1998ء کو ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کی مشہور صداکارہ اور اداکارہ عرش منیر کراچی میں وفات پاگیں۔ اپنی وفات سے پہلے عرش منیر نےریڈیو پاکستان میں لاتعداد ڈراموں میں صداکاری کی تھی۔ ان کا ایک ڈرامہ “دھابے جی آئے تو بتانا” مجھے آج بھی یاد ہے اور اس یاد میں میں قارئین کو بھی شامل کرنا چاہتاہوں۔ اُس وقت کراچی سے حیدرآباد تک صرف نیشنل ہائی وے کے ذریعے ہی سفر ہوتا تھا۔ اُس وقت سپر ہائی وے کا وجود نہیں تھا۔
دھابے جی آئے تو بتانا
کنڈکٹر: حیدرآباد، حیدرآباد، جلدی کریں ، اماں جلدی چڑھو۔
ڈرائیور : چلو بھائی اوپر آجائیں اور سیٹوں پر بیٹھ جائیں۔
(بس اسٹارٹ ہوکر چلنے لگی ، لانڈھی آنے سے پہلے پہلے کنڈکٹرنے سب سے ٹکٹ کےپیسے وصول کرلیے، جس مسافر نے جہاں تک جانا تھا اُس نے اُس کے مطابق کرایہ ادا کردیا۔ اس بس میں عرش منیر بھی سوار ہیں جو ایک بوڑھی خاتون ہیں۔ لانڈھی گذرنے کے بعد)
عرش منیر: بھیا کنڈکٹر “دھابے جی آئے تو بتانا”۔
کنڈکٹر: جی اماں ضرور
( کنڈکٹر لانڈھی سے سوار ہونے والے مسافروں سے ٹکٹ کے پیسے لے رہا تھا کہ بڑھیا دوبارہ بولی)
عرش منیر: بھیا کنڈکٹر “دھابے جی آئے تو بتانا”۔
کنڈکٹر: جی اماں ضروربتادوں گا۔
عرش منیر: بھیا کنڈکٹر بھول مت جانا “دھابے جی آئے تو بتانا”۔
کنڈکٹر: اچھا اماں ضروربتادوں گا اب آپ خاموش بیٹھیں۔
عرش منیر: ائے لو میں نے کیا برا کہہ دیا بس یہ ہی تو کہا تھا کہ بھیا کنڈکٹر بھول مت جانا “دھابے جی آئے تو بتانا”، اس پر اتنا ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے کہ کہہ رہے ہو کہ میں خاموش بیٹھوں، کیا دھابے جی کا پوچھنا کوئی جرم ہے۔
کنڈکٹر: کتنی مرتبہ پوچھو گی، جب دھابے جی آئے گا تو بتادوں گا، اب نہیں پوچھنا!!
پہلا بزرگ مسافر( کنڈکٹر سے): اگر پوچھ لیا تو تمارا کیا نقصان ہوگیا ۔
دوسرا نوجوان مسافر( بزرگ مسافر سے): چاچا ایک مرتبہ، دو مرتبہ کتنی مرتبہ پوچھیں گی یہ بڑی بی، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ نقصان کیا ہوا۔
تیسرا مسافر (دوسرےمسافر سے): تو آپ کو کیا تکلیف ہوگئی؟ آپ سے تو نہیں پوچھا اور تھوڑی بات کرنے کی تمیز سیکھو اماں یا خالا کی جگہ بڑی بی کہہ رہے ہو۔
کنڈکٹر( تیسرے مسافر سے): تو پھر اماں کو جب کہہ دیا کہ بتادوں گا تو بار بار پوچھنا ضروری ہے؟
عرش منیر: ارے بھیا کنڈکٹر تم بھول مت جاو اس لیے بار بارتم کو یاد دلایا ہے کہ “دھابے جی آئے تو بتانا”۔
پہلی خاتون مسافر: اماں خدا کےلیے اب خاموش ہوجاوُ جب دھابے جی آئے گا تو کنڈکٹر بتادے گا۔
دوسری خاتون (پہلی مسافر خاتون سے): ارے بہن تم کو کیا مصیبت آگئی اماں جی کے دھابے جی کا پوچھنے سے۔
ڈرائیور : اُو بہنو! خدا کے واسطے خاموش ہوجاو، کیوں آپس میں لڑرہی ہو؟
)اب پوری بس کی صورتحال یہ تھی کہ مردوں کے حصے میں تمام مردآپس میں لڑرہے تھے جن میں کنڈکٹر بھی شامل تھاجبکہ عورتوں کے حصے میں تمام عورتیں آپس میں لڑرہی تھیں ان میں بس کا ڈرائیور بھی شامل تھا غرضیکہ پوری بس لڑرہی تھی۔ عرش منیر کی حمایت اور مخالفت میں، سب چیخ وپکار کررہے تھے مگر اب عرش منیر خاموش تھیں۔ اس چیخ و پکار میں ڈرائیور نے دھیان ہی نہیں دیا اور بس دھابے جی سے کوئی ایک میل آگے چلی گئی تو ڈرائیورکو ہوش آیا ، اُس نے کنڈکٹر کو اپنے پاس بلایا اور بتایا کہ دھابے جی تو پیچھے رہ گیا، یہ سنتے ہی کنڈکٹر نے ڈرائیورکوکہا کہ بس کو واپس لے ، ڈرائیورنے جلدی سے بس کو واپس لیا اور دھابے جی پر جاکر بس کو روک لیا۔( اب کنڈکٹر نے عرش منیر کو مخاطب کیا اور کہا کہ: اماں اتروُ “دھابے جی آگیا”۔
عرش منیر: بھیا کنڈکٹر میں نے تم کو حیدرآباد کا کرایہ دیا ہے تو دھابے جی پر کیوں اتروں؟
کنڈکٹر( غصے میں): تو پھر بار بار کیوں پوچھ رہی تھیں کہ “دھابے جی آئے تو بتانا”۔
عرش منیر: بھیا کنڈکٹر آج صبح سے میری طبیعت خراب تھی تو میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گئی تھی، اُنہیں اپنی بیماری کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ میں حیدرآباد جارہی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے دوا والی گولیاں دیں اور کہا کہ ایک ابھی کھالیں اور حیدرآباد جاتے ہوئے جب دھابے جی آئے تو دوسری گولی دھابے جی پر کھالیں، اس لیے ہی میں تم سے باربار پوچھ رہی تھی کہ”دھابے جی آئے تو بتانا”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *