دو کمیشن اور دو رپورٹیں اور تحریک انصاف کا دہرا طرزعمل۔۔۔ تحریک انصاف جمہوریت، منصفانہ انتخابات اور انصاف کی فراہمی پر کتنا یقین رکھتی ہے یہ جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے ۔ تحریک انصاف جس کی تمام تر سیاست انتخابی دھاندلی کا بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے تک محدود رہی تھی بدترین انتخابی ،سیاسی اور قانونی شکست سے دوچار ہونے کے بعد بھی بظاہر اپنا طرزعمل تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ تحریک انصاف کے حقیقی خیرخواہوں کو اب اپنی جماعت سے یہ پوچھنا چاہیئے کہ وہ تمام ثبوت کہاں ہیں جن کی بنیاد پر 2013 کے انتخابات میں منظم دھاندلی کا سازشی مفروضہ تیار کیا گیا تھا؟ اب عمران خان کے متوالوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ ان کی جماعت نے نجم سیٹھی، خلیل الرحمن رمدے، جسٹس افتخار چوہدری اور فخرالدین جی ابراہیم پر جو الزامات لگائے تھے ان کی بنیاد کیا تھی۔ یہ سوال اب پی ٹی آئی کے ہر ہمدرد کے ذہن میں گونجنا چاہیئے کہ ان کے ساتھ ہونے والے دھوکے کا ذمہ دار کون ہے؟
2013 میں ہونے والے جماعتی انتخاابت میں ہونے والی دھاندلی کے ثبوتوں کی موجودگی کے باوجود متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ جسٹس وجیہہ الدین کی سربراہی میں کام کرنے والے تحقیقاتی کمیشن کی واضح سفارشات بھی اس جماعت کو یرغمال بنانے والوں کا بال تک بیکا نہیں کر سکیں۔ وہی لوگ تحریک انصاف کے مختلف عہدوں پر بڑے ڈھٹائی سے براجمان ہیں جن کے خلاف کمیشن نے کارروائی کرنے کی سفارش کی تھی۔ ایک کمیشن جو تحریک انصاف کا گند صاف کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا نا تو اس کی رپورٹ منظر عام پر آئی اور نہ ہی ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہوئی۔دوسری جانب عام انتخابات 2013 کے نتائج قبول کرنے کی بجائے سنی سنائی باتوں اور سازشی مفروضوں کو بنیاد بنا کر جس منظم دھاندلی کا بارہا تذکرہ کیا جاتا رہا ہے اس سے متعلق کمیشن کو نہ تو کافی شواہد مہیا کیے گئے اور نہ ہی منظم دھاندلی کے الزامات ثابت کتنے کی کوئی شنجیدہ کوشش کی گئی۔
ان دونوں کمیشنوں اور ان پر تحریک انصاف کے طرزعمل سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ یہ جماعت بھی دیگر جماعتوں کی طرح محض دوسروں کی خامیوں کی نشاندہی کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف نے جسٹس وجیہہ الدین کمیشن کی رپورٹ نظرانداز کرکے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ خؤداحتسابی کو تیار نہیں۔ وجیہہ الدین کمیشن کے واضح احکامات کے باوجود تحریک انصاف میں جہانگیرترین، پرویز خٹک اور دیگر کی موجودگی سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ تحریک انصاف کا مطمع نظر بھی انصاف نہیں بلکہ اقتدار کا حصول ہے۔
تحریک انصاف کی سیاست ان دو تحقیقاتی کمیشنوں کے ہاتھوں دفن ہو چکی ہے۔ دونوں کمیشن اور ان کی رپورٹیں دو مواقع تھے ۔ یہ اپنی تطہیر اور اپنی اصلاح کے مواقع تھے جنہیں ضائع کردیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اصلاح کی بجائے اپنی خامیاں چھپانے اور دوسروں کی پگڑیااچھالنے کی روش اپنائی ہے جو اس جماعت کے مستقبل کے لیے بے حد خطرناک ہے۔ تحریک انصاف کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ اس کے مخلص اور وفادار ساتھی ہی کیوں اس طرز سیاست پر اعتراض کررہے ہیں۔ درحقیقیت یہ جماعت اب مکمل طور پر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے تسلط میں ہے۔ اب یہ جماعت عمران خان ، وجیہہ الدین یا نوجوانوں کی جماعت نہیں رہی بلکہ یہ لوٹوں، سیاسی جغادریوں اوراقتدار کے متوالوں کی جماعت بن چکی ہے جس کی نہ تو کوئی سمت ہے نہ نظریہ۔ جو جماعت اپنا قبلہ درست نہیں کرسکتی وہ اس ملک کا مستقبل کیسے بدل سکتی ہے؟ جو رہنما اپنی جماعت کے انتخابات کے دوران بے قاعدگیوں اور دھاندلی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکا وہ کس طرح کسی اور جماعت پر دھاندلی کے الزامات عائد کرکے انصاف کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
کارٹون بشکریہ صابر نذر