سینیٹ انتخابات اور کرکٹ ورلڈ کپ پاکستانی قوم کے لیے اس وقت اہم ترین موضوعات ہیں۔ سینیٹ انتخابات اس لیے پوری قوم کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہیں کیوں کہ ان انتخابات میں صوبائی اراکین اسمبلی کی بولیاں لگیں کہیں چار سے پانچ کروڑ کی بازگشت سنائی دی تو کہیں پچیس کروڑ سے زائد کے راگ سننے کو ملے۔ پاکستانی قوم اپنی بے بسی پہ افسوس کرنے کے بجائے اس تمام صورت حال سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ نہ تو اقبال کے شاہین اس خطرناک صورت حال کا ادراک کر رہے ہیں کہ ان کے نمائندے بازار میں بکنے کو تیار بیٹھے ہیں نہ ہی قائد کی فکر کے پاسبان اپنی سوچ کے دروازے اس رخ پہ کھولنے کو تیار ہیں کہ جن لوگوں پہ عوام نے اعتماد کیا ان کا مرکز و محور پیسہ بن چکا ہے۔ خواب غفلت میں گم قوم کے لیے بس یہ بات باعث دلچسپی ہے کہ ذرا دیکھیں کہ کس کانرخ زیادہ لگتا ہے اور کس کا نام میڈیا میں مرچ مسالے کے ساتھ آتا ہے۔ یقیناًہم پہ ویسے ہی لوگ مسلط کیے جاتے ہیں جیسے ہم چاہتے ہیں۔ جو آج بک رہے ہیں کل پھر پاکدامنی کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے سامنے ہوں گے اور ہم سب کچھ نظر انداز کر کے انہیں پھر مسندِ اقتدار پہ بٹھا دیں گے اور یوںسانپ سیڑھی کا یہ کھیل جاری رہے گا۔ بکنے والے اور خریدنے والے دونوں ہی بازارِ سیاست میں ایوان میں رہنے کی باقاعدہ تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں اور کروڑوں روپے قیمت لگنے پر بھی ان کے چہروں پہ معصومیت یوں عیاں ہوتی ہے جیسے کہہ رہے ہوں؛
ہنگامہ ہے کیوں برپاتھوڑی سی جو پی لی ہے
دوسرا اہم ترین موضوع کرکٹ ورلڈ کپ پاکستانی قوم کے لیے وبالِ جاں بنا ہوا ہے لوگ اتنی توجہ سے کام کاج نہیں کر رہے جتنی توجہ سے میچ دیکھ رہے ہیں اور پورا دن میچ دیکھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ 4لاکھ روپے سے زائدتنخواہ وصول کرنے والے کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہو کر سینہ تان کے پویلین لوٹ رہے ہیں۔ زمبابوے اور متحدہ عرب امارات جیسی ٹیموں کے خلاف فتح پر بھی جشن منائے جا رہے ہیں جنہوں نے کرکٹ کھیلنا ہم سے سیکھا۔ بھولی قوم لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے کھلاڑیوں کویہ کہہ کر کہ ” ہار جیت کھیل کا حصہ ہے” انہیں پھرسر آنکھوں پہ بٹھا لیتے ہیں۔سوئی ہوئی قوم اہم مقابلوں میں ناکامی کے بعد یہ سوال تک نہیں کرتی کہ کیا وہ جم کرکھیلے بھی ہیں یا صرف رونمائی کے لیے گئے تھے؟ سونے پہ سہاگہ یہ کہ کروڑوں روپے خرچ کر کے جانے والی ٹیم کے کرتا دھرتا جوئے خانوں میں ملتے ہیں اور تحقیقات کے بعدبھی انہیں معصومیت کی سند دے دی جاتی ہے۔ دو بابو مل کر معافی تلافی کی درمیانی راہ نکال لیتے ہیں یا پھر یہ راہ انہیں کوئی” چڑیا” سُجھا دیتی ہے۔
ہنگامہ ہے کیوں برپاتھوڑی سی جو پی لی ہے
دوسرا اہم ترین موضوع کرکٹ ورلڈ کپ پاکستانی قوم کے لیے وبالِ جاں بنا ہوا ہے لوگ اتنی توجہ سے کام کاج نہیں کر رہے جتنی توجہ سے میچ دیکھ رہے ہیں اور پورا دن میچ دیکھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ 4لاکھ روپے سے زائدتنخواہ وصول کرنے والے کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہو کر سینہ تان کے پویلین لوٹ رہے ہیں۔ زمبابوے اور متحدہ عرب امارات جیسی ٹیموں کے خلاف فتح پر بھی جشن منائے جا رہے ہیں جنہوں نے کرکٹ کھیلنا ہم سے سیکھا۔ بھولی قوم لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے کھلاڑیوں کویہ کہہ کر کہ ” ہار جیت کھیل کا حصہ ہے” انہیں پھرسر آنکھوں پہ بٹھا لیتے ہیں۔سوئی ہوئی قوم اہم مقابلوں میں ناکامی کے بعد یہ سوال تک نہیں کرتی کہ کیا وہ جم کرکھیلے بھی ہیں یا صرف رونمائی کے لیے گئے تھے؟ سونے پہ سہاگہ یہ کہ کروڑوں روپے خرچ کر کے جانے والی ٹیم کے کرتا دھرتا جوئے خانوں میں ملتے ہیں اور تحقیقات کے بعدبھی انہیں معصومیت کی سند دے دی جاتی ہے۔ دو بابو مل کر معافی تلافی کی درمیانی راہ نکال لیتے ہیں یا پھر یہ راہ انہیں کوئی” چڑیا” سُجھا دیتی ہے۔
سینیٹ انتخابات اس لیے پوری قوم کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہیں کیوں کہ ان انتخابات میں صوبائی اراکین اسمبلی کی بولیاں لگیں کہیں چار سے پانچ کروڑ کی بازگشت سنائی دی تو کہیں پچیس کروڑ سے زائد کے راگ سننے کو ملے۔
سیاست و کھیل اس لیے موضوع بحث بن گئے کہ پاکستانی قوم ان عام موضوعات میں الجھ کر ایسی خبروں کو نظر انداز کر جاتی ہے جو قوموں کی تاریخ بدل دیتی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاست میں کرپشن کے گند اور کھیل میں نا اہلی کے ریکارڈ ز کی وجہ سے اس ملک کی قسمت بدلنے والی خبریں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ ایسے پس منظر میں چلے جانے والے حقائق شاید بھولی عوام کے لیے معنی بھی نہیں رکھتے لیکن شاید وہ یہ بھی نہیں جاننا چاہتے کہ ان کے ٹیکسوں کا پیسہ اس ملک کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی بجائے کہاں خرچ ہو رہا ہے۔
جو لوگ اخبارات کا مطالعہ باریک بینی و عرق ریزی سے کرتے ہیں ان کی نظروں سے شاید ایک خبر گزری ہو گی جس میں ایک سابقہ سرکاری ملازم کی بعد از ریٹائرمنٹ مراعات کا تذکرہ تھا۔ در اصل یہ ایک رپورٹ تھی جو ایوان بالا میں پیش کی گئی تھی۔”یہ ایک دوکالمی خبر تھی” جو اخبارات کا پیٹ بھرنے کے لیے یا پھر خانہ پری کے لیے یہ اخبارات کی زینت بنی ورنہ اگر عوام کی آگاہی کے لیے ہوتی تو نمایاں اشاعت پاتی۔ رپورٹ کے مطابق ان صاحب کو بعد از ریٹائرمنٹ ان کی تنخواہ کا 85فیصد بطور پنشن مل رہا ہے۔ صرف یہی شخصیت نہیں بلکہ 1985 کے بعد اسی عہدے سے سبکدوش ہونے والی کم و بیش بارہ شخصیات یہی مراعات لے رہی ہیں اور یہ عہدہ اعلیٰ عدلیہ کا اعلیٰ ترین عہدہ ہے۔ دو ملازمین پنشن کے علاوہ ہیں جن کے اخراجات حکومت وقت کے ذمے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں تین ہزار ٹیلی فون کالز(لوکل) مفت استعمال کرنے کا حق ہے۔ دو ہزار یونٹ بجلی بھی مراعات و سہولیات کا حصہ ہے۔ سرکاری پانی کا استعمال مکمل طور پہ مفت ہےاور 300 لیٹر پٹرول بھی مفت ہے۔ ایوان بالا میں یہ بتایا گیا کہ 30جنوری 2014 تک تقریباً4689لیٹر پٹرول بعد از ریٹائرمنٹ استعمال کیا جا چکا ہے جب کہ ایک بلٹ پروف گاڑی کی مرمت و بحالی پہ آنے والا 33,75,029روپے کا خرچ بھی حکومت برداشت کر چکی ہے۔
یہ سب تحریر کرنے کا مقصد اس ملک کے نظام پہ بحث کرنا ہے جس کے ذمے 65ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضے ہیں۔ کسی کی ذات پہ تنقید ہرگز مقصد نہیں ہے۔ ضرب تو اس بوسیدہ نظام پہ لگانی ہے۔ سوئی ہوئی قوم شاید یہ نہیں جانتی کہ جس بجلی کے نہ ہونے کا بل وہ ہر مہینے باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں وہ کسی بنگلے ، حجرے یا محل پہ مراعات کی صورت میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ سادہ لوح عوام شاید یہ نہیں جانتی کہ جس پٹرول کے حصول کے لیے وہ قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اور جسے سستا کر کے حکومت ان پہ احسان جتاتی ہے وہی پٹرول اشرافیہ کو مفت دستیاب ہے۔ ایک عام پاکستانی کا ٹیلی فون کنکشن صرف2,010روپے کے واجبات ادا نہ کرنےپہ کٹ جاتا ہے( باوجود بل نہ ملنے اور مہینوں فون بند رہنے پہ بھی)۔ لیکن بعض مراعات یافتہ افراد کو ہزاروں مفت کالز کی سہولت دے دی جاتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ حکومتِ وقت یا ادارے ان مفت کالز، مفت پٹرول، مفت گاڑیوں، مفت ملازمین،کا خرچہ کہاں سے پورا کرتی ہے ؟ عوام سے۔۔۔ عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد کے۔۔
کتنے سرکاری افسران سبکدوشی کے بعد مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں؟ کتنے لوگ گھروں میں بیٹھ کے عوام کے ٹیکس کھا رہے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو پٹرول و گیس کے لیے رقم خرچ کرنے کےجھنجھٹ سے آزاد ہیں؟ کتنے ایسے ریٹائرڈ افسران ہیں جو بجلی، گیس، فون کی سہولیات مالِ مفت سمجھ کے دلِ بے رحم کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں؟ لیکن چھوڑیے ان تمام سوالات کو ذرا دیکھتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات کا زیادہ سے زیادہ ریٹ کہاں تک گیا اور کرکٹ ورلڈ کپ میں ہمارے کھلاڑی کیسے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہیں کیوں کہ اہم موضوعات تو بس یہی ہیں جن کو میڈیا بھی خوب کوریج دے رہا ہے۔ باقی کی تمام بحث تو صرف ایک ” دوکالمی خبر ” ہی ہے اور یہ دو کالمی خبریں تو ایسی ہی ہوتی ہیں کہ ایک نگاہ ڈال لی جائےاوربس۔
جو لوگ اخبارات کا مطالعہ باریک بینی و عرق ریزی سے کرتے ہیں ان کی نظروں سے شاید ایک خبر گزری ہو گی جس میں ایک سابقہ سرکاری ملازم کی بعد از ریٹائرمنٹ مراعات کا تذکرہ تھا۔ در اصل یہ ایک رپورٹ تھی جو ایوان بالا میں پیش کی گئی تھی۔”یہ ایک دوکالمی خبر تھی” جو اخبارات کا پیٹ بھرنے کے لیے یا پھر خانہ پری کے لیے یہ اخبارات کی زینت بنی ورنہ اگر عوام کی آگاہی کے لیے ہوتی تو نمایاں اشاعت پاتی۔ رپورٹ کے مطابق ان صاحب کو بعد از ریٹائرمنٹ ان کی تنخواہ کا 85فیصد بطور پنشن مل رہا ہے۔ صرف یہی شخصیت نہیں بلکہ 1985 کے بعد اسی عہدے سے سبکدوش ہونے والی کم و بیش بارہ شخصیات یہی مراعات لے رہی ہیں اور یہ عہدہ اعلیٰ عدلیہ کا اعلیٰ ترین عہدہ ہے۔ دو ملازمین پنشن کے علاوہ ہیں جن کے اخراجات حکومت وقت کے ذمے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں تین ہزار ٹیلی فون کالز(لوکل) مفت استعمال کرنے کا حق ہے۔ دو ہزار یونٹ بجلی بھی مراعات و سہولیات کا حصہ ہے۔ سرکاری پانی کا استعمال مکمل طور پہ مفت ہےاور 300 لیٹر پٹرول بھی مفت ہے۔ ایوان بالا میں یہ بتایا گیا کہ 30جنوری 2014 تک تقریباً4689لیٹر پٹرول بعد از ریٹائرمنٹ استعمال کیا جا چکا ہے جب کہ ایک بلٹ پروف گاڑی کی مرمت و بحالی پہ آنے والا 33,75,029روپے کا خرچ بھی حکومت برداشت کر چکی ہے۔
یہ سب تحریر کرنے کا مقصد اس ملک کے نظام پہ بحث کرنا ہے جس کے ذمے 65ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضے ہیں۔ کسی کی ذات پہ تنقید ہرگز مقصد نہیں ہے۔ ضرب تو اس بوسیدہ نظام پہ لگانی ہے۔ سوئی ہوئی قوم شاید یہ نہیں جانتی کہ جس بجلی کے نہ ہونے کا بل وہ ہر مہینے باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں وہ کسی بنگلے ، حجرے یا محل پہ مراعات کی صورت میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ سادہ لوح عوام شاید یہ نہیں جانتی کہ جس پٹرول کے حصول کے لیے وہ قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اور جسے سستا کر کے حکومت ان پہ احسان جتاتی ہے وہی پٹرول اشرافیہ کو مفت دستیاب ہے۔ ایک عام پاکستانی کا ٹیلی فون کنکشن صرف2,010روپے کے واجبات ادا نہ کرنےپہ کٹ جاتا ہے( باوجود بل نہ ملنے اور مہینوں فون بند رہنے پہ بھی)۔ لیکن بعض مراعات یافتہ افراد کو ہزاروں مفت کالز کی سہولت دے دی جاتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ حکومتِ وقت یا ادارے ان مفت کالز، مفت پٹرول، مفت گاڑیوں، مفت ملازمین،کا خرچہ کہاں سے پورا کرتی ہے ؟ عوام سے۔۔۔ عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد کے۔۔
کتنے سرکاری افسران سبکدوشی کے بعد مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں؟ کتنے لوگ گھروں میں بیٹھ کے عوام کے ٹیکس کھا رہے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو پٹرول و گیس کے لیے رقم خرچ کرنے کےجھنجھٹ سے آزاد ہیں؟ کتنے ایسے ریٹائرڈ افسران ہیں جو بجلی، گیس، فون کی سہولیات مالِ مفت سمجھ کے دلِ بے رحم کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں؟ لیکن چھوڑیے ان تمام سوالات کو ذرا دیکھتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات کا زیادہ سے زیادہ ریٹ کہاں تک گیا اور کرکٹ ورلڈ کپ میں ہمارے کھلاڑی کیسے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہیں کیوں کہ اہم موضوعات تو بس یہی ہیں جن کو میڈیا بھی خوب کوریج دے رہا ہے۔ باقی کی تمام بحث تو صرف ایک ” دوکالمی خبر ” ہی ہے اور یہ دو کالمی خبریں تو ایسی ہی ہوتی ہیں کہ ایک نگاہ ڈال لی جائےاوربس۔
Leave a Reply