یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ الطاف حسین کراچی اور حیدر آباد میں سیاسی اثرو رسوخ رکھتے ہیں اور ایم کیو ایم اب پاکستان کے باقی حصوں میں بھی اپنا ووٹ بنک قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ آزاد کشمیر میں اس جماعت نے کچھ جگہ بنائی ہے۔ کچھ عرصے سے ایم کیو ایم اپنے اوپر لگی علاقائی یا لسانی جماعت کی چھاپ اتارنے کی کوشش میں ہے لیکن قیادت کی تقاریراور ان کالب و لہجہ متحدہ کے قومی جماعت بننے میں حائل ہو جاتا ہے۔
کچھ عرصے سے ایم کیو ایم اپنے اوپر لگی علاقائی یا لسانی جماعت کی چھاپ اتارنے کی کوشش میں ہے لیکن قیادت کی تقاریراور ان کالب و لہجہ متحدہ کے قومی جماعت بننے میں حائل ہو جاتا ہے۔
تحریک انصاف کی مرکزی رہنما شیریں مزاری اور دھرنوں میں شریک خواتین سے متعلق نازیبا زبان استعمال کرنے پر الطاف حسین کے معافی مانگ لینے سے سیاسی درجہ حرارت میں کسی حد تک کمی ضرور ہوئی ہے لیکن ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ حالات مکمل طور پر معمول پرآ گئے ہیں کیوں کہ جس طرح کی زبان دونوں طرف سے استعمال کی گئی ہےاس کا اثر ختم ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ ہمارے ہاں سیاستدان الزام تراشی یا لعن طعن کرتے وقت یہ بات ذہن سے بالکل نکال دیتے ہیں کہ انہیں سیاسی میز پر شاید کسی دن دوبارہ اپنے حریفوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کی بیان بازیوں کی وجہ سے ہی معاملات اس نہج پر پہنچتے ہیں کہ صرف ایک چنگاری آگ بھڑکا سکتی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے حالیہ بیانات پر پہلی معافی سیکیورٹی اداروں سے مانگی ہے اور کہا ہے کہ اگر ان کی کسی بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ معافی مانگتے ہیں۔ یہ معافی مانگنے کی نوبت بھی اسی لیے آئی کہ الطاف بھائی نے سیکیورٹی اداروں کی ” دل آزاری ” اس کے ردعمل کا اندازہ لگا لیا ہوگا۔ اس لیے انہوں نے بہتر سمجھا کہ معافی مانگ کر معاملات کو مزید الجھنے سے بچا لیا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پچھلے کچھ عرصے سے آمنے سامنے ہیں اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات نے اس محاذ آرائی میں جلتی پر تیل کا کام کیاہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس رپورٹ کی بنیاد پر ایم کیو ایم پر شدید تنقید کی ہے جس کے جواب میں ایم کیو ایم نے بھی تحریک انصاف کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ حیران کن طور پر ایم کیو ایم نے جس تلخی سے تحریک انصاف کے خلاف ردعمل ظاہر کیا ہے اس شدت سے جماعت اسلامی کے خلاف بات نہیں کی ۔ حالانکہ بعض معاملات میں جماعت اسلامی نے تحریک انصاف سے دو قدم آگے بڑھ کر ایم کیو ایم پرتنقید کی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پچھلے کچھ عرصے سے آمنے سامنے ہیں اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات نے اس محاذ آرائی میں جلتی پر تیل کا کام کیاہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس رپورٹ کی بنیاد پر ایم کیو ایم پر شدید تنقید کی ہے جس کے جواب میں ایم کیو ایم نے بھی تحریک انصاف کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ حیران کن طور پر ایم کیو ایم نے جس تلخی سے تحریک انصاف کے خلاف ردعمل ظاہر کیا ہے اس شدت سے جماعت اسلامی کے خلاف بات نہیں کی ۔ حالانکہ بعض معاملات میں جماعت اسلامی نے تحریک انصاف سے دو قدم آگے بڑھ کر ایم کیو ایم پرتنقید کی ہے۔
الطاف حسین ہوں یا عمران خان دونوں پاکستانی ہیں اور دونوں سے لوگ محبت کرتے ہیں لیکن اگر ہمارے رہنما بازاری زبان استعمال کرنے لگیں گے تو وہ دن دور نہیں جب وضع داری اور شرافت جیسی خوبیاں سیاست سے رخصت ہو جائیں گی۔
تنقیدی نشتر چلاتےہوئے ایم کیو ایم کے قائد پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کر گئے جن پہ پاکستان تحریک انصاف نے بطور سیاسی جماعت احتجاج کیا۔ سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر سوچا جائے تو وہ الفاظ کسی بھی طرح ایک سیاسی جماعت کے قائد کو زیب نہیں دیتے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنما اور دیگر خواتین کارکنان کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر الطاف حسین نے کاشف عباسی کے پروگرام میں براہ راست نام لے کر معافی مانگ لی ہے اختلافات اپنی جگہ لیکن ایم کیو ایم کے قائدنے معافی مانگ کراپنا سیاسی قد یقیناًبڑھا لیا ہے۔ معافی مانگنا ہرگز کمزوری کی علامت نہیں ہےبلکہ غلطی کا احساس ہو جانا انسانیت کی دلیل ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ الطاف حسین صاحب نے معافی مانگ کر باقی سیاستدانوں کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔ اس معافی پر تحریک انصاف کا جوابی ردعمل بھی مجموعی طور پر مثبت رہا۔ پہلا معافی نامہ عجلت میں دیے گئے ریمارکس کا شاخسانہ تھا جب کہ دوسرا معافی نامہ تلخیاں کم کرنے کے لیے تھا اور دونوں معافی ناموں سے الطاف بھائی کا سیاسی قد کم ہونے کے بجائے بڑھا ہے۔
سیاست میں کیچڑ اچھالنا کسی طرح لائق توصیف نہیں کیوں کہ سیاست صرف ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کا ہی نام نہیں بلکہ سیاست تعمیری عملی اقدامات سےاپنے نظریے اور جماعت کی برتری ثابت کرنے کا نام ہے۔ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں اگر بنیادی اخلاقی تقاضوں پر عمل پیرا ہوں تو کسی کی ذات پر تنقید کے بجائے سیاسی کمزوریوں اور ناکامیوں کو مثبت اور تعمیری تنقید کا نشانہ بنائیں۔ الطاف حسین ہوں یا عمران خان دونوں پاکستانی ہیں اور دونوں سے لوگ محبت کرتے ہیں لیکن اگر ہمارے رہنما بازاری زبان استعمال کرنے لگیں گے تو وہ دن دور نہیں جب وضع داری اور شرافت جیسی خوبیاں سیاست سے رخصت ہو جائیں گی۔
سیاست میں کیچڑ اچھالنا کسی طرح لائق توصیف نہیں کیوں کہ سیاست صرف ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کا ہی نام نہیں بلکہ سیاست تعمیری عملی اقدامات سےاپنے نظریے اور جماعت کی برتری ثابت کرنے کا نام ہے۔ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں اگر بنیادی اخلاقی تقاضوں پر عمل پیرا ہوں تو کسی کی ذات پر تنقید کے بجائے سیاسی کمزوریوں اور ناکامیوں کو مثبت اور تعمیری تنقید کا نشانہ بنائیں۔ الطاف حسین ہوں یا عمران خان دونوں پاکستانی ہیں اور دونوں سے لوگ محبت کرتے ہیں لیکن اگر ہمارے رہنما بازاری زبان استعمال کرنے لگیں گے تو وہ دن دور نہیں جب وضع داری اور شرافت جیسی خوبیاں سیاست سے رخصت ہو جائیں گی۔
Leave a Reply