اگر جناح چند سال مزید زندہ رہتے تو پاکستان کاپہلا قومی ترانہ جو جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا ہم آج بھی سکولوں میں گاتے اور آج ہم اس بات پر نہ لڑ رہے ہوتے کہ جناح سیکولر جمہوریت کے خواہاں تھے یا ایک مذہبی ریاست چاہتے تھے
اگرجناح ایک سال بعد ہم سے جدا نہ ہوتے اور مزید کچھ برس زندہ رہتے تو کیا ہوتا؟ تو پھر پورا برصغیر 15اگست کو یو م آزادی مناتا اور غالب خیال ہے کہ یہ دونوں نو آزاد قومیں جشن آزادی اکٹھے منایا کرتیں ۔ اگرجناح زندہ رہتے تو وہ بمبئی میں اپنے گھر واپس جایا کرتے جہاں رہنے کی انہیں خواہش تھی۔ اگر جناح چند سال اور زندہ رہتے تو لیاقت علی خان کی بجائے کوئی اور رہنما جو قابلیت پر یقین رکھتا اور زیادہ موزوں ہوتا سامنے آتا۔ ایک ایسا رہنما جو "بیک ڈور لابنگ” پر یقین نہ رکھتا، حسین شہید سہروردی اور مجیب الرحمان کو تخریب کار نہ کہتا اور بنگالیوں کے جائز مقام اور حق کے تحفظ کےلیے اسمبلی سے ایک متفقہ آئین منظور کراتا۔ کیوں کہ آخری دنوں میں جناح صاحب کے تعلقات لیاقت علی خان سے شدید کشیدہ تھے جس کا انہوں نے کھل کر اظہار اپنی بہن فاطمہ جناح سے کیا بھی تھا۔
اگر جناح چند سال مزید زندہ رہتے تو پاکستان کاپہلا قومی ترانہ جو جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا ہم آج بھی سکولوں میں گاتے اور آج ہم اس بات پر نہ لڑ رہے ہوتے کہ جناح سیکولر جمہوریت کے خواہاں تھے یا ایک مذہبی ریاست چاہتے تھے۔ وہ اپنے مقررہ وقت پر ہم سے جدا ہو گئے ۔وہ صحیح کہتے تھے کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ وقت نے ثابت بھی کیا کہ ان کے سارے ساتھی کھوٹے سکے تھے جن کی وجہ سے ملک لسانی تعصب میں بٹ کر ٹوٹ گیا۔ اگر جناح مزید کچھ عرصہ زندہ رہتے تو ہندوستان کے ساتھ تعلقات دشمنی کی اس نہج تک نہ پہنچتے اور شاید آج پشاور کا پٹھان صبح ناشتے کے بعد امرتسر براستہ لاہور ویزے کے بغیر آ جا سکتا اور شام کا کھانا اجمیر شریف کھاتا۔ مشرقی پنجاب سے آنے والوں کو روپیہ تبدیل کرانے کا جھنجھٹ نہ کرنا پڑتا۔ جناح صاحب کچھ عرصہ اور زندہ رہتے تو نہ دوقومی نظریہ ہوتا اور نہ اس کے نام پر جنگ کا بازار گرم ہوتا۔
اگر جناح چند سال مزید زندہ رہتے تو پاکستان کاپہلا قومی ترانہ جو جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا ہم آج بھی سکولوں میں گاتے اور آج ہم اس بات پر نہ لڑ رہے ہوتے کہ جناح سیکولر جمہوریت کے خواہاں تھے یا ایک مذہبی ریاست چاہتے تھے۔ وہ اپنے مقررہ وقت پر ہم سے جدا ہو گئے ۔وہ صحیح کہتے تھے کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ وقت نے ثابت بھی کیا کہ ان کے سارے ساتھی کھوٹے سکے تھے جن کی وجہ سے ملک لسانی تعصب میں بٹ کر ٹوٹ گیا۔ اگر جناح مزید کچھ عرصہ زندہ رہتے تو ہندوستان کے ساتھ تعلقات دشمنی کی اس نہج تک نہ پہنچتے اور شاید آج پشاور کا پٹھان صبح ناشتے کے بعد امرتسر براستہ لاہور ویزے کے بغیر آ جا سکتا اور شام کا کھانا اجمیر شریف کھاتا۔ مشرقی پنجاب سے آنے والوں کو روپیہ تبدیل کرانے کا جھنجھٹ نہ کرنا پڑتا۔ جناح صاحب کچھ عرصہ اور زندہ رہتے تو نہ دوقومی نظریہ ہوتا اور نہ اس کے نام پر جنگ کا بازار گرم ہوتا۔
لیکن جیت کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ ہار کو ہضم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ بہادری پر نشان حیدر اور دوسرے انعامات عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ناکامی پر فوجی جرنیلوں کااحتساب بھی ضروری ہے
دوقومی نظریے سے پیدا ہونے والا سب سے بڑا تنازع یہ ہے کہ پاکستان کیوں بنایا گیا۔ اسلام کی بنیاد پر پاکستان کی تشکیل کے مبلغین کے افکار سے تو لگتا ہے کہ آزادی کا مقصد روزاول سے ہی ہندوستان کے ساتھ دشمنی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کرنا تھا۔اس کا مقصد اپنے آپ کو نرگسیت کے مرض میں مبتلا کرنا تھا کہ ہم دنیا میں بہترین قوم ہیں اور کوئی بھی ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ اس مقصد کے لیے اگر تاریخ کو توڑ مروڑ کر بھی پیش کیا جائے تو یہ غلط نہیں۔ غلط اور حقائق سے بہت دور سرکاری تاریخ میں اگرجھوٹ کو سچ کے غلیظ پردوں میں بھی چھپانا پڑے تو قبول ہے۔ یہ لوگ ایسا کرتے ہوئے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو نئے اور جدید انداز میں دہرا تی ہے اور غلط تاریخ پڑھانے والوں کو تاریخ ہی غلط ثابت کر تی ہے۔ نرگسیت کے اس غبارے میں مطالعہ پاکستان کے سرکاری طور پر منظور شدہ مضامین کی ہوا بھری گئی ہے جو وقت کے ساتھ نکلتی رہتی ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 65 کی جنگ کس نے جیتی تھی؟ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ مشرقی سرحد پر مکار دشمن نے رات کے اندھیرے میں پاکستانی سرحدی شہر لاہور پر حملہ کر دیا اور ایک جنگ چھڑ گئی۔ درسی کتب میں 65 کی جنگ سے متعلق اسباق کے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ جنگ ہم نے جیتی اور دشمن کو شدید مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ پانچویں جماعت سے لے کر ڈگری کی سطح تک یہ اوراس طرح کے درجنوں جملوں سے ہمارے دیس کے طلبہ کو واسطہ پڑ تا ہے۔ ہر سال 6 ستمبر کے موقع پر سیاستدان بڑے بڑے اخباری اشتہارات میں اپنی رنگین تصاویر چھپوا کر قوم کو یوم دفاع کی مبارک باد دیتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی سچائی کا سامنا کرنے کوتیار نہیں۔ ہر سال اس دن ہماری افواج کنٹونمنٹ کے علاقوں میں واقع میدانوں میں ٹینکوں اور مختلف جنگی سامان کی نمائش کا اہتمام کرتی ہیں تاکہ آنے والی نسل اس جھوٹ کو سچ سمجھنے لگ جائے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے بھی طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کی طرح نعرہ تکبیر بلند کر کے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی۔ ہم یہ بتانے کو تیار نہیں کہ زیادہ تر کشمیریوں اور کشمیری قیادت نے آپریشن جبرالٹر اور 65 کی جنگ سے خود کو علیحدہ رکھا۔ہم یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ جنگ دراصل ہماری وجہ سے شروع ہوئی تھی جب اگست کے مہینے میں ہم نے ہزاروں تربیت یافتہ فوجی اور گوریلےلائن آف کنٹرول کے اس پار بھجوائے تھے لیکن اس مہم جوئی کا نتیجہ بہت برا نکلا۔ جنگ کے بعد جنرل محمود احمد نے ایک ضخیم دستاویز تیا رکی تھی لیکن اسے قومی مفا د کے تحت ناقابل اشاعت قرار دے دیا گیا اور مورال بلند رکھنے کے لیے کھیم کرن پر کامیابی کو جنگ میں جیت قرار دے دیا گیا۔ اس وجہ سے ہمیں اپنی کمزوریوں کا علم نہیں ہو سکا۔
برا وقت اور جنگیں قوموں کی زندگی میں آتے ہیں اور جنگوں میں ہار جیت بھی ہوتی ہے لیکن جیت کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ ہار کو ہضم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ بہادری پر نشان حیدر اور دوسرے انعامات عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ناکامی پر فوجی جرنیلوں کااحتساب بھی ضروری ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہم نے اگست کے مہینے میں کشمیر میں ہندوستانی افواج کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کی تھی تو پھر کوئی دفاعی تجزیہ نگار ہی بتا سکتا ہے کہ جنگ جیتنا اور ہارنا کسے کہتے ہے؟ اور اس جنگ میں ہماری حیثیت فاتح کی ہے یا نہیں؟ ہم 6ستمبر یوم دفاع کے طور پر منائیں یا حملے کی یادگار کے طورپر؟ ان سب سوالات کے جواب دینا بہت ضروری ہو چکا ہے کیوں کہ تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں اور مجھ ایسے ہزاروں طلبہ گو مگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 65 کی جنگ کس نے جیتی تھی؟ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ مشرقی سرحد پر مکار دشمن نے رات کے اندھیرے میں پاکستانی سرحدی شہر لاہور پر حملہ کر دیا اور ایک جنگ چھڑ گئی۔ درسی کتب میں 65 کی جنگ سے متعلق اسباق کے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ جنگ ہم نے جیتی اور دشمن کو شدید مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ پانچویں جماعت سے لے کر ڈگری کی سطح تک یہ اوراس طرح کے درجنوں جملوں سے ہمارے دیس کے طلبہ کو واسطہ پڑ تا ہے۔ ہر سال 6 ستمبر کے موقع پر سیاستدان بڑے بڑے اخباری اشتہارات میں اپنی رنگین تصاویر چھپوا کر قوم کو یوم دفاع کی مبارک باد دیتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی سچائی کا سامنا کرنے کوتیار نہیں۔ ہر سال اس دن ہماری افواج کنٹونمنٹ کے علاقوں میں واقع میدانوں میں ٹینکوں اور مختلف جنگی سامان کی نمائش کا اہتمام کرتی ہیں تاکہ آنے والی نسل اس جھوٹ کو سچ سمجھنے لگ جائے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے بھی طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کی طرح نعرہ تکبیر بلند کر کے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی۔ ہم یہ بتانے کو تیار نہیں کہ زیادہ تر کشمیریوں اور کشمیری قیادت نے آپریشن جبرالٹر اور 65 کی جنگ سے خود کو علیحدہ رکھا۔ہم یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ جنگ دراصل ہماری وجہ سے شروع ہوئی تھی جب اگست کے مہینے میں ہم نے ہزاروں تربیت یافتہ فوجی اور گوریلےلائن آف کنٹرول کے اس پار بھجوائے تھے لیکن اس مہم جوئی کا نتیجہ بہت برا نکلا۔ جنگ کے بعد جنرل محمود احمد نے ایک ضخیم دستاویز تیا رکی تھی لیکن اسے قومی مفا د کے تحت ناقابل اشاعت قرار دے دیا گیا اور مورال بلند رکھنے کے لیے کھیم کرن پر کامیابی کو جنگ میں جیت قرار دے دیا گیا۔ اس وجہ سے ہمیں اپنی کمزوریوں کا علم نہیں ہو سکا۔
برا وقت اور جنگیں قوموں کی زندگی میں آتے ہیں اور جنگوں میں ہار جیت بھی ہوتی ہے لیکن جیت کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ ہار کو ہضم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ بہادری پر نشان حیدر اور دوسرے انعامات عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ناکامی پر فوجی جرنیلوں کااحتساب بھی ضروری ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہم نے اگست کے مہینے میں کشمیر میں ہندوستانی افواج کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کی تھی تو پھر کوئی دفاعی تجزیہ نگار ہی بتا سکتا ہے کہ جنگ جیتنا اور ہارنا کسے کہتے ہے؟ اور اس جنگ میں ہماری حیثیت فاتح کی ہے یا نہیں؟ ہم 6ستمبر یوم دفاع کے طور پر منائیں یا حملے کی یادگار کے طورپر؟ ان سب سوالات کے جواب دینا بہت ضروری ہو چکا ہے کیوں کہ تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں اور مجھ ایسے ہزاروں طلبہ گو مگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔
Leave a Reply