میں رضا سے کبھی نہیں ملا ، بالکل ویسے ہی جیسے میں کبھی واحد بلوچ، سلمان حیدر، وقاص گورائیہ، زینت شہزادی سے نہیں ملا مگر میرے لئے 2 دسمبر ایک تکلیف دہ دن ہے۔ بلکہ ہم سب کے لئے 2 دسمبر ایک تکلیف دہ دن ہے۔
ہم جو کبھی کبھار کہیں مل بیٹھ کر اس ملک کے مستقبل سے متعلق خدشات اور امیدوں کا کھل کراظہار کرنے کے لئے کسی محفوط جگہ کے متلاشی رہتے ہیں،
ہم جو کسی کونے کھدرے میں سول بالادستی کے امکانی ہوائی محل تعمیر کرتے کرتے خفیہ ہاتھوں کی سنگین خنکی محسوس کرتے ڈر جاتے ہیں،
ہم جو آزادی کو تقسیمِ ہند اور آزاد کشمیر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کہہ اور لکھ کر خود کو دانشور قرار دیتے ہیں،
ہم جو کسی متوازی سائبر کائنات میں دو جوہری ہمسایوں کے مابین کرکٹ میچوں، فلموں اور موسیقی کے میلوں اور سیاحتوں کے خوشگوار تجارتی، سیاسی اور عسکری پہلوؤں پر بات چیت کرتے رہتے ہیں ،
ہم سب کے لئے 2 سمبر ایک تکلیف دہ دن ہے خواہ ہم رضا سے ملے ہوں یا نہیں۔خواہ ہمیں رضا کی گمشدگی کا علم ہو بھی کہ نہیں ۔ خواہ ہمیں رضا، آغازِ دوستی یا لوکی لوکائی سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات ہوں یا نہیں۔۔۔ دو دسمبر ایک تکلیف دہ دن ہے کیوں کہ اس روز ہم نے امن کا خواب دیکھنے والے ایک اور فرد کو لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہوتے دیکھا ہے، ایک ایسی فہرست جس کی ابتدا و انتہا ہمارے وہم و گمان سے باہر ہے۔
میں رضا سے کبھی نہیں ملا بالکل ویسے ہی جیسے میں کبھی لاپتہ بلوچوں اور سندھیوں سے نہیں ملا مگر دو دسمبر میرے لئے ایک خوفناک دن ہے۔
یہ دن ہم سب کے لئے خوفناک ہے جو ایک پر امن اور روادار معاشرے کا خواب دیکھنے کی سکت اور جرات رکھتے ہیں۔
ہم جو کبھی کبھار تاریخ کے ان تاریخ ادوار کا حال پڑھ کر جب کسی طالع آزما نے اپنی وردی سمیت ہمارے ووٹوں کی بے حرمتی کی، یہ امید باندھتے ہیں کہ شاید آئندہ کبھی ایسا نہ ہو،
ہم جو کھلی ہوا میں گیت گانے، ناچنے ، پتنگ اڑانے یا یونہی بے مقصد آوارہ پھرنے کو اپنی تفریح سمجھتے ہیں،
ہم جو رکشے والوں، پتنگ سازوں، ٹیکسالی والوں سے ہمدردی رکھتے ہیں،
ہم جو ادھر ادھر بے وجہ کاٹے گئے جانوروں پر افسوس کرتے ہیں،
ہم سب کے لئے دو دسمبر ایک خوفناک دن ہے۔۔۔ اس لئے کہ اس روز ایک اور ایسا شخص مفقود الخبر ہوا ہے جو اپنے آس پاس بسنے والوں کو محض ایک شناختی کارڈ، محض ایک تصویر یا محض ایک خبر سے زیادہ اہم سمجھتا ہے۔
میں رضا سے کبھی نہیں ملا بالکل اسی طرح جیسے میں اجتماعی قبروں، خفیہ حراستی مراکز اور نجی عقوبت خانوں کے سپرد کئے جانے والوں سے نہیں ملا۔۔۔میرے لئے 2 دسمبر رونے کا دن ہے، بلکہ ہم سب کے لئے دو دسمبر رونے کا دن ہے۔
ہم جو سرحد پار رہنے والوں کو قابل نفرت نہیں سمجھتے صرف اس لئے کہ ان کے پرکھوں کو ہمارے بزرگوں نے یا ہمارے بزرگوں کو ان کے پرکھوں نے ایک لاعلاج اور اچانک پاگل پن کی لہر میں قتل کیا تھا
ہم جو ماتھا ٹیکنے والوں، ہاتھ جوڑنے والوں، علم والوں، منبر والوں سمیت کسی کو کافر قرار دینے کو باعث فخر نہیں سمجھتے،
ہم جو ناکوں اور چوکیوں پر سڑکوں اور چوراہوں پر اپنے ہی ملک میں داخلے اور نقل و حرکت کی آزادی پر عائد پابندیوں کو ناروا خیال کرتے ہیں،
ہم جو ٹی وی چینلوں، اخباروں، فتووں ، اشتہاروں اور تقریروں میں نفرت کی نشاندہی کرتے ہیں،
ہم سب کے لئے دو دسمبر یوم گریہ ہے، ان دیکھے اندیشوں، خفیہ ہاتھوں، آدم خور رکھوالوں سے ڈرنے کا دن، خاموش ہو جانے کا دن۔ میں رضا سے کبھی نہیں ملا، مگر رضا جو کوئی بھی تھے اور رضا کو اٹھانے والے جو کوئی بھی تھے ہم سب کے لئے دو دسمبر 2017 کا دن خوف، گریے اور دکھ کا ایک اور دن ہے۔

Leave a Reply