Laaltain

دو ملکوں کے بے وقوف عوام کا قصہ

5 اکتوبر، 2015
محمد اخلاق کی موت پر ایک دنیا سوگ میں ہے، ہندوستان کے اس قصے پر ان لوگوں کو زیادہ افسوس ہے، جو انسانیت کو ترجیح دیتے ہیں۔اس خبر کو میڈیا نے بھی بہت ہوا دی ہے، لوگ آگ بگولا ہورہے ہیں ، کچھ صدمے میں ہیں، کچھ جذباتی ہیں اور سب مل کر صرف ایک سوال پوچھ رہے ہیں کہ صرف گائے کھانے کا الزام لگا کر کسی انسان کو کیسے مارا جاسکتا ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعہ نہایت غیر انسانی ہے، درد ناک ہے اور میری رائے میں بہت حد تک سیاسی ہے۔اس کی وجہ وہ لوگ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو اس وقت ہندوستان میں مذہب کا لوہاگرم کروانے کی سیاست سے باخبر ہیں۔رائٹ ٹو اسپیچ کے نام پر آج کل یہاں بہت شور مچایا جارہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ پاکستان میں بھی اس واقعے پر افسوس جتایا جارہا ہے۔بربریت کی اس مثال پر لوگ ابھی حیرت زدہ ہیں، بعد میں وہ اسے ایک بھیانک تاریخی واقعہ سمجھ کر قبول کرلیں گے اور اس کے بعد اس واقعے کو ایک خطرناک خواب کی صورت بھلانے کی کوشش کی جائے گی۔جو لوگ سیکولر ہیں، ان کے لیے یہ انسانیت کا مسئلہ ہے، جو مسلمان ہیں ان کے لیے گائے کھانے کا اور جو ہندو ہیں وہ اس وقت مکمل طور پر اس Justificationمیں لگے ہوئے ہیں کہ مارنے والوں کے ساتھ بچانے والے بھی ہندو ہی تھے۔

 

ہندوستان اور پاکستان کی ٹرین ایک ہی پٹری پر دوڑ رہی ہے اور اس کے مسافروں کی اوقات نہیں کہ ڈرائیوروں سے سوال کریں کہ ہمیں تو اس راستے پر نہیں جانا تھا، تم کیوں ہمیں اس طرف لے آئے ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان ، دونوں ملکوں کی کہانی بہت الگ نہیں ہے، یہاں کے لوگوں نے اپنی تاریخ میں عقیدے اور مذہب کے نام پر اب تک جو کچھ بویا ہے، اسے ہی کاٹا بھی ہے۔اس میں میں دنیا کے دوسرے ممالک کو بھی شامل کرسکتا ہوں مگر سچی بات یہ ہے کہ انہیں شامل کرنے سے میرا مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ ان دو ملکوں پر بھی بات کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، اور شاید اب یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ان لوگوں کی تاریخی غلطیاں اب ان کی فطرت بن چکی ہیں۔ان کے باپ داداؤں نے انہیں تہذیب اور مذہب کے نام پر جو کچھ دیا ہے، سیاست کے پاس اس کا استعمال کرنے کا یہ وقت خوب ہے، اب انسان کو بڑے پیمانے پر مارنے کے لیے شہر سے دور کسی میدان میں جاکر باقاعدہ لڑاکا لوگوں کے ساتھ جنگ نہیں لڑنی پڑتی، اب وہ میدان بھوکوں، مزدوروں، ننگے فٹ پاتھیوں کے گھروں میں اتر آیا ہے۔جنہیں مارنا آسان ہے، جن کی لاشوں پر سیاست کرنا آسان ہے، جن کی بھک منگی ، سڑی ہوئی اور خون میں ڈوبی لاشوں کے مناظر دکھا کر ٹی آرپی حاصل کرنا بہت فائدے مند ہے اور اس میں کسی کا زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔درمیانی طبقہ اپنی مجبوری کا رونا رو کر اپنی فطرت نہیں بدلتااور اشرافیہ کے ایک حصے کو ان سب باتوں سے غرض نہیں، دوسرے طبقے کو ان باتوں سے بھی روپیہ بنانے کی تدبیر کرنی ہوتی ہے۔چنانچہ یہ واقعہ ہمارے لیے کوئی دل کو ہلا کر رکھ دینے والی واردات نہیں ہے، یہ بس ہماری روٹین کا حصہ ہے، یہ ہمارے دور کی تجارت کا کارنامہ ہے،جس میں مذہب ، غربت اور چند پیسہ خرچ کرکے جمع کیے گئے غنڈوں کے آلات استعمال کیے گئے ہیں۔محمد اخلاق کی موت کا پیٹرن بالکل وہی ہے جو راج کشن کوٹ والے میاں بیوی کی موت کا تھا۔یہاں بھی مقدس مانی جانے والی ایک عمارت کو استعمال کیا گیا، وہاں بھی ۔یہاں بھی لوگ کھنچے چلے آئے ، وہاں بھی۔یہاں بھی بے رحمی سے دو لوگوں کو پیٹا گیا، وہاں بھی۔یہاں بھی ان کو بچانے کے لیے کوئی آگے نہیں آیا، وہاں بھی، یہاں بھی یہ اقلیت کا حصہ تھے، وہاں بھی۔یہ سارا معاملہ بتاتا ہے کہ داڑھی یا تلک کا فرق ، انسانی فطرت کو الگ نہیں کرتا، ان کی حرکتیں، ان کے معاملے کو یکساں ثابت کرتی ہیں۔وہ ایک دوسرے کو الگ الگ کہہ کر ماررہے ہوتے ہیں، مگر وہ دراصل ایک ہوتے ہیں۔

 

ارے بھئی! مجھے کس علاقے میں کیا کھانا چاہیے، کن حالتوں میں کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے ، یہ کوئی اللہ یا بھگوان کے طے کرنے کی بات ہی نہیں ہے۔خدا اتنے چھوٹے چھوٹے معاملات میں کیوں بولے گا، اس کے پاس بڑے مسئلے نہیں ہیں کیا؟
اچھا ایسا نہیں ہے کہ یہ بالکل ان پڑھ، مین اسٹریم سے کٹے ہوئے لوگوں کی داستان ہے۔میں نے بیشتر اپنے آس پاس موجود اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو موسم سے زیادہ مذہب پر بات کرنے میں منہمک پایا۔یہ کیسے لوگ ہیں، جو پڑھ لکھ کر آج تک ایک ایسی سیاست کو جنم نہیں دے سکے، جو لوگوں کا استحصال کرنے کے بجائے ان کو زندہ کرنے، بیدار کرنے، ان کی ترقی کے لیے فکرمند ہونے پر مجبور کرسکے، یہ کون سی مخلوق ہے،جسے کیچڑ میں پڑے رہنے کا اتنا شوق ہے کہ اندھی تقلید سے باز ہی نہیں آتی، یہ کیا انسان ہیں جو ہمیشہ سے خود کو استعمال کرنے کی دعوت سیاستدانوں کو دیتے رہے۔کیا امن ایسے آسکتا ہے، کیا اس کی چاپ اس طرح سنائی دے سکتی ہے۔اس طرح تو ہم اگلے سو سال تک لڑتے رہیں گے۔یوں تو میں مانتا ہوں کہ ہمیں مارنے کے لیے قدرت کی طرف سے بھیجی ہوئی وبائیں اور تکلیفیں اتنی کم پڑگئی ہیں کہ اب ہم مذہب کے نام پر مارے جارہے ہیں۔ہندوستان اور پاکستان کی ٹرین ایک ہی پٹری پر دوڑ رہی ہے اور اس کے مسافروں کی اوقات نہیں کہ ڈرائیوروں سے سوال کریں کہ ہمیں تو اس راستے پر نہیں جانا تھا، تم کیوں ہمیں اس طرف لے آئے ہو۔میں مسجد نہیں جاتا، پہلے خوب جاتا تھا، بہت روز تک گیا،مگر پھر ایک روز ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ کیسی عجیب سی بات ہے کہ ایک آدمی کے ذہن میں جو بات آرہی ہے، کہے جارہا ہے، اور سینکڑوں لوگ وضوکرتے ہوئے،سکڑے سمٹے بیٹھے ہوئے، عطر لگائے اسے سنے جارہے ہیں، خشوع و خضوع سے نہ سہی،مجبوری میں۔لیکن کوئی اٹھ کر اس سے یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ کون سی بات کررہے ہو، مذہب کی یہ بات ہمیں قبول نہیں۔اگر واقعی مذہب میں اس طرح کی کوئی بات موجود ہے، تو اب اسے ختم کردو۔پھر بعد میں میں نے جب مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ ہر مذہب کو اپنی جامد شکل موجودہ رہن سے پسند ہے۔کسی ملک کا قانون یا وہاں کے عوام اس میں تبدیلی کرسکتے ہیں، مگر کرتے نہیں ۔بہت ہوا تو وقت کی مجبوری کی وجہ سے کچھ آیتوں کو خاموشی سے نظر انداز کردیتے ہیں۔لیکن یہ سسٹم ہی غلط ہے۔ایک آدمی اتنے لوگوں میں صحیح نہیں ہوسکتا، تو پھر مائک اسی کے ہاتھ میں کیوں ہے؟پھر بعد میں سوچا کہ اس آدمی کو اسی سوتی ہوئی بھیڑ نے کھڑا کیا ہے، یہی بھیڑ ہے جو نہیں چاہتی کہ اس کے خراٹوں میں کوئی پریشانی آئے۔یہی بھیڑ ہے جو نہیں چاہتی کہ کوئی اسے ٹھیلے، ستائے، پریشان کرے۔اسی لیے اس بھیڑ نے ایک آدمی چن لیا ہے ، اب وہ جو کچھ سوتے ہوئے کانوں میں دم کردے گا۔اسے یہ ماننے لگے گی، سو اس طرح کے ایک فریب اور جھوٹ کو اس بھیڑ نے سچ کانام دے دیا ہے۔ہنسی آتی ہے کبھی کبھی یہ سوچ کر کہ جن چیزوں کو علم کے حساب سے طے ہونا چاہیے تھا، سائنس کے حساب سے طے ہونا چاہیے تھا، اس کا فیصلہ مذہب جیسی غیر منطقی چیز طے کررہی ہے اور لوگ آنکھوں پر پٹی باندھ کر ان باتوں کو مان رہے ہیں۔ارے بھئی! مجھے کس علاقے میں کیا کھانا چاہیے، کن حالتوں میں کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے ، یہ کوئی اللہ یا بھگوان کے طے کرنے کی بات ہی نہیں ہے۔خدا اتنے چھوٹے چھوٹے معاملات میں کیوں بولے گا، اس کے پاس بڑے مسئلے نہیں ہیں کیا؟ وہ مجھے بتارہا ہے کہ چوپایہ کھانا چاہیے یا نہیں، سور حرام ہے یا حلال۔اس طرح تو خدا طے نہیں کرتا، یہ تو ضرور کسی انسان کی کارستانی لگتی ہے کہ دلدل میں لوٹتے ہوئے سور کو دیکھ لیا تو اسے نجس قرار دے دیا۔

religious-unity-hindu-muslim

آپ ہزاربھارت ماتا کی جے یا پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائیے، آپ اپنے ملک، اپنے لوگوں سے پیار نہیں کرتے۔آپ کے خمیر میں لوگوں سے محبت نہیں ہے، آپ سب سے بڑے غدار ہیں۔
قدرت کے اصول سب کے لیے یکساں ہیں، کتے کے لیے تو کوئی آسمانی کتاب نہیں اتری کہ کیا اس کے لیے حلال ہے اور کیا حرام ،پھر بھی اس نے اپنے وجود کی ابتدا سے اب تک کے سفر میں یہ معلوم کرلیا کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں اور اگر غلطی سے وہ کچھ کھا لے تو اسے کون سی مخصوص گھانس کھا کر الٹی کرنی چاہیے۔لیکن انسان ، جو کہ اشرف المخلوقات ہے ، اسے یہ سب طے کرنے کے لیے ایک آسمانی کتاب کی ضرورت ہے؟ ہمارے پاس مذہب سے زیادہ بہتر علوم موجود ہیں، جو ہمیں سوچنے، پہننے، کھانے اور زندگی گزارنے کے بہتر راستے بتاسکتے ہیں،ہماری ذہنی، علمی اور نفسیاتی تربیت کرسکتے ہیں۔لیکن فیس بک پر لوگوں کو دیکھتا ہوں، کشمیر کے مسئلہ پر جھگڑ رہے ہیں، مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں، ایک دوسرے کو ملیچھ، نجس، ناپاک، گندا اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہے ہیں۔کیا عجیب قومیں ہیں، کیا عجیب لوگ کہ تقسیم پر ہونے والے لاکھوں لوگوں کے قتل کو افسوسناک واقعہ بھی کہتے ہیں اور اب بھی ایسے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں گویا موقع مل جائے تو پھر تلواریں نکل آئیں اور ایک دوسرے کو مارڈالیں۔آپ حکومت کو گالیاں مت دیجیے، میڈیا کو قصوروار مت ٹھہرائیے، یاد رکھیے کسی بھی مارکیٹ میں وہی مال زیادہ بکے گا، جس کی مانگ زیادہ ہوگی۔اور اس مارکیٹ میں نفرت کی بہت مانگ ہے،اتنی کہ اس کی کھپت کم پڑتی جارہی ہے ،نئی نئی فصلیں اگائی جارہی ہیں،کھیپیں تیار ہورہی ہیں،مگر کم پڑرہی ہیں۔اور اس کا پورا پورا فائدہ سرمایہ داروں کو ہورہا ہے، ان لوگوں کو جو آپ کی نفرت بیچنے کا ہنر جانتے ہیں۔اگر آپ کو محبت پسند ہوتی، اگر آپ کہتے کہ یہ کیا نفرت نفرت لگا رکھا ہے، ہمارے مذاہب الگ ہیں تو کیا، ہم اپنے دفاع پر اتنا پیسہ خرچ نہیں کریں گے، ہمیں یہی پیسہ غریبوں کی بھلائی میں لگانا ہے، ان کی ترقی میں لگانا ہے، ہمیں پانچ دس سال میں ملک کی شکل بدل دینی ہے،گلیوں ،محلوں سے لے کر شہروں تک میں ترقی کے نئے امکانات روشن کرنے ہیں، تو آپ دیکھتے کہ آپ کے ٹیکس کا کتنا صحیح استعمال ہوتا۔آپ کے پیسوں سے آپ کی بھلائی کے لیے پیسے خرچ کیے جاتے، سرکاری اسکولوں، ہسپتالوں میں بہترین سہولتیں مہیا ہوتیں، لوگ اور زیادہ پڑھ پاتے اور حکومت کا اور محاسبہ کرنے کے لائق ہوپاتے کہ وہ کون سا کام ٹھیک کررہی ہے اور کون سا کام ٹھیک نہیں کررہی ہے۔جمہوریت میں کوئی برائی نہیں ہے، وہ تو ایک آئینہ ہے، آپ کو جیسی سیاست پسند تھی، آپ نے ویسی کروائی، جب تک کسی ملک میں نفرت پنپ رہی ہے، وہاں نفرت پر مبنی حادثات ہورہے ہیں اور ان میں دن رات اضافہ ہورہا ہے تو سمجھ لیجیے کہ حکومت کے کارندے جاکر وہاں یہ حرکتیں نہیں کررہے، بلکہ آپ خود کررہے ہیں، آپ کا اصلی چہرہ یہی ہے۔آپ بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔آپ ہزاربھارت ماتا کی جے یا پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائیے، آپ اپنے ملک، اپنے لوگوں سے پیار نہیں کرتے۔آپ کے خمیر میں لوگوں سے محبت نہیں ہے، آپ سب سے بڑے غدار ہیں۔جانتا ہوں کہ اس معاملے میں مجھ جیسے ایک شاعر کے سمجھانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہونا، پھر بھی سوچتا ہوں کہ آپ مذہب کو کیوں ایسا آلہ بننے دے رہے ہیں۔ٹھیک ہے کہ آپ مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے۔مگر اس کو اپنے گھروں تک محدود رکھیے، میں جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں بیس سے زائد مسجدیں ہیں، جب اذانیں ہوتی ہیں تو آپس میں لڑتی، ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان فرقہ وارانہ طور پر کتنا بٹا ہوا ہے۔یہی حال دوسری مذہبی عمارتوں کا ہے۔عمارتیں ہمارے حواس پر چھائی ہوئی ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خیر و عافیت کا سبب ہیں، جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔مذہب کا ارادہ ہوسکتا ہے کہ نیک ہو، مگر اس کی آڑ لینے والوں کا ارادہ کسی زمانے میں نیک نہیں رہا۔یہ آپ سے کہتے ہیں کہ دیکھو!فلاں نے ہمارے مذہب کی توہین کی، آپ اس کے پیچھے پل پڑتے ہیں۔یہ نہیں پوچھتے کہ اگر کسی غیر مذہب کا آدمی،قرآن کی کسی آیت پر سورہا ہے تو قرآن کی آیت تو اپنا کام کررہی ہے، اسے سردی سے بچارہی ہے، اس کے لیے بچھونا بن رہی ہے، اور ہم اس کی مخالفت کرکے ، اسی انسان کے قاتل بنے جارہے ہیں، یعنی جیسے قرآن نے تحفظ بخشا، اسے ہم نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔واہ واہ! تو سوچیے کہ توہین کس نے کی؟ملا یا پنڈت کو اپنے سماج کا نمائندہ مت بننے دیجیے۔یہ ڈھونگی لوگ ہیں۔انہیں خود قرآن یا گیتا یا کوئی بھی اچھی کتاب سمجھ میں نہیں آسکتی۔کیونکہ یہ عقل کی آنکھ سے کوئی چیز نہیں پڑھتے۔یہ وقت کی آنکھ سے کوئی چیز نہیں پڑھتے بلکہ یہ تو کانے لوگ ہیں، ان کے پاس بس اندھی عقیدت کی ایک آنکھ ہے، اور وہ بھی زنگ آلود!

 

خدا اور اس کے احکام کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا واقعی کوئی خدا اس قسم کے احکامات جاری بھی کرسکتا ہے یا نہیں۔اور جب تک ہم یہ سوچنے سمجھنے کے لائق نہیں ہیں۔ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہم دونوں ممالک کے رہنے والوں کی حالتیں نہیں بدلیں گی، کیونکہ ہم خود ہی بے وقوف ہیں۔
ہم دونوں کے ملکوں کی سیاست کا جہاں تک سوال ہے، تو اس میں لالچی لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ملک میں انتشار پھیلانے والی آگ ، جنگل کی اس آگ کی طرح ہے، جو ببول اور بیر کے درختوں میں کوئی فرق نہیں کرتی، وہ تو سب کو جلاتی ہے۔یہ تو خدا کا شکر ادا کیجیے کہ ابھی ان دونوں ملکوں میں آرٹ اور ادب کے نام پر چیخنے والے کچھ لوگ ہیں، جو گالیاں کھاتے ہیں، برا بھلا سنتے ہیں، مگر سچ بولتے ہے۔کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جن ملکوں کی زمینیں، انسانوں کے لیے اتنی تنگ ہوں کہ وہاں کا اچھا خاصا مڈل کلاس طبقہ بھی کرائے کے گھروں میں رہتا ہو، وہاں اتنی ساری عمارتیں کیسے بن جایا کرتی ہیں، یہ عمارتیں دراصل سیاست دانوں کا ووٹ بینک ہیں۔انہی کو Permission دے کر ، ملاؤں کے لیے پیسہ اور سیاستدانوں کے لیے لوگ اکھٹا کرنے کی سازش کی جاتی ہے، سوال یہ ہے کہ اللہ کے اتنے گھروں کی ضرورت کیا ہے، ان سے تو مظلوموں، غریبوں کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔کیا کبھی کسی مسجد سے یہ اعلانات ہوتے ہیں کہ موسم کی سختیوں سے بچنے کے لیے کوئی بھی غریب فٹ پاتھ پر نہ لیٹے، مسجد میں آجائے ، یہاں رہے، جب تک اس کے کھانے، پینے ، پہننے کا انتظام نہیں ہوتا، مسجد کی انتظامیہ اس کی دیکھ ریکھ کرے گی، یا وہ اس معاملے میں کچھ خاص غریبوں کی تعداد ہی طے کرکے بتادیتے۔چندے پر مسجد کی عمارت کو بڑھانے کے بجائے، انسانی زندگی کو تھوڑا بڑھاوا دیتے۔

 

تہذیبیں جب آپس میں ملتی ہیں، تو انہیں نئی زندگی ملتی ہے، ایک ہی ڈربے یا ڈبے میں بندھ رہ کر تودودھ کا پاؤڈر بھی سیل جاتا ہے، زندگی تو پھر احساس بھی رکھتی ہے۔وہ آپس میں ملتی ہیں، تو نئے زمانے جنم لیتے ہیں ، یہ دنیا ایک دوسرے سے ملنے ملانے، ایک دوسرے کو جاننے، پہچاننے کے لحاظ سے بہت خوبصورت ہے،مذہبی اجارہ دار کبھی نہیں چاہے گا کہ آپ اس ڈربے سے باہر نکلیں۔وہ آپ کو خدا کی لال لال آنکھیں دکھا کر روکے گا۔اس لیے خدا اور اس کے احکام کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا واقعی کوئی خدا اس قسم کے احکامات جاری بھی کرسکتا ہے یا نہیں۔اور جب تک ہم یہ سوچنے سمجھنے کے لائق نہیں ہیں۔ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہم دونوں ممالک کے رہنے والوں کی حالتیں نہیں بدلیں گی، کیونکہ ہم خود ہی بے وقوف ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *