رات دیر سے سویا تھا اس لیے ابھی بستر پر ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ میں نے نیند سے بوجھل آنکھوں پر عینک لگا کر دیکھا تو یہ فون میرے دوست اور پاکستان کے سٹار انکر پرسن حامد میر کا تھا۔ میر صاحب اپنے مخصوص لہجے میں گویا ہوئے قبلہ کیا واک ہو رہی ہے؟ میں تو ابھی بستر پر تھا اور اپنے روزمرہ کے شیڈول کے مطابق دوگھنٹے مزید سونا چاہتا تھا لیکن اسلام آباد سے آنے والے اپنے پیارے دوست کی ٹیلی فون کال پراٹھ بیٹھا اور اس سے قدرے جھوٹ بولتے ہوئے کہاکہ ۔۔۔۔ میر صاحب! پارک میں آنے کے لئے جوگر پہن رہاہوں۔ حامد میر لاہور آئیں تو ہماری سب سے بڑی عیاشی یہ ہوتی ہے کہ ہم دونوں ماڈل ٹاون پارک میں واک کرتے ہوئے کیمپس، ڈیپارٹمنٹ اوراپنے دوستوں کو یاد کرتے ہیں۔ اس دن جب میں ماڈل ٹاون پارک کے G بلاک والے گیٹ پر پہنچا ہی تھا کہ پارکنگ میں ایک بلیک رنگ کی گاڑی رکی اوراس کی فرنٹ سیٹ سے حامد میر مسکراتے ہوئے نمودار ہوئے۔ حامد میر کو یوں اچانک لاہور دیکھ کر میں جہاں خوش ہوا وہیں ایک انجانے خوف نے مجھے پریشان کردیا تھا کیونکہ اس کے ساتھ کسی قسم کی سیکیورٹی نہیں تھی حالانکہ سوشل میڈیا پر اسے جان سے ماردیے جانے کی دھمکیاں دی جاچکی تھیں۔
ماڈل ٹاون پارک کے دوچکر 5 کلومیٹر فاصلے پر مشتمل ہیں یہ فاصلہ ہم دونوں نے لگ بھگ 45 منٹ میں طے کیا۔ اس دوران میں نے حامد میر سے حکومت اورطالبان مذاکراتی ٹیموں اوران کے مابین ہونے والے مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے کئی ایک سوالات کئے جس کا اس نے تفصیل سے جواب دیا۔ میں نے یہ بھی پوچھا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف خصوصی عدالت میں پیش ہوں گے اورکیا ان کے ساتھ آئین اورقانون کے مطابق نمٹا جائے گا؟۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے معاملہ کو ا س ملک کے آئین اورقانون کے مطابق نمٹایا گیا تو یہ ایک ایسا سنگ میل ہوگا جس پر چل کر ہم ایک دن اپنی منزل پالیں گے۔ واک سے فارغ ہو کر حامد میرے ساتھ میری گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئے اوران کی گاڑی جو ڈرائیور چلا رہا تھا وہ ہمیں فالوکرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب ہم دونوں حامد میر کے چھوٹے بھائی عامر میر کے گھر پہنچے تو میں وہاں چائے پینے اور مزید گپ شپ کے لئے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گیا ۔ چائے پینے کے بعد حامد میر اور عامر میر جب مجھے گھر کے مین گیٹ پر الوداع کہنے آئے توعین اسی وقت حامد میر کوئی اہم ٹیلی فون کال سننے لگے۔ اس موقعہ پر عامر میر نے مجھ سے جوبات شیئر کی اسے سن کر میں لرز گیا۔ عامر میر نے مجھ سے کہاکہ حامد میر کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس کی پلاننگ کرلی گئی ہے سازش یہ ہے کہ ”کرے گا کوئی اور الزا م کسی دوسرے پر لگایا جائے گا“ آپ حامدکے دوست ہیں یہ آپ کی بات سنے گا اس کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ہم سب اہل خانہ اس کی منت سماجت کررہے ہیں کہ یہ پاکستان سے فوراً چلے جائے لیکن یہ ہماری بات نہیں مان رہا۔ اگر یہ دبئی چلا جائے تو یہ وہاں سے بھی اپنی صحافتی سرگرمیاں جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے عامر میرکا چہرہ دکھ اورکرب کی گہری تصویر دکھائی دے رہاتھا۔ میں ایک بھائی کا دکھ محسوس کر رہا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہ بات حامد میر سے براہ راست کہنے کے بجائے اس کی اہلیہ ناہید سے کہوں گا جس سے میرا دوہرا رشتہ ہے۔ حامد میر کی اہلیہ ناہید بھی شعبہ ابلاغیات میں ہماری کلاس فیلو تھیں جو بعد ازاں ہماری بھابی بنیں۔
عامر میر کی یہ بات سن کر میری طعبیت بوجھل سی ہوگئی میں نے گھر پہنچ کر اس کا تذکرہ اپنی بیوی غزالہ سے کیا تو وہ بھی شدید پریشان ہوگئی تاہم اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حامد میر سے اصرار کروں کہ وہ پاکستان سے چلاجائے اور کچھ دیر کے لئے صحافتی طور پر دبئی لنگر انداز ہوجائے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ حامد میرجیسے محب وطن اور پیشہ ور صحافی سے ملک چھوڑنے کا وعدہ لینا ایسے ہی ہے جیسے مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈ لیاجائے۔ میری تجویز تھی کہ حامد میر سے ملک چھوڑنے کی بات اسلام آباد اس کے گھر جا کر کی جائے تاکہ وہ معاملہ کی حساسیت کا اندازہ کرسکیں، میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ حامد بھائی ایک باخبر صحافی ہیں یقیناً وہ اس معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہیں لیکن ہمیں انہیں ملک چھوڑنے کے لئے منانا چاہیے اور اس کام میں مجھے دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اسی شام حامد میر کو مجھے لاہور میں دانتوں کے معروف ڈاکٹر گلریز کے کلینک میں لے جانا تھا، جہاں ان کی ایک داڑھ کی فلنگ ہونا تھی۔ کلینک میں سبھی مریض اورڈاکٹر حامد میر کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے، وہ سب سے خوشگوار موڈ میں تصویر بنوانے کے ساتھ ان کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ وہاں کلینک میں ایک خاتون جس نے حجاب اوڑھ رکھا تھا اور اس کے بچے حامد کے فینز تھے اس نے کہا کہ ۔۔۔میر صاحب! ہم سب پاکستانی آپ کا بے حد احترام کرتے ہیں، آپ سچے اورکھرے پاکستانی ہیں لیکن سوشل میڈیا پر آپ کی کردارکشی کی جارہی ہے، آپ کو قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، ہم مسلمان ہیں اورہمارا ایمان ہے کہ عزت اورذلت دینے والی صرف وہی ایک ذات ہے، ہماری دعا ہے کہ پرودگار آپ کی حفاظت کرے۔ حامدمیر نے کہا کہ میری بہن آپ نے جو فرمایا میرا اس پر کامل یقین ہے، آپ میرے لئے دعا کیا کریں، اس کے بعد ہم دونوں گاڑی میں بیٹھے اوروہاں سے آگئے۔
یوں تو مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میرے سوال پر حامد میر کا جواب کیا ہو گا مگر میں نے اتمام حجت کرتے ہوئے اسے ملک چھوڑنے کے لئے کہا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم نے اس خاتون کی بات سنی کہ وہ کیا کہہ رہی تھی؟ پاکستانی مجھے پیار کرتے ہیں، میرے لئے دعا کرتے ہیں، میرے وطن کو میری ضرورت ہے میں پاکستان سے نہیں جاوں گا۔ حامد میر نے میر ے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہاکہ مارنے والے سے بچانے والابڑا ہے، مجھے اوپر والے کا فیصلہ منظورہوگا، وہ جو کرے گا وہی میرے حق میں بہتر ہوگا۔۔۔ 30مارچ کی رات حامد میر اور ناہید بھابی میرے ایک فیملی فنکشن میں شرکت کےلئے اسلام آباد سے لاہور بطور خاص آئے تھے۔ دونوں میاں بیوی وقت مقررہ پر آئے اور10 بجے رات عامر میر کے گھر چلے گئے جہاں سے وہ علی الصبح اسلام آباد روانہ ہوئے۔
19اپریل کی شام حامد میر پر کراچی ائیر پورٹ کے باہر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس کے باعث وہ شدید زخمی ہوئے اورانہیں آغا خان ہسپتال لے جایا گیا۔ نیوز اینکرز مختلف ٹی وی چینلز پر چیخ، چیخ کر حامد میر پر قاتلانہ حملے کی خبر نشر کررہے تھے۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور میں ٹی وی کے سامنے کھڑا اپنے دوست حامد میر کے شدید زخمی ہونے کی بریکنگ نیوز دیکھ رہاتھا۔۔۔ اوہ میرے خدایا۔۔۔ یہ بریکنگ نیوز اس قدر اذیت ناک ہوتی ہے؟ ٹی وی پر حامدمیر کی حالت انتہائی تشویشناک بیان کی جارہی تھی۔ پریشانی اوربے چینی کے عالم میں، میں نے حامد میر کے تینوں بھائیوں کے فون ڈائل کئے مگر عمران، فیصل اورعامر میر تینوں کے نمبرز انگیج ملے۔
ناہید بھابی کا فون بھی مسلسل انگیج مل رہا تھا، ٹیلی وژن پر حامد میر کی انتہائی تشویشناک حالت کی خبر کو ان کے یادگار ویڈیو کلپس کے ساتھ نشر کیا جا رہا تھا جنہیں دیکھ کر میری آنسو بھری آنکھوں میں حامد میرکے ساتھ گزارے ان گنت لمحوں کے عکس موتی بن کر چمکنے لگے۔ حامد میر مجھے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری میں بیٹھا دکھائی دے رہا تھا، وہ مجھے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے برآمدوں اور کلاسز میں نظر آ رہا تھا، وہ پارکنگ میں اپنی موٹر سائیکل پارک کر رہا تھا، وہ مجھے کینٹین میں اپنے دوستوں رانابشیر، سلمان ملک اور بابر رشید کے ساتھ گرم گرم سموسے کھاتا نظر آرہا تھا، سردیوں کی راتوں میں حامد مجھے نیوکیمپس والے گھر میں رضائی اوڑھے دکھائی دے رہاتھا جہاں وہ مجھے صحافت کے بنیادی اصول اوراسلوب سمجھایا کرتا تھا، حامدمجھے دولھا بنا ہوا بھی دکھائی دیا، یہ وہ وقت تھا جب ہم سب یار بیلی باراتی تھے اورہمارا دوست حامد میر دولھا تھا
ماڈل ٹاون پارک کے دوچکر 5 کلومیٹر فاصلے پر مشتمل ہیں یہ فاصلہ ہم دونوں نے لگ بھگ 45 منٹ میں طے کیا۔ اس دوران میں نے حامد میر سے حکومت اورطالبان مذاکراتی ٹیموں اوران کے مابین ہونے والے مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے کئی ایک سوالات کئے جس کا اس نے تفصیل سے جواب دیا۔ میں نے یہ بھی پوچھا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف خصوصی عدالت میں پیش ہوں گے اورکیا ان کے ساتھ آئین اورقانون کے مطابق نمٹا جائے گا؟۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے معاملہ کو ا س ملک کے آئین اورقانون کے مطابق نمٹایا گیا تو یہ ایک ایسا سنگ میل ہوگا جس پر چل کر ہم ایک دن اپنی منزل پالیں گے۔ واک سے فارغ ہو کر حامد میرے ساتھ میری گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئے اوران کی گاڑی جو ڈرائیور چلا رہا تھا وہ ہمیں فالوکرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب ہم دونوں حامد میر کے چھوٹے بھائی عامر میر کے گھر پہنچے تو میں وہاں چائے پینے اور مزید گپ شپ کے لئے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گیا ۔ چائے پینے کے بعد حامد میر اور عامر میر جب مجھے گھر کے مین گیٹ پر الوداع کہنے آئے توعین اسی وقت حامد میر کوئی اہم ٹیلی فون کال سننے لگے۔ اس موقعہ پر عامر میر نے مجھ سے جوبات شیئر کی اسے سن کر میں لرز گیا۔ عامر میر نے مجھ سے کہاکہ حامد میر کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس کی پلاننگ کرلی گئی ہے سازش یہ ہے کہ ”کرے گا کوئی اور الزا م کسی دوسرے پر لگایا جائے گا“ آپ حامدکے دوست ہیں یہ آپ کی بات سنے گا اس کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ہم سب اہل خانہ اس کی منت سماجت کررہے ہیں کہ یہ پاکستان سے فوراً چلے جائے لیکن یہ ہماری بات نہیں مان رہا۔ اگر یہ دبئی چلا جائے تو یہ وہاں سے بھی اپنی صحافتی سرگرمیاں جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے عامر میرکا چہرہ دکھ اورکرب کی گہری تصویر دکھائی دے رہاتھا۔ میں ایک بھائی کا دکھ محسوس کر رہا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہ بات حامد میر سے براہ راست کہنے کے بجائے اس کی اہلیہ ناہید سے کہوں گا جس سے میرا دوہرا رشتہ ہے۔ حامد میر کی اہلیہ ناہید بھی شعبہ ابلاغیات میں ہماری کلاس فیلو تھیں جو بعد ازاں ہماری بھابی بنیں۔
عامر میر کی یہ بات سن کر میری طعبیت بوجھل سی ہوگئی میں نے گھر پہنچ کر اس کا تذکرہ اپنی بیوی غزالہ سے کیا تو وہ بھی شدید پریشان ہوگئی تاہم اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حامد میر سے اصرار کروں کہ وہ پاکستان سے چلاجائے اور کچھ دیر کے لئے صحافتی طور پر دبئی لنگر انداز ہوجائے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ حامد میرجیسے محب وطن اور پیشہ ور صحافی سے ملک چھوڑنے کا وعدہ لینا ایسے ہی ہے جیسے مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈ لیاجائے۔ میری تجویز تھی کہ حامد میر سے ملک چھوڑنے کی بات اسلام آباد اس کے گھر جا کر کی جائے تاکہ وہ معاملہ کی حساسیت کا اندازہ کرسکیں، میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ حامد بھائی ایک باخبر صحافی ہیں یقیناً وہ اس معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہیں لیکن ہمیں انہیں ملک چھوڑنے کے لئے منانا چاہیے اور اس کام میں مجھے دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اسی شام حامد میر کو مجھے لاہور میں دانتوں کے معروف ڈاکٹر گلریز کے کلینک میں لے جانا تھا، جہاں ان کی ایک داڑھ کی فلنگ ہونا تھی۔ کلینک میں سبھی مریض اورڈاکٹر حامد میر کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے، وہ سب سے خوشگوار موڈ میں تصویر بنوانے کے ساتھ ان کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ وہاں کلینک میں ایک خاتون جس نے حجاب اوڑھ رکھا تھا اور اس کے بچے حامد کے فینز تھے اس نے کہا کہ ۔۔۔میر صاحب! ہم سب پاکستانی آپ کا بے حد احترام کرتے ہیں، آپ سچے اورکھرے پاکستانی ہیں لیکن سوشل میڈیا پر آپ کی کردارکشی کی جارہی ہے، آپ کو قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، ہم مسلمان ہیں اورہمارا ایمان ہے کہ عزت اورذلت دینے والی صرف وہی ایک ذات ہے، ہماری دعا ہے کہ پرودگار آپ کی حفاظت کرے۔ حامدمیر نے کہا کہ میری بہن آپ نے جو فرمایا میرا اس پر کامل یقین ہے، آپ میرے لئے دعا کیا کریں، اس کے بعد ہم دونوں گاڑی میں بیٹھے اوروہاں سے آگئے۔
یوں تو مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میرے سوال پر حامد میر کا جواب کیا ہو گا مگر میں نے اتمام حجت کرتے ہوئے اسے ملک چھوڑنے کے لئے کہا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم نے اس خاتون کی بات سنی کہ وہ کیا کہہ رہی تھی؟ پاکستانی مجھے پیار کرتے ہیں، میرے لئے دعا کرتے ہیں، میرے وطن کو میری ضرورت ہے میں پاکستان سے نہیں جاوں گا۔ حامد میر نے میر ے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہاکہ مارنے والے سے بچانے والابڑا ہے، مجھے اوپر والے کا فیصلہ منظورہوگا، وہ جو کرے گا وہی میرے حق میں بہتر ہوگا۔۔۔ 30مارچ کی رات حامد میر اور ناہید بھابی میرے ایک فیملی فنکشن میں شرکت کےلئے اسلام آباد سے لاہور بطور خاص آئے تھے۔ دونوں میاں بیوی وقت مقررہ پر آئے اور10 بجے رات عامر میر کے گھر چلے گئے جہاں سے وہ علی الصبح اسلام آباد روانہ ہوئے۔
19اپریل کی شام حامد میر پر کراچی ائیر پورٹ کے باہر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس کے باعث وہ شدید زخمی ہوئے اورانہیں آغا خان ہسپتال لے جایا گیا۔ نیوز اینکرز مختلف ٹی وی چینلز پر چیخ، چیخ کر حامد میر پر قاتلانہ حملے کی خبر نشر کررہے تھے۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور میں ٹی وی کے سامنے کھڑا اپنے دوست حامد میر کے شدید زخمی ہونے کی بریکنگ نیوز دیکھ رہاتھا۔۔۔ اوہ میرے خدایا۔۔۔ یہ بریکنگ نیوز اس قدر اذیت ناک ہوتی ہے؟ ٹی وی پر حامدمیر کی حالت انتہائی تشویشناک بیان کی جارہی تھی۔ پریشانی اوربے چینی کے عالم میں، میں نے حامد میر کے تینوں بھائیوں کے فون ڈائل کئے مگر عمران، فیصل اورعامر میر تینوں کے نمبرز انگیج ملے۔
ناہید بھابی کا فون بھی مسلسل انگیج مل رہا تھا، ٹیلی وژن پر حامد میر کی انتہائی تشویشناک حالت کی خبر کو ان کے یادگار ویڈیو کلپس کے ساتھ نشر کیا جا رہا تھا جنہیں دیکھ کر میری آنسو بھری آنکھوں میں حامد میرکے ساتھ گزارے ان گنت لمحوں کے عکس موتی بن کر چمکنے لگے۔ حامد میر مجھے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری میں بیٹھا دکھائی دے رہا تھا، وہ مجھے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے برآمدوں اور کلاسز میں نظر آ رہا تھا، وہ پارکنگ میں اپنی موٹر سائیکل پارک کر رہا تھا، وہ مجھے کینٹین میں اپنے دوستوں رانابشیر، سلمان ملک اور بابر رشید کے ساتھ گرم گرم سموسے کھاتا نظر آرہا تھا، سردیوں کی راتوں میں حامد مجھے نیوکیمپس والے گھر میں رضائی اوڑھے دکھائی دے رہاتھا جہاں وہ مجھے صحافت کے بنیادی اصول اوراسلوب سمجھایا کرتا تھا، حامدمجھے دولھا بنا ہوا بھی دکھائی دیا، یہ وہ وقت تھا جب ہم سب یار بیلی باراتی تھے اورہمارا دوست حامد میر دولھا تھا
(جاری ہے)
طاہرمیرسرور صاحب،،، کیا جوگنگ کرتے آپ نے حامد میر سے پوچھا کہ بنگلہ دیشں میں کن خدمات کا ایوارڈ وصول کرنے گئے تھے،،، اور یہ عاصمہ جہانگیر کسی چکر میں تمہارے بغل میں بیٹھی تھی،،، شاید آپ نے یہ سوال اس لئے نہیں پوچھا کہ آپ کو علم ہو گا،،،
مجھے علم نہیں اس لئے آپ سے سوال کر رہا ہوں کہ اگر علم ہے تو مجھے بھی ذرا بتائیں