وفاقی وزیرداخلہ نے دولت اسلامیہ کی طرف سے پاکستان میں قدم جمانے کے سوال پر معاملہ تقریباً صاف کردیا ہے، اُن کا موقف ہے کہ بعض تنظیمیں دولت اسلامیہ کی حامی ہیں جبکہ بذات خود دولت اسلامیہ کا ابھی تک پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔وفاقی وزیرداخلہ اصل میں کہنا یہ چاہتے ہیں کہ دولت اسلامیہ عراق و شام ابھی تک پاکستان میں اپنے اصلی چہرے کے ساتھ موجود نہیں بلکہ اس کے حامی خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔یقینی طور پر دولت اسلامیہ پاکستان میں اپنی باقاعدہ شاخ کھولنے سے پہلے وفاقی وزارت داخلہ کو درخواست ارسال نہیں کرے گی ۔کیوں کہ ابھی تک سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دولت اسلامیہ کو پاکستان کی روایتی جنگجو تنظیموں کی طرح خیرات اور صدقے کے پیسے کے لیے قومی بینکوں میں اکاو نٹ کھولنے کی حاجت نہیں۔ماضی اس بات کا شاہد ہے کہ اب کی بار بھی پاکستان کی زبردست خفیہ ایجنسیاں اور حکومتی ادارے دولت اسلا میہ کو پاکستان میں دیکھنے سے ایک لمبے عرصے تک قاصر رہیں گے اور جب تک ابوبکر بغدادی کسی غار یا حجرے میں مارا نہیں جاتا، ہمیں کچھ ’’معلوم‘‘ نہیں ہوگا کہ کون تھا اور کہاں تھا۔
کچھ سال پہلے جب میں نے ’’پنجابی طالبان‘‘ پر تحقیق کی اور اس کو ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا تو اچانک میں نے اپنے آپ کو بڑے بڑے دھانے والی توپوں کے سامنے پایا۔
ہمارے اکثر و بیشتر ‘دانش مندان و ماہرین’ کے خیال میں دولت اسلامیہ اور اس کا اب تک سامنے آنے والا موقف اور اعمال ہماری سرزمین کے لیے اجنبی ہیں۔یہ ایک ایسی منطق ہے جس کا کوئی توڑ نہیں اور اگر کوئی اس کے خلاف موقف اپنانے کی کوشش کرے تو پھر اُس کی خیر نہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ سال پہلے جب میں نے ’’پنجابی طالبان‘‘ پر تحقیق کی اور اس کو ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا تو اچانک میں نے اپنے آپ کو بڑے بڑے دھانے والی توپوں کے سامنے پایا۔حال یہ تھا پنجاب کا وزیراعلیٰ اور وزیر قانون نجی محفلوں میں مجھے گالیاں دیتے تھے کہ یہ کون ہے جس نے پنجاب کی صوفیانہ آدرشوں سے لبریز پُرامن سرزمین کے منہ پر کالک پوتنے کی کوشش کی ہے۔دوسری طرف پنجابی پیارے سوشل میڈیا پر چڑھ دوڑے اور پنجاب کے ساتھ میری غداری کے فتوے جاری ہونے لگے۔بھلا ہو عصمت اللہ معاویہ کا جس نے بروقت وفاقی حکومت اور پاکستانی میڈیاکو انتباہی خط لکھ کر سزائے موت کے منتظر قیدیوں کو نہ صرف موت سے بچالیا بلکہ مجھے کہنے کا حوصلہ دیا کہ دیکھو پنجابی طالبان کا کچھ نہ کچھ وجود تو بہرحال ہے۔
پاکستان کے جن جن شہروں اور قصبات میں دولت اسلامیہ کی حالیہ اشتہار بازی سامنے آئی ہے اُن میں سے زیادہ تر شہروں کا پاکستان کی فرقہ وارانہ تاریخ میں اہم کردار ہے۔ پنجاب میں کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے مخصوص تعلیمی و تنظیمی مرکز کبیر والا(خانیوال) اور ملتان میں مقامی انتظامیہ ششدر ہے کہ کس طرح راتوں رات ’’نامعلوم‘‘ افرادنے پورے شہر کی دیواروں پر دولت اسلامیہ کے نعرے لکھ دئیے۔ملتان میں دولت اسلامیہ کے لیے چاکنگ کرنے والوں میں شامل گرفتارافراد پہلے ہی مقامی پولیس کو بعض سنگین جرائم میں مطلوب تھے اور اُن کا تعلق کالعدم سپاہ صحابہ سے ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام اور عراق میں مصروف دولت اسلامیہ کے فرقہ وارانہ تصورات اور قتل و غارت سے فوری طور پر متاثر ہونے والوں میں کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی شامل ہیں، جنہوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر پاکستان میں دولت اسلامیہ کے حقوق حاصل کرنا شروع کردیئے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے مسلح گوشوں سے دولت اسلامیہ کے لیے ہمدردری کے چشمے پھوٹ رہے ہیں اور تحریک طالبان کے علاوہ کئی متشدد گروہوں نے دولت اسلامیہ کی پاکستانی شاخیں قائم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
پاکستان کے جن جن شہروں اور قصبات میں دولت اسلامیہ کی حالیہ اشتہار بازی سامنے آئی ہے اُن میں سے زیادہ تر شہروں کا پاکستان کی فرقہ وارانہ تاریخ میں اہم کردار ہے۔
ایک عام تصور یہ ہے کہ دولت اسلامیہ پاکستان میں وہ پذیرائی حاصل نہیں کرپائے گی جو القاعدہ کے حصے میں آئی۔لیکن یہ خیال اس وقت غلط ثابت ہونے لگتا ہے جب پاکستان کی ہر قسم کی فرقہ وارانہ تنظیمیں دولت اسلامیہ سے محبت کی دوڑ میں بازی لیجانے میں بیتاب نظر آتی ہیں۔فرقہ وارانہ جماعتوں میں القاعدہ کے لیے اس طرح کی بیتابی کبھی نظر نہیں آئی۔اس کے علاوہ پاکستان میں القاعدہ اور بعض فرقہ پرست گروہوں کے تعلقات کہیں بہت بعد میں استوار ہوئے جب کہ پاکستان میں القاعدہ کا غالب تعارف فرقہ وارانہ نہیں۔القاعدہ جیش محمد اور سابق حزب الجہاد الا سلامی جیسے گروہوں کے زیادہ قریب تھی اور ان گروہوں کا تعارف مکمل طور پر فرقہ وارانہ نہیں تھا۔دونوں مذکورہ بالا گروہوں کی قیادت اور اراکین کی بہت بڑی تعداد چوں کہ کراچی کے دیوبندی مدارس کی فارغ التحصیل تھی، اس لیے بعض اوقات مخالف مسالک کے بارے میں ایک اجتماعی بیزاری اُن کے ہاں نظر آجاتی ہے لیکن اُنہیں اس طرح فرقہ پرست قرار دینا جس طرح سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی وغیرہ ہیں مناسب نہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں دولت اسلامیہ کو القاعدہ سے کہیں زیادہ پذیرائی ملے گی اور اس کے اہداف زیادہ تر مقامی ہوں گے۔القاعدہ نے کہیں بہت عرصے بعد مقامی ضروریات کے پیش نظر مجبوراً فرقہ وارانہ بنیادوں پر اپنے روابط بڑھانا شروع کیے اور مقامی فرقہ پرستوں کو اپنی صفوں میں شامل کیا، لیکن پاکستان میں عام فرقہ پرست جماعتوں کی طرح مخالفین پر کھلے حملے نہیں کیے بلکہ اپنے فرقہ وارانہ تصورات کو ایران اور افغانستان کے اندر موجود مسلکی مخالفین کے ساتھ معاملات میں استعمال کیا۔یا پھر بلوچستان جہاں القاعدہ کو افغانستان میں آپریشنل معاملات کے لیے ناگزیر موجودگی کو برقرار رکھنا تھا، وہاں پر مقامی فرقہ پرستوں کے ساتھ ہموار تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے مسلکی مخالفین پر ہاتھ ڈالا گیا، جس کے بعد ہم نے کوئٹہ اور پاک ایران سرحد پر فرقہ وارانہ قتل و غارت کے مظاہرے دیکھے۔ لیکن دولت اسلامیہ اس حوالے سے زیادہ مہلک ثابت ہوگی کیوں کہ اس کا غالب تصور فرقہ وارانہ قتل و غارت سے لبریز ہے۔
پاکستان کی ہر قسم کی فرقہ وارانہ تنظیمیں دولت اسلامیہ سے محبت کی دوڑ میں بازی لیجانے میں بیتاب نظر آتی ہیں۔فرقہ وارانہ جماعتوں میں القاعدہ کے لیے اس طرح کی بیتابی کبھی نظر نہیں آئی۔
یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے کہ پاکستانی ریاست اور اس کے ادارے دولت اسلامیہ کے ساتھ کس قسم کا سلوک کریں گے کیوں کہ جہاں تک پاکستان کی روایتی سیاست کا تعلق ہے، پاکستان میں کامیاب سیاسی جماعتیں فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ کسی قسم کی بیزاری کے بجائے اِن سے انتخا بات اور دیگر سیاسی اُمور میں مسلح معاونت حاصل کرتی رہی ہیں۔مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی باقاعدہ فرقہ پرستوں کی مسلح امداد کو استعمال میں لانے والی دو بڑی پارٹیاں ہیں۔تحریک انصاف کی قیادت کے ہاں بھی ان گروہوں کے بارے میں کوئی خاص بیزاری نظر نہیں آتی جب کہ عمران خان اکثر اوقات متذبذب بیان بازی کا شکار رہتے ہیں جو نہ صرف مقامی مسلح گروہوں کو فائدہ پہنچاتی ہے بلکہ اِن کی جماعت کے بارے میں ابہام بڑھاتی رہتی ہے۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ فرقہ پرست گروہوں کے بارے میں قومی سطح پر اتفاق رائے نہ ہونے کے برابر ہے اور جس کا براہ راست فائدہ شورش پسند اُٹھاتے ہیں۔دولت اسلامیہ کی پاکستان میں آمد اور پھر مضبوطی کی راہ میں بظاہر کوئی روکاوٹ نظر نہیں آتی۔
Adobe photoshop 😀 hahahahaha saf nazar aaraha hay
انتہائی خوفزدہ کن حقائق۔ عام شہری یقینا داعش میں دلچسپی نہیں رکھتے ہوں گے جیسا کہ سوشل میڈیا اور دیگر خبری زرائع سے حاصل ہونے والی معلومات سے اندازہ ہوتا ہے داعش ایک مسلح جنگجو روایت پسند اور لاجک سے عاری جماعت نظر آتی ہے۔ ایک ایسی جماعت جو اپنے سوا کسی دوسرے کا وجود یا رائے برداشت کرنے کو زرا بھی تیار نہیں۔ عورتوں کے ساتھ ان کے سلوک کی جو جھلکیاں ملتی ہیں وہ بھی رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہیں۔ خدا نہ کرے اگر یہ جماعت پاکستان میں آتی ہے اور کسی طرح سے بھی پذیرائی پاتی ہے تو پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز بھی باقی نہیں رہ جائے گا۔ لیکن سوال وہی کہ کون کون کہاں کہاں بھاگ سکتا ہے۔ یہ ہمارا ملک ہے اور اس پہ کسی طرح کی انتہا پسند جماعت کا تسلط ہونا ہم سب کی بطور پاکستانی شناخت کے لیے انتہائی خطرہ ہے۔