دماغ سے تو ہم بہت کچھ سوچتے ہیں لیکن دل کی بات تب ہوتی ہے جب اس کوسوچتے ہوئے سینے میں گدگدی ہو یا پھر درد اٹھے۔ آج میں کچھ ایسی باتیں کرنا چاہتا ہوں جن کو سوچ کر دل میں درد جاگ جاتا ہے۔ سانس لینا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو کسی سنگدل دلربا کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ یہ میرے ملک کے بارے میں ہیں۔یہ پاکستان کے بار ے میں ہیں جو انہتر سال سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔اور آزادی کے انہتر سال بعد اس کی حالت یہ ہے کہ ہر پاکستانی ایک لاکھ سے زائد کا مقروض ہے۔ پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کا دوسرا بدترین پاسپورٹ ہے۔ اور اچھی خبر یہ ہے کہ پہلے نمبر پر افغانستان کا پاسپورٹ ہے۔ کم از کم ہم اس سے تو بہتر ہیں۔(یہ فقرہ میں نےخوش خیالوں کے لئے لکھی ہے تاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ میری ہربات منفی ہوتی ہے)۔ ریلوے جو کہ تقسیم کے وقت بہترین تھا اس وقت سالانہ 26 ارب کا ٹیکا خرانے کو لگا رہا ہے۔ دوسری طرف پی آئی اے 36 ارب کا نقصان کررہی ہے۔ چلتے چلتے خیال آیا کہ اس سال ایتھوپیا کی ائیرلائن نے 170 ارب روپے کمائے ہیں۔
اس ملک کا مقصد تھا کہ یہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور کھانے کو اچھی خوراک ملتی۔ تعلیم ملتی اور بیمار پڑنے پر صحت کی سہولت ملتی۔ ۔ سرچھپانے کو کوئی ڈھنگ کی چھت ملتی۔تن پر اوڑھنے کو ئی اچھا کپڑا ملتا۔
یہ عظیم ملک چودہ اگست انیس سو سنتالیس (اگرچہ درست تاریخ پندرہ اگست ہے) کو وجود میں آیا۔ اس ریاست کا مقصد جان ومال کی حفاظت کرنا تھا، اس ملک کا مقصد دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا تھا۔ اس کا مقصد برائیوں سے بچنا اور اچھائیوں کو اپنانا تھا۔ اس کا مقصد لوگوں کو ایسی زندگی دینا تھا کہ وہ تاریکی کے نہیں بلکہ روشنی کے استعارے بنتے۔ وہ دہشت کے نہیں بلکہ امن کے سہارے بنتے۔ اس ملک کا مقصد تھا کہ یہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور کھانے کو اچھی خوراک ملتی۔ تعلیم ملتی اور بیمار پڑنے پر صحت کی سہولت ملتی۔ ۔ سرچھپانے کو کوئی ڈھنگ کی چھت ملتی۔تن پر اوڑھنے کو ئی اچھا کپڑا ملتا۔
لیکن اگست کا مہینہ ہے، یوم آزادی ہے اور میں اپنی سات ماہ کی بیٹی کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ اس ملک میں آنے والی میری نسل کی چوتھی پیڑھی ہے۔ میرے دادا، دادی اس ملک میں کسمپرسی کی زندگی گزار کر گئے۔ پھر میرے ماں باپ نے تمام عمر مشقت میں گذاری اور ان کی زندگی کا ایک بھی سال ایسا نہیں تھا کہ وہ پرسکون اور خوش رہے ہوں۔ پھر میں پیدا ہوا اور پھر جوان بھی ہوگیا۔ لیکن وراثت میں ملی تنگدستی نہ جاسکی۔ اور اب میری سات ماہ کی ایک بیٹی ہے۔ میری نسل پہلے گوروں کی غلام تھی اور اب یہاں کے کالوں کی غلام ہے۔میری نسل اور میرے ملک کی دیگر نوے فیصد آبادی کی مثال اس کمہار کے گدھوں کی سی ہے جس کو چوروں نے ایک جنگل میں لوٹ لیا۔اس کے گدھے ایک جانب کھڑے رہے۔ ان میں سے ایک بولا کہ ہمیں چور لے جائیں گے۔ تو دوسرے نے کہا کہ کیا فرق پڑتا ہے۔ کمہار ہو یا چور ہم نے تو دونوں کا بوجھ ہی ڈھونا ہے۔
بس ہم بھی وہی گدھے ہیں۔ ایک مالک کی غلامی سے نکلے تو دوسرے کی غلامی میں جاپھنسے۔ آزاد ی کے نام پر ہمیں جھانسا دیا گیا۔ ہمارے نسلوں کو ہجرت کے درمیان مروایا گیا۔ ہمارے آباؤاجداد کٹی پھٹی لاشوں کی شکل میں اس ملک کی سرحدو ں میں داخل ہوئے۔ جبکہ ہمارے آقا جہازوں پر چڑھ کر اور باعزت طریقے سے اس ملک میں ہجرت کرکے آئے۔ہمارےآباؤاجداد کی بہنوں، بیویوں او بیٹیوں کی عزتیں لٹیں۔ ہمارے آقاؤں کی خواتین کو گرم ہوا کا جھونکا تک نہ چھو سکا۔ہمارے اجداد کو جس ملک میں عزت، روٹی، چھت اور کپڑا دینے کا وعدہ کیا گیا وہاں ان کی قبریں تک نہ بن سکیں اور ان کی لاشیں گدھوں کے پیٹ کا رزق ہوئیں یا پھر گل سڑ کر تعفن دیتی رہیں۔
ہمارے اجداد اس ملک کے حکمرانوں کے غلام تھے۔ ان کے حرص اور ظلم کی چکی میں پستی رہے۔ہر جشن آزادی کو یہ خواب دیکھتی رہے کہ حالات اچھے ہوجائیں گے۔
ہمارے اجداد قربانیاں دے کر آئے اور کیمپوں میں روتے، سسکتے اور بلکتے رہے۔ ہمارے آقاؤں کی اکثریت گھروں، کوٹھیوں، جائیدادوں کی الاٹمنٹ کراتی رہی۔ بڑی بڑی جاگیروں پراپنےنام کی تختیاں لگواتی رہی۔ قربانیاں کسی اور نے دیں۔ فائدہ آقاؤں نےاٹھایا۔ ملک کسی اور نے بنایا حکمران بننے آقا آگئے۔ اور پھر ایسے آئے کہ آج تک گردن پر سوار ہیں۔ ہماری ہر نسل غلام ابنِ غلام ابن ِغلام ہے۔اور ان کی ہر نسل ابنِ نجیف ابنِ نجیف ابنِ نجیف۔
ہمارے اجداد اس ملک کے حکمرانوں کے غلام تھے۔ ان کے حرص اور ظلم کی چکی میں پستی رہے۔ہر جشن آزادی کو یہ خواب دیکھتی رہے کہ حالات اچھے ہوجائیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پھرہمارے ماں باپ نے اس ملک میں جنم لیا اور انہوں نے بھی غربت اور افلاس دیکھی۔ ہر جشن آزادی کو انہیں خبر نہیں ہوتی تھی کہ آزادی کا جشن منایا جارہا ہے۔وہ تو بس دو وقت کی روٹی کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہے۔
پھر ہماری نسل کے لوگ پیدا ہوئے۔ جشن آزادی آتی تو ہم پیسوں کی کمی کی وجہ سے بڑے جھنڈے کی بجائے پچاس روپے والا چھوٹا جھنڈا اپنے گھروں پر لہراتے رہے ۔ کاغذی جھنڈوں کی پوری گڈی لینے کی بجائے آدھی لے کر اس کو دھاگوں میں لگا کر اپنے دروازوں کی چوکھٹوں اور صحنوں کے درمیان لگاتے رہے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے ۔ملی نغموں پر جھومتے رہے ۔لیکن ہمارے حالات نہیں بدلے۔ ہمارے حکمران ہم سے جھوٹ بولتے رہے اورہم یہ جھوٹ سنتے رہے۔ہمارے تنوں پر کپڑا، پیٹ میں روٹی اور سر پر چھت کا خواب ٹکڑے ٹکڑے ہوتا رہا۔ ٹکر کی جگہ ٹھوکر ملی، کپڑے کے نام پر کفن دیا، چھت کے نام پر کال کوٹھڑی میں دھکیلا ۔ہمارے لئے تو آزادی ایک آقا سے دوسرے آقا کی غلامی تک کا سفر ثابت ہوا۔ اور ایک ایسا بھیانک سفر جس میں ہم نے تو فقط کھویا اور آقاؤں نے کئی گنازیادہ پایا۔
جشن آزادی کے موقع پر جوش وخروش سے بھرے اپنے بچوں کو غور سے دیکھنا چاہیے۔ ہمیں ان کے گالوں پرپھیلی شفق کو دیکھنا چاہیے۔ اور ہمیں ان کے اندر موجود آزاد انسانوں کو بچانا چاہیے۔
آج جب میں اپنی بیٹی کو دیکھتا ہوں تو میرے دل پر ایک زور کا گھونسا پڑتا ہے۔ مجھ سمیت میرے خاندان کی تین نسلیں اس ملک میں برباد ہوگئی ہیں۔ وہ حکمرانوں کی غلام تھی۔ میری بیٹی بھی مجھے ایک غلام لگتی ہے۔ میں آپ سے گذارش کرتاہوں کہ اپنے بچوں کو غور سے دیکھیں۔ ان کا مستقبل سوچیں۔ شاید پہلے بھی سوچا ہو لیکن آج ایک بار پھر غور سے سوچیں۔ وقت بڑی عجیب چیز ہے یہ دکھ اور درد کے احساس کو دھندلاتارہتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ہم نے جو دکھ اور درد سہے کیا وہ ہماری یہ نسل بھی سہے گی۔ سوچیں اور بار بار سوچیں۔ کیونکہ ہمارے آباؤاجداد نے اس پر کچھ زیادہ غور وفکر نہیں کیا۔
دنیا میں بس دو ہی طبقے ہیں۔ ظالم طبقہ اور مظلوم کا طبقہ۔ ہم مظلوموں کا طبقہ ہے۔ یہ ہوٹروں کے ساتھ دندناتا ہوا ظالموں کا طبقہ ہے۔ جو سڑکوں پر ڈنڈے اور مکے کھا رہا ہے یہ ہم مظلوں کا طبقہ ہے۔ جو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں دعوتیں اڑا رہا ہے اور ہمارے پیسے پر بیرون ملک جاکر گلچھڑے اڑا رہا ہے یہ ظالموں کا طبقہ ہے۔اب ہمیں سوچنا چاہیے۔ جشن آزادی کے موقع پر جوش وخروش سے بھرے اپنے بچوں کو غور سے دیکھنا چاہیے۔ ہمیں ان کے گالوں پرپھیلی شفق کو دیکھنا چاہیے۔ اور ہمیں ان کے اندر موجود آزاد انسانوں کو بچانا چاہیے۔ اس ملک کے لالچی، کریہہ اور بدشکل حکمرانوں اور آقاؤں سے بچاناچاہیے۔ ہماری تین پیڑھیاں ان کی حرص کی بھینٹ چڑھ چکیں اور یہ ہمیں برباد کررہے ہیں۔لیکن ہماری چوتھی نسل کے ساتھ یہ سب نہیں ہونا چاہیے، یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔اب یہ سلسلہ تھمنا چاہیے، حقیقی آزادی کے حصول تک، یکسان مواقع کی فراہمی تک اور انسانی مساوات کے قیام تک۔ بہت ہوگیا یہ تماشا، بہت ہوگیا جشن آزادی کا ڈرامہ۔
Image: Zahoor
Leave a Reply