واہگہ بارڈر پر ہونے والے خود کش حملہ کی علامتی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خود کش حملہ ایک یاددہانی ہے کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے اور ہمیں خطرہ کس جانب سے ہے۔اپنے روایتی دشمن ہندوستان کے سامنے اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لئے جانے والوں کا اپنے ہی "دوستوں” کے ہاتھو ں مارا جانایہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ دشمن ہمارے اندر اور ہماری صفوں میں ہی موجود ہے۔
پاکستان کی 71 کے سانحہ کے بعد اپنائی جانے والی دفاعی حکمت عملی اور اسی کی دہائی کی فارن پالیسی جو ہندوستان دشمنی پر مبنی ہیں پاکستان کے تحفظ میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت جن غیر ریاستی عناصر کو مسلح کر کے افغانستان اور پھر ہندوستان روانہ کیا گیا تھا آج وہ بندوقیں تانے ہمیں ہی فتح کرنے لوٹ آئے ہیں۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو طالبان اور شدت پسندوں سے مذاکرات کی حامی تھیں اور انہیں اپنے لوگ قرار دیتی تھیں اب حکومت کو اس ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش میں ہیں۔
اپنے روایتی دشمن ہندوستان کے سامنے اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لئے جانے والوں کا اپنے ہی "دوستوں” کے ہاتھو ں مارا جانایہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ دشمن ہمارے اندر اور ہماری صفوں میں ہی موجود ہے۔
ہندوستان، اسرائیل اور امریکہ کو دشمن قرار دینے والے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ ان دہشت گردوں کے نام لینے سے کتراتے ہیں، اس قدر سہمے ہوئے ہیں کہ کھلے بندوں مذمت کرنے سے ڈرتے ہیں، اس قدر کم زور ہیں کہ عوامی اجتماعات پر جانے سے کتراتے ہیں۔ یہ دشمن نادیدہ نہیں بلکہ برسوں سے ہمارے اندر جہاد کے نام پر چندہ اور کھالیں اکٹھی کرنے میں مصروف ہے، یہ دشمن خاموش نہیں بلکہ ہر منبر ، محراب اور لاوڈ سپیکر سے ہمیں مزید شدت پسندی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ ہمارا یہ دشمن سرحد کے اُس پار نہیں بلکہ اِس پار ہے اور اجنبی بھی نہیں ہماری مسجدوں، گھروں، گلیوں اور کوچوں میں ہمارے ہی ارد گرد موجود ہے۔ لیکن ہم سب خوف زدہ ہیں اسے پہچاننے سے انکاری ہیں، اس کا تعاقب کرنے سے ڈرتے ہیں اور اسے سزا دینے سے گھبراتے ہیں۔
ہماری عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ذرائع ابلاغ سمیت سبھی پر اسی شدت پسندسوچ کی چھاپ ہے جو ان دہشت گردوں کو جان لینے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ مذہب کی من مانی تشریح کے بل مزہب نافذ کرنے والی مذہبی جماعتیں جو ہتھیار اٹھانے کی قائل نہیں وہ بھی اس قاتل کی نظریاتی جیت یقینی بنانے میں کوشاں ہیں۔ سیاسی مفادات سے بندھے حکم ران اور قائدین مرنے والوں کے لئے امدادی رقوم کا تو اعلان کرتے ہیں لیکن ذمہ داروں کو للکارنے سے گریزاں ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک جو تکفیر، شدت اور انتہاپسندی کا حامی ہے یا اس سب پر خاموش ہے، وہ ہم میں سے ہر ایک کا اتنا ہی دشمن ہے جتنا وہ فرد، تنظیم اور نظریہ جو خود کش حملہ کرنے میں ملوث ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک جو تکفیر، شدت اور انتہاپسندی کا حامی ہے یا اس سب پر خاموش ہے وہ ہم میں سے ہر ایک کا اتنا ہی دشمن ہے جتنا وہ فرد، تنظیم اور نظریہ جو خود کش حملہ کرنے میں ملوث ہیں۔
ہندوستان دشمنی کو اور امریکہ مخالف جذبات کو ہوادے کر سیاسی مقاصد کے حصول کی کوشش اب ترک کرتے ہوئے اپنی صفوں میں موجود ہتھیار بندوں کے خلاف کھل کر بولنا ہو گا۔ یہ شدت پسند محض ہماری زندگی اور موت کے فیصلے کر رہے ہیں اور ہمیں شکست کے خوف سے دوچار کر کے ہم پر قابض ہونا چاہتے ہیں مگر کوئی بھی ان کی نشاندہی نہیں کرنا چاہتا،کوئی ان کے ہاتھ روکنے کو تیار نہیں۔
سیاستدانوں کو سمجھنا ہوگا کہ اصل مسئلہ انتخابات میں دھاندلی یا کرپشن نہیں بلکہ شدت پسندی ہے جو فرقہ واریت، تکفیریت اور دہشت کی صورت میں ہم پر مسلط ہے، حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ سڑکیں اور شاہراہیں نہیں ذہن سازی اسل مسئلہ کا حل ہے۔ایک ضرب عضب نہیں بلکہ ہر گلی محلے میں، ہرکتاب اور دماغ میں چھپے شدت پسند کو پکڑنا ہوگا۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: