[blockquote style=”3″]
تصنیف حیدر شاعر ہیں اور شاعر بھی وہ جو غزل میں تجربات اور جدت طرازی سے خوف زدہ نہیں۔ دوردرشن اور ریختہ سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل انٹرنیٹ پر اردو ادب کی سہل اور مفت دستیابی کے لیے ادبی دنیا کے نام سے اپنی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ ان کی آپ بیتی “دس برسوں کی دلی” ان کے دلی میں گزرے دس برس پر محیط ہے جس کی بعض اقساط ادبی دنیا پر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس آپ بیتی کو اب مکمل صورت میں لالٹین پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
دس برسوں کی دلی کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
قسط نمبر 4
ہر شخص کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ وہ ان باتوں کو بھول جاتا ہے، جنہیں بھولنا چاہتا ہے اور ان باتوں کو یاد رکھتا ہے جنہیں یاد رکھنا چاہتا ہے۔
آپ کو اپنی زندگی کا کوئی بھی پہلا تجربہ شاید کبھی نہ بھولتا ہو، باقی باتیں تب ہی یاد رہ پاتی ہیں جبکہ ان کی کوئی اہمیت ہو یا پھر آپ نے انہیں یاد رکھنے کے لیے ہمیشہ سے اپنے دماغ کو ایک تربیت دی ہو، ہر شخص کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ وہ ان باتوں کو بھول جاتا ہے، جنہیں بھولنا چاہتا ہے اور ان باتوں کو یاد رکھتا ہے جنہیں یاد رکھنا چاہتا ہے۔ بعض لوگ اپنے عشق کا غم، اپنی کسی ناکامی کا روگ زندگی بھر گلے سے لگائے گھومتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہی ہو گا اور لازمی طور پر اس کے لیے نفسیات میں کوئی خاص اصطلاح بھی ہو گی، جسے اگر کسی عام آدمی کے سامنے بیان کر دیا جائے تو وہ انگریزی اصطلاح کسی بیماری کے نام جیسی ہی معلوم ہو گی۔
میں دہلی کا پہلا دن نہیں بھولتا ہوں۔۔۔ایسا دن، جیسا کسی اسکول میں داخلے کے بعد ہو، اس اسکول میں جہاں آپ کا داخلہ پہلی جماعت کےبجائے چھٹی جماعت میں ہوا ہو، آپ کو اپنےوالد کے فوری تبادلے کی وجہ سے کہیں منتقل ہونا پڑا ہو، نئے اساتذہ، نئے طالب علم، نیا ماحول، نیا نصاب، یہ سب کچھ درازوں، جھروکوں میں سے ہر وقت آپ کو تاکتے ہوئے احساس دلاتے رہتے ہیں کہ آپ اس ماحول میں الگ ہیں، نئے ہیں اور اجنبی ہیں۔ میرے ساتھ دہلی کے پہلے دن نے ایسا ہی سلوک کیا۔ میرے بڑے کے بھائی ساتھ نہیں، جس کا نام فرحان ہے اور جسے ہم گھر میں بھائی جان اور والدین ساحل کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کو نئی جگہوں پر جانے، انہیں دیکھنے، نئے لوگوں سے ملنے، راستے پیدا کرنے، بھٹکنے اور ان بھٹکے ہوئے راستوں میں خود کو ڈھونڈ نکالنے کا فن آتا ہے۔ وہ دہلی میں بھی پہلے دن ہی مجھے لے کر حضرت نظام الدین اولیا علیہ الرحمۃ کی مزار پر حاضری دینے نکل کھڑے ہوئے۔ میں نے کہا کہ آٹو رکشہ کرتے ہیں، انہوں نے ہمارے خالہ زاد بھائی سے بس کا روٹ معلوم کیا اور ہم پہلی دفعہ ایک پکے بس اسٹاپ پر کھڑے ہو کر آنے والی بس نمبر 403 کا انتظار کرنے لگے، جو آشرم، بھوگل ہوتے ہوئے حضرت نظام الدین تک جاتی تھی۔
لگ رہا تھا، جیسے ہم مزار کی ابتدا میں چلنے والی کھردری زمین پر قدم نہیں رکھ رہے تھے، بلکہ کسی دھول میں اٹے ہوئے رنگین مخمل کی طرح کھلتے جا رہے تھے
میں آپ سے بیان نہیں کر سکتا کہ میرے اندر آج بھی ایک روحانی شخص بستا ہے، جس کا حضرت نظام الدین اولیا سے ایک الگ اور بالکل انوکھا تعلق ہے، یہ آستانہ ہم جیسے کافروں کو اسلام پرستی کے سبق نہیں سکھاتا، بس گیت گانا سکھاتا ہے، ملہار گانا سکھاتا ہے خوشی کے۔ اپنے ہونے کے احساس سے دوچار کرتا ہے، میری تربیت کہیے یا کچھ اور لیکن میں نے حضرت نظام الدین اولیا کی زندگی کو جتنا جانا، ان کی محبت دل میں زیادہ سے زیادہ جاگتی رہی، الحاد کا خوگر ہونے پر بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پایا ہے اور نہ ٹوٹے گا۔ اس دن کی تو بات ہی اور تھی، لگ رہا تھا، جیسے ہم مزار کی ابتدا میں چلنے والی کھردری زمین پر قدم نہیں رکھ رہے تھے، بلکہ کسی دھول میں اٹے ہوئے رنگین مخمل کی طرح کھلتے جا رہے تھے، کچھ تھا جس منظر کو بیان نہیں کیا جاسکتا، لوگ آس پاس کے انہی میلے کچیلے فقیروں، آواز لگاتے، لنگر کے لیے مجبور کرتے ہوٹل والوں کو دیکھ سکتے تھے، پھول بیچنے والوں اور آنے والے قدموں کی پاپوش کا رشتہ تلاش کر سکتے تھے، مگر نہیں دیکھ سکتے تھے کہ میں جو اپنی تنہائی، درد اور تھکن کا سارا احساس لے کر ان کے پاس آیا ہوں کیسے خود کو اس وقت خلائوں میں محسوس کر رہا ہوں، ہاں یہی بستی کبھی غیاث پور رہی ہو گی۔ یہیں محبوب الہیٰ نے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا ہو گا، اسی زمین سے ہوکر امیر خسرو ان کے دربار پہنچتے ہوں گے، یہیں کہیں کسی تہہ میں ابھی بھی ان ذروں کی مہک موجود ہو گی، جن کے قدم ان کے قدموں کی چاشنی میں گھل سکے ہوں گے، چاند کبھی انہی گلیاروں میں ٹکٹکی باندھ کر ان کے روشن چہرے کا دیدار کرتا ہوگا، یہیں کبھی ان لبوں سے نکلی ہوئی ایک آواز گونجتی ہوگی، آتے جاتے لوگوں کے قدموں کو تھامتی، ان کے دلوں کو روزانہ کے بے کار، بے مصرف روزگار کی الجھنوں سے نکل کر اپنا باطن ٹٹولنے پر مجبور کرتی، گنہگاروں کے ضدی پن پر ہنستی، دکھیوں، ناچاروں کے ساتھ روتی ہوئی، بادشاہ وقت کے ہر ظلم کے خلاف لنگر کا حکم دیتی ہوئی آواز۔ اسی دریائے عنایت کے نزدیک کبھی وقت کے بڑے بڑے قد آور جہاز لنگر انداز ہوتے ہوں گے اور خود کو ان کی ایک جھلک کے سمندر میں ڈبونے چلے آتے ہوں گے۔ یہیں سینکڑوں رقص کرتے، جھومتے دنیا بھر کے رومی، خسرو کی آواز سے آواز ملا کر کہتے ہوں گے۔
چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نینا ملائی کے
ہندوستان میں محبت کا سب سے عظیم الشان گہوارہ تاج محل نہیں ہے، ہرگز نہیں، بلکہ حضرت نظام الدین اولیا اور حضرت امیر خسرو کی یہ مزارات ہیں۔
میں مزار پر پہنچا تو کافی بھیڑ تھی، ہم نے پہلے حضرت امیر خسرو کے یہاں حاضری دی، امیر خسرو ہندوستانی عشق کی ایک سچی علامت ہیں، ان کے یہاں موسیقی، رقص، سماع، رنگ اور دوسری بہت سی صلاحیتوں کے جو جواہر دکھائی دیتے ہیں وہ دراصل عشق کی آگ نے پیدا کیے تھے۔ نیچے ٹاٹ کا لباس پہنے اور اوپردربار میں رہنے کی مجبوری میں شاہی کپڑےڈال کر انہوں نے فرض عشق اور فرائض دنیا کو نبھانے کے جو طریقے ایجاد کیے، جو راہیں سجھائیں، ان کی مثال تاریخ عالم میں ملنا مشکل ہے۔ ہندوستان میں محبت کا سب سے عظیم الشان گہوارہ تاج محل نہیں ہے، ہرگز نہیں، بلکہ حضرت نظام الدین اولیا اور حضرت امیر خسرو کی یہ مزارات ہیں۔ عاشق و معشوق کی ایسی خوبصورت دنیا، جس میں وہ تنہا بھی ہیں اور دنیا بھی ان کی شریک ہے۔ میں نے حضرت امیر خسرو سے دعا مانگی اور کہا کہ میں لکھنے پڑھنے میں بے حد کمزور ہوں، وہ آپ کا دست شفقت ہوسکتا ہے، جو عشق کے نور سے میرے تن بدن کو معمور کردے اور میں بھی اپنی تنہائی کے اندھیرے میں کسی چراغ کی طرح جل اٹھوں اور اس چراغ سے ٹپکنے والی سیاہی سے جو حرف لکھوں وہ دنیا کی آنکھوں میں کسی طلسمی سرمے کا سا کام کریں۔ اب تو خیر میں دعاوں کا قائل نہیں رہا، لیکن اس وقت میں نے یہ دعا مانگی تھی اور دل کی گہرائیوں سے، اسی طرح ہم حضرت نظام الدین اولیا علیہ الرحمۃ کے یہاں بھی سرجھکائے حاضر ہوئے۔ حالی کا شعر مجھے یاد آیا
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہہ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز
دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز
فی الواقعی محبوب الہی کا جسد مبارک کسی خزانے سے کیا کم ہوگا، وہ سینہ جس میں خدا کی مخلوق کے لیے محبت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر قید ہوں، راز و نیاز کی دنیائیں بند ہوں اور وہ آنکھیں جو کھلی ہوئی ہوں، بیدار ہوں ، وہ لفظ جو مہک رہے ہوں، تازہ ہوں۔ سات سو سال بعد بھی جن کی درخشانی و تابانی میں کوئی انقلاب سر مو فرق نہ لاسکا ہو۔ انگریزوں نے شاہجہاں کی بنائی ہوئی جامع مسجد کو اٹھارہ سو ستاون کے بعد اصطبل میں تبدیل کردیا تھا، گھر گھر خون ٹپک رہا تھا، لاشیں نالیوں میں پڑی تھیں اور یہی کیا نادر شاہ کے وقت بھی دہلی پر جب ایسی آفتیں پڑیں اور پھر وہ وقت بھی جب ان آنکھوں کا دیدار ممکن تھا، محمد تغلق تو پوری طاقت جھونک دینے کو تیار تھا، ایک بادشاہ، ایک فقیر منش شخص سے ڈرا ہوا، گھبرایا ہوا، سٹپٹایا ہوا کہ اس کے وقار کی ساری دیگ جیسے دولت پر نہ پکتی ہو، جاہ وحشمت کی آنچ پر نہ ابلتی ہو اور جو صرف محبوب الہٰی کی رہائش پر آنے والی مخلوق خدا کی گرم رفتاری کو سرد کر دینے پر مصر ہو۔
میں نے سنا ہے محمد شاہ رنگیلے کو جب حضرت امیر خسرو اور محبوب الہٰی کے آستانوں کے درمیان دفنایا گیا تو ان دنوں جیسے دہلی پر ہجر کے لمبے لمبے کالے سائے دیواروں پر بال کھولے چیختے چلاتے، ماتم کرتے نظر آتے۔
میں نے سنا ہے محمد شاہ رنگیلے کو جب حضرت امیر خسرو اور محبوب الہٰی کے آستانوں کے درمیان دفنایا گیا تو ان دنوں جیسے دہلی پر ہجر کے لمبے لمبے کالے سائے دیواروں پر بال کھولے چیختے چلاتے، ماتم کرتے نظر آتے۔ لوگ ہراساں رہتے، دہلی سر بزانو رہا کرتی۔شامیں طویل ہوتیں، دوپہریں سنسان، شفق کی سرخی افق تک جاپہنچتی اور وقت جیسے اپنی ساری رنگینی بھول کر اس بیماری کے کسی روحانی علاج میں جٹ جاتا، کسی نے بتایا کہ فرشتوں نے محمد شاہ رنگیلے کو کہیں اور دفن کیا، تب جاکر یہ ماتمی لہر رکی۔۔۔پتہ نہیں، اس کا مزار تو ابھی تک وہیں ہے۔ لیکن اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بادشاہ، جو جبر و اقتدار کا سب سے واضح مظہر ہے، ہمیشہ سے محبت کرنے والوں کے درمیان آنے کو اپنا منصب گردانتا رہا ہے۔جیتے جی بھی اور مرنے کے بعد بھی۔ املی، نیم اور برگد کے پرانے درختوں کے درمیان آباد یہ دو مزاریں دل پر نقش ہوگئیں۔ میں نے دہلی میں رہتے ہوئے جب بھی اس جانب کا رخ کیا ہے، لگا ہے کہ وہی پہلا تجربہ، وہی اولین محبت، وہی ماورائی مناظر، وہی خواب آمیز کیفیت دل و دماغ پر جگہ بنا چکی ہے اور وقت تھم گیا ہے، یا واپس اسی پہلی دفعہ کی طرف پلٹ آیا ہے۔
عجیب بات ہے کہ میں نے اپنے دس برسوں کے درمیان دہلی کو کبھی ویسا نہیں پایا، جیسا محبوب الہٰی چاہتے ہوں گے۔ تصوف اب ایک سودے بازی کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ سچائی پر جس طرح کی پٹی پٹائی مصلحت سے کام لے کر اسے تصوف کے نام پر جھوٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور کسی سبب سے نہیں۔ کیا لوگ تھے، جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں صرف محبت کرتے کاٹ دی۔ نہ لمبے چوڑے فلسفے، نہ اوندھی سیدھی اصطلاحیں۔ ریاکاری و فریب کا مرکز بن چکی دہلی نے ان کی تعلیمات کو بھلا دیا۔ لوگ تصوف کا مطلب صرف اس صوفیانہ کلام کو سمجھتے ہیں، جس میں دو تین جٹادھاری قوال بیٹھے الٹے سیدھے شعر جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں۔ محبت کو پیدا کرنے اور رواج دینے کے لیے تیاگ کی ضرورت ہے، لوگوں کے دکھوں میں بہت گہرا اترنے کی ضرورت ہے۔ زبان، نسل، رنگ اور ذاتوں کو بنیاد بنانے والے یہ بات کہاں سمجھ سکتے ہیں کہ دکھ کافر یا مسلمان نہیں ہوتا، موت سیاہ و سفید نہیں ہوتی، وقت تاریک و روشن نہیں ہوتا۔ دہلی اب ایک عشرت کدہ ہے، یعنی مکمل طور پر غرور سے اٹے ہوئے کسی مست و بے خود محمد شاہی نوجوان کے مختصر سے دربار کی طرح، جسے غصہ میں نادرشاہی رنگ اپناتے دیر نہیں لگتی۔ حادثے ہو رہے ہیں، زنا ہو رہے ہیں، سیاست کا
محبوب الہٰی کے دربار میں شریعت کا حوالہ دینے والے نہیں جانتے کہ انہوں نے شریعت کے نام پر کیے گئے کسی بھی جبر کو کبھی تسلیم نہیں کیا
ایک اکھاڑا کھلا ہوا ہے، جس میں ہر چھوٹا بڑا ذہنی کشتیوں میں یا تو پچھاڑیں کھا رہا ہے یا پچھاڑیں دے رہا ہے۔ تعلیم بکی ہوئی ہے، اس لیے علم کسی کو نہیں۔ خوبصورتی مصنوعی مسالوں کی محتاج ہوگئی ہے اس لیے اپنے باطن کے قدرتی حسن کا کسی کو احساس نہیں۔ سب بکھر رہا ہے، لوگ یونہی جوق در جوق ان کے دربار آتے ہیں، سلامیاں دیتے ہیں، نذر گزارتے ہیں، چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔کسی کسی روز تو بھیڑ ایسی کہ جیسے بدن سے بدن سٹے ہوئے ہیں، گرہیں کٹ رہی ہیں مگر اس میں بھی مجاورین نذرانوں کو سمیٹنے سے نہیں باز آتے، لال لال بنٹالوں جیسی آنکھیں نکال کر لوگوں کو ڈرادھمکا کر جتنا وصو ل ہوسکتا ہے، عقیدت کے نام پر اینٹھتے رہتے ہیں۔ کیا خبر محمد شاہ رنگیلے کی جب مزار بنی ہو تو محبوب الٰہی ہی حضرت امیر خسرو کے ساتھ یہاں سے بہت دور چلے گئے ہوں، تصوف کو فیشن اور زیارت کو کسٹم ماننے والوں سے بہت دور اور ان سے بھی جو محبت کے ان دو عظیم دیوتاوں کے آثار کو تجارت بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں میں نے مزار کے احاطے میں لگا ہوا ایک بورڈ دیکھا ’یہاں فوٹو مت کھینچیے، یہ شریعت کے رو سے حرام ہے‘۔ میں حیران ہوا، یہاں شریعت کا کیا کام۔ محبوب الہٰی کے دربار میں شریعت کا حوالہ دینے والے نہیں جانتے کہ انہوں نے شریعت کے نام پر کیے گئے کسی بھی جبر کو کبھی تسلیم نہیں کیا، پھر یہ تو جسے خدا کا قانون کہتے ہیں، اسے بھی اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سلطان الہند کا دربار ہے یا ہوا کرتا تھا، پتہ نہیں۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ یہ اورنگ زیب، محمد غزنوی یا محمد غوری جیسوں کا جز وقتی دربار نہیں ہے، جنہوں نے سینکڑوں انسانوں کے خون سے صرف اپنے اقتدار اور دولت کی تلوار کو چمکانے کے لیے کام لیا ہو، جن کی شہنشاہیت خوف کے بل بوتے پر قائم ہو، جیسے گھانس میں چھپے ہوئے کسی معصوم چرند کے پاس سے شیر دندنا تا ہوا گزر جائے اور وہ چین کی سانس لے، اسی طرح خوف کی اس حکومت کے ڈوبتے ہی عوام سکھ کا بھوگ کرتی ہے اور اسے تاریخ کے نحوست کدے میں دفنا دیتی ہے۔ جس سے زیادہ خطرناک اور عبرت ناک کال کوٹھری کوئی نہیں۔ ایک ایسی کوٹھری جس میں جابر بادشاہ ننگا دفنایا جاتا ہے، اپنی کرتوتوں، اپنے اعمال کی سیاہ جلد کے ساتھ، خون آلود ہاتھوں اور زہر آلود نگاہوں کے ہمراہ۔
دس برس گزر گئے، لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ کسی روز جب زوروں کی برسات ہورہی ہو، مزار کے احاطے میں کوئی ذی نفس نہ ہو، منظر بادلوں کی چادروں اور پانی کے آئینوں سے ڈھکا ہوا ہو، ایسے میں سلطان جی، امیر خسرو کے ساتھ مزار کے چبوترے پر بیٹھے منظر کا لطف لے رہے ہوں، خدا کی رحمت کو نہار رہے ہوں اور میں ان کے سرہانے جا کر بیٹھ جائوں، ایک ملہار لکھ کر لے جاوں، برسات میں رقص کروں اور پھر وہ دیر تک میری بے چین فطرت کی پشت پر اپنا محبت بھرا ہاتھ پھیرتے رہیں اور آس پاس کے سارے رنگ اس طمانیت میں ڈوب جائیں، بادل کھل جائے، دھوپ نکل آئے اور میں خود کو کسی ایسے شخص کی آغوش میں پاوں، جس سے میرا دل واقعی وابستہ ہو، یونہی نہیں۔
(جاری ہے)