Laaltain

دس برسوں کی دلی- قسط نمبر 3

17 جنوری، 2016

[blockquote style=”3″]

تصنیف حیدر شاعر ہیں اور شاعر بھی وہ جو غزل میں تجربات اور جدت طرازی سے خوف زدہ نہیں۔ دوردرشن اور ریختہ سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل انٹرنیٹ پر اردو ادب کی سہل اور مفت دستیابی کے لیے ادبی دنیا کے نام سے اپنی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ ان کی آپ بیتی “دس برسوں کی دلی” ان کے دلی میں گزرے دس برس پر محیط ہے جس کی بعض اقساط ادبی دنیا پر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس آپ بیتی کو اب مکمل صورت میں لالٹین پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

[/blockquote]

دس برسوں کی دلی کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

قسط نمبر 3

 

دلی جیسے بڑے شہر کی جیکٹ میں کوئی بہت چھوٹی اور مڑی تڑی ایک جیب سی ہے، جسے اوکھلا کہا جاتا ہے۔ اوکھلا کا جامعہ نگر ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے۔
دلی جیسے بڑے شہر کی جیکٹ میں کوئی بہت چھوٹی اور مڑی تڑی ایک جیب سی ہے، جسے اوکھلا کہا جاتا ہے۔ اوکھلا کا جامعہ نگر ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے۔ یہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی بڑی یونیورسٹی ہے۔ اس علاقے میں مسجدیں بہت ہیں، بہت ساری اذانیں ہیں، بہت سے برقعے ہیں اور کئی لاکھ کی تعداد میں داڑھیاں اور پائجامے، کچھ اونچے، کچھ نیچے۔ یہ دہلی کیا ہندوستان کے کچھ گنے چنے خوش باش مسلم آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ اوکھلا کے اسٹیشن پر 25اکتوبر 2005 کی صبح ایک ٹرین دھیمی رفتار سے رینگتی ہوئی گزر رہی تھی، جس میں سے ایک لڑکے نے ایک چھوٹی سی اٹیچی باہر پھینکی، اور چار لڑکے ، ایک لڑکی اور ایک عورت اس میں سے اترے۔ ٹرین کی رفتار اب بھی ان کی پیٹھ پر ہلکی سی آواز کے ساتھ رینگتی ہوئی ایک عجیب سا منظر بنا رہی تھی۔ باہر گہرے نیلے رنگ کا آسمان ابھی تھوڑی بہت نیند میں تھا، سورج کی آمد کا انتظار کرتا ہوا، وہی بوڑھا راستہ، جس پر کبھی جنگل تھا، کبھی خون، کبھی خواب تھے تو آج اسٹیشن، اپنے پہلو میں بے زبان جانوروں اور انسانوں کو کچی پکی نیند میں سلائے، کھردرے چہرے کے ساتھ آسمان کی ایک خاص سمت میں دیکھ رہا تھا۔ عورت کا چہرہ لمبوترا تھا، ماتھے پر چار پانچ گہری شکنیں، جو جمی ہوئی تھیں، یعنی ایسا نہیں کہ وہ فکر میں تھی، اب شکنیں اس فکرکے گہرے سمندر میں ڈوب گئی تھیں، بس وہاں ان کی سرد اور سفید دھاریاں باقی تھیں، جمی ہوئی، جیسے لہریں ڈوب گئی ہوں مگر ان کی روحیں آئینے کی طرح سمندر کی سطح پر دھرنا دے کر بیٹھ گئی ہوں۔ اس عورت کی آنکھوں میں پانی بھی نہیں تھا، ہونٹو ں پر صبح کی ایک کچی مہک۔

 

“حسیب! اس طرف ہیں، دیکھو، وہ بچے کھڑے ہیں” ایک آواز نے منظر کی خاموشی میں گونجتے ہوئے خود کو گھولا۔ سامنے ایک سفید بالوں والا سانولے رنگ کا شخص کھڑا تھا، اس کی جھلملاتی آنکھوں میں پانی تھا، چہرے پر نئی نئی جھریاں اور گالوں کی ہلکی لٹکی ہوئی کھال پر کھردرے اور سخت کالے سفید چھوٹے چھوٹے بال۔ اس آدمی نے آگے بڑھتے ہوئے سب سے پہلے اپنے چھ سالہ بیٹے کو گود میں اٹھایا۔ یہ آدمی میرے والد تھے، فصیح اکمل قادری۔ جو اس واقعے سے آٹھ مہینے پہلے ہی دہلی آگئے تھے، اب ہم یہاں پہنچے تھے، ایک نئی صبح کی تلاش میں۔ وہ صبح جو اس اسٹیشن کے اس پار تھی، میں نے چاندی اگلتی ہوئی پٹریوں پر نظر ڈالی، پہلی کرن وہیں سے پھوٹی تھی، میری آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ بہرحال، ہم اسٹیشن سے باہر نکلے، حسیب، جو ہمارے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ انہوں نے وہ ہلکی سی اٹیچی اٹھائی، جس میں شاید دس گیارہ جوڑ کپڑے ہوں گے۔ وقت کی سیاہی سے دھلے ہوئے وہ کپڑے جن میں درد کے تار تھے اور کچلے ہوئے خوابوں کی دھجیاں۔

 

ہم دہلی پہنچے تھے، ایک نئی صبح کی تلاش میں۔ وہ صبح جو اس اسٹیشن کے اس پار تھی، میں نے چاندی اگلتی ہوئی پٹریوں پر نظر ڈالی، پہلی کرن وہیں سے پھوٹی تھی، میری آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔
ہم نے باہر نکل کر دو یا تین سائیکل رکشہ کیے، میں اس تاریخ سے تقریباً سات آٹھ سال پہلے دہلی آچکا تھا، بیس بائیس دنوں کے لیے، اس وقت میری عمر یہی کوئی بارہ تیرہ سال رہی ہوگی، اس لیے جامعہ نگر میرے لیے بہت انجان نہیں تھا، یونیورسٹی کا بھی ایک اپنا ہی چارم تھا، جب ہمارا رکشہ وہاں سے گزرا تو صبح کی سفیدی میں اس خوبصورت اور تاریخی تعلیم گاہ کو دیکھ کر مجھے بہت اچھا احساس ہوا تھا، وہ احساس جو تعلیم کا رس لیے ہوا تھا، تعلیمی چونچلے بازیوں، شوخیوں، اتھلے پن اور سیاست سے بہت دور، وہ احساس جو انسان کے ذہن کو بس کچھ تقویت دیتا ہے۔ پتہ نہیں غالب کا وہ مجسمہ جو وہاں اب ہے، اس وقت تھا یا نہیں، مگر اس وقت تو وہاں جالیاں تھیں، وہی ہری ہری لمبی سلاخوں والی جالیاں، جن کے اندر لال لباس پہنے ہوئے دور دور تک پھیلی ہوئی چھوٹی بڑی عمارتیں کتنی اچھی لگ رہی تھیں، ان پر لکھے ہوئے نام، ان سے آتی ہوئی صبح کی وہ مترنم آوازیں، بچوں کی،جو جامعہ کا ترانہ گنگنارہے تھے، یہ آوازیں اصل میں نہیں تھیں، کہیں نہیں، بس فضا میں ان کا گھلا ہوا احساس تھا، گاندھی جی کی رکھی ہوئی نیو کا احساس، خلافت تحریک کا احساس، حکیم اجمل خاں اور مولانا محمد علی جوہر کی آنکھوں میں گھلے ہوئے خوابوں کا احساس، عدم تعاون تحریک کے جذبے کا احساس، یہ سب آپس میں ایک دوسرے سے اتنا گتھا ہوا تھا، جیسے وصل منائے ہوئے لباسوں کی مہک ہوائوں میں ڈوب کر ایک نئی ہوا بن جاتی ہے، جیسے اونچے جھرنوں سے گرتے ہوئے چمکدار موتی جیسے قطرے دریا میں ڈوب کر اپنے وجود کو ایک نئی شناخت دیتے ہیں، جیسے انسان مٹی میں مل کر مٹی اور آگ میں مل کر آگ بن جاتا ہے، اور جو مٹی کا مقدر ہے، وہ اس کا مقدر، جو آگ کا نصیب ہے، وہ اس کا نصٰیب ہوجاتا ہے۔ رکشہ دوڑ رہا تھا، اور میری نظر اپنی ماں کی جانب اٹھی۔

میری ماں شمع اکمل، گورے چٹے رنگ کی ایک عورت ہیں، اس وقت ان کی عمر پینتالیس سال کی تھی، وہ ایک خوبصورت خاتون ہیں۔ ان کے ستے ہوئے چہرے پر دہلی کی ہوائیں کچھ پھاہے رکھنے کی کوششیں کررہی تھیں۔ کالے گھنے بالوں میں جمی ہوئی، ڈوبی ہوئی آنکھیں، جلد کی پیلی پڑی ہوئی رنگت، دبلے پن کا ایک ایسا بوجھ، جس نے ہڈیوں اور نسوں کو ملا کر ایک جیسے ایک گہری سبز اور زرد سازش ان کے خلاف رچا رکھی تھی،کانپتے ہوئے ہونٹ، چوڑے دہانے پر ایک تھکے ہوئے فاتح کی سی خاموش چمک اور اداسی، جیسے وہ لاشوں کے درمیان کھڑا اپنی بے معنی فتح کو گھور رہا ہو۔

 

دہلی میری والدہ کے لیے ایک دستک تھی، جس میں ان کے لیے امید جاگی تھی، کہ اب ان کی اولادوں کی پرورش کی ذمہ داری اس شہر کی ہے، اس شہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کو معاشیات کے پینترے سکھائے، نوکری دلوائے، ایک ایسی زندگی دے، جو ان کے لیے ہمیشہ صرف خوابوں اور دعاؤں میں ہی قابل عمل ہو سکی تھی۔
دہلی میری والدہ کے لیے ایک دستک تھی، جس میں ان کے لیے امید جاگی تھی، کہ اب ان کی اولادوں کی پرورش کی ذمہ داری اس شہر کی ہے، اس شہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کو معاشیات کے پینترے سکھائے، نوکری دلوائے، ایک ایسی زندگی دے، جو ان کے لیے ہمیشہ صرف خوابوں اور دعاؤں میں ہی قابل عمل ہوسکی تھی۔ قریب پچیس سالوں سے ازدواجی رشتے میں بندھے بندھے دکھ کی ایک بھاری نیا کو اس عورت نے اپنے بازوؤں سے کھینچا تھا، وہ بھی تیرتے ہوئے پانی پر نہیں، دلدلی زمین پر، اس کی تاریخ پڑھنے اور جاننے کے لیے کسی قیافہ شناس کو بس اس کی سوکھی ہتھیلیاں کافی تھیں۔ فکروں میں ڈوبا ہوا اس کا چوڑا ماتھا تو بہت دور سے دکھائی پڑتا تھا۔ میں نے اپنی ماں کے ہونٹوں تلے دم توڑتے وظیفہ کرتے ہوئے الفاظ کو دیکھا تھا، سیاہی میں ڈوبی ہوئی اس کی آنکھیں، ان کے گرد جمتے ہوئے کالے دائرے اور بے وفائی، تنگی معاش اور کرب و تکلیف جھیلتی ہوئی ان دعاوں کو اس کے دوپٹے پر ڈوبا ہوا پایا تھا، جن میں ایک بہتر زندگی اور بنیادی حقوق کا خیال رکھنے والے ایک خدا کی تلاش سر مارتی رہتی تھی۔

 

زندگی کے پینتالیس سال بعد اب یہ شہر، ایک نئی صبح میں اس کا استقبال تو کررہا تھا، مگر اس عورت کو کیا ملنے ولا تھا، ویسے بھی ایک عورت کو چالیس سال بعد کیا مل سکتا ہے جب اس کی جوانی کے سارے دن کچن کی کال کوٹھری میں پٹے پر بیلن چلاتے اور ہلدی، دال، آٹے اور قرضداروں کی قطار کی فکر میں گزر گئی ہو۔ وہ راتیں جو امانت ہوتی ہیں، وہ راتیں جو وراثت ہوتی ہیں، ہمارے یہاں اکثر عورتوں کی ان کے کھونٹوں سے ٹنگے ٹنگے ہی خرچ ہوجاتی ہیں، جن میں زندہ رہنا اور پہلو سے جڑے چار بچوں کو پالنے کی بہت بھاری کوششیں موجودہوتی ہے۔

 

دنیا کی شاید سب سے گہری جدائی میاں بیوی کے درمیان واقع ہونے والا فاصلہ ہی ہوسکتی ہے، دو کھری روحوں کے درمیان، جن میں اکثر مرد کی جانب سے کھوٹے پن کا اظہار زیادہ ہوتا ہے، بار بار ہوتا ہے، مگر اس وقت میرے والد کی بے وفائی مسئلہ نہیں تھی، ان کی جدائی مسئلہ تھی
میری ماں پر میرا ہی نہیں، خدا کا بھی قرض ہے، وہ زندگی بھر جو مانگتی رہی، اس کاہمیشہ اسے عجیب سا جواب ملتا رہا، اس نے تعلیم کی خواہش کی تو اسے پیلے ہاتھوں کی سوغات دے دی گئی، نوکری جاری رکھنی چاہی تو حجلہءعروسی کا راستہ دکھادیا گیا، زندگی کے بنیادی حقوق مانگے تو جنت کے ایک سراب نما وعدے سے اس کے ہونٹوں پر مہر لگائی گئی۔ مگر وہ زندہ رہی، اس بوڑھے بیمار کی طرح جس نے پوری رات صرف اس امید پر گزار دی تھی کہ دیا تو جل رہا ہے، ضرور اس کی گرمی کا ایک حصہ میرے لیے بھی ہوگا، ضرور وہ روشنی جو مجھ تک پہنچ رہی ہے، گرماہٹ بھی مجھ تک پہنچارہی ہوگی، بس مجھے ہی اس کا احساس نہیں ہوتا۔ اس جاگتے رہنے کے درد میں میری ماں نے اپنی زندگی کے سنہرے پچیس سال بے کار کاموں کی نذر کردیے، مگر ان بے کار کاموں نے اس کی روح کو اندر سے گھول دیا، ایک پنجرے کا قیدی بنادیا، اس نے خواہشیں کرنی چھوڑ دیں، وہ اب ایک عورت نہیں رہی تھی، وہ ایک ماں بن گئی تھی، ایک فرض شناس بیوی، جس کا کام صرف دوسروں کی حفاظت، ان کی زندگی سنوارنا ہوتا ہے، اپنے لیے تو اس کے پاس خدا سے کہنے کا بھی کوئی حرف نہیں ہوتا۔ اب یہ شہر اسے دلاسے دے رہا تھا، اس کی چھلنی پیٹھ تھپتھپا رہا تھا اور بالوں کو سہلا رہا تھا، وہ اس وقت میرے والد سے کچھ باتیں کر رہی تھیں، دونوں آٹھ مہینے کی لمبی جدائی کے بعد ملے تھے۔

 

دنیا کی شاید سب سے گہری جدائی میاں بیوی کے درمیان واقع ہونے والا فاصلہ ہی ہوسکتی ہے، دو کھری روحوں کے درمیان، جن میں اکثر مرد کی جانب سے کھوٹے پن کا اظہار زیادہ ہوتا ہے، بار بار ہوتا ہے، مگر اس وقت میرے والد کی بے وفائی مسئلہ نہیں تھی، ان کی جدائی مسئلہ تھی، وہ تھے اور تپتے ہوئے صحرا میں گھر آنے والے بادل کی طرح میری ماں کی ہنسی، وہ ہوائیں گونج رہی تھیں، رکشے ایک گلی میں مڑے، اور ڈھلان پر سے ہوتے، ہچکولے کھاتے ہوئے، ہماری خالہ کے گھر کےسامنے رک گئے۔ ایک دیڑھ دو منزلہ عمارت، زمین پر بنا ہوا، عمارتوں سے گھرا ایک مکان، جس میں گزشتہ کئی برسوں سے دہلی میں بسنے والی میری خالہ رہتی تھیں۔ میرے خالہ زاد بھائی بہن اور ان کے والد یعنی میرے خالوبھی۔ اندر سے آوازیں آرہی تھیں، دروازے پر خالہ کھڑی ہوئی تھیں، ٹین کا پٹ کھولے ہوئے، موٹی اور پستہ قد گورے رنگ کی میری خالہ کے چہرے پر ایک چوڑی مسکراہٹ تھی، بال بکھرے ہوئے تھے، جو بتارہے تھے کہ سرد موسم میں وہ ابھی ابھی لحاف سے نکل کر ہمارے استقبال کو آکھڑی ہوئی ہیں، موسم کی طرح، دہلی شہر کی طرح۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *