[blockquote style=”3″]
تصنیف حیدر شاعر ہیں اور شاعر بھی وہ جو غزل میں تجربات اور جدت طرازی سے خوف زدہ نہیں۔ دوردرشن اور ریختہ سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل انٹرنیٹ پر اردو ادب کی سہل اور مفت دستیابی کے لیے ادبی دنیا کے نام سے اپنی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ ان کی آپ بیتی “دس برسوں کی دلی” ان کے دلی میں گزرے دس برس پر محیط ہے جس کی بعض اقساط ادبی دنیا پر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس آپ بیتی کو اب مکمل صورت میں لالٹین پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
دس برسوں کی دلی کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
طلعت کی شخصیت دو لحاظ سے عجیب تھی، اول تو یہ کہ وہ بہت خوبصورت تھی، کھڑا ناک نقشہ، اونچا قد، پتلی دبلی مگر دلکش جسم کی مالک۔وہ زیادہ تر پاکستانی سوٹ پہنا کرتی تھی،ہلکا چمکتا ہوا لپ گلوز اس کے پتلے ہونٹوں کی رونق بڑھاتا تھا، کمر تک بال، موتی جیسے قطار اندر قطار دانت اور گالوں میں پڑنے والے گڑھے۔اور دوسرے اس کی زندگی اپنی شرطوں پر گزرتی تھی، بتاتی تھی کہ جب وہ بارہ برس کی تھی، تب کسی بات پر ناراض ہوکر اس کے گھروالوں نے اس سے بات کرنی چھوڑ دی تھی، اس کی دو چھوٹی بہنیں فرح اور زرناب ہی اس سے بات کیا کرتی تھیں، کل پانچ ، چھ بہنیں تھیں اور دو بھائی۔ والد کا شاید کوئی پریس تھا، اس کے ایک بھائی سے بعد میں میری دوستی بہت اچھی ہوگئی تھی، ان کو ہم لوگ وسیم بھائی کہا کرتے تھے۔گرافک ڈیزائننگ میں ماہر تھے۔بہرحال طلعت کا قصہ وہاں سے شروع ہواجب اس نے مجھ سے اپنی بہن کی سو غزلوں پر اصلاح کروائی۔میں نے ان غزلوں کی اصللاح کے ہزار روپے لیے اور کام کرکے دے دیا۔طلعت کا پورا نام طلعت انجم تھا اور اس کی سب سے بڑی بہن ، جن کے لیے اس نے یہ کام کروایا تھا، مسرت انجم کہلاتی تھیں۔بعد میں وہ میرے والد سے کسی طور مل گئیں اور ان کی ہی شاگرد بن گئیں۔طلعت پہلے کوچنگ میں پڑھتی رہی، لیکن کچھ وقت بعد اس نے میرے گھر آکر ہی مجھ سے ٹیوشن لینی شروع کردی، فیضان سے بہت کوششوں کے بعد اس کی کوئی بات نہ بن سکی۔میں نے بھی ان سے بات کی تھی، مگر وہ طلعت کے لیے راضی نہ ہوئے، پتہ نہیں کیا وجہ تھی۔۔۔مگر وقت گزرگیا اور طلعت ان کے بہانے سے میرے نزدیک ہوتی گئی۔ہمارے درمیان ایک بہت اچھا تعلق قائم ہوا، وہ دو ڈھائی سال جو اس کے گریجویشن کی تیاری میں گزرے، بہت یادگار رہے۔میں آج ہی کی طرح اس وقت بھی گھر سے کام کرنا زیادہ بہتر سمجھتا تھا، کبھی کبھار کسی پروڈکشن ہاؤس کی سیر کرلی، کچھ کام اٹھالیا، کچھ ٹوٹا پھوٹاترجمہ، کہیں کوئی سی گریڈ فلم یا ٹی وی ڈرامے کی سکرپٹ۔۔یہ سب چلتا رہا، حالانکہ مجھے طلعت اور روشن دونوں کا ذکر ایک ساتھ ہی کر دینا چاہیے، مگر میں الگ الگ ہی ان کو بیان کروں گا۔
چھوٹی دنیائیں بہت گہرے تعلقات پر منحصر ہوتی ہیں، ان میں ہر ایک فرد ایک ستون کی طرح ہوتا ہے، یہاں کوئی الگ ہوا، وہاں دھیرے دھیرے تعلقات کی یہ تکون یا چوکور عمارت دھیرے دھیرے ڈہنے لگتی ہے۔
طلعت کی ہستی کسی نابغے سے کم نہ تھی۔اس سے گھر میں کوئی بات نہ کرتا، مگر وہ سب سے بات بھی کرتی، ہنسی مذاق بھی کرتی۔وہ اپنے والد سے بہت پیار کرتی تھی، مگر شاید کوئی ایسی وجہ تھی، جس کی وجہ سے سب اس سے ناراض تھے،میں جاننا چاہتا تھا کہ آخر بارہ برس کی عمر میں کسی لڑکی سے ایسا کون سا گناہ سرزد ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اس سے اتنے ناراض ہوجائیں، بہرحال بات کبھی سمجھ میں نہ آسکی۔یہ عقدہ اس لیے بھی نہ کھلا کیونکہ وہ بھی اس سوال کو ہنس کر ٹال جاتی تھی۔میں اگر خود اس کے گھر کا ماحول نہ دیکھتا تو مجھے اس کی بات پر یقین نہ آتا۔تین کمروں اور ایک بڑے سے آنگن پر مشتمل بلیوں اور ایک طوطے کی موجودگی سمیت اس کا گھر بہت خوبصورت تھا، وہ بھی ذاکر نگر میں ہی رہا کرتی تھی۔ایک چھوٹا سا بیگ کندھے سے لٹکائے روز شام چار بجے آجایا کرتی تھی۔اس وقت اس کے پاس فون نہیں تھا، میرے پاس موجود تھا مگر اس کے تعلق سے کسی کام کا نہ تھا۔بہرحال ، ہم زیادہ وقت چھت پر بیٹھے رہا کرتے تھے، سردی ہو یا گرمی، شام چار یا پانچ بجے سے سات آٹھ بج جایا کرتے، ہم بیٹھتے ، ٹہلتے، باتیں کرتے، پڑھتے اور ساتھ ہی اس سے میں عجیب و غریب قصے سنا کرتا تھا۔رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ اس کے اور میرے گھر کے تکلفات قریب قریب ختم ہونے لگے۔اسے پھلوں ولوں کا شوق نہ تھا، البتہ چقندر بہت شوق سے کھایا کرتی تھی۔ایک دفعہ جب اس کی سالگرہ کا موقع تھا تو ہم نے وہ سالگرہ فیضان کی اس چھوٹی سی کوچنگ میں منائی۔وہاں میں نے طلعت پر لکھی ہوئی ایک تحریر پڑھی، اسے تحفے میں ایک کلو چقندر دیے اور پھر کیک شیک کاٹا گیا۔چھوٹی دنیائیں بہت گہرے تعلقات پر منحصر ہوتی ہیں، ان میں ہر ایک فرد ایک ستون کی طرح ہوتا ہے، یہاں کوئی الگ ہوا، وہاں دھیرے دھیرے تعلقات کی یہ تکون یا چوکور عمارت دھیرے دھیرے ڈہنے لگتی ہے۔ میرا،فیضان کا اور اس کا تعلق کچھ ایسا ہی تھا، فیضان خود کو ذرا محتاط رکھتے تھے، مگر ہم اچھے دوست تھے۔ساتھ ہنستے، ساتھ وقت گزارتے اور ساتھ ہی سیر سپاٹا کیا کرتے۔جن شاموں کو وہ میرے ساتھ چھت پر ہوا کرتی، اکثر اس کے بھائی وسیم بھی آجایا کرتے تھے، وہ جب تک میرے ساتھ چوکی پر بیٹھے بات چیت کرتے، چائے پیتے۔طلعت کتاب کو یوں پلٹ پلٹ کر دیکھنے کی ایکٹنگ کرتی ، جیسے سچ میں کتاب سے اس کا گہرا دلی لگاؤ ہو، جبکہ ایسا تھا نہیں۔ان کے آجانے سے اسے بوریت محسوس ہوتی تھی، بعض اوقات وہ ان کی موجودگی میں ہی مجھ سے رخصت بھی طلب کرلیتی تھی۔اس کے پاس دو بڑی بڑی آنکھوں کی ایسی زبان تھی کہ اکثر شام کو میں اسے کہا کرتا کہ یہ آنکھیں نہ دکھایا کرو، خوف آتا ہے۔وہ چھوٹی سی چھت، ہمارے لیے کسی بہت بڑے سر سبز میدان سے کم نہ تھی، وہاں ہم ٹپکتی اوس، دہکتی گرمی اور برستی بوندوں میں کئی بار گشت لگاتے اور باتیں کرتے۔باتیں کیا تھیں، اس کے روز مرہ کے تجربات تھے، کبھی کسی مہمان کا ذکر، کبھی کسی دوست کا قصہ۔ عام طور پر جس علاقے میں ہم لوگ رہتے ہیں، وہاں کی لڑکیوں کا دلچسپ موضوع بگڑیل لڑکے ہوا کرتے ہیں۔طلعت بھی اس موضوع پر بہت اچھی طرح باتیں کرنا جانتی تھی۔لیکن اس کے سبھاؤ سے مجھے کبھی ایسا نہیں لگا کہ اسے چھیڑے جانے سے کوئی خاص دکھ یا الرجی ہو۔جن دنوں وہ کالج جایا کرتی تھی، اس کو کسی افغان لڑکے سے محبت ہوگئی تھی۔بڑا عجیب سا ہی نام تھا اس کا جو اب یاد نہیں رہا ہے۔طلعت کہتی تھی کہ وہ اس کو بہت پسند کرتی تھی اور اس کے ساتھ افغانستان جانے کا ارادہ باندھ رہی تھی۔میں نے اسے کئی بار سمجھایا کہ ایک لڑکا، جسے ابھی تم ٹھیک سے جانتی بھی نہیں ہو، اس کے ساتھ افغانستان چلی جاؤ گی، یہاں تمہارے گھر والے، رشتہ دار، پاس پڑوس والے، دوست احباب کیا سوچیں گے۔مگر وہ سوچنے وچارنے کے معاملے میں ذرا کنجوس تھی۔اس نے ٹھانا ہوا تھا کہ وہ اس لڑکے کے ساتھ ایک روز چلی جائے گی۔میں نے اسے مشورہ دیا کہ گھر پر بات کرلو، کہنے لگی کہ گھر پر بات نہیں کی جاسکتی، میں نے وجہ پوچھی تو اس نے پورا قصہ بتایا۔یہ افغانی لڑکا پہلے اس کی زندگی میں رہ چکا تھا، اتفاق سے گھروالوں کو اس تعلق کی خبر ہوئی اور ایک دن طلعت کے بھائیوں نے اس پر بڑی سختی کی۔لڑکا خطرہ بھانپ چکا تھا، اس لیے کچھ روز میں غائب ہوگیا۔ اب وہ دو تین سال بعد واپس آیا تھا اور طلعت کے ساتھ شادی کے وعدے کررہا تھا۔ایک روز طلعت میرے پاس آئی، اس نے بتایا کہ وہ اب اس افغانی لڑکے سے کبھی نہیں ملے گی، میں نے پوچھا بات کیا ہے، وہ اس روز فیروزی رنگ کی گھٹنوں تک پھیلی ہوئی قمیص اور چوڑی دار پاجامے میں تھی۔مگر کسی واقعے کے اثر سے اس کی آنکھیں بھی زہریلی دکھائی دیتی تھیں، اس نے بتایا کہ اس لڑکے نے آج اس کے ساتھ بدسلوکی کرنے کی کوشش کی۔طلعت ، ان لڑکیوں میں تھی، جو بغاوت کو اپنا حق سمجھتی ہیں، محبت پر یقین کرتی ہیں اور کسی چھوٹے سے بچے کی طرح پوری دنیا کو ایک گھر اور ایک رشتہ میں بندھا ہوا محسوس کرتی ہیں۔مگر ان لڑکیوں کی نازک خیالیوں کو ٹھیس لگانے کے لیے بہت سے لڑکے کانٹا بچھائے بیٹھے رہتے ہیں،طلعت کی زندگی میں بھی ایسے لڑکے اس کے محلے سے لے کر افغانستان تک موجود تھے۔میں نے اسے کچھ سمجھایا نہیں، اچھا ہوا کہ اسے خود عقل آگئی تھی۔لیکن مجھے طلعت کی یہ بات پسند تھی کہ وہ اپنی پسند اور ناپسند دونوں کو بہت صاف طور پر ظاہر کرتی تھی، اس کے اندر کوئی لاگ لپیٹ نہیں تھی۔فلموں، گانوں، رنگوں اور چڑیوں کی شوقین تھی۔اس کی خود کی بولی بہت میٹھی تھی، جب بات کرتی تو آنکھیں اور ہاتھ بھی ساتھ میں ناچا کرتے۔
جن ماں باپوں کی اولادیں زیادہ ہوں، وہ ویسے بھی بچوں کو بس بڑا کرنے ، ان کی شادیاں کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں۔انہیں طلعت جیسے بچوں سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے، جو زندگی کو کسی ریستوراں میں بیٹھے ہوئے کسٹمر کی طرح گزارنا چاہتے ہوں
ایک دفعہ اس نے بتایا کہ وہ اپنی بہن کے ساتھ خریداری کرنے کے لیے جارہی تھی، شام کا وقت تھا، اچانک کوئی لڑکا راستے میں اس کی کمر سے باقاعدہ ہاتھ چھواتا ہوا گزر گیا۔وہ یہ بتاتے ہوئے ہنسنے لگی، اس دن وہ بے تحاشہ ہنسی۔ میں نے کہا کہ تمہیں اس واقعے پر ہنسی آرہی ہے، جبکہ یہ تو غصہ کا مقام ہے۔اس نے کوئی صراحت تو نہیں پیش کی، مگر ہنستی ضرور رہی۔پانی اس کا من پسند مشروب تھا۔ ایک دفعہ بوتل کو منہ لگاتی تو آدھے سے زیادہ پیے بغیر لبوں کے پرندوں کو آزاد نہ کرتی۔طبیعت ایسی آزاد کہ کسی دوست کی کار میں جابیٹھے، کسی کو طمانچہ لگادیا۔کسی سے گلے مل لیے اور کسی کو ایک نظر تک دیکھنا گوارا نہ کیا۔طلعت کے ساتھ گزرے ہوئے وقت میں ذاکر نگر کی بارہ نمبر گلی والی وہ چھت برابر کی حصہ دار رہی، جو ہمارے رشتے کے بننے، ارتقا پانے، روبہ زوال ہونے اور پھر قریب قریب ٹوٹنے کی گواہ تھی۔آج بھی وہ علاقوں کے لحاظ سے بہت دور نہیں، مگر اب میری زندگی کی چھت پر اس کی پرچھائی بھی موجود نہیں۔وہ ہمیشہ مجھ سے کہتی تھی کہ اسے بہت اچھا ڈانس آتا ہے، مگر کبھی اس نے مجھے وہ ڈانس نہیں دکھایا۔جذباتی لڑکی تھی،ہنستی تو ہنستی چلی جاتی، رونے پہ آتی تو پلکوں کے کونوں پر جمے ہوئے قطروں کو گھنٹوں انگلیوں سے چھیڑتی رہتی۔اسے سب سے زیادہ مزہ تب آتا تھا، جب میں اس سے اسلامی تاریخ ، سماجیات یا پھر سیاسیات کے حوالے سے سوالات کرتا۔وہ جواب دیتی، مسکراتی ، اپنی غلطی بھانپتی اور پھر ہاتھ سے اشارہ کرکے، دوبارہ سوچنے لگتی۔پاس تو وہ گریجویشن میں ہوگئی تھی، مگر اس کی پڑھائی ، ایک طور پر صرف آزادی سے اس کا ایک اٹوٹ تعلق بنے رہنے کا بہانہ تھا۔گھر پر بہت سے لوگ تھے، مگر لوگ اسے جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔جن ماں باپوں کی اولادیں زیادہ ہوں، وہ ویسے بھی بچوں کو بس بڑا کرنے ، ان کی شادیاں کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں۔انہیں طلعت جیسے بچوں سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے، جو زندگی کو کسی ریستوراں میں بیٹھے ہوئے کسٹمر کی طرح گزارنا چاہتے ہوں، یعنی ایک خاص وقت پر اس میں داخل ہوکر اپنی مرضی کا کھانا آرڈر کرو، مزے سے کھاؤ اور پھر بل چکا کر چلتے بنو۔طلعت پر میں نے اس زمانے میں کچھ نظمیں لکھی تھیں’ پھول چہرہ’، ‘گل اندام ‘ وغیرہ وغیرہ ۔ اس نے وہ نظمیں مکمل یاد کرلی تھیں۔میں جب اس کے قریب تھا تو بہت سادگی پسند اور کچے جذبوں والا ایک نوجوان تھا، جسے فلرٹ کرنے کا ہنر بھی ٹھیک سے نہیں آتا تھا۔ڈھیلے ڈھالے شرٹ پہنا کرتا، فارمل پینٹس ۔میں پینٹ میں شرٹ کو کبھی اڑستا نہ تھا بلکہ ڈھیلا چھوڑ دیتا، کالے اوردبلے بدن پر یہ ڈھیلے کپڑے بہت عجیب نقش پیدا کرتے تھے، مگر طلعت کو ان سب سے سروکار نہیں تھا۔وہ مجھ سے پانچ روپے بھی اگر کبھی خود پر مجبوری میں خرچ کروالیتی تو مجھے واپس لوٹایا کرتی تھی۔ایک وقت پہ جاکر میں نے اس سے ٹیوشن فیس لینا بند کردی ،اس کی وجہ ہمارا گہرا تعلق تھا۔
سردی کی ایک شام ہم چھت پر بیٹھے تھے، میں کرسی پر تھا اور وہ پائری سے ٹیک لگائے، آگے نکلی ہوئی اینٹوں پر بیٹھی تھی۔ہم اکثر وہاں بیٹھتے تھے، شام کا دھندلکا تھا۔آس پاس کی چھتیں ویران تھیں،اس کا سینہ زیادہ بھرا ہوا نہ تھا، دو چھوٹی گولیاں تھیں اور وہ بھی اتنی اندر کہ بس اتنا حصہ سپاٹ معلوم ہوتا۔اس وجہ سے اس کی گردن کا حصہ نیچے اتر کر کسی دھوپ میں سوئے ہوئے صحرا کی مانند پھیل گیا تھا۔طلعت اس پر اپنی مخروطی انگلیاں پھیر رہی تھی۔میں اسے دیکھنے لگا، اس روز بس اس نے میرا ہاتھ بغیر کچھ کہے، اس شفاف حصے پر رکھ دیا، وہ حصہ بہت گرم تھا، میں اندر سے کچھ گھبرا گیا تھا، بات کچھ بھی نہ تھی، طلعت شاید اس روز یہی بتارہی تھی کہ اس کا بدن عام لوگوں سے زیادہ گرم رہا کرتا ہے۔مگر اس کے بعد ہم اکثر بات کرتے میں ایک دوسرے سے انگلیاں الجھا لیتے، پاؤں لڑاتے اور ایک دفعہ جب وہ کسی بات پر آبدیدہ ہوئی تو سرد اندھیرے کی گیلی چادر کے اندر میں نے بڑی خموشی سے اسے گلے لگالیا۔وہ بس ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان چمک چمک کر ماند ہوجانے والے جگنوؤں جیسے لمحے تھے، جو بہت اضطراری اور جلد باز تھے۔آئے، گزر گئے ۔نہ ان میں کچھ ہوسکتا تھا، نہ ہوا، ہم نے تو کبھی سانسوں کی ڈوریں بھی الجھانے کا خود کو موقع نہ دیا۔شاید میں اس وقت ان سب باتوں سے بہت خوفزدہ رہتا تھا۔اخلاقیات کا بھی بے حد قائل تھا اور ہمت کے لحاظ سے بھی بے حد کمزور۔ ورنہ وہ لمحے دھندلی گلابیوں میں اترے ہوئے پانیوں جتنے حسین تو تھے ہی، بس انہیں لبوں تک لانے کی توفیق نہ ہوئی۔لیکن اچھا ہی ہوا۔اگر ایسا ہوتا تو آج بھی اپنی تمام بے باکیوں کے باوجود مجھے اس بات پر افسوس ہی ہوتا۔وہ میری بہت اچھی دوست تھی اور مجھ پر اس کا بھروسہ بھی بلا کا تھا۔ہمارے درمیان کوئی ایسا جذبہ بھی نہ تھا، جو بعد میں اس وقتی یا فطری جذباتیت کوJustify کرنے کا بہانہ بن سکتا۔چنانچہ جو ہوا ، اچھا ہوا۔
محبت کے اس خوبصورت دورانیے میں سب کچھ ٹھیک تھا، ندیم بھی میری بہت عزت کرتا تھا، مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔مگر میرے ہی اندر رقابت کا جذبہ پیدا ہونے لگا
طلعت کی شادی، فیضان کے ہی ایک دوست ندیم سے ہوئی ہے۔اب ان دونوں کے دو بچے بھی ہیں۔ندیم کی اس سے پہلی ملاقات میرے ہی گھر پر ہوئی تھی۔وہ ندیم سے کیا ملی، دنیا سے بیگانہ ہوگئی،اس نے رفتہ رفتہ سب کو نظر انداز کردیا۔کہانی میں ایک موڑ بڑا دلچسپ تھا، طلعت جتنی عجیب و غریب تھی، ندیم بھی ویسا ہونق و اجبق آدمی نکلا۔ فیضان نے ایک روز مجھے بتایا کہ ندیم اور طلعت فلم اکیلے دیکھنے جانا چاہتے ہیں اور ندیم، طلعت کو سرپرائز دینا چاہتا ہے، اس کے لیے پہلی دفعہ اس نے دو ٹکٹ خریدے ہیں، لیکن بھری ہوئی قطار میں کارنر سیٹ طلب کرنے کی شرمندگی اس کے چہرے پر صاف دیکھی جاسکتی تھی، اس محنت کا فائدہ بھی کچھ خاص نہ ہوا کیونکہ طلعت دوسرے روز کسی وجہ سے اس کے ساتھ فلم کے لیے نہ جاسکی، اس روز ہم نے ندیم کا بہت مذاق اڑایا۔ اسی طرح ندیم کو معلوم تھا کہ طلعت اپنے گھر پر رات کو فون پر بات نہیں کرسکتی، پھر بھی اس نے طلعت کو ایک فون گفٹ کیا، سم دلوائی اور رات کو وہ اس طرح بات کرتے کہ طلعت اپنی بہنوں کے بیچ لیٹی، چادر میں دبکی کان پر فون لگائے رہتی اور ندیم اس طرف سے لگاتار بولے جاتا، دو طرفہ محبت میں ایک طرفہ کنورسیشن کی یہ سروس کئی دفعہ طلعت کے اچانک سوجانے سے متاثر ہوچکی تھی۔ندیم ہماراگہرا دوست بنا۔ اور آج بھی ہے۔ہم نے کئی فلمیں ساتھ میں دیکھیں، شامیں ساتھ میں گزاریں اور وقت کے سطح مرتفعی علاقوں کی سیر کرتے وقت ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رکھا۔اکثر یہ ہوتا کہ میں اور فیضان ، ندیم اور طلعت کو، ہمارے متوقع بہنوئی کی عدم موجودگی میں ، ان کے گھر پر چھوڑ کر باہر سے تالا لگا دیتے اور کہیں گھومنے چلے جاتے۔دو چار گھنٹے، ادھر ادھر گزارنے کے بعد واپس آتے۔
محبت کے اس خوبصورت دورانیے میں سب کچھ ٹھیک تھا، ندیم بھی میری بہت عزت کرتا تھا، مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔مگر میرے ہی اندر رقابت کا جذبہ پیدا ہونے لگا، مجھے فکر ہونے لگی کہ اگر طلعت کی شادی ہوگئی تو اتنا اچھا وقت جو میں اس کے ساتھ گزارتا ہوں، ایک دم سے ختم ہوجائے گا اور کہانی رک جائے گی۔اس جلن میں میں نے ایک روز طلعت کی بڑی بہن مسرت انجم کو یہ بتادیا کہ طلعت جس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے وہ میرا دوست ہے، اور یہ دونوں شادی کے لیے کبھی بھی فرار ہوسکتے ہیں۔میں یہ بات وسیم بھائی تک کسی ذریعے سے پہنچانا چاہتا تھا ، مجھے یقین تھا کہ اگر بات وہاں تک پہنچ گئی تو ان دونوں کا رشتہ ٹوٹ جائے گا۔۔وہ کوئی عشقیہ رقابت نہ تھی، بس میں وقت کو روکنا چاہتا تھا، جبکہ مجھے اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ میں جس وقت کو روکنا چاہ رہا ہوں، وہ واقعی گزر چکا ہے اور طلعت کی شامیں اب کسی اور کی زندگی کا حصہ بن گئی ہیں، وہ ٹیوشن کم آنے لگی تھی، اس بات پر ایک دو بار ہمارا جھگڑا بھی ہوا۔۔مجھے حیرت تب ہوئی، جب اس طرف شادی کے سارے انتظامات ہونے کے باجود طلعت کے گھرمیں کوئی ہلچل ہی نہ دکھائی دی۔طلعت نے ٹیوشن چھوڑ دی تھی، ہماری کبھی کبھار فون پر بات ہوجاتی۔پھر ایک دن جب میں ایک اداکارہ کے ساتھ کناٹ پلیس میں کہیں بیٹھا ہوا تھا تو طلعت کا فون آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ ندیم اور وہ دونوں دلی چھوڑ کر جارہے ہیں۔سب کچھ اتنا اچانک تھا کہ میں کچھ نہ کرسکا۔ مگر اس رات مجھے وسیم بھائی کے ساتھ بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑی، ندیم کے گھروالوں اور ان کے گھروالوں کے درمیان میں کسی پسو کی طرح دبکا ہوا ساری باتیں سنتا رہا۔وہ دونوں کہاں تھے، اس کی کسی کو خبر نہیں تھی۔طلعت نے اپنے بندھے ہوئے لبوں کے پرندے کو بالآخر پوری طرح آزاد کردیا تھا، رات کے ڈھائی بجے وسیم بھائی نے مجھے میرے گھر ڈراپ کیا اور میں یہ سوچتا ہوا گھر کی سیڑھیاں چڑھنے لگا کہ آخر مسرت نے اپنے گھروالوں کو کچھ بتایا کیوں نہیں۔۔۔مگر اب اس پورے قصے پر سوائے ایک روکھی ہنسی ہنس دینے کے علاوہ میرے پاس اور کیا چارہ تھا۔