[blockquote style=”3″]
پران ہندوستانی دیو مالا اور اساطیر کے قدیم ترین مجموعے ہیں۔ ہندوستانی ذہن و مزاج کی، آریائی اور دراوڑی عقائد اور نظریات کے ادغام کی، اور قدیم ترین قبل تاریخ زمانے کی جیسی ترجمانی پرانوں کے ذریعے ہوتی ہے، کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ یہ الہامی کتابوں سے بھی زیادہ مقبول اور ہر دل عزیز ہیں۔ مشہور رزمیہ نظموں رامائن اور مہابھارت کو بھی لوک کتھاؤں کے مآخذ کے اعتبار سے اسی زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان میں اس برصغیر میں نسل انسانی کے ارتقا کی داستان اور اس کے اجتماعی لاشعور کے اولین نقوش کچھ اس طرح محفوظ ہوگئے ہیں کہ ان کو جانے اور سمجھے بغیر ہندوستان کی روح کی گہرائیوں تک پہنچنا مشکل ہے۔
تاریخی اعتبار سے پران ہندو مذہب کے ارتقا کی اس منزل کی ترجمانی کرتے ہیں، جب بدھ مت سے مقابلے کے لیے ہندو مذہب تجدید اور احیا کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس سے پہلے ویدوں کی رسوم پرستی اور برہمنیت کے خلاف ردعمل کے طور پر بدھ مت اپنی سادگی، معاشرتی عدل اور عملی روح کی وجہ سے قبول عام حاصل کرچکا تھا۔ لیکن بدھ مت میں خدا کا تصور نہیں تھا۔ اپنشدوں کا برہمہ (مصدر ہستی)کا تصور بھی انتہائی تجریدی اور فلسفیانہ ہونے کی وجہ سے عوام کی دسترس سے باہر تھا۔ ہندو مذہب نے اس کمی کو اوتاروں کے آسانی سے دل نشین ہونے والے عقیدے سے پورا کیا اور رام اور کرشن جیسے مثالی کرداروں کو پیش کرکے عوام کے دلوں کو کھینچنا شروع کردیا۔ یہ انہیں کی شخصیت کا فیض تھا کہ ہندو مذہب کو پھرسے فروغ حاصل ہوا۔ پران اسی دور تجدید کی یادگار ہیں، اور انہیں نے ایک بار پھر مذہب کو عوام کے دل کی دھڑکنوں کا رازدار بنایا۔
پرانوں کی کہانیوں میں برہما، وشنو، شو، پاروتی، اُما، درگا، لکشمی کے علاوہ دیوی دیوتاؤں اور رشیوں منیوں کے سینکڑوں کردار ایسے ہیں جو بار بار رونما ہوتے ہیں، ورُن، اگنی، اِندر، مارکنڈے، نارد، دُرواسا، سرسوتی، اوشا، ستیہ، ویاس، مارتنڈ، منو، مینکا، اُروشی، کَپِلا، راہو، کیتو،کام، کالندی، دکش، کادمبری، ہوتری، ماروتی، اشونی وغیرہ۔ ان میں سے کچھ تو انسانی کردار ہیں جو ایک بار سامنے آکر ختم ہوجاتے ہیں لیکن کچھ آسمانی کردار ہیں جو وقت کے محور پر ہمیشہ زندہ ہیں، اور جو کسی بھی یُگ یا کلپ میں رونما ہوسکتے ہیں۔ آسمانی اور زمینی کرداروں کے اس باہمی عمل سے ان کہانیوں کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔ ان کرداروں کی تاریخی حیثیت سے سروکار نہیں۔ اصل چیز ان کی معنویت ہے۔ ان کی تکرار سے ان سے منسوب صفات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔ ہر کردار رمز ہے، علامت ہے، کسی تصور یا کسی قدر کی، جس کے ذریعے ذہن انسانی اپنے عالم طفولیت میں بدی اور نیکی کی طاقتوں کی حشر خیز کشمکش کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
(گوپی چند نارنگ)
تاریخی اعتبار سے پران ہندو مذہب کے ارتقا کی اس منزل کی ترجمانی کرتے ہیں، جب بدھ مت سے مقابلے کے لیے ہندو مذہب تجدید اور احیا کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس سے پہلے ویدوں کی رسوم پرستی اور برہمنیت کے خلاف ردعمل کے طور پر بدھ مت اپنی سادگی، معاشرتی عدل اور عملی روح کی وجہ سے قبول عام حاصل کرچکا تھا۔ لیکن بدھ مت میں خدا کا تصور نہیں تھا۔ اپنشدوں کا برہمہ (مصدر ہستی)کا تصور بھی انتہائی تجریدی اور فلسفیانہ ہونے کی وجہ سے عوام کی دسترس سے باہر تھا۔ ہندو مذہب نے اس کمی کو اوتاروں کے آسانی سے دل نشین ہونے والے عقیدے سے پورا کیا اور رام اور کرشن جیسے مثالی کرداروں کو پیش کرکے عوام کے دلوں کو کھینچنا شروع کردیا۔ یہ انہیں کی شخصیت کا فیض تھا کہ ہندو مذہب کو پھرسے فروغ حاصل ہوا۔ پران اسی دور تجدید کی یادگار ہیں، اور انہیں نے ایک بار پھر مذہب کو عوام کے دل کی دھڑکنوں کا رازدار بنایا۔
پرانوں کی کہانیوں میں برہما، وشنو، شو، پاروتی، اُما، درگا، لکشمی کے علاوہ دیوی دیوتاؤں اور رشیوں منیوں کے سینکڑوں کردار ایسے ہیں جو بار بار رونما ہوتے ہیں، ورُن، اگنی، اِندر، مارکنڈے، نارد، دُرواسا، سرسوتی، اوشا، ستیہ، ویاس، مارتنڈ، منو، مینکا، اُروشی، کَپِلا، راہو، کیتو،کام، کالندی، دکش، کادمبری، ہوتری، ماروتی، اشونی وغیرہ۔ ان میں سے کچھ تو انسانی کردار ہیں جو ایک بار سامنے آکر ختم ہوجاتے ہیں لیکن کچھ آسمانی کردار ہیں جو وقت کے محور پر ہمیشہ زندہ ہیں، اور جو کسی بھی یُگ یا کلپ میں رونما ہوسکتے ہیں۔ آسمانی اور زمینی کرداروں کے اس باہمی عمل سے ان کہانیوں کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔ ان کرداروں کی تاریخی حیثیت سے سروکار نہیں۔ اصل چیز ان کی معنویت ہے۔ ان کی تکرار سے ان سے منسوب صفات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔ ہر کردار رمز ہے، علامت ہے، کسی تصور یا کسی قدر کی، جس کے ذریعے ذہن انسانی اپنے عالم طفولیت میں بدی اور نیکی کی طاقتوں کی حشر خیز کشمکش کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
(گوپی چند نارنگ)
[/blockquote]
مزید ہندوستانی کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
دروپیدی کے سوئمبر کا دن مقررکیا گیا اور چاروں طرف اعلان کروادیا گیا۔ ان دنوں پانڈو اپنی ماں کنتی کے ساتھ بھیس بدل کر رہ رہے تھے۔ انہوں نے بھی دروپدی کے سوئمبر کا اعلان سنا، اور سوئمبر میں جانے کا ارادہ کیا۔
دروپدی، پانچال کے راجا دروپد کی بیٹی تھی۔ اس کے حسن اور خوبی کا شہرہ دور دور تک تھا۔ کئی راج کمار اس سے شادی کرنے کے آرزو مند تھے۔ لیکن راجا دروپد کو سوائےارجن کے کوئی نہیں جچتا تھا۔ انہوں نے دل ہی دل میں طے کرلیا تھا کہ دروپدی کی شادی ارجن سے ہوگی۔ لیکن جب انہوں نے وارناوت کے محل میں آگ لگنے اور اس میں پانڈوؤں کے جل مرنے کی خبر سنی تو انہیں بہت دکھ ہوا۔ ادھر دروپدی کی شادی کے لیے کئی راج کماروں کے پیغام آرہے تھے۔ مناسب بر(شوہر) چننا مشکل ہوگیا تھا۔ آخر راجا دروپد نے سوئمبر رچانے کا فیصلہ کیا۔
دروپیدی کے سوئمبر کا دن مقررکیا گیا اور چاروں طرف اعلان کروادیا گیا۔ ان دنوں پانڈو اپنی ماں کنتی کے ساتھ بھیس بدل کر رہ رہے تھے۔ انہوں نے بھی دروپدی کے سوئمبر کا اعلان سنا، اور سوئمبر میں جانے کا ارادہ کیا۔ پانچوں بھائی اپنی ماں کے ساتھ پانچال پہنچے۔
دروپیدی کے سوئمبر کا دن مقررکیا گیا اور چاروں طرف اعلان کروادیا گیا۔ ان دنوں پانڈو اپنی ماں کنتی کے ساتھ بھیس بدل کر رہ رہے تھے۔ انہوں نے بھی دروپدی کے سوئمبر کا اعلان سنا، اور سوئمبر میں جانے کا ارادہ کیا۔ پانچوں بھائی اپنی ماں کے ساتھ پانچال پہنچے۔
سوئمبر کی تیاریاں خوب زور شور سے جاری تھیں۔ دور دور کے راج کمار پانچال پہنچ رہے تھے۔ سوئمبر کے دن پانڈووں نے برہمنوں کا بھیس بدلا اور چپ چاپ سب سے پیچھے جا کر بیٹھ گئے۔ بڑے بڑے نامی سورما اور راجا، مہاراجا آئے ہوئے تھے۔ کورو بھی پہنچے ہوئے تھے۔ ہر شخص خود کو بہت خوب صورت اور بہادر سمجھ رہا تھا،اور اسی خیال میں تھا کہ دروپدی اسی کے گلے میں جے مالا ڈالے گی۔
منڈپ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب لوگوں کی نظریں اسی دروازے کی طرف تھیں جس سے دروپدی داخل ہونے والی تھی۔ سہیلیوں کے ساتھ دروپدی منڈپ میں آئی۔ اس کی خوب صورتی دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔ انہوں نے جیسا سنا تھا، دروپدی کو اس سے بھی بڑھ کر پایا۔ راجا دروپد تخت پر براجمان تھے۔ بیچوں بیچ ایک بہت اونچا بانس گڑا ہوا تھا۔ اس کے اوپر ایک چکر گھوم رہا تھا، جس میں ایک مچھلی لٹکی ہوئی تھی۔ نیچے پانی سے بھرا ہوا ایک بڑا برتن رکھا تھا۔ شرط یہ تھی، کہ جو شخص پانی میں مچھلی کا عکس دیکھتے ہوئے مچھلی کی بائیں آنکھ میں تیر مارے گا، دروپدی کی شادی اسی سے ہوگی۔

بڑی مشکل شرط تھی۔ باری باری راج کمار اٹھتے اور کمان پر تیر رکھ کر پانی میں دیکھتے ہوئے مچھلی کی آنکھ کو چھیدنے کی کوشش کرتے، لیکن کسی کا بھی تیر نشانے پر نہ بیٹھتا، یا تو دور سے نکل جاتا یا پاس سے۔ قسمت آزمائی کرنے کے لیے ہر شخص اٹھتا، لیکن مجبور ہو کر، اپنی جگہ بیٹھ جاتا۔ مچھلی چکر میں جوں کی توں گھوم رہی تھی۔ راجا دروپد نے جب یہ حالت دیکھی تو بہت دکھی ہوئے۔ وہ حیران تھے کہ بہادروں کی اس محفل میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اس شرط کو پورا کرسکے۔ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ ایک خوبرو برہمن نوجوان چلا آرہا ہے۔ اس نے بغیر کچھ کہے کمان اٹھائی، پانی میں تاک کر نشانہ باندھا اور زن سے تیر چلا دیا۔ تیر بجلی کی طرح لپکا اور مچھلی کی آنکھ سے پار ہوگیا۔
دروپدی خوشی سے پھولی نہیں سمائی۔ فوراً آگے بڑھ کر اس نے نوجوان کے گلے میں جے مالا ڈال دی۔ سوئمبر میں آئے ہوئے راج کمار غصے سے لال پیلے ہونے لگے۔ انہوں نے اعتراض کیا: “دروپدی کی شادی کھتری راج کمار سے ہونی چاہیے، برہمن سے نہیں”۔
شرط یہ تھی، کہ جو شخص پانی میں مچھلی کا عکس دیکھتے ہوئے مچھلی کی بائیں آنکھ میں تیر مارے گا، دروپدی کی شادی اسی سے ہوگی۔
محفل میں کھلبلی مچ گئی۔ کچھ لوگوں نے لڑنے مرنے کے لیے اپنی تلواریں سونت لیں، لیکن بزرگوں نے بیچ بچائو کرادیا اور سمجھانے لگے۔ “اس میں ناانصافی کی کوئی بات نہیں۔ برہمن نوجوان نے سوئمبر کی شرط کو پورا کیا ہے، اس لیے وہی دروپدی سے شادی کرنے کا حق دار ہے۔”
چنانچہ دروپدی کی شادی اس برہمن نوجوان سے کردی گئی۔ پانچوں پانڈو دروپدی کے ساتھ گھر لوٹے جہاں ان کی ماں کنتی انتظار کررہی تھی۔ جب گھر پہنچے تو رات ہوچکی تھی۔ ارجن کو مذاق سوجھا۔ اس نے باہر ہی سے ماں کو بتایا: “ماں، ماں،دیکھو!آج میں کیسا عمدہ انعام جیتا ہے”۔
کنتی نے وہیں سے جواب دیا: “خوشی کی بات ہے بیٹا۔جو ملا ہے، اپنے بھائیوں کے ساتھ مل بانٹ لو”۔
پانڈووں نے یہ سنا تو حیران رہ گئے کہ ماں نے غلطی سے یہ کیا کہہ دیا؟ کنتی نے باہر آکر دروپدی کو دیکھا تو حیران رہ گئی۔ لیکن منہ سے نکلی ہوئی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر لوٹایا نہیں جاسکتا۔
کنتی نے پانچوں بیٹوں سے کہا: “جو بات زبان سے نکل گئ ہے پوری ہوگی۔ دروپدی تم پانچوں کی پتنی ہوگی اور اس کی رکھشا تم پانچوں پر فرض ہے”۔
پانڈووں نے یہ سنا تو حیران رہ گئے کہ ماں نے غلطی سے یہ کیا کہہ دیا؟ کنتی نے باہر آکر دروپدی کو دیکھا تو حیران رہ گئی۔ لیکن منہ سے نکلی ہوئی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر لوٹایا نہیں جاسکتا۔
کنتی نے پانچوں بیٹوں سے کہا: “جو بات زبان سے نکل گئ ہے پوری ہوگی۔ دروپدی تم پانچوں کی پتنی ہوگی اور اس کی رکھشا تم پانچوں پر فرض ہے”۔
راجا دروپد سوئمبر سے خوش نہیں تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ برہمن نوجوان کون ہے؟ کیا وہ سچ مچ برہمن ہے؟ لیکن اس میں راج کماروں جیسی آن بان کہاں سے آگئی؟ اگر وہ سچ مچ برہمن ہے، تو ایسی تیر اندازی کہاں سے سیکھی؟
کنتی نے پانچوں بیٹوں سے کہا: “جو بات زبان سے نکل گئ ہے پوری ہوگی۔ دروپدی تم پانچوں کی پتنی ہوگی اور اس کی رکھشا تم پانچوں پر فرض ہے”۔
شاید برہمن کے بھیس میں کھتری ہو۔ طرح طرح کے شبہات راجا دروپد کے دل میں اٹھ رہے تھے۔
آخر انہوں نے ایک خدمت گار کو برہمن کا پتہ لگانے کے لیے بھیجا۔ خدمت گار پوچھتا پوچھتا پانڈووں کے ٹھکانے پر پہنچا اور رازداری سے اس نے ساری باتوں کا پتہ چلالیا۔ لوٹ کر اس نے راجا دروپد کو بتایا کہ وہ پانچوں برہمن اصل میں پانچوں پانڈو ہیں، اور جس برہمن نوجوان نے سوئمبر جیتا ہے، اور جس سے دروپدی کی شادی ہوئی ہے، وہ ارجن ہے۔ راجا دروپد کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ سمجھ گئے کہ پانڈووں کی موت کی خبر جھوٹی تھی۔کہنے لگے: “مجھے معلوم تھا، تیراندازی کا ایسا کمال ارجن کے سوا کسی میں نہیں”۔
آخر انہوں نے ایک خدمت گار کو برہمن کا پتہ لگانے کے لیے بھیجا۔ خدمت گار پوچھتا پوچھتا پانڈووں کے ٹھکانے پر پہنچا اور رازداری سے اس نے ساری باتوں کا پتہ چلالیا۔ لوٹ کر اس نے راجا دروپد کو بتایا کہ وہ پانچوں برہمن اصل میں پانچوں پانڈو ہیں، اور جس برہمن نوجوان نے سوئمبر جیتا ہے، اور جس سے دروپدی کی شادی ہوئی ہے، وہ ارجن ہے۔ راجا دروپد کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ سمجھ گئے کہ پانڈووں کی موت کی خبر جھوٹی تھی۔کہنے لگے: “مجھے معلوم تھا، تیراندازی کا ایسا کمال ارجن کے سوا کسی میں نہیں”۔
راجا دروپد نے پانڈووں کو بلانے کے لیے آدمی بھیجے، لیکن ساتھ ہی ہدایت کردی کہ پانڈووں کو پتہ نہ چلے کہ راجا دروپد کو ان کے راز کا پتہ چل گیا ہے۔ جب سادھووں کے بھیس میں پانچوں پانڈو راجا کے محل میں پہنچے تو راجا نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ پھر ان سے پوچھا کہ وہ سچ سچ بتائیں کہ وہ کون ہیں۔ یدھشٹر نے راجا دروپد کو سارا قصہ سنایا اور سب کا تعارف کرایا۔
رفتہ رفتہ یہ خبر ہستنا پور بھی پہنچی کہ پانڈو زندہ ہیں۔ لوگوں نے بہت خوشیاں منائیں۔ ودُر، بھیشم اور درونا آچاریہ کی رائے سے دھرت راشٹر نے پانڈووں کو گھر واپس بلانے کے لیے آدمی بھیجے۔
پانڈووں کے گھر لوٹنے پر کورووں اور پانڈووں میں سمجھوتا کرادیا گیا۔ راج کو دو حصوں میں بانٹا گیا۔ ایک حصۃ کورووں کو اور دوسرا پانڈووں کو دیا گیا۔ کورووں کی راجدھانی ہستنا پور قرار پائی اور پانڈووں کی اندر پرستھ، جو آج کی دہلی ہے۔
(ماخوذ از پرانوں کی کہانیاں، مرتبہ گوپی چند نارنگ)
لالٹین پر ہندوستانی کہانیوں کا یہ سلسلہ تصنیف حیدر (ادبی دنیا) کے تعاون سے پیش کیا جا رہا ہے۔