Laaltain

دردِ مشترک

10 اپریل، 2013
Picture of لالٹین

لالٹین

او ہنری (۱۹۱۰ء– ۱۸۶۲ء)
چور جھپاک سے کھڑکی کے اندر کودا اور پل بھر دم لینے کو ٹھٹک گیا۔سکہ بند چور چور گھر کی متاع میں سے کچھ لینے سے پہلے تھوڑا دم ضرور لیتے ہیں۔
کہتے ہیں گھر کے بھاگ دروازے سے پہچانے جاتے ہیں۔ چور نے بھی ایک نظر میں بھانپ لیا کہ بی بی اس وقت کسی ہوٹل میں بیٹھی کسی ہمدرد کے ساتھ بیٹھی رونا رو رہی ہو گی کہ ابھی تک اس کے دل کو کسی نے نہیں سمجھا، کسی نے اس کے دکھ کو نہیں اپنایا۔ چوتھی منزل کے سامنے والی کھڑکیوں میں روشنی کا مطلب یہ تھا کہ صاحبِ خانہ گھر آ گئے ہیں اور جلد ہی بتی بجھا کر سو جائیں گے۔ ستمبر کا مہینہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ہوٹلوں اور کیفوں اور لڑکیوں کی صحبت کو لہو و لعب خیال کرتے ہیں اور پہلے سے گھر پہنچ کر بی بی کے آنے کی راہ دیکھتے ہیں۔
یہ چور معمولی یعنی تیسرے درجے کا تھا۔ تیسرے درجے کا چور اوباش ہوتا ہے۔ پہلے اور دوسرے درجے کے چوروں کی طرح نہیں جو دن میں جنٹلمین بنے رہتے ہیں۔ عمدہ لباس پہنتے ہیں۔ اچھے ہوٹلوں میں آمدورفت رکھتے ہیں۔ دیواروں پر کاغذ منڈھنے اور فرنیچر وغیرہ مہیا کرنے کے بہانے گھروں کی کھوج لگاتے ہیں اور جھٹ پٹا ہوتے ہی اپنی آئی پر آ جاتے ہیں۔ اخباروں میں ایسے لوگوں کو خوب اچھالا جاتا ہے۔ ان کی، ان کی بیویوں کی اور بیسیوں آشناؤں کی تصویریں چھاپی جاتی ہیں۔ وہ بیٹھے بٹھائے ہیرو بن جاتے ہیں۔
لیکن یہ چور اس قسم کا نہیں تھا۔ ادنٰی درجے کا تھا۔ اس کا ٹھاٹ باٹ بڑے چوروں جیسا نہ تھا۔ نہ لالٹین ،نہ نقاب، نہ بے آواز تلے والے جوتے۔ بس سیدھا سبھاؤ آدمی تھا۔ منہ میں پیپر منٹ کا چیونگم رکھے جگالی کرتا ہوا۔
فرنیچر پر گرد جم رہی تھی۔ چور کو اس گھر سے کوئی بڑا خزانہ ملنے کی امید نہ تھی۔ اس کی منزک مدھم روشنی والا وہ کمرہ تھاجس میں صاحب خانہ استراحت فرما رہے تھے۔ وہاں کسی گھڑی، کچھ کھلے پیسوں یا ایسی ہی کسی چیز کا ملنا خارج از امکان نہ تھا۔
گھڑی، چابیاں، بجھے ہوئے سگریٹ، بال باندھنے کے گلابی ریشمی فیتے اور ایک بوتل سوڈا واٹر کی۔ صبح دم نوش جاں کرنے کے لئے۔
چورنے سنگھار میز کی طرف قدم بڑھایا لیکن یکایک وہ سویا ہوا شخص پہلو بدل کر جاگ اٹھا اور آنکھیں کھول دیں۔ اس کا داہنا ہاتھ تکیے کے نیچے گیا لیکن وہیں کا وہیں رہ گیا۔
“چپ لیٹے رہو۔”چور نے آہستگی سے کہا۔ اس شخص نے چور کے ہاتھ میں پستول کی نال دیکھی اور بےحس و حرکت پڑ رہا۔
“اب اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھاؤ۔”چور کا لہجہ تحکمانہ ہو گیا۔
اس شخص کی چھوٹی سی کھچڑی داڑھی تھی، جیسی بغیر درد دانت نکالنے والے ڈاکٹروں کی ہوتی ہے۔وہ جھنجھلایا سا معلوم ہوتا تھا۔
“دوسراہاتھ بھی اوپر اٹھاؤ، تمہارا کیا ہے۔ بائیں ہاتھ سے پستول داغ دو۔ میں دو تک گنتا ہوں۔۔۔ایک۔۔۔”
“یہ ہاتھ میں نہیں اٹھا سکتا۔”اس شخص نے کہا
“کیوں؟” چور نے پوچھا
“گٹھیا کا درد ہے۔کاندھے میں”
“ورم کے ساتھ؟”
“پہلے ورم تھا اب نہیں ہے”
چور اسی طرح دو لمحے ٹھٹکا کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ پستول کی نال اسی طرح اس شخص کی طرف تھی۔ اس نے سنگھار میز کی چیزوں پرنظر دوڑائی۔ اس کے بعد اس شخص کے چہرے پر ایک تشنج سا پھیل گیا۔
“منہ مت بناؤ۔”اس شخص نے کہا،”اگر تمہیں چوری کرنی ہے تو کرو۔یہ میز پر دھری ہیں سب چیزیں”
“اتفاق سے میں بھی اس موذی مرض گٹھیا کا پرانا مریض ہوں۔میرے بھی یہ بائیں بازو میں ہے، کوئی اور ہوتا تو تمہارا بایاں پنجہ اٹھتا نہ دیکھ کر دھائیں سے گولی داغ دیتا۔”
“تمہیں یہ درد کب سے ہے؟”اس شخص نے پوچھا
“چار سال سے… گٹھیا تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسی چیز ہے کہ جان جائے پر گٹھیا نہ جائے۔”
“کبھی کوڑیالے سانپ کا تیل استعمال کیا؟”
“سیروں بلکہ منوں۔ جتنے سانپوں کا تیل میں نے استعمال کیا ہے اگر ان کو باندھ کر رسی بنائی جائے تو آٹھ بار یہاں سے چاند تک اور چاند سے زمین تک آ سکتی ہے”
“بقراطی گولیاں استعمال کیں؟”
“پانچ مہینے متواتر۔”چور نے جواب دیا۔ “کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ہاں حبوب کبیر، معجون فلاسفہ اور اطریفل جالینوس خاص الخاص استعمال کئے تھے، اس سے کچھ فائدہ ہوا لیکن زیادہ افاقہ لعوق خراسانی سے ہوا جو میں جیب میں رکھتا تھا۔”
“تمہارا درد صبح کو زیادہ ہوتا ہے یا رات کو؟” اس شخص نے دریافت کیا
“رات کو۔ اور رات ہی میرے کام دھندے کا وقت ہوتا ہے۔”چور بولا،”اچھا اب یہ ہاتھ نیچا کر لو۔ہاں ہاں کر لو۔ جم کر دو چار مہینے ماء اللحم دو آتشہ پی دیکھنا۔ فائدہ دیتا ہے”
“ہاں وہ نہیں پیا۔تم یہ بتاؤ۔تمہارے اس بازو میں ٹیس اٹھتی ہے یا ایک سا درد رہتا ہے؟”شخص مذکور بولا
اب چور آ کر اس شخص کی پائنتی بیٹھ گیا اور پستول کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لیا۔
“یکایک ٹیس اٹھتی ہے۔کبھی کبھی تو میں سیڑھیاں بھی نہیں چڑھ پاتا۔بس آدھے راستے میں آ لیتا ہے۔میں تو کہتا ہوں ڈاکٹر کے پاس اس کا علاج ہی نہیں سب چور ہیں۔”
“میرا بھی یہی خیال ہے۔ہزاروں روپیہ ڈاکٹروں کو کھلا دیا، دھیلا بھر آرام نہیں ، تمہیں کچھ تو افاقہ ہوا۔”
“ہاں صبح کو ذرا چین رہتا ہے۔لیکن ذرا سا مینہ کا چھینٹا پڑا اور جان کو آ بنی۔”
“یہی حال ادھر ہے۔بادل کا ٹکڑاکہیں سے اٹھے۔ اس کی نمی سیدھی میرے کندھے میں آ گھستی ہے اور پھر داڑھ کے درد کی سی اذیت۔”
چور نے پستول اٹھایا اور ذرا سی جھینپکے ساتھ جیب میں ڈال لیا۔ تھوڑے تامل کے بعد وہ بولا،”اچھا یہ بتاؤ کبھی فاسفورس کے تیل کی بھی مالش کروائی ہے؟”
“بہت۔ اس سے تو سرسوں کا تیل اچھا ہے۔”
“ٹھیک کہتے ہو ٹھیک کہتے ہو۔”چور نے کہا،”بہت معمولی چیز ہے۔ ہاتھ بانہہ پر معمولی خراش میں تو فائدہ دیتا ہے لیکن اس سے آگے نہیں۔ہم دونوں کی حالت اس معاملے میں ایک سی ہےبس اس کی تو ایک ہی دوا ہے۔ واہ وا۔ کیا موقعے پر یاد آئی۔شراب کے دو گھونٹ جو کام کرتے ہین وہ ان تیلوں معجونوں کے بس کی بات نہیں۔چلو ذرا کپڑے پہنو۔ باہر کوئی شراب خانہ کھلا ہو تو دو گھونٹ پی آئیں۔”چور نے کہا۔
“ایک ہفتے سے تو یہ حالت ہے کہ کپڑے بھی خود نہین پہن پاتا۔ نوکر پہنا دیتا ہے۔ وہ اس وقت سو رہا ہو گا۔”
“اس کی فکر نہ کرو، میں پہناتا ہوں کپڑے۔ ذرا سی ہمت کر کے بستر سے نکل آؤ”
یکایک اس شخص کو خیال آیا کہ اس نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا، “عجیب قصہ ہے عقل کام نہیں کرتی۔”
“یہ لو قمیض اپنی۔ایک صاحب بتاتے تھے کہ اونچے پل کے پاس ایک ڈاکٹر کے پاس مجرب نسخہ ہے ۔کوئی مرہم ہے ، دو ہفتے میں درد آدھا رہ جاتا ہے”
دروازے سے نکلتے ہوئے صاحب خانہ نے کہا،”ارے میں پیسے تو بھول ہی چلا تھا۔ٹھہرو۔ میز پر سے لے لوں۔”
“نہیں نہیں۔ “چور نے اس کی آستین تھام کر کہا،”میرے پاس پیسے ہیں فکر مت کرو تمہیں میٹھے تیل میں لونگ ڈال کے ذرا مالش بھی کروانی تھی”(ترجمہ: ابنِ انشا – ماخوذ)

(Published in The Laaltain – Issue 8)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *