Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

دخترِ وزیر، دوہری تاریخی اہمیت کی ایک کہانی ـ کتاب تبصرہ

اسد فاطمی

اسد فاطمی

16 اپریل, 2024

نام کتاب: دخترِ وزیر
مصنفہ: ڈاکٹر للیاس ہملٹن / مترجم: پروفیسر اشفاق بخاری
صفحات: 176
ناشر: سانجھ پبلشر، لاہور
ہزارہ برادری افغانستان، ایران و ترکستان کے علاوہ پاکستان کی ایک اہم نسلی و ثقافتی اکائی ہے، لیکن ہزارہ تاریخ و ثقافت پر اردو زبان میں دستیاب کتب و مواد بالکل ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ زیر نظر کتاب “دخترِ وزیر” اردو کے قارئین کے لیے کئی حوالوں سے دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے۔ 1900ء میں انگلستان سے چھپنے والے ناول “A Vizier’s Daughter” کی مصنفہ ڈاکٹر للیاس ہملٹن تب کے امیر کابل خان عبدالرحمان کی ذاتی معالج رہی تھیں۔ اس دوران انہوں نے امیر کابل کے دربار میں طاقت کی کشمکش، محلاتی سازشوں، حرم سراؤں کے کلچر، کابل کی شہری زندگی اور مضافات کی کٹھن لیکن سادہ زندگی کو نہایت قریب سے دیکھا۔ ہملٹن کا یہ ناول ایسے ان گنت قیمتی مشاہدات بیان کرتی ہوئی ایک ادبی دستاویز ہے۔ ناول کا مرکزی کردار کابل سے دور ایک ہزارہ گاؤں میں بسنے والی ہزارہ قبیلے کے وزیر غلام حسین کی خوبصورت اور سیانی بیٹی گل بیگم ہے، جبکہ اس کا دوسرا اہم ترین کردار امیر کابل کے میر منشی (چیف سیکرٹری) علی محمد خاں کا ہے۔ عمروں کے تفاوت کے باوجود اکثر جگہوں پر یہ دونوں کردار روایتی ہیرو اور ہیروئن کی جگلبندی میں بندھے نظر آتے ہیں۔
چونکہ ناول کی کہانی حقیقی کرداروں پر مبنی ہے، اسی لیے ناول کے اپنے پلاٹ اور کہانی سے ہٹ کر بھی عمومی دلچسپی کے بہت سے حوالے اس میں موجود ہیں۔ حقیقی زندگی میں بھی مصنفہ للیاس ہملٹن کے امیر کابل کے علاوہ ناول کے کردار گل بیگم اور امیر منشی سے ذاتی شناسائی تھی۔ کسے معلوم تھا کہ ناول چھپنے کے ایک دہائی بعد کابل کے اس ہندوستانی نژاد امیر منشی کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہو گا جسے دنیا میں فیض احمد فیض کے نام سے جانا جائے گا۔ فیض احمد فیض کے والد سلطان محمد خاں دربار کابل میں چیف سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے، کابل چھوڑنے کے بعد وہ لندن میں افغانستان کے سفیر رہے۔ مختلف تاریخی شواہد اور مظاہر کی بنیاد پر مانا جاتا ہے کہ ناول کے کردار امیر منشی علی محمد خاں سے مراد فیض احمد فیض کے والد ہی ہیں۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں اپنی مخصوص موضوعاتی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس ناول کو سوانح خاندان فیض پر بھی پہلے مطالعاتی سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔
فیض احمد فیض کے والد سلطان محمد خاں دربار کابل میں چیف سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے، کابل چھوڑنے کے بعد وہ لندن میں افغانستان کے سفیر رہے۔ مختلف تاریخی شواہد اور مظاہر کی بنیاد پر مانا جاتا ہے کہ ناول کے کردار امیر منشی علی محمد خاں سے مراد فیض احمد فیض کے والد ہی ہیں
ناول کا آغاز کابل سے دور، کشادہ فضاؤں والے ایک کوہستانی گاؤں کے منظر سے ہوتا ہے جہاں نوجوان گل بیگم دوسری ہزارہ لڑکیوں کے ہمراہ قسمت کا حال بتانے والی ایک بڑھیا کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی ہے۔ بدلتے مناظر کے ساتھ قاری ہزارہ قبائل اور تخت کابل کی باہمی چشمک، ہزارہ لوگوں کی سادہ طبعی، دیہی ہزارہ ثقافت اور افغان زندگی کے کئی ایک پہلوؤں سے آشنا ہوتا ہے۔ بدلتے سیاسی حالات کے ساتھ ایک لٹی پٹی وزیر زادی کے دوسری ہزارہ عورتوں کے ساتھ کابل پہنچنے تک کا سفر، ایک طرح سے افغانستان کی عام عائلی زندگی، خانہ جنگیوں کی تباہ کاریوں، حرمسراؤں میں بیگمات اور کنیزوں کے طرز زندگی، شہر میں محکوم قبائل کے استحصال اور شہر کابل کی دھول اڑاتی نامہربان گزرگاہوں کا ایک پر تاثیر اجمالی خاکہ ہے۔ امیر کابل کا میر منشی، کابل کی فرض شناس افسر شاہی کا ایک کامل نمائندہ ہے جو للیاس ہملٹن کے بقول اپنے دفتر میں بیس آدمیوں کے برابر کام کر کے ولایت کا نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہے اور امیر کابل کا پسندیدہ ہونے کی وجہ سے حاسدوں کے ہاں سے طرح طرح کی درباری سازشوں کا شکار بھی ہے۔ ناول کا دوسرا نصف جان لیوا سازشوں میں پھنسے امیر منشی کا گل بیگم کی مدد سے ہندوستان کی طرف فرار ہو جانے کے منصوبے کا ڈرامائی احوال بیان کرتا ہے۔ کہانی کے پیچ و خم کے ساتھ ساتھ افغانستان میں اُس وقت جاری پشتون ہزارہ تضادات، کابل کے تاج برطانیہ کے ساتھ تعلق اور افغانستان کے سیاسی کلچر کے بارے میں کئی نظری زاویے بھی قاری کی نظر سے گزرتے ہیں۔
ناول کی مصنفہ نے کتاب کے طبعزاد انگریزی نسخے کے آغاز میں اپنے قارئین کی طرف سے اس اعتراض کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس کی کہانی میں کہیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی، کہانی کا ہر باب اداس اور پریشان کر دینے والا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کہانی لکھنے کا مقصد افغان معاشرے کی درست تصویر کو ابھارنا تھا۔ ان کے اس بیان کے باوجود ہمیں کہانی میں کئی جگہ ایسے روشن، روح افزا اور زندگی سے بھرپور احساس کے حامل فطری مناظر دیکھنے پڑھنے کو مل جاتے ہیں، جن میں افغانستان کا نیلا آسمان پہاڑوں کی اوٹ سے تلخ اور تاریک زندگیوں پر مہربان ہواؤں کے تھپیڑے ڈالتا نظر آتا ہے۔ افغانستان کی عمومی زندگی کی طرح اس ناول میں بھی تشدّد اور مہر و عنایت، تاریکی اور روشنی، غم اور مسرت، غرض سبھی جلالی اور جمالی تاثر اپنے تمام تر حقیقت نگارانہ توازن کے ساتھ ملتے ہیں۔
کتاب کا ترجمہ پروفیسر اشفاق بخاری کا کیا ہوا ہے، جو اردو کے کہنہ مشق معلّم، مترجم، تمدنی مؤرخ اور فیض احمد فیض کی حیات و سوانح کے ایک جیّد محقق تھے۔ مترجم کی علمی دلچسپیوں اور ترجمے کے معیار کو دیکھ کر ہم پورے اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ کتاب کو ایک گونہ شوق اور دلجمعی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔