[blockquote style=”3″]
سابق سفیر، مصنف اور دانشور حسین حقانی آج کل واشنگٹن میں مقیم ہیں اور ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں جنوبی و وسطی ایشیاء کے ڈائریکٹر اور فیلو کے طور پر کام کررہے ہیں۔ حسین حقانی کا پاکستان میں عمومی تعارف 2011 میں سامنے آنے والے میمو گیٹ سکینڈل کے اہم کردار کے طور پر ہے تاہم دنیا بھر میں آپ کی پہچان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاک امریکا تعلقات کی تشکیل اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے ہے۔ ذیل میں حسین حقانی کے ساتھ اجمل جامی کی خصوصی نشست کا احوال قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
[/blockquote]
جامی: حسین حقانی کون ہے؟
حسین حقانی: حسین حقانی بے چارہ ایک ہر وقت سوچنے اور پڑھنے والا آدمی ہے۔ اسے اپنی رائے کے صحیح ہونے کا زعم نہیں رہتا۔
جامی: آپ نے وال سٹریٹ جرنل کے ایک حالیہ مضمون میں امریکی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو اسلحہ فراہم نہ کرے۔ اس پر ملک بھر میں بہت تنقید ہوئی ، آپ کی وطن سے محبت پر سوالات اٹھے۔ مضبوط دفاع تو ملک کی ضرورت ہے آ پ کے مضمون کی منطق کیا ہے؟
میری دلیل یہ ہے کہ پاکستان کے عدم استحکام کی کئی وجوہات ہیں، صرف عسکری استحکام ہی کافی نہیں، ہماری معیشت کی کمزوری، کم خواندگی ، معاشرے میں ہیجان کی سی کیفیت بھی اہم وجوہات ہیں
حسین حقانی: ہر پاکستانی کی یہی خواہش ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہو، پاکستان کی سلامتی محفوظ رہے اور قومی مفاد کا تحفظ ہو۔ اصل بحث یہ ہے کہ ملک کا مفا د ہے کیا؟ ملکی سلامتی کے لیے بہتر ہے کیا؟ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم فورا جذبات میں آکر تقریر شروع کر دیتے ہیں، عراق جنگ ہوئی تو بش نے کہا کہ یہ جنگ امریکہ کے مفاد میں ہے ، سینیٹر اوباما نے کہا کہ نہیں یہ ہمارا قومی مفاد نہیں ہے، وہاں کسی نے نہیں کہا کہ اوباما نے بش کے ملکی مفاد کے خلاف بات کر کے اپنا منہ کالا کر لیا، یہی نہیں بلکہ اس کے آٹھ سال بعد اسی اوباما کو امریکیوں نے صدر منتخب کر لیا اور انہوں نے کہا ہمیں فوجیں عراق سے واپس بلانی چاہیں۔ اسی طرح میں نے کبھی خود کو پاکستان سے جدا نہیں کیا اور نہ ایسی بات کر کے ملکی مفاد کے خلاف ہوا ہوں۔ مجھے شاید پاکستان سے کسی اور پاکستانی سے زیادہ محبت ہو۔ جو تاثر ابھرا میرے مضمون کے بعد، اس کا میں کیا کرسکتا ہوں۔ میری دلیل یہ ہے کہ پاکستان کے عدم استحکام کی کئی وجوہات ہیں، صرف عسکری استحکام ہی کافی نہیں، ہماری معیشت کی کمزوری، کم خواندگی ، معاشرے میں ہیجان کی سی کیفیت بھی اہم وجوہات ہیں، چار اور ہیلی کاپٹر مل جانے سے یہ سب مسائل ختم نہیں ہو جائیں گے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ سینتالیس میں پاکستان کی شرح خواندگی سولہ فیصد تھی، بھارت کی اٹھارہ فیصد تھی، آج بھارت کی شرح خواندگی چوہتر فیصد اور ہماری پچپن فیصد ہے، صرف دو فیصد کا فرق آج اتنا بڑا فرق کیوں بن گیا؟ ہم اس پر کیوں نہیں سوچتے؟
جامی: کہا گیا کہ آپ کے مضمون کی زبان بہت سخت اور پاکستان مخالف ہے۔ کیوں؟
ہمیں ہر دور میں ایسا لیڈر چاہیے ہوتا ہے جو جھوٹ بولے، جھوٹے وعدے کرے، حقیقت سے خود اور قوم کو بھی راہ فرار دکھائے۔ مثلا ہم امریکہ اور آئی ایم ایف سے ادھار لینا چھوڑ دیں گے، کشکول توڑ دیں گے، بھارت اسرائیل اور امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیں گے، وغیرہ وغیرہ۔
حسین حقانی: میرے مضمون کی زبان وہی تھی جو امریکہ کو سمجھانے کے لیے عموما استعمال کی جاتی ہے، میں نے دلیل سے ماضی کے حوالے دے کر بات کی، اس میں میری وطن دشمنی کیسے ثابت ہو سکتی ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک مضمون لکھا گیا جس میں دلائل سے بات کی گئی، ممکن ہے کئی لوگوں کو اس سے اتفاق نہ ہو، لیکن جب دلیل سے بات کی جاتی ہے تو دلیل کا جواب دلیل سے دیا جانا چاہیے۔ گالیاں دینے کی بجائے کوئی مرد مومن کیوں نہیں میرے دلائل کے خلاف مضمون لکھتا؟
جامی: ایسے حالات میں جب کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ، آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کو دفاعی ضروریات کے لیے اسلحہ نہ ملے؟ یہ کیا دلیل ہوئی؟
حسین حقانی: دیکھیے ایسی بات نہیں ہے، یہاں تو دہشت گرد اور ان کے چاہنے والے جب چاہیں میڈیا پر آ جاتے ہیں، مجھے تو وقت ہی نہیں دیا جاتا کہ اپنی رائے کا اظہار کر سکوں۔ امریکہ تو اس امید پر اسلحہ دے رہا ہے کہ یہ اسلحہ دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہو ، لیکن یہ کس کے خلاف استعمال ہو گا یا ہو رہا ہے، اس پر بھی تو بات ہونی چاہیے۔ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، بہت اچھی بات ہے لیکن ریاست میں جیش محمد، لشکر طیبہ، افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک، حرکت جہاد الاسلامی، یہ بھی تو پائی جاتی ہیں، ان کے خلاف تو موثر کارروائی نہیں ہو رہی۔ عرض یہ ہے کہ
تیری دعا ہے کہ ہو تیرے آرزو پوری
میری دعا ہے کہ تیری آرزو بدل جائے
دیکھیں چین کے رہنما ڈنگ شیاو پنگ نے کہا کہ چین اقتصادی طور پر مضبوط نہیں، ماو ذے تنگ نے انہیں جیل میں بند کر دیا۔ بعد میں چینیوں نے انہی کی بات پر کان دھرے۔ مجھ جیسے ناچیز قوم کو یہی باور کروا رہے ہیں کہ ہمیں بھی اقتصادی اور تعلیمی طور پر مضبوط ہونا ہے ۔ پچاسی میں محترمہ بے نظیرنے بھی تو ایواکس طیاروں کی فراہمی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، انہیں بھی برا بھلا کہا گیا، ان کے پاس دلیل تھی تو انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔
کشمیر پر ہمارا حق اپنی جگہ، لیکن اس حق کو منوانے کے چکر میں ہمارا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوا ہے، لہذا ہمیں اس حق کو حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا۔
جامی: جب آپ سفیر تھے تب بھی آپ نے امریکہ کو ایسے مشورے دیئے تھے؟
حسین حقانی: تب میں سفیر تھا، پاکستانی حکومت کی اس وقت کی جو پالیسی تھی اسے آگے بڑھایا، یہی میرے منصب کا تقاضا تھا۔
جامی: آپ کے خیال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
حسین حقانی: ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر بحث کو حق اور باطل کی جنگ سمجھتے ہیں اور بدقسمتی سے یہ ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے۔ ہر فرد خود کو حق اور مخالف کو باطل سمجھتا ہے۔ جہاں تک تعلق سیاسی بحث کا ہے تو جان لیجیے سیاست اصل میں حقائق کے حوالے سے رد عمل بنانے کا نام ہے۔ حالات بدلیں گے تو نقطہ نظر بھی بدلے گا۔ آپ جناح صاحب کو ہی دیکھ لیجیے، ان کا سیاسی کیرئیر کہاں سے شروع ہوا، بھٹو صاحب کی مثال سامنے ہے، اورتو اور نوازشریف بھی کہاں سے چلے تھے اور اب کا مطمع نظر وہ نہیں جو اوائل عمری میں تھا، تو ایسے میں میں بے چارہ بھلا کون ہوں؟
جامی: تو پھر ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ کیا ہوا؟
حسین حقانی: دیکھئے مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں جگت بازی کو ذہانت سمجھ لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم علمی اور فکری بحث سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہم حق اور باطل کی جنگ میں فریق مخالف کی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں، بات سننا درکنار چہرہ دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ حالانکہ آپ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو جناح صاحب کچھ اور ہی سکھا گئے ہمیں، تقسیم ہو گئی دو ملک تخلیق ہو گئے، نہر و کو لکھا
مائی ڈیئر نہرو
نظریہ پاکستان اس ایلیٹ کی بیساکھی ہے، اس بیساکھی کی وجہ سے معاشی معاملات پر بحث نہیں کی جاتی۔
یو اینڈ آئی آر فرینڈز ، میرے گھر کا خیال رکھنا۔
یعنی سیاسی اختلافات کے باوجود دوستی کا رشتہ استوار دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اختلاف کا مطلب دشمنی اور شریکا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو ہر تھوڑے عرصے بعد ایک ایسا لیڈر دکھائی دے گا جو حق اور باطل کا پرچار کرتا ہوا قومی افق پر طلوع ہوتا ہے۔ خود پر تنقید ہمارے معاشرے میں کسی وصف کی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ اور اب ہم انہی روایات کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں ہر دور میں ایسا لیڈر چاہیے ہوتا ہے جو جھوٹ بولے، جھوٹے وعدے کرے، حقیقت سے خود اور قوم کو بھی راہ فرار دکھائے۔ مثلا ہم امریکہ اور آئی ایم ایف سے ادھار لینا چھوڑ دیں گے، کشکول توڑ دیں گے، بھارت اسرائیل اور امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ تاریخی حقائق، سیاسی بصیرت، بین الاقوامی امور پر دسترس، قوم کی نبض پر ہاتھ اور ذاتی شخصیت کے بلند معیارات ، ان سب سے عاری لیڈرز ہمیشہ سے ہی ہمیں جھوٹ اور جھوٹے نعروں سے نوازتے رہے۔
جامی: غیر ملکی امداد پر ہمارا انحصار کیونکر لازم ہے؟ اور اس کے باوجود بھی دفاعی ضروریات پوری کیوں نہیں ہو رہیں؟
حسین حقانی: غیر ملکی امداد پر انحصار کیوں لازم ہے؟ یقینا یہ عسکریت کی وجہ سے ہے۔ عسکری ضروریات اس میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے جس سے آنکھ نہیں چرائی جا سکتی ۔ کمی گندم کی تھوڑی ہے کمی تو اسلحے کی ہوتی ہے، لیکن جتنا بھی اسلحہ جمع کر لیا جائے اپنے سے چھے گنا بڑے ملک کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تو کیوں نہ مقابلہ سائنس، تعلیم و تحقیق اور اس جیسے شعبوں میں کیا جائے جہاں آبادی کا تناسب کسی کھاتے میں نہیں آتا۔ لیکن اس مسئلے پر دلیل سے بات کی بجائے لعن طعن کیا جاتا ہے۔ تاریخ کو جھٹلایا جاتا ہے۔
یعنی سیاسی اختلافات کے باوجود دوستی کا رشتہ استوار دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اختلاف کا مطلب دشمنی اور شریکا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو ہر تھوڑے عرصے بعد ایک ایسا لیڈر دکھائی دے گا جو حق اور باطل کا پرچار کرتا ہوا قومی افق پر طلوع ہوتا ہے۔ خود پر تنقید ہمارے معاشرے میں کسی وصف کی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ اور اب ہم انہی روایات کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں ہر دور میں ایسا لیڈر چاہیے ہوتا ہے جو جھوٹ بولے، جھوٹے وعدے کرے، حقیقت سے خود اور قوم کو بھی راہ فرار دکھائے۔ مثلا ہم امریکہ اور آئی ایم ایف سے ادھار لینا چھوڑ دیں گے، کشکول توڑ دیں گے، بھارت اسرائیل اور امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ تاریخی حقائق، سیاسی بصیرت، بین الاقوامی امور پر دسترس، قوم کی نبض پر ہاتھ اور ذاتی شخصیت کے بلند معیارات ، ان سب سے عاری لیڈرز ہمیشہ سے ہی ہمیں جھوٹ اور جھوٹے نعروں سے نوازتے رہے۔
جامی: غیر ملکی امداد پر ہمارا انحصار کیونکر لازم ہے؟ اور اس کے باوجود بھی دفاعی ضروریات پوری کیوں نہیں ہو رہیں؟
حسین حقانی: غیر ملکی امداد پر انحصار کیوں لازم ہے؟ یقینا یہ عسکریت کی وجہ سے ہے۔ عسکری ضروریات اس میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے جس سے آنکھ نہیں چرائی جا سکتی ۔ کمی گندم کی تھوڑی ہے کمی تو اسلحے کی ہوتی ہے، لیکن جتنا بھی اسلحہ جمع کر لیا جائے اپنے سے چھے گنا بڑے ملک کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تو کیوں نہ مقابلہ سائنس، تعلیم و تحقیق اور اس جیسے شعبوں میں کیا جائے جہاں آبادی کا تناسب کسی کھاتے میں نہیں آتا۔ لیکن اس مسئلے پر دلیل سے بات کی بجائے لعن طعن کیا جاتا ہے۔ تاریخ کو جھٹلایا جاتا ہے۔
میں اسلام پسند پس منظر سے آیا، آئی جے آئی کے دنوں میں نواز شریف کا مشیر رہا۔ اس زمانے میں جو کچھ دیکھ لیا اس نے حقیقت میں آنکھیں کھول دیں۔
پینسٹھ کی جنگ میں صدر ایوب نے کہا کہ ایک مسلمان پانچ ہندوں پر بھاری ہے، اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع یشونت راو چوون نے حکم دیا کہ جنگ میں ہر پانچواں کمانڈر مسلمان ہونا چاہیے۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔
اکہتر کی جنگ میں امریکی بیڑے کا انتظار ہوتا رہا، ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کہ امریکہ نے کبھی ایسا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں تھا۔ اندرا گاندھی کو جب بتایا گیا کہ اس طرح سے ایک امریکی بیڑہ بحیرہ عرب کی طرف آ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کہیں اس بیڑے سے ہمارے بحری جہازوں کی ملاقات ہو جائے تو انہیں اپنے جہاز پر بلا کر چائے پلا دینا۔
کشمیر پر ہمارا حق اپنی جگہ، لیکن اس حق کو منوانے کے چکر میں ہمارا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوا ہے، لہذا ہمیں اس حق کو حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا۔
اکہتر کی جنگ میں امریکی بیڑے کا انتظار ہوتا رہا، ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کہ امریکہ نے کبھی ایسا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں تھا۔ اندرا گاندھی کو جب بتایا گیا کہ اس طرح سے ایک امریکی بیڑہ بحیرہ عرب کی طرف آ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کہیں اس بیڑے سے ہمارے بحری جہازوں کی ملاقات ہو جائے تو انہیں اپنے جہاز پر بلا کر چائے پلا دینا۔
کشمیر پر ہمارا حق اپنی جگہ، لیکن اس حق کو منوانے کے چکر میں ہمارا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوا ہے، لہذا ہمیں اس حق کو حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا۔
سچ پوچھیں تو میمو گیٹ کچھ بھی نہیں تھا، اس کا مقصد مجھے سفارت سے اور آصف علی زرداری کو صدارت سے ہٹانا تھا۔
دنیا بھر میں عسکری مقابلہ زمینی حقائق کی بنیاد پر ہوتا ہے، ہمیں امریکہ اور اپنی طاقت کا فرق ہمیشہ ملوظ رکھنا چاہیے۔ لیکن ہمیں بات کون کرنے دے گا، دلیل سے انہیں ڈر ہے کہ کہیں قوم منطقی باتوں سے قائل نہ ہو جائے۔ اور اس خوف کو مذہب کیساتھ جوڑ دیا جاتا ہے کہ شاید دلیل سے کسی کا ایمان نہ ڈول جائے۔
جامی: آپ نے ‘انہیں’ کا صیغہ استعمال کیا،یہ ‘انہیں’ ہیں کون؟
حسین حقانی: (مسکراتے ہوئے) آپ اتنے بھی سادہ نہیں جتنا سادہ سوال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہر حال انہی سے مراد ‘پاور ایلیٹ ‘ ہے۔ سن چھالیس میں صرف پانچ گروہوں کو ووٹ دینے اجاز ت تھی:
ا۔ برطانوی فوج میں ملازم
۲۔ سرکاری ملازم
۳۔ کالج ڈگری ہولڈر
۴۔ انکم ٹیکس ادا کرنے والے
۵۔ زمین کی ملکیت رکھنے والے
غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ اس دور کے یہ پانچ طبقات اب پاکستان کی پاور ایلیٹ ہیں۔ ان پانچ طبقوں کو عوام پر اعتماد نہیں رہا، اور ان لوگوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے۔ نظریہ پاکستان اس ایلیٹ کی بیساکھی ہے، اس بیساکھی کی وجہ سے معاشی معاملات پر بحث نہیں کی جاتی۔ کاش کہ ہماری خارجہ پالیسی ایسی ہو جس میں اشرافیہ کی بالادستی ختم ہو جائے، ایسی صوبائی خودمختاری نہیں جس سے چھوٹے صوبوں کا استحصال ختم ہو سکے۔ نظریے کی بحث اور نعرے بازی پر دلیل نہیں ہوا کرتی، عمران خان صاحب کے پی کے میں پرفارمنس کی بجائے دھرنوں کی سیاست سے ڈنگ ٹپاتے دکھائی دئیے ہیں۔ سچ پوچھیں تو نظریہ پاکستان اور تشخص کی سیاست حقیقی مسائل پر سیاست کرنے کا موقع ہی فراہم نہیں کرتی۔ بنیادی فرق مطالعہ ہے، صرف مطالعہ پاکستان ہی تو ضروری نہیں حضور۔ دنیا بھر کو دیکھیں پڑھیں تو اک نئی دنیا، نئے حقائق سامنے آتے ہیں جن کی روشنی میں زمانے بدلتے ہیں۔
جامی: آپ نے ‘انہیں’ کا صیغہ استعمال کیا،یہ ‘انہیں’ ہیں کون؟
حسین حقانی: (مسکراتے ہوئے) آپ اتنے بھی سادہ نہیں جتنا سادہ سوال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہر حال انہی سے مراد ‘پاور ایلیٹ ‘ ہے۔ سن چھالیس میں صرف پانچ گروہوں کو ووٹ دینے اجاز ت تھی:
ا۔ برطانوی فوج میں ملازم
۲۔ سرکاری ملازم
۳۔ کالج ڈگری ہولڈر
۴۔ انکم ٹیکس ادا کرنے والے
۵۔ زمین کی ملکیت رکھنے والے
غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ اس دور کے یہ پانچ طبقات اب پاکستان کی پاور ایلیٹ ہیں۔ ان پانچ طبقوں کو عوام پر اعتماد نہیں رہا، اور ان لوگوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے۔ نظریہ پاکستان اس ایلیٹ کی بیساکھی ہے، اس بیساکھی کی وجہ سے معاشی معاملات پر بحث نہیں کی جاتی۔ کاش کہ ہماری خارجہ پالیسی ایسی ہو جس میں اشرافیہ کی بالادستی ختم ہو جائے، ایسی صوبائی خودمختاری نہیں جس سے چھوٹے صوبوں کا استحصال ختم ہو سکے۔ نظریے کی بحث اور نعرے بازی پر دلیل نہیں ہوا کرتی، عمران خان صاحب کے پی کے میں پرفارمنس کی بجائے دھرنوں کی سیاست سے ڈنگ ٹپاتے دکھائی دئیے ہیں۔ سچ پوچھیں تو نظریہ پاکستان اور تشخص کی سیاست حقیقی مسائل پر سیاست کرنے کا موقع ہی فراہم نہیں کرتی۔ بنیادی فرق مطالعہ ہے، صرف مطالعہ پاکستان ہی تو ضروری نہیں حضور۔ دنیا بھر کو دیکھیں پڑھیں تو اک نئی دنیا، نئے حقائق سامنے آتے ہیں جن کی روشنی میں زمانے بدلتے ہیں۔
جامی: لیکن آپ کا بھی تو اسٹبلشمنٹ سے قریبی تعلق رہا ہے؟ راہیں جدا کیونکر ہوئیں؟
حسین حقانی: میں اسلام پسند پس منظر سے آیا، آئی جے آئی کے دنوں میں نواز شریف کا مشیر رہا۔ اس زمانے میں جو کچھ دیکھ لیا اس نے حقیقت میں آنکھیں کھول دیں۔ جب بی بی ترانوے میں اقتدار میں آئیں تو تب تک ناچیز ‘ان’ کے طریقہ ہائے واردات سے بخوبی آگاہ ہو چکا تھا کہ یہ کیسے سیاست، صحافت اور مذہب کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ پھر پوری کلیئرٹی کے ساتھ کتاب لکھی، بیٹوین ماسک اینڈملٹری(Between Mosque and Military) یہ کتاب یہاں امریکہ میں کئی جگہوں پر پڑھائی جاتی ہے۔
حسین حقانی: میں اسلام پسند پس منظر سے آیا، آئی جے آئی کے دنوں میں نواز شریف کا مشیر رہا۔ اس زمانے میں جو کچھ دیکھ لیا اس نے حقیقت میں آنکھیں کھول دیں۔ جب بی بی ترانوے میں اقتدار میں آئیں تو تب تک ناچیز ‘ان’ کے طریقہ ہائے واردات سے بخوبی آگاہ ہو چکا تھا کہ یہ کیسے سیاست، صحافت اور مذہب کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ پھر پوری کلیئرٹی کے ساتھ کتاب لکھی، بیٹوین ماسک اینڈملٹری(Between Mosque and Military) یہ کتاب یہاں امریکہ میں کئی جگہوں پر پڑھائی جاتی ہے۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ محدود ایلیٹ کو طاقتور اور خوشحال رکھنے کے لیے پوری قوم کو ہر وقت حالت جنگ میں رکھا گیا ہے۔
اسلامی عسکریت پسندی کا عسکریت والوں سے قریبی تعلق رہا ہے۔ بس تبھی سے ان سے محبت پروان چڑھی۔ لیکن یقین جانیں میں پاکستانی فوج کا تہہ دل سے احترام کرتا ہوں، ایک موثر اور مضبوط فوج پاکستان کے مفاد میں ہے۔ صرف یہ کہتا ہوں کہ جو غلطیاں کیں انہیں ہر گز نہ دہرائیں۔ فو ج کو سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔
جامی: لیکن حسین صاحب ان غلطیوں کا تدارک کیسے ہوگا؟
حسین حقانی:دیکھیے جامی، تدارک تب ہو گا جب دیانتداری سے گفتگو کی جائے گی۔ بدقسمتی سے عسکری قیادت ماضی پر بات کیے بغیر مستقبل ٹھیک کرنا چاہتی ہے، مستقبل تب ٹھیک ہوگا جب ماضی پر بات ہوگی۔ یعنی ہم نے کشمیر، افغانستان اور بھارت کے معاملے پر کیا غلطیاں کیں۔ ان پر بات کرنا ہوگی، ان غلطیوں سے سیکھنا ہو گا۔ ترقی یافتہ قومیں ماضی سے سیکھتی ہیں۔
جامی: ہمارے ہاں مذہب اور ریاست کا تعلق بہت گہرا ہے۔ ایسے میں ان کے باہمی تعلق کے قضیے کو کیسے حل کیا جائے؟
حسین حقانی: فوری طور پر تو مذہب ریاست سے جدا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، دیکھیں فرد مذہبی ہوسکتا ہے، معاشرہ مذہبی ہو سکتا ہے، لیکن ریاست کو ان معاملات سے بالاتر ہو کر ہی چلایا جا سکتا ہے۔ ملا کی سیاست قریب قریب تو ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، یہ سیاست کے مرکزی دھارے میں تو شمار ہونے سے رہے لیکن یہ لوگ سیاست میں طلاطم ہمیشہ سے پیدا کرتے رہے ہیں۔ اور ایسا تب تک ہوتا رہے جب تک غیر مذہبی سیاستدان ڈٹ کر ان کا مقابلہ نہ کریں۔
ممنوعات کی فہرست ہمارے ہاں طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے، یہاں تو سیکولرکہنے سے لوگ کافر ہو جاتے ہیں، یعنی کسی کو بھی نظریاتی ریاست کہنے کی بجائی جغرافیائی ریاست کہنے کی اجازت نہیں۔
جامی: میمو گیٹ کے تناظر میں یہ بھی سنا کہ سات گھنٹے تک اعلی حکام کی موجودگی میں آپ ایوان صدر میں رہے اور زبردستی آپ سے استعفی لیا گیا؟
حسین حقانی: اعلی حکام بھی حقائق جانتے تھے اور ناچیز بھی۔ میمو گیٹ کے ذریعے صرف قوم کے اندر ہیجان پیدا کیا گیا، حقائق ہوتے تو مقدمے کا فیصلہ اب تک ضرور آ چکا ہوتا۔ تمام تر بیانات جاری کرنے کے باوجود نہ سمن جاری ہوئے نہ وارنٹ اور نہ ہی کوئی مقدمہ۔ یہ اپنی نوعیت کا شاید پہلا کیس ہے جس میں صرف ایک ہی گواہ ہے۔ سچ پوچھیں تو میمو گیٹ کچھ بھی نہیں تھا، اس کا مقصد مجھے سفارت سے اور آصف علی زرداری کو صدارت سے ہٹانا تھا۔ ایک مقصد تو پورا ہو گیا، اور دوسرے مقصد میں ، میں آڑے آ گیا۔ ان کی خواہش تھی کہ میں پریشر میں آکر ڈر جاوں گا اور مجھے صدر کے خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔ میں نے غلطی کی نہ ہی صدر نے۔
اسٹیبلمشنٹ کی کوشش یہی تھی کہ میڈیا میں شور کے ذریعے سیاسی حالات بدلے جائیں، عسکری عزائم میڈیا میں شور برپا کر کے پورے کر لیئے جائیں۔ اس کے لیے میڈیا میں ایسے عناصر موجود ہیں جو خبر معلوم کرنے کی بجائے خبر بناتے ہیں۔ جھوٹ اس حد تک پھیلا دیا جاتا ہے کہ سچ ماند پڑ جائے۔
جامی: ایک زمانے میں میاں نواز شریف صاحب سے بھی بہت قربت رہی، راستے جدا کیوں ہوئے؟
حسین حقانی: اس دور میں بہت کچھ بہت قریب سے دیکھ چکا تھا، اسی وجہ سے نواز شریف اور میری سوچ میں فاصلہ بہت بڑھ چکا تھا، ساتھ چلنا مشکل تھا۔ اٹھاسی میں بتیس برس عمر تھی، گمان تھا کہ شاید تبدیلی دستک دے رہی ہے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میاں برادران کی سوچ کا مرکز ہمیشہ پنجاب اور پنجاب میں لاہور ہی رہا ہے۔ ان کے ہاں قومی قیادت کا فقدان اسی وجہ سے ہے۔ دو سال لگے سمجھنے میں اور بس پھر کیا، راستے جدا کر لیے۔
جامی: تبدیلی کا چورن تو ہر سیزن میں دستیاب ہوتا ہے، ایسے میں جوانوں کو کیا مشورہ دیں گے ؟
حسین حقانی: تبدیلی کا چورن، خرید لیں لیکن مسلسل استعمال نہ کریں۔ تبدیلی ریفارمز کے ذریعے آیا کرتی ہے، یہاں انقلابی تبدیلیوں کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں، ریفارمز روکنے کے لیے ریولوشن کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ آج تک اسلامی انقلاب تو آنہیں سکا۔ اصلاح کی بات کریں تو فتوے لگتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کا نعرہ بھی اصلاح روکنے کے لیے تھا۔
جامی: تو پھر اصلاح کیسے کی جائے؟
حسین حقانی: معیشت، ریاست کا ڈھانچہ، خارجہ اور عسکری پالیسی، اور ان تینوں کے لیے تعلیم بے حد ضروری ہے، جبھی آپ ترقی اور تبدیلی حاصل کر سکیں گے۔ دیکھیے سن سنتالیس سے لے کر اب تک پاکستان نے جتنے پی ایچ ڈی سکالرز پیدا کیے اتنے تو بھارت ہر سال پیدا کرتا ہے۔ ان کے زرمبادلہ ہم سے بیس گنا زیادہ ہیں جب کہ آبادی صرف چھے گنا زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ کپاس ہم پیدا کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برآمدات ہم سے کہیں زیاد ہ ہیں۔ کیونکہ وہ لباس بنا کر بیچتے ہیں اور ہم خام کپاس بیچ کر ہی خوش ہوتے رہتے ہیں۔ یہا ں مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہماری ہاں ہمیشہ سے ہی صنعتکاری کی رفتار کم اور بچے پیدا کرنے کی رفتار تیز رہی ہے۔
جامی: اصلاح کی راہ میں بنیادی رکاوٹ کونسی ہے؟
حسین حقانی: بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ محدود ایلیٹ کو طاقتور اور خوشحال رکھنے کے لیے پوری قوم کو ہر وقت حالت جنگ میں رکھا گیا ہے۔ میری باتیں اسی لیے ناگوار گزرتی ہیں کہ میں حقائق کی جانب توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتا ہوں، آپ خود دیکھ لیجیے، جی ڈی پی کا صرف دو فیصد تعلیم پر اور چار فیصد دفاع پر خرچ ہوتا ہے۔ اور تو اور ہم دوسرے ملکوں کے کندھوں پر کھڑا ہو کر ایک طاقت بننا چاہتے ہیں کبھی امریکہ تو کبھی چین۔ فیض نے کہا تھا
ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
مقابلِ صفِ اعداء جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی
جامی: زندگی کا تلخ ترین دن کونسا ہے؟
حسین حقانی: جس دن میمو گیٹ کا واقعہ سامنے آیا ۔
جامی: خوشگوار ترین دن ؟
حسین حقانی: جس دن ہمارے ہاں بچی کی ولادت ہوئی۔
جامی: من موجی کو کیا شغل بھاتا ہے؟
حسین حقانی: خوبصورت جگہوں کی سیر کرنا اچھا لگتا ہے، خوبصورت باغوں کی سیر کا رسیا ہوں۔
جامی: پاکستان کب آئیں گے؟
حسین حقانی: جب لوگ سبین محمود کی طرح نا حق نہیں مریں گے۔ تب آوں گا۔
جامی: جان کو خطرہ ہے؟
حسین حقانی: جی ہاں، براہ راست خطرہ ہے۔
جامی: کوئی نئی کتاب لکھ رہے ہیں؟
حسین حقانی: جی ہاں، پاکستان کے مستقبل بارے ایک کتاب جلد منظر عام پر آنے کی توقع ہے۔
جامی: جمہوریت کا مستقبل کیا دکھائی دیتا ہے؟
حسین حقانی: امید و نا امیدی کا بہم ہونا وہی جانے ، کہ جس نے کشتیوں کو ڈوبتے دیکھا ہو ساحل۔
خود فریبی اور خود تعریفی بھی ہمارا ایک قومی مسئلہ ہے، قائدین اس ماں کی طرح ہیں جو بچہ جب فیل ہو جائے تو اسے حقیقت سے آگا ہ کرنے کی بجائے کہتے ہیں۔ کوئی بات نہیں بیٹا، اگلی بار سہی۔ ہمیں دنیا کی وسعت کا ادراک کرنا ہوگا، اور اس وسعت میں اپنی جگہ تلاش کرنا ہے۔ بدلتی دنیا کا رخ سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ دنیا میں ہر روز نت نئی ایجادات اور نئے علوم سامنے آرہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک کالج کی ڈگری کو ہی علم سمجھتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم صرف درمیانے درجے کے انجیئنرز اور ڈاکٹرزیا آئی ٹی پروفیشنلز ہی پیدا کر رہے ہیں۔ معاشرتی علوم پر ہماری توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ لکیر کے فقیر لوگ ہمارے ہاں مفکر سمجھے جاتے ہیں۔
جامی: لیکن حسین صاحب ان غلطیوں کا تدارک کیسے ہوگا؟
حسین حقانی:دیکھیے جامی، تدارک تب ہو گا جب دیانتداری سے گفتگو کی جائے گی۔ بدقسمتی سے عسکری قیادت ماضی پر بات کیے بغیر مستقبل ٹھیک کرنا چاہتی ہے، مستقبل تب ٹھیک ہوگا جب ماضی پر بات ہوگی۔ یعنی ہم نے کشمیر، افغانستان اور بھارت کے معاملے پر کیا غلطیاں کیں۔ ان پر بات کرنا ہوگی، ان غلطیوں سے سیکھنا ہو گا۔ ترقی یافتہ قومیں ماضی سے سیکھتی ہیں۔
جامی: ہمارے ہاں مذہب اور ریاست کا تعلق بہت گہرا ہے۔ ایسے میں ان کے باہمی تعلق کے قضیے کو کیسے حل کیا جائے؟
حسین حقانی: فوری طور پر تو مذہب ریاست سے جدا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، دیکھیں فرد مذہبی ہوسکتا ہے، معاشرہ مذہبی ہو سکتا ہے، لیکن ریاست کو ان معاملات سے بالاتر ہو کر ہی چلایا جا سکتا ہے۔ ملا کی سیاست قریب قریب تو ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، یہ سیاست کے مرکزی دھارے میں تو شمار ہونے سے رہے لیکن یہ لوگ سیاست میں طلاطم ہمیشہ سے پیدا کرتے رہے ہیں۔ اور ایسا تب تک ہوتا رہے جب تک غیر مذہبی سیاستدان ڈٹ کر ان کا مقابلہ نہ کریں۔
ممنوعات کی فہرست ہمارے ہاں طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے، یہاں تو سیکولرکہنے سے لوگ کافر ہو جاتے ہیں، یعنی کسی کو بھی نظریاتی ریاست کہنے کی بجائی جغرافیائی ریاست کہنے کی اجازت نہیں۔
جامی: میمو گیٹ کے تناظر میں یہ بھی سنا کہ سات گھنٹے تک اعلی حکام کی موجودگی میں آپ ایوان صدر میں رہے اور زبردستی آپ سے استعفی لیا گیا؟
حسین حقانی: اعلی حکام بھی حقائق جانتے تھے اور ناچیز بھی۔ میمو گیٹ کے ذریعے صرف قوم کے اندر ہیجان پیدا کیا گیا، حقائق ہوتے تو مقدمے کا فیصلہ اب تک ضرور آ چکا ہوتا۔ تمام تر بیانات جاری کرنے کے باوجود نہ سمن جاری ہوئے نہ وارنٹ اور نہ ہی کوئی مقدمہ۔ یہ اپنی نوعیت کا شاید پہلا کیس ہے جس میں صرف ایک ہی گواہ ہے۔ سچ پوچھیں تو میمو گیٹ کچھ بھی نہیں تھا، اس کا مقصد مجھے سفارت سے اور آصف علی زرداری کو صدارت سے ہٹانا تھا۔ ایک مقصد تو پورا ہو گیا، اور دوسرے مقصد میں ، میں آڑے آ گیا۔ ان کی خواہش تھی کہ میں پریشر میں آکر ڈر جاوں گا اور مجھے صدر کے خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔ میں نے غلطی کی نہ ہی صدر نے۔
اسٹیبلمشنٹ کی کوشش یہی تھی کہ میڈیا میں شور کے ذریعے سیاسی حالات بدلے جائیں، عسکری عزائم میڈیا میں شور برپا کر کے پورے کر لیئے جائیں۔ اس کے لیے میڈیا میں ایسے عناصر موجود ہیں جو خبر معلوم کرنے کی بجائے خبر بناتے ہیں۔ جھوٹ اس حد تک پھیلا دیا جاتا ہے کہ سچ ماند پڑ جائے۔
جامی: ایک زمانے میں میاں نواز شریف صاحب سے بھی بہت قربت رہی، راستے جدا کیوں ہوئے؟
حسین حقانی: اس دور میں بہت کچھ بہت قریب سے دیکھ چکا تھا، اسی وجہ سے نواز شریف اور میری سوچ میں فاصلہ بہت بڑھ چکا تھا، ساتھ چلنا مشکل تھا۔ اٹھاسی میں بتیس برس عمر تھی، گمان تھا کہ شاید تبدیلی دستک دے رہی ہے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میاں برادران کی سوچ کا مرکز ہمیشہ پنجاب اور پنجاب میں لاہور ہی رہا ہے۔ ان کے ہاں قومی قیادت کا فقدان اسی وجہ سے ہے۔ دو سال لگے سمجھنے میں اور بس پھر کیا، راستے جدا کر لیے۔
جامی: تبدیلی کا چورن تو ہر سیزن میں دستیاب ہوتا ہے، ایسے میں جوانوں کو کیا مشورہ دیں گے ؟
حسین حقانی: تبدیلی کا چورن، خرید لیں لیکن مسلسل استعمال نہ کریں۔ تبدیلی ریفارمز کے ذریعے آیا کرتی ہے، یہاں انقلابی تبدیلیوں کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں، ریفارمز روکنے کے لیے ریولوشن کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ آج تک اسلامی انقلاب تو آنہیں سکا۔ اصلاح کی بات کریں تو فتوے لگتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کا نعرہ بھی اصلاح روکنے کے لیے تھا۔
جامی: تو پھر اصلاح کیسے کی جائے؟
حسین حقانی: معیشت، ریاست کا ڈھانچہ، خارجہ اور عسکری پالیسی، اور ان تینوں کے لیے تعلیم بے حد ضروری ہے، جبھی آپ ترقی اور تبدیلی حاصل کر سکیں گے۔ دیکھیے سن سنتالیس سے لے کر اب تک پاکستان نے جتنے پی ایچ ڈی سکالرز پیدا کیے اتنے تو بھارت ہر سال پیدا کرتا ہے۔ ان کے زرمبادلہ ہم سے بیس گنا زیادہ ہیں جب کہ آبادی صرف چھے گنا زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ کپاس ہم پیدا کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برآمدات ہم سے کہیں زیاد ہ ہیں۔ کیونکہ وہ لباس بنا کر بیچتے ہیں اور ہم خام کپاس بیچ کر ہی خوش ہوتے رہتے ہیں۔ یہا ں مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہماری ہاں ہمیشہ سے ہی صنعتکاری کی رفتار کم اور بچے پیدا کرنے کی رفتار تیز رہی ہے۔
جامی: اصلاح کی راہ میں بنیادی رکاوٹ کونسی ہے؟
حسین حقانی: بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ محدود ایلیٹ کو طاقتور اور خوشحال رکھنے کے لیے پوری قوم کو ہر وقت حالت جنگ میں رکھا گیا ہے۔ میری باتیں اسی لیے ناگوار گزرتی ہیں کہ میں حقائق کی جانب توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتا ہوں، آپ خود دیکھ لیجیے، جی ڈی پی کا صرف دو فیصد تعلیم پر اور چار فیصد دفاع پر خرچ ہوتا ہے۔ اور تو اور ہم دوسرے ملکوں کے کندھوں پر کھڑا ہو کر ایک طاقت بننا چاہتے ہیں کبھی امریکہ تو کبھی چین۔ فیض نے کہا تھا
ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
مقابلِ صفِ اعداء جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی
جامی: زندگی کا تلخ ترین دن کونسا ہے؟
حسین حقانی: جس دن میمو گیٹ کا واقعہ سامنے آیا ۔
جامی: خوشگوار ترین دن ؟
حسین حقانی: جس دن ہمارے ہاں بچی کی ولادت ہوئی۔
جامی: من موجی کو کیا شغل بھاتا ہے؟
حسین حقانی: خوبصورت جگہوں کی سیر کرنا اچھا لگتا ہے، خوبصورت باغوں کی سیر کا رسیا ہوں۔
جامی: پاکستان کب آئیں گے؟
حسین حقانی: جب لوگ سبین محمود کی طرح نا حق نہیں مریں گے۔ تب آوں گا۔
جامی: جان کو خطرہ ہے؟
حسین حقانی: جی ہاں، براہ راست خطرہ ہے۔
جامی: کوئی نئی کتاب لکھ رہے ہیں؟
حسین حقانی: جی ہاں، پاکستان کے مستقبل بارے ایک کتاب جلد منظر عام پر آنے کی توقع ہے۔
جامی: جمہوریت کا مستقبل کیا دکھائی دیتا ہے؟
حسین حقانی: امید و نا امیدی کا بہم ہونا وہی جانے ، کہ جس نے کشتیوں کو ڈوبتے دیکھا ہو ساحل۔
خود فریبی اور خود تعریفی بھی ہمارا ایک قومی مسئلہ ہے، قائدین اس ماں کی طرح ہیں جو بچہ جب فیل ہو جائے تو اسے حقیقت سے آگا ہ کرنے کی بجائے کہتے ہیں۔ کوئی بات نہیں بیٹا، اگلی بار سہی۔ ہمیں دنیا کی وسعت کا ادراک کرنا ہوگا، اور اس وسعت میں اپنی جگہ تلاش کرنا ہے۔ بدلتی دنیا کا رخ سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ دنیا میں ہر روز نت نئی ایجادات اور نئے علوم سامنے آرہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک کالج کی ڈگری کو ہی علم سمجھتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم صرف درمیانے درجے کے انجیئنرز اور ڈاکٹرزیا آئی ٹی پروفیشنلز ہی پیدا کر رہے ہیں۔ معاشرتی علوم پر ہماری توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ لکیر کے فقیر لوگ ہمارے ہاں مفکر سمجھے جاتے ہیں۔
Haqaani sahab,sabeen k qatilon se baraheyrast der hai baraherast ya bohat saray anasir se Jan ko khatra hai apki?
(Y) interesting,informative interview….Zabardaaaasssst (Y) #Jami
It was very informative because it makes a lot of difference knowing someone personally and knowing them through word of mouth. Good effort Jami Sahab!
Janab Hussein Haqqani Sahib,
Assalaamu Alaikum!
Hope this note finds you in the best of your health and heartiness – Insha-Allah!centeredhese days you have ample free time to reunite with your old colleagues may be good or bad for you
I’m working as Foreign Language Instructor and Foreign Media Analyst in the United States these days.
I know that you always "worship the people in power”. You don’t keep any truck with literary or educational professional on the planet. Your education is self – centered!
Any way, Wish you the best.
اسمارٹ سوالات اور جوابات تسلی بخش اور بخوبی سمجھ آنے والے جامی صاحب کی زہہانت میں اضافے کی دعائیں ڈهیر ساری ایک بے باک صحافی کسی جنرل سے زیادہ ضروری هے پاکستان کی صحافت کے میدان میں اترنے کے لیئے ہمیں جنگی گهن گرج کی نہیں زہنی ادراک کی سخت ضرورت هے…………