دہشت گردوں کا گروہ داعش یا امارت اسلامی بظاہر اسلامی احکام کے اجرا کی تاکید کرتا ہے لیکن درحقیقت اس دہشت گرد گروہ کے افکار و نظریات مکمل طور پر اسلام مخالف ہیں۔ یہ دہشت گرد شریعت کے نفاذ کا نعرہ اس لیے لگا رہے ہیں تا کہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں اور عالم گیر اسلامی غلبے کے خواہاں مسلمان جہادیوں کو اپنی جانب مائل کیا جا سکے۔ داعش کا مقصد ایک طرف اسلام کی پُرامن تشریحات کا چہرہ مسخ کرنا ہے تو دوسری طرف عالم اسلام میں مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ کی آگ کو بھڑکانا ہے۔ عراق کے شمال میں داعش نے 12 جون 2014ء کو خون کی ہولناک ہولی کھیلی جس میں سینکڑوں عراقی شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اس دن سے اس دہشت گرد گروہ کا نام لوگوں کی زبانوں پر آنا شروع ہو گیا ہے۔ اس گروہ کے لوگ پہلے القاعدہ میں شامل تھے، شام میں جاری محاذ پر انہوں نے اپنی تنظیم کو النصر فرنٹ کا نام دیا اور پھر بعد میں اس گروہ سے خود کو جدا کر کے ایک اور گروہ بنایا جس کا نام داعش رکھ لیا۔
یہ دہشت گرد شریعت کے نفاذ کا نعرہ اس لیے لگا رہے ہیں تا کہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں اور عالم گیر اسلامی غلبے کے خواہاں مسلمان جہادیوں کو اپنی جانب مائل کیا جا سکے۔
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر سابق امریکی صدر جونیئر بش کی ہر سیاسی غلطی میں شریک رہے ہیں۔ اب سے دو ماہ پہلے انہوں نے امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این پر فرید زکریا سے گفتگو کے دوران بتایا کہ عراق کے بارے میں ان کی حکمت عملی ناکام رہی لیکن اس کے بعد اختیار کی جانے والی منصوبہ بندی بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ ٹونی بلیئر نے کہا میں اس بات پر معافی مانگتا ہوں کہ جاسوسی معلومات غلط تھیں۔ میں اس کے لیے بھی معافی مانگتا ہوں کہ حکمت عملی تیار کرنے اور یہ سمجھنے میں غلطیاں ہوئیں کہ جب آپ حکومت بدل دیں گے تو کیا ہو گا۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا عراق جنگ ہی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے فروغ کا باعث بنی ہے، تو انھوں نے جواب دیا میں سمجھتا ہوں کہ اس بات میں کسی حد تک حقیقت ہے۔ امریکہ اور یورپ کی اس توسیع پسند خارجہ حکمت عملی اور مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت نے وہاں بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔ بظاہر داعش کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک مسلم تنظیم ہے لیکن اس کی سرگرمیوں سے سب سے زیادہ تباہی عراق، لیبیا اور شام جیسے مسلم ممالک میں آئی ہے۔ داعش کی تشکیل کے بعد اس کی جانب سے اسلام کے نام پر عراق اور شام میں انجام پانے والے غیر انسانی اور دہشت گردانہ اقدامات کا اصل مقصد ہی اسلام کی پرامن تعلیمات کے چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا اور تکفیری فکر کو فروغ دینا ہے۔ داعش کی جانب سے نہتے عوام کے خلاف بہیمانہ ظلم و ستم دراصل دنیا بھر میں بنیاد پرست سخت گیر سنی خلافت کے خواہش مند جہادیوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ سخت گیر تنظیم سعودی خارجہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے جس کے تحت سعودی حکومت اہل تشیع سے لڑنے والے ہر سنی گروہ کی سرپرستی کر رہا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور اہل تشیع کا اثرورسوخ بڑھنے سے روکا جائے۔
ابوبکر البغدادی نام ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ مسلمانوں کا دشمن نہیں، عبداللہ محسود، حکیم اللہ محسود کون تھے؟ یہ نام نہاد مسلمان 60 ہزار پاکستانیوں کے قاتل تھے۔ موجودہ طالبانی لیڈر فضل اللہ کون ہے، کیا مسلمان نہیں ہے؟ مسلمان ہوتے ہوئے بھی وہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے 132 بچوں اور ہزاروں پاکستانیوں کا قاتل ہے۔ اسامہ بن لادن کس کے کہنے پر روس سے لڑنے افغانستان آیا تھا؟ یہ سعودی عرب، امریکہ اور پاکستان جیسے مسلم ممالک کی غلط خارجہ حکمت عملی تھی جس نے جہادی تکفیری فکر کو فروغ دیا۔ یہ امریکی اور سعودی خارجہ پالیسی ہے جس امریکی اور سعودی مفادات کے باعث ایسی تنظیموں کی سرپرستی کی گئی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ القاعدہ کے ناکام ہونے کے بعد اب زیادہ سرمایہ لگاکر شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ بنائی گئی ہے، ابوبکر البغدادی اپنے آپ کو نام نہاد خلیفہ قرار دے چکا ہے، اوراب القاعدہ اور طالبان کےکافی دہشت گرد داعش میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔
یہ سخت گیر تنظیم سعودی خارجہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے جس کے تحت سعودی حکومت اہل تشیع سے لڑنے والے ہر سنی گروہ کی سرپرستی کر رہا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور اہل تشیع کا اثرورسوخ بڑھنے سے روکا جائے۔
داعش کے حملوں کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں جمعہ 13 نومبر 2015ء کی شب چھ مقامات پر خودکش حملوں اور فائرنگ سے 129 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ داعش نے شام پر فرانسیسی بمباری کے پیش نظر ان حملوں کو اپنی انتقامی کارروائی قرار دیا۔ پیرس میں دہشت گردی کامیاب کیسے ہوئی، جبکہ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ بہت ناممکن لگتا ہے؟ پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ فرانسیسی حکومت نے دستیاب معلومات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اورکچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کا شکار ہوگئی۔ جمرات 7 جنوری کو ایک مرتبہ پھر پیرس میں ایک خودکش جیکٹ پہنے شخص نے پیرس کے ایک تھانے پر حملے کی کوشش کی لیکن فرانسیسی پولیس نے دھماکے کی کوشش ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ فائرنگ کرکے اُس شخص کو ہلاک کردیا۔ دھماکے کی ناکامی کی وجہ پیرس پولیس کا ہوشیار رہنا تھا۔
پاکستان بھی فرانس جیسی ہی غلطی دہرا رہا ہے اور امارت اسلامی کی موجوگی کے حوالے سے معلومات پر خاطر خواہ کارروائی نہیں کر رہا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار طالبان کے سربراہ دہشت گردحکیم اللہ محسود کی موت پر بہت روئے تھے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے تو اپنے ‘سیاسی بھائی’ حکیم اللہ محسود کی موت پراُسے شہید قرار دیا تھا جبکہ مولانا فضل الرحمان نے امریکی فوج سے لڑنے والے کتے کو بھی شہید کہا تھا۔ عمران خان ایسے دہشت گردوں کی ہلاکتوں کو امن مذاکرات پر حملہ قرار دیتے رہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ چوہدری نثار، منور حسن، عمران خان اور مولانا فضل الرحمان دہشت گردی اور دہشت گردوں سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ ماضی میں جہادیوں سے ہمدردی رکھنے والے، طالبان کے دہشت گرد ہونے سے متعلق ابہام پھیلاتے رہے اور اب یہی عناصر داعش کی موجودگی تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔
پاکستان بھی فرانس جیسی ہی غلطی دہرا رہا ہے اور امارت اسلامی کی موجوگی کے حوالے سے معلومات پر خاطر خواہ کارروائی نہیں کر رہا۔
2014ء کے آخر میں کراچی کی نواحی بستیوں میں دیواروں پر خلیفہ البغدادی کا نام لکھا ہوا نظر آیا۔ ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کے عفریت کو قابو میں کرنے کی کارروائیاں جاری تھیں کہ پڑوسی ملک افغانستان میں شدت پسند گروپ داعش کی طرف سے قدم جمانے کو پاکستان کے لیے ایک نئے خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ لیکن فوجی اور سول سرکاری عہدیداروں کا اصرار ہے کہ پاکستان میں اس گروپ کا کوئی وجود نہیں اور اس کا سایہ بھی یہاں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ کا کہنا ہے کہ "ہم داعش کو دہشت گرد جماعت سمجھتے ہیں اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ پاکستان میں اس کا وجود نہیں ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہم نے ہمیشہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ دہشت گردی کو ختم کرنے میں تعاون کیا ہے”۔

کراچی میں داعش کے حق میں وال چاکنگ
پاکستان کی فوج اور حکومت نے 2015ء کے پورے سال میں دہشت گردی کے خاتمے میں بھرپور کردار ادا کیا اور مبینہ طور پر ساڑھے تین ہزار سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرتے ہوئے دہشت گرد نیٹ ورکس کو تاخت و تاراج کیا۔ لیکن پاکستانی فوج اور حکومت کی دہشت گردوں کے خلاف ان تمام کامیابیوں کے باوجود عام جانے پہچانے دہشت گردوں کے حامی اور اُن کے سہولت کار آزادی سے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو وہ آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن سے پہلے یا شروع ہونے کے بعد کرتے رہے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کے ہر شہر سے بلکہ خاص کرچھوٹے شہروں سے داعش کے حامی پکڑے جا رہے ہیں، کافی تعداد میں خواتین بھی دہشت گردوں کی سہولت کار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ لیکن وفاقی وزیر داخلہ کو ملک میں صرف ایک دہشت گرد ڈاکٹر عاصم نظر آرہا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر عاصم مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہوں لیکن کیا چوہدری نثار اور سندھ حکومت اپنا وقت اور صلاحیتیں ڈاکٹر عاصم اور رینجرز کے اختیارات طے کرنے میں صرف کریں گے یا داعش کے تدارک کے لیے بھی اقدامات کریں گے؟

لاہور میں داعش کے حق میں لگائے گئے پوسٹرز
وفاقی وزیر داخلہ نے اپنے اسلام آباد کے ‘پڑوسی’ کے لیے تو صاف کہہ دیا کہ لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز جو دہشت گردوں کے حامی اور سہولت کار ہیں اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اُن کے خلاف کوئی مقدمہ موجود نہیں ہے۔ بھولے وزیر داخلہ صاحب مشرف کی مخالفت اپنی جگہ لیکن آٹھ جولائی 2007ء کو پاکستانی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل ہارون لال مسجد کی لڑائی میں 150 جوانوں کی قیادت کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ اس کارروائی میں نامعلوم تعداد میں فوجی جوان اور افسر بھی شہید ہوئے تھے۔ لال مسجد آپریشن کے دوران دہشت گردوں نے درجنوں بچیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استمال کیا تھا جنہیں فوج نے لال مسجد کے اندر سے برآمد کیا۔ مولانا عبدالعزیز جو برقعہ پہن کرپہلے ہی فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور اس وقت پاکستان میں داعش کا سب سے بڑا حامی ہے، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارکی نگاہ میں معصوم اور بے قصور ہے۔ اس کہتے ہیں ایک اچھا پڑوسی اپنے پڑوسی کا کیسے خیال رکھتا ہے، ویسے بھی طالبان کے ناطے تو دونوں بھائی بھائی ہیں۔
بقول چوہدری نثار اگر پاکستان میں داعش موجود نہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ کون اس کا پرچار کررہا ہے، اور وہ کون ہیں جو پاکستان میں داعش کی حمایت کررہے ہیں اور سہولت کار بنے ہوئے ہیں؟
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ کراچی پورٹ سے 20 ہزار کلو دھماکہ خیز مواد سے بھرا کنٹینر کسٹمز انٹیلی جنس نے پکڑا ہے، جوراولپنڈی سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت کی ملکیت ہے۔ اس سے قبل اسی نوعیت کے دو کنٹینرز پشاور سے پکڑے جاچکے ہیں وہ بھی کسٹمز انٹیلی جنس نے ہی پکڑے تھے، کیا چوہدری نثار قوم کو بتائیں گے کہ یہ 20 ہزار کلو دھماکہ خیز مواد سے بھرا کنٹینر کس مقصد کے لیے پاکستان لایا گیا، اورراولپنڈی کی وہ کون سی شخصیت ہے جس نے یہ دھماکہ خیزمواد منگوایا تھا؟ کیا وہ کسی پریس کانفرنس میں پشاور میں پکڑے گئے دو کنٹینرز کے مالکان کے خلاف کی گئی کارروائی پر بھی بات کریں گے؟ اس وقت داعش کے حامی پورے پاکستان میں موجود ہیں، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے تو اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ داعش کے حامی پاکستان میں اور خاص کر پنجاب میں موجود ہیں لیکن پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ملک میں داعش کی موجودگی کی تردید کی ہے جو افسوسناک ہے۔ ملک بھر میں داعش کی حمایت میں چاکنگ کی گئی جب کہ لاہور میں تو داعش کے پوسٹرز بھی لگائے گئے۔
سانحہ صفوراکے ملزم سعد عزیز کی نشاندہی پرپولیس اور حساس اداروں نے مشترکہ کارروائی میں سانحہ صفورا کے مرکزی ملزم عمر کاٹھیو کو گرفتار کیا ہے۔ معلومات کے مطابق عمر کاٹھیو نے 2011ء میں سندھ میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک قائم کیا تھا۔ گرفتار دہشت گرد کا کام القاعدہ کےدہشت گردوں کوسہولت فراہم کرناتھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم نے القاعدہ سے داعش میں شمولیت اختیارکی جبکہ عمرکاٹھیو کی بیوی سندھ میں داعش کی خواتین کا نیٹ ورک چلاتی ہے۔ بقول چوہدری نثار اگر پاکستان میں داعش موجود نہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ کون اس کا پرچار کررہا ہے، اور وہ کون ہیں جو پاکستان میں داعش کی حمایت کررہے ہیں اور سہولت کار بنے ہوئے ہیں؟ اگر چوہدری نثارپاکستان میں داعش کی موجودگی کو تسلیم نہیں کرتے تو یقیناً وہ فرانس کے حکمرانوں والی غلطی پاکستان میں دہرانا چاہ رہے ہیں۔
Very True and informative