فٹ بال کے عالمی مقابلے اور شمالی وزیر ستان آپریشن نیز علامہ طاہر القا دری ایسی بلند قامت دیواروں کے پیچھے جو واقعہ ہماری نظروں سے مسلسل اوجھل ہو رہا ہے وہ ہے عراق کا بحران اور بین الاقو امی سیاسی منظر نامے میں اس کی غیر معمولی اہمیت۔ داعش کی برق رفتار فتوحات اور بغداد کے گرد ہر گزرتے دن کے ساتھ تنگ ہونے والا گھیرا یہ سمجھنے کو کافی ہے کہ عالمی سیاست کا دھارا اب مشرق وسطیٰ کا رخ کر چکا ہے۔ داعش بنیادی طور پر اسلامی شدت پسند جنگجوؤں کا ایسا جتھہ ہے جو عراق ، شام ، لبنان اور بعد ازاں ترکی کے علاقوں پر مشتمل اسلامی خلافت کے قیام کے لئے لڑائی کر رہے ہیں۔2003 سے متحرک اس گروہ نے اس سال کے اوائل میں القا عدہ سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے بعد اپنے طور پر سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اس کے موجودہ امیر ابوبکر البغدادی ہیں جو عراق پر امریکی قبضے کے دوران قید میں بھی رہے۔ البغدادی نے بغداد یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ جنگی حکمت کے مالک ہیں۔
داعش بنیادی طور پر اسلامی شدت پسند جنگجوؤں کا ایسا جتھہ ہے جو عراق ، شام ، لبنان اور بعد ازاں ترکی کے علاقوں پر مشتمل اسلامی خلافت کے قیام کے لئے لڑائی کر رہے ہیں۔
داعش کو کچھ لوگ عراق کے طالبان سمجھتے ہیں جو میرے خیال میں کچھ زیادہ درست نہیں ہے۔ صدام حسین کی برطرفی کے بعد عراق میں دبے ہوۓ شیعہ سنی مسئلے کا ابھر آنا داعش کی سرگرمیوں کو بڑھاوا ملنے کی ایک اہم وجہ ہے جو پاکستانی طالبان کے معاملے میں نہیں ہے۔ عراق کے موجود وزیر اعظم المالکی پر لگنے والے الزامات کہ وہ سنی اقلیت کے ساتھ تعصب کا رویہ رکھتے ہیں اور انہیں حکومت میں مناسب نمائندگی نہیں دی گئی۔ نیز عراق کے اندرونی معاملات میں ایران کا حد سے بڑھتا ہوا کردار بھی معاملے کو مزید گنجلک بنا دیتا ہے۔ چنانچہ عراقی سنی آبادی میں پائی جانی سیاسی محرومی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوۓ داعش ان سب کو حکومت مخالف محاذ میں اکٹھا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اگرچہ سنی آبادی کا ایک معقول حصہ اب بھی داعش سے اشتراک کا قائل نہیں ہے مگر عراقی سرکاری افواج کی داعش سے مسلسل شکستوں کے بعد جب آیت اللہ سیستانی کی جانب سے شیعہ عوام سے یہ کہا گیا کہ وہ رضا کارانہ طور پر داعش کے خلاف لڑنے میں حکومت کا ساتھ دیں اور پھر مقتدیٰ الصدر کے فرمان پر مہدی آرمی کی بغداد میں فوجی پریڈ ایسے عوامل ہیں جنہوں نے عراقی سنی عوام میں یہ خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ ان کی بقا داعش کے ساتھ ملنے میں ہے۔ عراقی کردستان میں بغداد سے آنے والے سنی مہاجرین نے ایک صحافی کو یہ بتایا کہ ان کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس عراقی حکومت یا داعش کے علاوہ کوئی تیسرا امکان نہیں بچا۔ آپ اس بیان سے مسئلے کی پیچیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی آئل ریفائنری اور شام اور اردن کی سرحدی چوکیوں کے بعد اب داعش بغداد سے محض ایک گھنٹے کی دوری پر ہے اور شاید بغداد پر حملے سے بھی پہلے داعش حدیثیہ کے ڈیم پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی اور ایسی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں عراق کی جنگ اپنے سنجیدہ اور خطرناک ترین حصے میں داخل ہو جاۓ گی۔
عراقی کردستان میں بغداد سے آنے والے سنی مہاجرین نے ایک صحافی کو یہ بتایا کہ ان کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس عراقی حکومت یا داعش کے علاوہ کوئی تیسرا امکان نہیں بچا۔
کہا جاتا ہے کہ داعش میں صدام دور کے کئی فوجی افسران بھی شامل ہیں جنہوں سے بعث پارٹی کی حکومت کے دنوں میں سوویت یونین سے فوجی تربیت حاصل کی تھی اور داعش کی جنگی کامیابیوں میں ان افسران کا اہم کردار ہے۔ چند روسی تجزیہ کار اس امر کو فخریہ انداز میں جارجیا میں امریکی تربیت یافتہ افواج کی روسی فوج سے شکست کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ جو چیز عراقی بحران کو شام کے بحران سے جدا کرتی ہے وہ صدام دور میں حکومتی سطح پر غالب رہنے والا سنی مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جسے صدام کے بعد عراقی منظر نامے سے غائب کر دیا گیا تھا جبکہ شام میں طویل عرصے سے کوئی سنی حکومت رہی ہی نہیں۔ شام اور عراق کے مسئلے کو اس انداز میں بھی جدا جدا دیکھا جا سکتا ہے کہ عراق میں داعش کے خلاف امریکہ اب تک عراق کا ایک محتاط اتحادی ہے جبکہ شام میں یہی امریکہ داعش اور اس جیسے دیگر حکومت مخالف دھڑوں کی حمایت میں سرگرم ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے کانگریس سے 50 کروڑ ڈالر کی رقم کا مطالبہ کیا گیا ہے جو شام میں قابلِ اعتماد باغیوں کی مدد میں استعمال ہو گی۔ اس امر کے امکانات بہت کم ہیں کہ امداد کی یہ رقم شفاف طریقے سے تقسیم کی جاسکے گی۔ امریکی حکومت نے عراق کے بارہا مطالبے کے باوجود اب تک عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی کاروائی نہیں کی جبکہ شام کی جانب سے عراق میں داعش پر بمباری اور روس کی جانب سے عراقی حکومت کو جنگی طیاروں کی کھیپ دئیے جانے کا عندیہ داضح طور پر بتا رہا ہے کہ امریکہ عراق میں داعش کے خلاف کھل کر فوجی کاروائی نہیں کرے گا اور بشار الاسد اور روس کا دیرینہ اتحاد عراق میں المالکی حکومت اور ایران کے اتحاد سے مل کر داعش کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس صورت حال میں یہ واضح ہے کہ امریکہ شام کے بحران کے تناظر میں ہی عراق میں کاروائی کرے گا۔ ایران کا امریکہ سے عراقی مسئلے پر متوقع اشتراک ایران کے سپریم لیڈر کی جانب سے امریکہ مخالف بیان کی وجہ سے تقریباً کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔ مگر آیت اللہ کا یہ بیان کوئی رسمی بیان نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ المالکی کی جگہ عراق میں اپنی پٹھو حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ شاید ایران کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ عراق میں امریکہ کی کاروائی شام کے بحران کو سامنے رکھے بغیر ممکن نہیں جہاں امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ نیز ایران یہ بھی جان چکا ہے کہ عراق میں امریکہ کسی بھی کاروائی کو حکومت میں سنی نمائندگی سے مشروط رکھنا چاہے گا جو مستقبل میں عراق میں ایرانی مفادات کے حق میں نہیں ہے۔ بغداد میں القدس فورس کے چیف سمیت ایرانی فوجی مشیروں کی موجودگی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ ” تہران عالمِ مشرق کا جنیوا بننے” کا خواب تنہا پورا کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن ایران کی حالیہ پالیسی عراق میں شیعہ سنی مسئلے کو بڑھاوا ہی دیتی آئی ہے اور اب خبر ہے کہ ہندوستان سے بھی شیعہ رضاکار عراق کی جنگ کا حصہ بننے کا تیار ہیں۔
مسلم ممالک کو یہ جان لینا چائیے کہ جمہوریت کی کامیابی سیکولرازم اپناۓ بغیر ممکن نہیں ہے۔
ہمارے لئے اس تمام بحران میں جو شے سب سے زیادہ قابلِ غور ہے وہ مسلم ممالک میں جمہوریت کی مسلسل ناکامی اور اس کی بڑی وجہ حکومتوں کا مذہبی ہونا ہے۔ تباہ حال عراقی شہری یہ گلہ بھی کرتے ہیں کہ صدام کے دور میں کم ازکم سیکورٹی کے ایسے سنگین مسائل تو نہیں تھے جو امریکی حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جمہوریت میں ہیں۔ مسلم ممالک کو یہ جان لینا چائیے کہ جمہوریت کی کامیابی سیکولرازم اپناۓ بغیر ممکن نہیں ہے۔ جب عوام ہی حکومت کا چناؤ کرتے ہوں تو طاقت کا سر چشمہ بھی عوام کو ہی ہونا چائیے ناکہ کسی مذہبی عقیدے یا مافوق الفطرت خدا کو۔ عراق کا یہ مسئلہ کبھی پیدا ہی نہ ہوتا اگر عقیدے کی بنا پر عوام کو طبقات میں تقسیم نہ کیا گیا ہوتا۔ مسلم ممالک بشمول پاکستان میں ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ جمہوریت اور مذہب کو جوڑ کر حکومت چلانے کے تجربے اکثر اسی بنا پر ناکام ہوۓ ہیں کہ جمہوریت تمام شہریوں کو ان کی شہریت کی بنیاد پر مساوی سمجھتی ہے جب کہ مذہب عوام کی ایسی تقسیم کا قائل ہے جو عقیدے کی بنیاد پر ہو۔ یہ واضح تناقض مسلم جمہوریتوں کی ناکامی اور سیکورٹی مسائل نیز بار بار کے مارشل لا ء کی بڑی وجہ ہے۔
Leave a Reply