خیبر پختونخوا میں گزشتہ سال 30 مئی 2015ء کو صوبہ بھر میں مقامی حکومتوں کے لئے انتخابات کا انعقاد ہوا، یہ انتخابات لوکل گورنمنٹ آرڈنینس 2013ء کے تحت منعقد ہوئے۔ اس آرڈیننس اور حکومتی بیانات میں واضح طورپر اختیارات اور ترقیاتی فنڈز مقامی حکومتوں کے منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے خرچ کرنے کا عندیہ دیاگیا تھا ۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات سے قبل چیرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان عوامی جلسوں اور ٹی وی مباحثوں سمیت ہر فورم پر مقامی حکومتوں کے قیام اور ان کی افادیت کے حوالے سے تقریریں کرتے رہے ہیں۔ خان صاحب سابق حکومتوں کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ انہوں تمام اختیارات اپنی ذات یا چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز رکھنے کے لیے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔ عمران خان صاحب یہ وعدہ بھی کرتے رہے کہ اگر انہیں حکومت ملی تو وہ 90 دن کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات منعقد کرا کے اختیارات اور ترقیاتی فنڈز منتخب بلدیاتی نمائندوں کے حوالے کر دیں گے۔
گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران دیہی علاقوں کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات کی تفویض اور ترقیاتی فنڈز کا اجراء تو دور کی بات ابھی تک ان کے سرکاری نوٹیفیکیشن بھی جاری نہیں کیے جا سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ریاست میں جمہوریت کی ترویج اور استحکام میں مقامی حکومتوں کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں جمہوری حکمرانوں نے بھی بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے قیام کی جانب توجہ نہیں دی۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد پہلے مرحلے میں شورش زدہ بلوچستان کی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرایا۔ اس کے بعد نوے دنوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرانے کی دعوے دار پاکستان تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت نے دو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد عدلیہ اور میڈیا کے دباؤپرصوبے میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد کیا۔ ان انتخابات سے قبل صوبائی وزراء بالخصوص وزیرِ بلدیات و دیہی ترقی عنایت اللہ خان صاحب باربار اپنے انٹرویو ز میں دعویٰ کرتے رہے کہ موجودہ حکومت نے خیبر پختونخوا میں بالکل نئی طرز کابلدیاتی نظام متعارف کرایا ہے انہوں نے ترقیاتی بجٹ کا تیس فیصد حصہ منتخب بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ کرنے کا بھی عندیہ دیا۔
تیس مئی کے بلدیاتی انتخابات کو 30 جنوری 2015ء کو آٹھ ماہ یعنی 233دن مکمل ہو چکے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ صرف نوے دنوں میں بلدیاتی انتخابات منعقد کروا کے اختیارات اور ترقیاتی فنڈز منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کروانے کی دعوے دار جماعت تاحال اپنے وعدے کی تکمیل نہیں کر سکی۔ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران دیہی علاقوں کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات کی تفویض اور ترقیاتی فنڈز کا اجراء تو دور کی بات ابھی تک ان کے سرکاری نوٹیفیکیشن بھی جاری نہیں کیے جاسکے۔ انتخابات کے 92 روز بعد 30 اگست 2015ء کو منتخب عوامی نمائندوں سے حلف لے کر رسمی کارروائی پوری کی گئی تھی۔ اس کے بعد ان عوامی نمائندوں کاکوئی پرسانِ حال نہیں۔ انتخابات کے بعد پہلے مون سون کے موسم میں صوبے کے بیشتر علاقے زیرِآب آئے تو امدادی سرگرمیاں فوج، پولیس اورپٹواریوں کے ذریعے کروائی گئیں اور منتخب عوامی نمائندوں کو اس عمل سے دور رکھا گیا۔ اس کے صرف دو ماہ بعد چھبیس اکتوبرکو ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے رہی سہی کسر نکال دی۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے متاثرین زلزلہ کی بروقت اور فوری امداد کے لیے بلدیاتی نمائندوں کو امدادی سرگرمیوں میں شریک کرنے کی بجائے ایک مرتبہ پھر فوج، پولیس اور پٹواریوں کی خدمات حاصل کیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر زلزلہ متاثرین حکومت کی جانب سے جاری کردہ امدادی پیکج سے محروم رہے۔
خیبرپختونخوا کے موجودہ بلدیاتی نظام کی فعالیت میں سب سے بڑی روکاوٹ بیوروکریسی کی جانب سے اختیارات کی منتقلی میں مزاحمت ہے۔ بلدیاتی نمائندوں کو صرف اختیارات سے ہی محروم نہیں رکھا جا رہا بلکہ ترقیاتی فنڈز کی فراہم کا عمل بھی سرکاری سطح پر سست روی کا شکار ہے۔
خیبرپختونخوا کے موجودہ بلدیاتی نظام کی فعالیت میں سب سے بڑی روکاوٹ بیوروکریسی کی جانب سے اختیارات کی منتقلی میں مزاحمت ہے۔ بلدیاتی نمائندوں کو صرف اختیارات سے ہی محروم نہیں رکھا جا رہا بلکہ ترقیاتی فنڈز کی فراہم کا عمل بھی سرکاری سطح پر سست روی کا شکار ہے۔ اگرچہ ضلع اور تحصیل کونسل کو فنڈز منتقل کیے جا چکے ہیں لیکن دیہی کونسل کے لیے ابھی تک فنڈز فراہم نہیں ہوسکے۔ جو فنڈز فراہم کیے گئے ہیں ان کے ذریعے ترقیاتی کام کرانے کی راہ میں بھی بہت سی انتظامی روکاوٹیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس نظام میں منتخب نمائندوں کے لیے مراعات موجود نہیں جب کہ اس کے برعکس صوبائی یا قومی اسمبلی کے اراکین کو لاکھوں روپے تنخواہوں اور مراعات کی مد میں دیئے جارہے ہیں۔ اب بغیر کسی مراعات یا تنخواہ کے ان چالیس ہزارعوامی نمائندوں کو ترقیاتی منصوبوں کی تیاری اور تکمیل پر آمادہ کرنا تقریباً ناممکن ہے شنید ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کے لیے بھی مراعات کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اس نظام کے ذریعے کامیاب ہونے والے اکثر لوگوں کا تعلق غریب طبقے سے ہے جو بمشکل اپنے روزمرہ کے معاملات چلا رہے ہیں اوپر سے ان پر عوامی دباؤ بھی ہے۔ بغیر کسی معاوضے، تنخواہ یا مراعات کے اپناوقت اور پیسہ عوامی خدمات کے نام پر صرف کرنا شاید غیر حقیقت پسندانہ طرزعمل ہے۔
اگر حکومت بلدیاتی اداروں کے ساتھ مخلص نہیں تھی توپھر اربوں روپے خرچ کر کے انتخابات منعقد کرانے کی ضرورت کیا تھی؟ گزشتہ آٹھ ماہ سے منتخب عوامی نمائندے اختیارات اور فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بے کار بیٹھے ہیں۔ انتخابات سے قبل اختیارات اور ترقیاتی فنڈ کو نچلی سطح پر منتقل کونے کے دعوے اور وعدے صوبائی حکومت کی نااہلی، موقع پرستی اور غیرحقیقت پسندانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نمائندے مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہیں۔ یہ خبربھی گردش کر رہی ہے کہ صوبائی حکومت لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013ء میں ترمیم کرکے بلدیاتی نمائندوں کو دئیے گئے ترقیاتی فنڈز اور اختیارات واپس لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ صوبے کے چار اضلاع بشمول چترال میں ویلج کونسلز کی سیکرٹریوں کی تقرری میں بیوروکریسی کی جانب سے بدعنوانی کے بعد وہ معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
بلدیاتی نظام کی عدم فعالیت کے باعث ترقیاتی بجٹ کو مکمل طور پر استعمال کرنے کے ضمن میں بھی بڑے پیمانے پر غفلت برتی جا رہی ہے۔ مالی سال 2013-14 کے دوران صوبائی بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص 94ارب روپے استعمال نہیں کیے جا سکے۔ مالی سال 2014-15 میں ایک مرتبہ پھر ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص رقم میں سے ساٹھ فیصد یعنی 97 ارب روپے استعمال ہی نہیں کیے جا سکے۔ اُس وقت بہانہ یہ بنایا گیا کہ چونکہ بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی کی وجہ سے ترقیاتی فنڈز اراکین اسمبلی کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں تو اس میں بڑے پیمانے پر خوردبرد کے امکانات موجود ہوتے ہیں اس لیے یہ فنڈ پوری طرح استعمال نہیں کیے جا سکے۔ اس کرپشن کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ فنڈز جاری ہی نہ کیاجائے ۔لیکن موجودہ مالی سال 2015-16 کے بجٹ کو پیش ہوئے آٹھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان آٹھ مہینوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص فنڈز کا بڑا حصہ جاری نہیں ہو سکا اور جو فنڈز بلدیات کے لیے مختص کیا گیا تھا وہ بھی ابھی تک جاری نہیں ہوا، جس کی وجہ سے اس مالی سال میں بھی ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کردہ رقم استعمال نہ ہونے کے باعث سرکاری خزانے میں واپس جانے کا خدشہ ہے۔ اس ساری صورتحال پر بدقسمتی سے ذرائع ابلاغ اور حزب اختلاف کی جماعتیں بھی خاموش ہیں۔