خیبر پختونخواہ کے ڈھائی سو سے زائد سکولوں کی زمین پر گزشتہ بیس برس سے مختلف افراد نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔محکمہ تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق 38 سے زائد سکول کی زمین پر مکمل قبضہ کر لیا گیا ہے جبکہ دوسوسے زائد سکولوں کی زمین پر جزوی قبضہ کیا جا چکا ہے۔ محکمہ تعلیم کے یہ سکول زمین کی منتقلی یا قبضہ کی مکمل دستاویز حاصل کئے بغیر اسمبلی ممبران کے دباو پر وفاقی حکومت کے تحت چلنے والے منصوبوں کے تحت تعمیر کئے گئےتھے۔
محکمہ تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق 38 سے زائد سکول کی زمین پر مکمل قبضہ کر لیا گیا ہے جبکہ دوسوسے زائد سکولوں کی زمین پر جزوی قبضہ کیا جا چکا ہے۔
محکمہ تعلیم خیبر پختونخواہ کے مطابق بیشتر سکولوں کی تعمیر کے لئے مقامی افراد نے زمین اس شرط پر دی تھی کہ انہیں ملازمت فراہم کی جائے گی ، لیکن ملازمت نہ ملنے پر مالکان نے دوبارہ اپنی زمین اور عمارت پر قبضہ کرلیا۔ سکولوں پر جزوی قبضہ کے معاملات میں زیادہ تر سکولوں کے ملازمین ملوث ہیں جو سکول کی زمین کے ایک حصہ پر رہائش پذیر ہیں یا ان کے رشتہ دار قابض ہیں۔
محکمہ تعلیم کی رپورٹ کے مطابق مکمل طور پر قبضہ کئے گئے سکولوں میں سے چھ بنوں، پانچ شانگلہ، صوابی اور مردان میں تین تین، جبکہ پشاور ،نوشہرہ، ٹانک ، ہنگو، چارسدہ اور ایبٹ آباد میں ایک ایک سکول کی زمین اور عمارت پر قبضہ کیا جا چکا ہے۔ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر رفیق خٹک کے مطابق ایسے سکول محکمہ تعلیم کی فزیبلٹی رپورٹ اور قانونی کاروائی مکمل کئے بغیر بنائے جاتے ہیں، اس لئے بعد میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان واقعات کے بعد محکمہ تعلیم نے عطیہ کی گئی زمین پر نئے سکول بنانے کا عمل روک دیا ہے۔
محکمہ تعلیم کی رپورٹ کے مطابق مکمل طور پر قبضہ کئے گئے سکولوں میں سے چھ بنوں، پانچ شانگلہ، صوابی اور مردان میں تین تین، جبکہ پشاور ،نوشہرہ، ٹانک ، ہنگو، چارسدہ اور ایبٹ آباد میں ایک ایک سکول کی زمین اور عمارت پر قبضہ کیا جا چکا ہے۔ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر رفیق خٹک کے مطابق ایسے سکول محکمہ تعلیم کی فزیبلٹی رپورٹ اور قانونی کاروائی مکمل کئے بغیر بنائے جاتے ہیں، اس لئے بعد میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان واقعات کے بعد محکمہ تعلیم نے عطیہ کی گئی زمین پر نئے سکول بنانے کا عمل روک دیا ہے۔
Leave a Reply