خیبر پختونخواہ میں علاقائی زبانوں کی تدریس درسی کتب تیار نہ ہونے کے باعث تعطل کا شکار ہے۔ صوبہ بھر میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کے دوران انٹرمیڈیٹ کی سطح تک 2012 میں پشتو، ہندکو، چترالی، کوہستانی اور سرائیکی کی لازمی تدریس شروع کی گئی تھی ۔ ایک برس تک نرسری جماعت کی تدریس کے بعد جماعت اول کی تدریسی کتب تیار نہ ہونے کی وجہ سے علاقائی زبانوں کی تدریس کا عمل اس برس شروع نہیں کیا جا سکا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کے دوران انٹرمیڈیٹ کی سطح تک 2012 میں پشتو، ہندکو، چترالی، کوہستانی اور سرائیکی کی لازمی تدریس شروع کی تھی ۔ ایک برس تک نرسری جماعت کی تدریس کے بعد جماعت اول کی تدریسی کتب تیار نہ ہونے کی وجہ سے علاقائی زبانوں کی تدریس کا عمل اس برس شروع نہیں کیا جا سکا۔
کے پی کے محکمہ تعلیم کے افسران کے مطابق پشتو کے علاوہ باقی زبانوں کی جماعت اول اور اس سے آگے کی جماعتوں کی کتب موجودہ صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث تیار نہیں کی جاسکیں جس کے باعث اپریل میں تعلیمی سال شروع ہونے کےباوجود علاقائی زبانوں کی تدریس شروع نہیں کی جاسکی۔ اطلاعات کے مطابق علاقائی زبانوں کی تدریس کا عمل صرف سرکاری سکولوں تک محدود رہا جبکہ نجی تعلیمی اداروں نے مقامی زبانوں کی لازمی تدریس کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے اداروں میں تاحال اسے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے۔
ذرائع کے مطابق بارہویں جماعت تک مقامی زبانوں کی درسی کتب تیار ہیں تاہم سیاسی جماعتوں کی مداخلت کے باعث کتابوں کی طباعت و اشاعت کا عمل شروع نہیں کیا جاسکا۔ ڈائریکٹوریٹ برائے نصاب و اساتذہ کے مطابق کتب تیار ہیں اور انہیں جلد شائع کر دیا جائے گا۔پاکستان میں علاقائی زبانوں کی تدریس حکومتی عدم توجہی کا شکار رہی ہے۔ 2011 میں عوامی نیشنل پارٹی نے پشتو، ہندکو، چترالی، کوہستانی اور سرائیکی کو مقامی زبونوں کا درجہ دیتے ہوئے ان کی لازمی تدریس کا آرڈیننس جاری کیا تھا تاہم حکومت بدلنے کے بعد اس منصوبہ پر کام تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق بارہویں جماعت تک مقامی زبانوں کی درسی کتب تیار ہیں تاہم سیاسی جماعتوں کی مداخلت کے باعث کتابوں کی طباعت و اشاعت کا عمل شروع نہیں کیا جاسکا۔ ڈائریکٹوریٹ برائے نصاب و اساتذہ کے مطابق کتب تیار ہیں اور انہیں جلد شائع کر دیا جائے گا۔پاکستان میں علاقائی زبانوں کی تدریس حکومتی عدم توجہی کا شکار رہی ہے۔ 2011 میں عوامی نیشنل پارٹی نے پشتو، ہندکو، چترالی، کوہستانی اور سرائیکی کو مقامی زبونوں کا درجہ دیتے ہوئے ان کی لازمی تدریس کا آرڈیننس جاری کیا تھا تاہم حکومت بدلنے کے بعد اس منصوبہ پر کام تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔
Leave a Reply