[blockquote style=”3″]
یہ تحریر لالٹین کے ای میل پتہ contribute@laaltain.com پر موصول ہوئی تھی، تاہم اس تحریر پر اس کے مصنف کا نام موجود نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ اسے مصنف کے نام کے بغیر شائع کیا جا رہا ہے۔ ہم اس گم نام مصنف کے شکر گزار ہیں۔
[/blockquote]
بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے۔ یہ سب 2013ء کے انتخابات سے پہلے خود کو وزیر کے روپ میں دیکھتے ہوں گے کیوں کہ اُس وقت نواب رئیسانی حکومت میں ہررکن وزیر تھا، صرف ایک رکن حزبِ اختلاف میں تھا۔ پھر پتا نہیں کہاں سے ہوا کا ایک جھونکا آیا، کسی شاطر دماغ نے یہ سُجھایا کہ وزرا کی تعداد کم کر دی جا ئے۔ اٹھارہویں ترمیم آئی جس کے تحت صرف چودہ وزرا پراتفاق ہوا اس طرح ڈاکٹر مالک کی حکومت میں اُن کے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے۔ جن کی قسمت اچھی تھی وہ کابینہ کا حصہ بن گئے اور باقی سب فقیر۔۔۔مطلب پورٹ فولیو کے بغیر وزیر۔
جان محمد جمالی صاحب کے استعفے کے بعد اس اسمبلی کا کوئی مستقل سپیکر نہیں۔ ڈپٹی سپیکراور قائم مقام سپیکر جناب عبدالقدوس بزنجو صاحب کے حلقے میں انتخابات نہیں ہوئے تھے اور وزیراعلیٰ صاحب الیکشن ہار چکے تھے۔ چند حلقے اور ہیں جن کا نتیجہ متنازع رہا۔ اب کس سے گلہ کریں یہاں کوئی عمران خان نہیں اگر ہوتے بھی تو ایک حلقہ تک نہیں کھلوا سکتے تھے۔ جہاں من و سلویٰ اترتے ہوں وہاں عمران خان کی کیا اوقات۔ یہ وہ اسمبلی ہے جس کاقائم مقام سپیکر اور ڈپٹی سپیکر، وزیر اعلیٰ اور گورنر بیک وقت ملک سے باہر ہوتے ہیں۔ یہ اسمبلی 34 اراکین کو ایک تقریب میں حصہ لینے کے لیے ملک سے باہر بھیجتی ہے جس کا بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہ وہ اسمبلی ہے جس کے ارکان طلبہ دورے کے لیے مستحق طلباء کی بجائے اپنے بچوں کو بیرون ملک بھیجتے ہیں اور یہ وہ اسمبلی ہے جس کی کابینہ میں کوئی عورت ہے نہ کسی اقلیت کو جگہ دی گئی ہے۔
اسمبلی میں 51 نشستیں عمومی نشستیں ہیں، 11 خواتین کے لیے اور 3 اقلیتوں کے لیے مختص ہیں اور حکومت بنانے کے لیے 33نشستیں درکار ہیں۔ اس وقت اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے 22، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے14، نیشنل پارٹی کے 11، جمعیت علمائے اسلام(ف) کے8، پی یم ایل ق کے 4، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2، اے این پی کا 1، مجلس وحدت المسلمین کا 1، بی این پی (عوامی)کا 1 اور ایک آزاد حیثیت سے ایم پی اے ہے۔
یہ اسمبلی 34 اراکین کو ایک تقریب میں حصہ لینے کے لیے ملک سے باہر بھیجتی ہے جس کا بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہ وہ اسمبلی ہے جس کے ارکان طلبہ دورے کے لیے مستحق طلباء کی بجائے اپنے بچوں کو بیرون ملک بھیجتے ہیں اور یہ وہ اسمبلی ہے جس کی کابینہ میں کوئی عورت ہے نہ کسی اقلیت کو جگہ دی گئی ہے۔
جب ڈاکٹر عبد المالک صاحب وزیرِ اعلیٰ بنے تو ہم نے بھی لکھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک غیر سردار، غیر نواب وزیر اعلیٰ بنے ہیں، لیکن متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ سے عوام کو جتنی امیدیں و ابستہ تھیں سب خاک میں مل گئی ہیں۔ کیو ں کہ تعلیمی ایمرجنسی، صحت اور پر امن بلوچستان وغیرہ کا نعرہ بلند کر کے وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر برا جمان ہوئے تھے یا کر دیئے گئے تھے وہ خود کہتے ہیں میرے پاس اختیار نہیں۔۔۔ آج تعلیم ہے تو ایمرجنسی میں، ڈاکٹر اور مریض برابر بڑھ رہے ہیں، امن ہے توبندوق کی نوک پر۔
موجودہ کابینہ ماشاء اللہ سے ایک سینئر وزیر سمیت چودہ وزرا اور پانچ مشیران پر مشتمل ہے جس کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے:
مسلم لیگ نواز کے وزرا
جناب ثناء اللہ زہری صاحب واحد سینیئر وزیر ہیں۔ ن لیگ کے صوبائی وزیر ہیں۔ حلقہ PB-33 خضدار سے منتخب ہوئے ہیں۔ نواب آف جھالاوان ہیں۔ آپ کے پاس C&W، کان کنی اور صنعت کے محکمے ہیں۔ مری معاہدے کے تحت مبینہ طور پر آپ نے اڑھائی سال بعد وزیر اعلیٰ بننا ہے وہ بھی اگلے ماہ یعنی دسمبر میں۔ ا ب دیکھنا یہ ہے کہ اس وعدے کا پاس رکھا جائے گا یا پھر بلوچستان کی تاریخ میں ایک اور’وعدہ‘ وفا نہیں ہو گا۔ کیونکہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو کافی تحفظات ہیں۔ زہری صاحب نے اپنے علاقے میں سڑکیں اور سکول بنوائے ہیں۔ جہاں تک محکموں کی بات ہے تو ان میں کوئی خاص ترقی نہیں ہو سکی ہے البتہ حال ہی میں سی اینڈ ڈبلیو میں اکیس سول انجینئر بذریعہ پبلک سروس کمیشن بھرتی ہو چکے ہیں لیکن صوبے میں کوئی اچھی سڑک نہیں بن پائی۔ اگر مائنز اور انڈسٹریز میں بھی بلوچستان کے انجینئرز کو موقع دیا جائے تو کیا ہی بات ہے۔
بلوچستان کو فروٹ گارڈن آف پاکستان کہا جاتاہے لیکن اہل بلوچستان اس باغ کے پھل سے آج تک مستفید نہیں ہوسکے۔
آب پاشی اور توانائی کے وزیر چنگیز مری صاحب ہیں۔ آپ PB-23کوہلو سے منتخب ہوئے۔ مری صاحب فراریوں سے ہتھیار ڈلوانے کے علاوہ کبھی نظر نہیں آتے۔ موصوف بھی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں اسی لیے اتنے فراری ان کے گھر آکر ہتھیا ڈال رہے ہیں۔ یہ سلسلہ شاید ایک ماہ اور چلے گا۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف ملم لیگ نواز کی کوشش ہے کہ ناراض بلوچ قومی دھارے میں شامل ہوں دوسری طرف مری صاحب ہیں جو اس بات کے حق میں نہیں۔ اگر کسی نے ان کو اپنے دفتر میں کبھی دیکھا ہو تو ہمیں بھی کوئی تصویر بھیج دے شکر گزار ہوں گا۔
سرفراز بگٹی صاحب کے پاس داخلہ، قبائلی امور، جیل خانہ جات اور پی ڈی ایم اے کے محکمے ہیں۔ حلقہ PB-24 ڈیرہ بگٹی سے منتخب ہوئے۔ ہوم منسٹر ہیں۔ ہر وقت متحرک رہتے ہیں۔ دہشت گردی ختم کرنے کے دعویدار ہیں۔ یہ بھی مری صاحب کی طرح فراریوں سے ہتھیار ڈلواتے رہتے ہیں اور ذرائع کے مطابق یہ بھی وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے ‘بہترین’ امیدوار ہیں۔ اس سے آپ بلوچستان میں مسلم لیگ نواز کے نظم و ضبط کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ رواں سال جنوری میں پی ڈی ایم اے میں آٹھ سو امیدواروں کا امتحان ہوا۔ تین سو سے زائد پاس ہوئے۔ کمال تو یہ ہے کہ سب امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا آرہا ہے ’چند نا گزیر وجوہ کی بنا پر انٹرویو منسوخ ہوگئے ہیں اور نئی تاریخ بذریعہ اشتہار دی جائے گی’۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج تک اطلاع نہیں دی گئی اور لوگ نوکری کر رہے ہیں ۔ آواران میں زلزلہ زدگان کے لیے گھروں کا تعمیراتی کا کام جاری تھا۔ کافی گھر بن چکے تھے لیکن پھرعزیز جمالی صاحب کو بلا کسی وجہ کے اوایس ڈی بنا دیا گیا، یہ تھا ایمانداری کا صلہ ۔
میر سرفراز ڈومکی کے پاس لیبراینڈ پاور، سماجی بہبود اورغیر رسمی تعلیم کے محکمے ہیں۔ PB-21 سبی سے منتخب ہوئے ہیں۔ مزدوروں کی حالت سب پر عیاں ہے اوریہ غیر رسمی تعلیم کس بھلا کا نام ہے یہ راز موصوفکی ذات تک محدود ہیں۔ تھوڑے کو بہت سمجھیں۔
PB-27جعفر آباد 3سے جناب میر اظہار کھوسو صاحب خوراک اور بہبود نسواں کے وزیر ہیں۔ ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے وزرا
صحت عامہ کے وز نواب ایاز جوگیزئی ہیں۔ PB-3کوئٹہ 3 سے منتخب ہوئے۔ حلقے کے عوام آپ کی کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں صحت عامہ کے مختلف منصوبے چل رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کو صاف پانی میسر نہیں۔
PB-10 پشین 3سے سردار غلام مصطفی خان ترین مقامی حکومتوں، دیہی ترقی اور شہری منصوبہ بندی کے وزیر ہیں۔ میٹرک تک تعلیم پائی ہے۔ ان کی وزارت کے تحت دیہی علاقے تو ایک طرف شہری علاقے بھی ترقی اور منصوبہ بندی سے محروم ہیں۔
جناب ڈاکٹر حامد خان اچکزئی PB-11قلعہ عبداللہ 1سے منتخب ہوئے۔ پاکستان سے دو ماہ اور ایک دن بڑے ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے بھائی ہیں۔ ترقی و منصوبہ بندی،کیو ڈی اے، بی ڈی اے، جی ڈی اے اور بی سی ڈی اے کے وزیرہیں۔ یعنی کوئٹہ اتھارٹی سے گوادر اتھارٹی تک آپ کی اتھارٹی ہے۔ کوئٹہ کی ترقی کا پول بارش کی ایک بوندکے ساتھ ہی کھل جاتا ہے۔ گوادر کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اگرکہیں سے کوئی فتویٰ جاری نہ ہو تو کہا جا سکتا ہے گوادر کی حافظ افواج پاکستان ہیں۔ موصوف کی کارکردگی سے پردہ اٹھانے کے لیے اُن کا یہ بیان کافی ہے ’وقت نہ ملنے کی وجہ سے پندرہ ارب خرچ نہ ہو سکے‘۔ اس کے علاوہ محکمہ زراعت کے فنڈز بی ڈی اے کو منتقل کیے جاتے رہے ہیں۔
وزارتِ اطلاعات، قانون، آئی ٹی کے وزیر جناب عبد الرحیم خان ترین المشہور رحیم زیارتوال ہیں۔ PB-22ہرنائی سبی سے منتخب ہوئے۔ اطلاع کس بات کی دیں جب میڈیا بلوچستان کو کور ہی نہیں کرتا۔ قانون ہوتا تو حالات اچھے ہوتے۔ ہاں ایک آئی ٹی یونیورسٹی ہے کوئٹہ میں۔۔۔
نیشنل پارٹی کے وزرا
PB-2 خضدار 2سے منتخب ہونے والے سردار محمد اسلم بزنجو صاحب زراعت اور کوآپریٹو کے وزیر ہیں۔ خود بھی زمیندار ہیں پر یہ کوآپریٹو کس بھلا کا نام ہے؟ اس محکمے کا مقصد نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اور سبزیوں اور پھلوں کی نمائش ہے۔ نئی ٹیکنالوجی اب تک ٹریکٹر ہے اور نمائش کی جہاں تک بات ہے تو بلوچستان میں کوئی بڑی مارکیٹ ہی نہیں۔ اگر بنائی جائے تو اس میں پورے ملک کا فائدہ ہے۔ بلوچستان کو ‘فروٹ گارڈن آف پاکستان’ کہا جاتاہے لیکن اہل بلوچستان اس باغ کے پھل سے آج تک بہرہ مند نہیں ہوسکے۔
میر خالد سیاست کا فن جانتے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں، جو بھی حالات ہوں ان کی تصویر اخبار کی زینت بنی رہتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جب ان کا عکس کسی اخبار میں نہ چھپے۔ باقی وزرا ایک طرف، میر خالد ایک طرف۔
نواب محمد خان شاہوانی صاحب ایس اینڈ جی اے ڈی کے وزیر ہیں۔ PB-38کوئٹہ، مستونگ سے ایم پی اے بنے۔ حال ہی میں اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن آفیسر کی اسامیاں مشتہر ہو چکی ہیں۔ دعا ہے انتخاب میرٹ پر ہو۔ وزارت سے پہلے پیدل چلتے پھرتے تھے مگر اب پیدل نظر ہی نہیں آتے۔ جنہوں نے آپ کو ووٹ دیا تھا وہ اپنی غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں۔
میر مجیب الرحمان محمد حسنی PB-47واشک سے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ آپ کے پاس اقلیت، انسانی حقوق، کھیل،
میر مجیب الرحمان محمد حسنی PB-47واشک سے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ آپ کے پاس اقلیت، انسانی حقوق، کھیل،
ثقافت، آرکائیوز، ویلفیئر، نوجوانوں کے امور اور سیاحت کی وزارتیں ہیں۔ کھیل پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے بطور وزیر کھیل ہی جانے جاتے ہیں۔ سخت سیکیورٹی میں بگٹی اسٹیڈیم میں سپورٹس فیسٹیول منعقد کرا چکے ہیں۔ کھیلوں کی ہر تقریب کے مہمان خاص اس وقت کے کمانڈر سدرن کمانڈ المشہور ناصر جنجوعہ صاحب ہوا کرتے تھے جو کہ آج کل قومی سلامتی کے مشیر ہیں۔ انسانی حقوق اور وہ بھی بلوچستان میں ۔۔۔حکومت کو اقلیتوں کے لیے کوئی ایسا وزیر نہ مل سکا جس کا تعلق کسی اقلیتی فرقے سے ہو۔ حکومت کی بھی مجبوری ہے کیونکہ کابینہ کی حد چودہ وزراء ہیں۔ جب حالات ٹھیک نہیں تو سیاح کیسے آئیں گے۔ محکمہ امور نوجوانان میں سوائے ایک سیکرٹری کے کوئی اور ملازم ہی نہیں اور ماشاء اللہ سے کوئٹہ میں یوتھ ڈویلپمنٹ سینٹر ابھی زیرِ تعمیر ہے۔
وزیر صحت رحمت علی بلوچ المشہور رحمت صالح بلوچ ہیں۔ PB-42پنجگور 1سے انتخاب لڑا۔ وزارت کے ابتدائی دنوں میں کافی چست تھے۔ عارضی عہدوں پر کام کرنے والوں کو مستقل کیا۔ ہسپتالوں میں صفائی کا نظام بہتربنوایا، ڈاکٹرز بھی ڈیوٹی دینے لگے تھے۔ مگراب وہ بات نہیں رہی۔ ڈاکٹر بھی بڑھ رہے ہیں اور مریض بھی۔۔۔کاش رحمت صاحب پرائیویٹ ہسپتالوں کے خلاف کارروائی کریں۔
ق لیگ کے وزیر
ریوینیو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور ٹرانسپورٹ کے وزیر PB-19ژوب سے جعفر مندوخیل ہیں۔ جب بھی اسمبلی میں آئے وزیر بنے۔ سابقہ حکومتوں میں خزانہ، تعلیم اور ترقی و منصوبہ بندی کے وزیر رہے ہیں۔ تجربہ کار ہیں۔ حال ہی میں ایکسائیز آفیسر کی صرف چار اسامیاں چار ڈویژنزکے لیے مشتہر ہو گئی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ناکام تجربہ کر چکے۔ کراچی بس اڈہ کو شہر سے دورہزار گنجی منتقل کرنا چاہتے تھے پر کچھ نہ ہوا لوگ ذلیل ہوگئے۔ اگرمندوخیل صاحب صرف کوئٹہ شہر میں ٹریفک سگنلز کی مرمت اور بحالی پہ توجہ دیں تو قوم ان کا احسان مند رہے گی اور یہ جو کوئٹہ میں Paid Parking شروع کروائی ہے میئر جناب ڈاکٹر کلیم صاحب نے۔ حضور اس طرف بھی دھیان دیں۔
مشیرانِ وزیر اعلیٰ
ڈاکٹر مالک صاحب نے کئی محکمے اپنے پاس بھی رکھے ہیں اور ظاہر ہے ان محکموں کے لیے مشیران کا تقرر بھی کیا گیا ہے۔
تعلیم کے مشیر سردار رضا محمد بڑیچ ہیں۔ PB-4کوئٹہ 4 سے پشتونخو ا ملی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ یہ نشست بی این پی جیت چکی تھی پھر رات گئی اور بات گئی اور نتیجہ تبدیل ہوا۔ بڑیچ صاحب پاکستان سے بڑے ہیں اور معمر رکن اسمبلی ہیں لیکن تعلیم کی حالت بہتر نہیں کر سکے۔ اداروں کی ابتر حالت کو بہتر بناتے تو اچھا تھا مگر یہ صاحب بضد ہیں کہ نقل کا خاتمہ ہوگا تو تعلیم بہتر ہوگی۔ سو فیصد اتفاق آپ کی بات سے لیکن جناب یہ تو بتائیں دس بارہ دن کے امتحانوں کے علاوہ آپ کہاں ہوتے ہیں۔ بے شک سکول اپ گریڈ کرتے رہیں۔قابل رشک بات ہے کہ اڑھائی سال بعد آپ کو 900 گھوسٹ سکولوں کا علم ہوا۔ کیا آپ ان سب کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ اورغم بھی ہیں زمانے میں۔۔۔این ٹی ایس اور پبلک سروس کمیشن کے تحت اساتذہ کی بھرتی خوش آئند اقدام ہے لیکن این ٹی ایس کے حوالے سے لوگوں کو اب تک تحفظات ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ این ٹی ایس ٹسٹ یونین کونسل سطح پر ہوا۔ یعنی نچلی سطح سے آپ نے کام کا آغاز کیا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ یونین کونسلز کو نمائندگی مل گئی۔ لیکن ساتھ ساتھ آپ سے تاریخ کی سب سے بری غلطی یہ ہوئی کہ جس کونسل میں کوئی نشست خالی نہ تھی وہاں کے امیدواروں سے درخواستیں کیوں وصول کی گئیں؟ اب وہ میرٹ پر ہیں چونکہ ان کے کونسل میں کوئی اسامی خالی نہیں لہٰذا انہیں نوکری نہیں مل سکتی۔ فیس وٖغیرہ کی بات نہیں کرتے۔ ویسے ایک غریب کے لیے ہزار روپے تو بہت ہوتے ہیں۔
میر خالد خان لانگو صاحب مشیر خزانہ ہیں۔ نیشنل پارٹی سے تعلق ہے۔ PB-36قلات 1سے جیتے ہیں۔ بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ واحد وزیر ہیں جو اپنے حلقے کے لیے کام کر رہے ہیں اور بھر پور کر رہے ہیں۔ بنیادی ضروریات فراہم کر رہے ہیں۔ ڈسپنسری بنوا چکے ہیں، انٹر اور ریزیڈنشل کالج کے قیام کا اعلان ہو چکا ہے، گیس پائپ لائن بھی بچھ چکی ہے، حال ہی میں ایک فیسٹول بھی منعقد کرایاہے۔ اور کیا چاہیے۔ اپنے آبائی علاقے کے بعد اب امید ہے وہ اپنے حلقے کے دوسرے حصے قلات پربھی توجہ دیں گے۔ سیاست کا فن جانتے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں، جو بھی حالات ہوں ان کی تصویر اخبار کی زینت بنی رہتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جب ان کا عکس کسی اخبار میں نہ چھپے۔ باقی وزرا ایک طرف میر خالد ایک طرف۔
ن لیگ کے جناب محمد خان لہڑی کے پاس زکوٰۃ ، حج، عشر اور اوقاف ہیں۔ PB-29 نصیر آباد2سے جیتے۔ ان سے پہلے اس عہدے پر ماجد ابڑو صاحب تھے۔ زکوٰۃ کا نظام بہتر کریں اور غریبوں کی دعائیں لیں۔ سرکاری مساجد میں چراغاں توچلتارہے گا۔
یہ بلوچستان کے وزرا کی ایک مختصر سی جھلک ہے۔ کوئی سردارہے،کوئی نواب ہے، کوئی اپنے قبیلے کا سربراہ ۔۔۔۔ اور تجربہ کار سیاستدان تو سب ہی ہیں۔ لیکن مجموعی طوریہ بلوچستان کو گزشتہ اڑھائی برس میں کچھ نہیں دے سکے۔
ن لیگ کے میر اکبر آسکانی صاحب PB-50کیچ 3سے جیتے۔ فشریز اور پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے وزیر ہیں۔ میٹرک پاس ہیں۔ صرف یہ بتائیں لسبیلہ یونیورسٹی آف اینیمل اینڈ میرین سائنسز کو کوئی فائدہ پہنچا ان سے؟
عبید اللہ جان بابت صاحب اپنی شائستہ گفتگو بلکہ اردو کی وجہ سے بہت مقبول ہیں۔ ان کے حصے میں جنگلات اور لائیوسٹاک کے محکمے آئے۔ PB-16لورالائی2سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر انٹخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے۔لائیو سٹاک میں کافی ڈاکٹرز بپلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے ہیں۔ عرب شیوخ آئے اور چلے بھی گئے ملے بھی نہیں۔ کیا بابت صاحب نے کوئی احتجاج ریکارڈ کرایا۔ وفاق نے کب ان کی مانی ہے۔ سو جو ہوا اچھا ہوا۔ جہاں گیس نہیں وہاں جنگلات کٹتے جائیں گے۔
عبید اللہ جان بابت صاحب اپنی شائستہ گفتگو بلکہ اردو کی وجہ سے بہت مقبول ہیں۔ ان کے حصے میں جنگلات اور لائیوسٹاک کے محکمے آئے۔ PB-16لورالائی2سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر انٹخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے۔لائیو سٹاک میں کافی ڈاکٹرز بپلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے ہیں۔ عرب شیوخ آئے اور چلے بھی گئے ملے بھی نہیں۔ کیا بابت صاحب نے کوئی احتجاج ریکارڈ کرایا۔ وفاق نے کب ان کی مانی ہے۔ سو جو ہوا اچھا ہوا۔ جہاں گیس نہیں وہاں جنگلات کٹتے جائیں گے۔
یہ بلوچستان کی کابینہ کی ایک مختصر سی جھلک ہے۔ کوئی سردارہے،کوئی نواب ہے، کوئی اپنے قبیلے کا سربراہ ۔۔۔۔ اور تجربہ کار سیاستدان تو سب ہی ہیں۔ لیکن مجموعی طوریہ بلوچستان کو گزشتہ اڑھائی برس میں کچھ نہیں دے سکے۔ یقیناًترقی کا تعلق امن سے ہے اورآپ امن قائم کرنے میں ناکام رہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ آپ خودمختار نہ ہونے کے باعث امن و امان کی صورت حال بہتر نہ کر سکے لیکن جہاں حالات بہتر ہیں وہاں آپ نے کون سے ایسے کام کیے جن کی تعریف کی جا سکے؟ آپ کے پاس تھوڑے بہت اختیارات تو ہوں گے جنہیں عوام کی فلاح کے لیے بروئے کار لایا جاسکے۔ کوئی تبدیلی و ترقی نظر آئے تو سہی۔ ہر بات میں سازش ڈھونڈنے کا رویہ مناسب نہیں۔ آپ ایک اچھی سڑک توبنوا سکتے ہیں، ایک اچھا ہسپتال بنوا سکتے ہیں، سکول اور کالج تعمیر کرا سکتے ہیں، سیوریج اور پانی کا نظام بہتر بنا سکتے ہیں اس سب سےتو پنجاب توآپ کو نہیں روک رہا۔ میرٹ کو یقینی بنانا آپ کا کام ہے پنجاب کا نہیں۔اڑھائی سال میں آپ کوئٹہ کی نکاسی آب کے نظام کو بہتر نہ کر سکے باقی بلوچستان کا کیا کریں گے۔ اگر ٹیوب ویل لگوا نا اور محلے کی گلی کے داخلی و خارجی راستوں پرگیٹ نصب کرنے کا نام ترقی ہے تو بلوچستان سب سے ترقی یافتہ صوبہ ہے۔
Leave a Reply