محترمہ عائشہ ممتاز صاحبہ عرف "دبنگ لیڈی” شہ سرخیوں میں رہنے کے بعد کچھ پس پردہ چلی گئی ہیں۔ شہ سرخیوں میں رہنے کی وجہ ان کا ذمہ دارانہ انداز میں کام کرنا تھااور اب پس پردہ جانے کی وجہ بھی شاید ان کا احساس ذمہ داری ہی ہے۔ عدالتی حکم پر انہیں اپنی سرگرمیاں سوشل میڈیا پر مشتہر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے فرائض بہتر طور پر سر انجام دے رہی تھیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں گھر بھی کر چکی ہیں۔ ایک مفاد پرست ٹولہ جو کھانے پینے کی اشیاء کے نام پر صارفین کو دھوکہ دے رہا ہے اور لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے یہ خاتون انہی کے خلاف کمر بستہ ہیں اور ایک خاتون کے لیے اس درجہ جرات کا مظاہرہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں دو نمبر دھندہ وہی کرتا ہے جس کی پشت پر کچھ ایسے عناصر موجود ہوں جن کی پہنچ ایوان اقتدار کی راہداریوں تک ہوتی ہے۔ سور کا گوشت ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں پہنچانے والوں کے ہاتھ بھی یقیناًکچھ نہ کچھ لمبے تو ضرور ہوں گے۔
ان اقدامات کے بعد چند بڑے برانڈز اور ان کے آؤٹ لیٹس نے نہ صر ف لوگوں کے سامنے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کیا بلکہ مستقبل میں اپنا کچن لوگوں کے لیے کھولنے کا بھی اعلان کیا۔
عائشہ ممتاز صاحبہ اپنے کام کی وجہ سے ایک مثبت شناخت قائم کر چکی ہیں۔ بطور ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی ان کے اقدامات کے معترف ان کے مخالفین بھی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بڑے ناموں کو بھی نہیں بخشا۔ یہ بات خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ دیگر حکومتی عہدیدار بھی ان سے ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں۔ اس کی زندہ مثال DCO راولپنڈی ساجد ظفر کے اقدامات ہیں۔ انہوں نے عائشہ ممتاز صاحبہ کے شروع کیے ہوئے کام کوآگے بڑھاتے ہوئے راولپنڈی میں چند بڑے برانڈز کو صفائی کے ناقص انتظامات کی پاداش میں سیل کر دیا ہے۔ ان اقدامات کے بعد چند بڑے برانڈز اور ان کے آؤٹ لیٹس نے نہ صر ف لوگوں کے سامنے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کیا بلکہ مستقبل میں اپنا کچن لوگوں کے لیے کھولنے کا بھی اعلان کیا۔
DCO راولپنڈی، ساجد ظفرجتنے جواں صورت سے نظر آتے ہیں ان کے حالیہ اقدامات کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کے حوصلے بھی جواں ہیں۔ انہوں نے حقائق عوام کے سامنے لانے کا جو بیڑا اٹھایا ہے اس سے عوام کی آنکھیں کھل گئی ہیں کہ کس خوبصورت پیکنگ میں زہر ان کو پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک مثبت تبدیلی یہ بھی محسوس کی گئی کہ ساجد ظفر صاحب نے تمام اقدامات سوشل میڈیا پر عام کر دیئے ۔ یعنی عوام کے سامنے تصویری ثبوت پیش کر دیئےتا کہ کسی کو یہ گلہ نہ رہے کہ یہ اقدامات جانبدارانہ تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے دفتر میں عوامی سماعت کا اہتمام بھی کیا جس میں سب کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ اتنے غیر جانبدارانہ انداز میں نہ صرف مختلف بند کیے گئے برانڈز کا موقف سنا گیا بلکہ عوام کے سامنے پیش بھی کیا گیا۔ یہ ایک خوشگوار آغاز کہا جا سکتا ہے۔ اس اجلاس کے بعد 9 ایسے اقدامات تجویز کیے گئے جو یقیناًمستقبل میں اعلیٰ معیار کو یقینی بنانے میں مفید ثابت ہوں گے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر اور DCO راولپنڈی کے مختلف مقامات پر چھاپے اور اعلیٰ برانڈز کی شاخیں بند کرنے سے ایک خوف ناک حقیقت کا بھی پتا چلا کہ ناقص اشیاء کو کس خوبصورت انداز میں ہمارے جسموں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ہم اپنے ہاتھوں سے یہ زہر اپنے اندر اتار رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں تھا۔ جب کسی بیماری کے علاج کے دوران ڈاکٹر باہر کے کھانے سے منع کرتا تو ہمیں مذاق لگتا لیکن اب اس حقیقت کا ادراک ہوا ہے کہ زہر کی فروخت تو ہر شاہراہ، ہر گلی، ہر محلے میں دھڑلے سے جاری ہے ۔ زہر بھی ایسا کہ جسے اس خوبصورت انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یہ محض مضر صحت کھانے تک ہی محدود نہیں بلکہ حرام اشیاء بھی دھوکہ دہی سے فروخت کی جارہی ہیں۔ ایک عزیز دوست فہیم پٹیل صاحب نے مطلع کیا کہ لاہور میں ہی ایک جگہ سور کے گوشت کی فروخت جاری تھی۔ مزید کچھ دوستوں سے رابطہ ہوا تو پتا چلا کہ سور کے گوشت کی ترسیل لاہور کے مختلف علاقوں میں کی جاتی تھی۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر اور DCO راولپنڈی کے مختلف مقامات پر چھاپے اور اعلیٰ برانڈز کی شاخیں بند کرنے سے ایک خوف ناک حقیقت کا بھی پتا چلا کہ ناقص اشیاء کو کس خوبصورت انداز میں ہمارے جسموں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
صارفین کے ساتھ دھوکہ دہی اور انہیں غیر معیاری خوراک مہیا کرنے پر اب تک ان لوگوں کو جرمانے اور بندش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چند ہزار جرمانہ یقیناً ان بڑے ناموں کے ایک دن کی کمائی ہے۔ اس مہم کا حقیقی فائدہ اسی صورت ہو گا کہ مستقل بنیادوں پر معیار بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں ورنہ صرف ایک دفعہ کی اس مہم سے دیرپا نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اس کے علاوہ بڑے ناموں کے ساتھ گلی محلوں میں بکھرے زہر بیچتے ٹھیلوں، چھوٹے ریستورانوں اور بے نام دکانوں کے خلاف بھی ایسے ہی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مرکزی شاہراہوں سے تھوڑا آگے بڑھ کر چھوٹے راستوں کی طرف بھی سفر کرنا ہو گا تب ہی حقیقی معنوں میں اس مہم کا فائدہ عوام تک پہنچ سکتا ہے۔ مزید براں صرف پنجاب فوڈ اتھارٹی ہی کافی نہیں ہے پورے ملک میں اس طرح کے اقدامات ناگزیر ہیں۔ ہر صوبے کو اپنی سطح پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے۔ عائشہ ممتاز اور سجاد ظفر جیسے بہت سے لوگ اس مہم کی کامیابی کے لیے درکار ہیں۔ راولپنڈی کا جائزہ لیں تو ایک غیر ملکی برانڈ نے اپنا کچن اوپن کر دیا ہے تا کہ عوام دیکھ سکیں۔ اسی طرح ایک اور غذائی ادارہ کیک کچن (Cake Kitchen) اوپن کچن پالیسی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس ادارے کو جرمانہ بھی ہوا لیکن بہت ہی معمولی وجہ سے اوپن کچن کی پالیسی یقیناًہر جگہ نافذ العمل ہو تو معیار بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
محترمہ عائشہ ممتاز اور جناب سجاد ظفر صاحب جیسی شخصیات اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب عوام ان کا ساتھ دیں۔ عوام کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سوشل میڈیا پر رابطہ نمبر اور رابطہ کرنے کے دیگر ذرائع بھی مشتہر کیے گئے ہیں۔ اب عوام کا کام ہے کہ وہ تمام کام اداروں پر چھوڑنے کی بجائے خود بھی ایسے عناصر کی نشاندہی کریں جو عوام میں زہر بانٹ رہے ہیں کیوں کہ ایک صحت مند اور توانا پاکستان کی تعمیر کے لیے عوام کا کردار یقیناًسب سے اہم ہے۔
(راولپنڈی میں کسی بھی شکایت کی صورت میں 0310-0002347 پر ایس ایم ایس کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ویب سائٹ www.rawalpindi.gov.pk ہے ۔ جب کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کا رابطہ نمبر04235962893 ہے)
Leave a Reply