Laaltain

خود کُش

26 اکتوبر، 2016
Picture of شہزاد نیّر

شہزاد نیّر

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

خود کُش

[/vc_column_text][vc_column_text]

آج پھر رُخ پہ مری اپنی شباہت لے کر
موت رستے میں چلی آئی ہے
راہ میں خلق کے چہرے تو دکھائی دیں گے
موت کا روپ جدا رخ میں نظر آئے گا
آنکھ پھٹتے ہوئے پیکر پہ ٹھہر جائے گی اور سوچے گی
کیا مری اس سے شناسائی تھی؟

 

آج بھی خون کی ندّی میں نہایا سورج
آج پھر اس کی شعاعوں میں لہو کاری ھے
رنگ سب ایک ہی کایا میں ڈھلے جاتے ہیں
دشت و دل ایک سے منظر میں چلے جاتے ہیں
کُنجِ لالہ ہو کہ ہو سینہء ابنائے وطن
ہر جگہ ایک سی گُل کاری ہے
آنکھ پر دید بہت بھاری ہے

 

رنگ اب پیڑ کے سائے اُترے
سوکھتے حلق، ٹپکتی بوندیں
سُرخ دانوں سی ٹپکتی بوندیں
پیاس کا حقِّ نمک اور بڑھا دیتی ہیں
گل کی پوشاک ہو یا پھول سے تن کی پوشاک
ہر جگہ ایک سی گل کاری ہے

 

ساتھیو! کوئی تو آواز ملے
پیاس کو حلق میں ٹپکاتے ہوئے ہاتھ رُکیں
ایک آواز مری اپنی شباہت لے کر
جَل کو جلتے ہوئے ہونٹوں سے لگانے والی
مجھ کو بچوں سے ملانے والی
دُور کے صحن سے آئے مری اپنی آواز۔۔۔۔
آنکھ میں صرف اندھیرے ہیں، سماعت کی طرح
دور تک آتی نظر آتی نہیں ہے آواز
دور تک شور کا سنّاٹا ہے

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *