دکھ ہے کہ جس جماعت اور قیادت سے مجھ سمیت سبھی نوجوانوں کو تبدیلی کی امید تھی اس نے ہمیں مزید تقسیم کر دیا ہے۔ روایتی سیاست خوہ کتنی ہی بری اور نگ آلود تھی اس میں ان قومی اقدار کا پاس ضرور تھا جن کےتحت کچھ دن، چند تہوار اور بعض مواقع سیاست اور مفادات سے بالاتر تھے، جب سبھی لوگ ایک ہو کر سبھی اختلافات بھلا کر اکٹھے بیٹھتے تھے اور ایک دوسری کی مدد کرتے تھے۔ 14 اگست 2014 پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین یوم آزادی لگنے لگا ہے کیوں کہ اس کے بعد سےحکومت اور حزب اختلاف کی سیاست سے یوں لگتا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور ہم سب کو کسی اور کی کوئی پرواہ نہیں۔ہمیں احساس دلایا جارہا ہے کہ ہماری جماعت اور ہماری رہنما کے سوا سبھی ہیں یا شرپسند ۔ اس برس کے یوم آزادی پر ہونے والے انقلاب اور آزادی مارچ نے 1947 کے اُس جذبے کو متنازعہ بنا دیا ہے جس کے تحت یوم آزادی کے روز قومیتیں، ثقافتیں، برادریاں، مسلک اور فرقے بھلا کر ملی نغمے گائے جا سکتے تھے، جھنڈیاں لگائی جا سکتی تھیں اور یہ سوچے بغیر کے کون کس جماعت یا رہنما کا حامی سب ایک جگہ بیٹھ سکتے تھے۔
47 کے فسادات میں مرنے والے کیا دھاندلی سے منتخب ہوئے تھے یا گونواز گو کے نعرے لگا کر سرحد پار کررہے تھے ؟ موجودہ سیاسی قیادت کیا یہ چاہتی ہے کہ عید کی خوشی اور محرم کا سوگ نواز شریف اور عمران خان کے ووٹر علیحدہ علیحدہ منائیں؟
سیلاب کی تباہی ہو یا وزیرستان آپریشن سے بے گھر ہونے والے افرادکا المیہ، دھرنوں اور جلسے جلوسوں نے ہر دکھ اور سکھ متنازعہ بنادیا ہے، ہمارے مشترکہ مسائل کو تقسیم اور ہمیں منتشر کردیاہے۔ ایک چودہ اگست دھرنے اور نئے پاکستان کا تھا اور ایک پرانے پاکستان کا، اس برس پہلی بار سیلاب کا دکھ “گونواز گو”اور “گو عمران گو” والوں کے لئے مختلف ہو چکا تھا، ایک جانب جمہوریت بچانے والوں کی عید تھی تو دوسری جانب جمہوریت گرانے والوں کی۔ کیا حضرت ابراہیم علیہ سلام اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانیاں بھی تحریک انصاف ، عوامی تحریک ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں بانٹ کریاد کی جانی چاہئیں تھی؟47 کے فسادات میں مرنے والے کیا دھاندلی سے منتخب ہوئے تھے یا گونواز گو کے نعرے لگا کر سرحد پار کررہے تھے ؟ موجودہ سیاسی قیادت کیا یہ چاہتی ہے کہ عید کی خوشی اور محرم کا سوگ نواز شریف اور عمران خان کے ووٹر علیحدہ علیحدہ منائیں؟ کیا اب اختلاف رائے کا مطلب یہ ہے کہ قومی تہواروں اور قومی اہمیت کے معاملات کو بھی اپنے اپنے مفادات کے تحت دیکھا جائے ؟
گیارہ لاکھ لوگ کھلے آسمان تلے ہیں لیکن اب کیمرے ان کی طرف نہیں ہیں، ہزارہ اور اہل تشیع چن چن کے مارے جارہے ہیں مگر کسی قلم سے ان کی آہ و بکا ٹپکتی سنائی نہیں دے رہی، جن کے گھر چناب کا پانی بہا لے گیا تھا کوئی ہاتھ ان کے لئے آگے نہیں بڑھا۔ دکھ اس بات کا ہے جلسوں اور دھرنوں کے لئے چندہ اکٹھا کرنے والے کبھی سیلاب زدگان کے لئے امداد اکٹھی کیا کرتے تھے لیکن آج ان کے پاس فرصت نہیں۔
گیارہ لاکھ لوگ کھلے آسمان تلے ہیں لیکن اب کیمرے ان کی طرف نہیں ہیں، ہزارہ اور اہل تشیع چن چن کے مارے جارہے ہیں مگر کسی قلم سے ان کی آہ و بکا ٹپکتی سنائی نہیں دے رہی، جن کے گھر چناب کا پانی بہا لے گیا تھا کوئی ہاتھ ان کے لئے آگے نہیں بڑھا۔ دکھ اس بات کا ہے جلسوں اور دھرنوں کے لئے چندہ اکٹھا کرنے والے کبھی سیلاب زدگان کے لئے امداد اکٹھی کیا کرتے تھے لیکن آج ان کے پاس فرصت نہیں۔
خداراہمارے دکھ سکھ، ریتی رواج، تہوار اور تقریبات سے سیاست کو باہر رکھئے تاکہ ہم ووٹ ڈالنے، احتجاج کرنے، جلوس نکالنے، تنقید کرنے اور دھرنے دینے کے بعد بھی ایک ہی پاکستان کے شہری رہیں، ایک ساتھ بیٹھ کر زندگی گزار سکیں اور اپنے پاکستانی ہونے پر ایک ساتھ فخر کر سکیں۔
حالیہ احتجاجی سیاسی تحریک اور موجودہ حکومت نے محروم لوگوں کے احساس محرومی میں اضافہ کیا ہے ،پنجاب کی سیاست باقی سبھی صوبوں کی سیاست پر کبھی اس قدر حاوی نہ تھی جتنی آج ہے، چھوٹے صوبوں کے مسائل کو جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے وہ وفاق کے لئے دورس خطرات کا باعث بن رہا ہے۔ سندھیوں، مہاجروں، قبائیلیوں، پشتونوں اور سب سے بڑھ کر بلوچوں کی بات کرنے والا کوئی نہیں ہے، نہ حکومت، نہ حزب اختلاف اور نہ ہی احتجاج کرنے والے۔ اس بری طرح سے تمام چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ پاکستان پنجاب ہے جس کا دالحکومت ڈی چوک ہے۔یہ برس ایسا سیاہ برس ہے جس کے دوران ہر آفت ہر مصیبت اور ہر ظلم محض ایک خبر ہے جس کے لئے ہر رہنما مخالف رہنما کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ کیا کشمیریوں کی حمایت کے لئےلندن میں نکالے گئے ملین مارچ میں گو بلاول گو کے نعروں سے ہندوستان پر دباو ڈالا جا چکا ہے کہ وہ اپنے مظالم بند کرے٫ نیویارک میں اقوام متحدہ کے دفاتر کے سامنے گو نواز گو کے نعروں سے پاکستان کی عالمی تنہائی دور ہو چکی ہے؟ کیا سیلاب زدگان کے سامنے دھرنا مخالف تقریروں سے متاثرین کے گھر تعمیر ہو گئے ہیں؟وہ مواقع جب وزیرستان کے بے گھر افراد، سیلاب متاثرین اور کشمیری خبروں میں آنے چاہئے تھے، جب سبھی سیاسی جماعتوں، رہنماوں اور کارکنوں کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر پاکستان کی سالمیت اور وجود کی جنگ لڑنے والی فوج اور بے گھر ہونے والے افراد کے ساتھ کھڑے ہونا تھا تب پہلی بار پاکستان اس قدربے حس اور لاتعلق نظر آیا۔ ہم جو ہر مشکل وقت پر اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے اب ہمیں کیوں اپنے سوا کسی اور جماعت، رہنما یا شہری کا خیال نہیں رہا۔
کیا عمران خان صاحب بھول گئے ہیں کہ شوکت خانم کے لئے ہر پاکستانی نے چندہ دیا تھا، کیا نوازشریف کو یاد نہیں کہ قرض اتارو ملک سنوارو مہم کے لئے ہر پاکستانی آگے آیا تھا، کیا سوات متاثرین اور کشمیر زلزلہ کے متاثرین کے لئے ہر گلی محلہ سے عطیات اکٹھے نہیں ہوئے تھے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ آج ہر کوئی اپنے اپنے کان اور آنکھیں بند کئِے محض حکومت گرانے یا بچانے میں لگا ہوا ہے؟ ان متاثرین اور بے گھرافرادکے لئے، اقلیتوں اور چھوڑے صوبوں کے لئے آج قومی سطح پر نہ مدد کرنے کا جذبہ ہے اور نہ سہارا دینے کا خیال، نہ تو کوئی مرہم رکھنے کو تیار ہے اور نہ ہی کسی کو دکھ سکھ بانٹنے کی فرصت ،پرواہ ہے تو استعفوں کی اور فکر ہے تو اگلے انتخابات کی۔ اس برس کے یوم آزادی سے اب تک تقسیم، انتشار اور تنازعات کے سوا کوئی تبدیلی نہیں آئی، سوائے اس کے کہ وہ مواقع جو اکٹھے مل بیٹھنے کی وجہ بنتے تھے سیاسی مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکے ہیں ہمارے ہاتھ اور کچھ نہیں آیا۔ کوئی انقلاب اس کے علاوہ نہیں آیا کہ اب سبھی کے چہروں پر کالک اور سبھی کے دامن داغدار نظر آنے لگے ہیں، تنقید کا جواب گالی اور اختلاف کے بعد احتجاج سے مسائل حل نہیں ہوئے بڑھے ہیں۔خداراہمارے دکھ سکھ، ریتی رواج، تہوار اور تقریبات سے سیاست کو باہر رکھئے تاکہ ہم ووٹ ڈالنے، احتجاج کرنے، جلوس نکالنے، تنقید کرنے اور دھرنے دینے کے بعد بھی ایک ہی پاکستان کے شہری رہیں، ایک ساتھ بیٹھ کر زندگی گزار سکیں اور اپنے پاکستانی ہونے پر ایک ساتھ فخر کر سکیں۔
کیا عمران خان صاحب بھول گئے ہیں کہ شوکت خانم کے لئے ہر پاکستانی نے چندہ دیا تھا، کیا نوازشریف کو یاد نہیں کہ قرض اتارو ملک سنوارو مہم کے لئے ہر پاکستانی آگے آیا تھا، کیا سوات متاثرین اور کشمیر زلزلہ کے متاثرین کے لئے ہر گلی محلہ سے عطیات اکٹھے نہیں ہوئے تھے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ آج ہر کوئی اپنے اپنے کان اور آنکھیں بند کئِے محض حکومت گرانے یا بچانے میں لگا ہوا ہے؟ ان متاثرین اور بے گھرافرادکے لئے، اقلیتوں اور چھوڑے صوبوں کے لئے آج قومی سطح پر نہ مدد کرنے کا جذبہ ہے اور نہ سہارا دینے کا خیال، نہ تو کوئی مرہم رکھنے کو تیار ہے اور نہ ہی کسی کو دکھ سکھ بانٹنے کی فرصت ،پرواہ ہے تو استعفوں کی اور فکر ہے تو اگلے انتخابات کی۔ اس برس کے یوم آزادی سے اب تک تقسیم، انتشار اور تنازعات کے سوا کوئی تبدیلی نہیں آئی، سوائے اس کے کہ وہ مواقع جو اکٹھے مل بیٹھنے کی وجہ بنتے تھے سیاسی مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکے ہیں ہمارے ہاتھ اور کچھ نہیں آیا۔ کوئی انقلاب اس کے علاوہ نہیں آیا کہ اب سبھی کے چہروں پر کالک اور سبھی کے دامن داغدار نظر آنے لگے ہیں، تنقید کا جواب گالی اور اختلاف کے بعد احتجاج سے مسائل حل نہیں ہوئے بڑھے ہیں۔خداراہمارے دکھ سکھ، ریتی رواج، تہوار اور تقریبات سے سیاست کو باہر رکھئے تاکہ ہم ووٹ ڈالنے، احتجاج کرنے، جلوس نکالنے، تنقید کرنے اور دھرنے دینے کے بعد بھی ایک ہی پاکستان کے شہری رہیں، ایک ساتھ بیٹھ کر زندگی گزار سکیں اور اپنے پاکستانی ہونے پر ایک ساتھ فخر کر سکیں۔
تبصرے
Very touching. must be shared to our common people. These all politicians are opportunist. But from where we can found leadership? Oh God! everywhere is darkness, no hope.