Laaltain

خود مختار، میری جوتی! ۔

23 جنوری، 2014
Picture of طارق متین

طارق متین

طارق متین

Khud-mukhtar

پاکستان تحریک الزام کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایک “بونگے بچے” کی نیکر جتنے خود مختار ہیں جسے شرارتی بچے بار بار نیچے سرکا دیتے ہیں اور بونگے پن اور بزدلی سے واقف ہونے کے باعث یہ شریر بچے نیکر سرکاکر بھاگنے کی بجائے سامنے کھڑے ہو کر مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ بیچ بھرے بازار رسوائی کے بعد اپنی خود مختاری سنبھالنے، ناک سکیڑتے گالیاں بکنے اور پتھر اٹھا کر پھینکنے کے سوا اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے؟؟

کراچی میں ابھی تین شہادتیں اور ملک بھر میں درجن سے زائد حملے، پولیو مہم کا بار بار تعطل ؛ یہ حملے ہماری خود مختاری پر حملہ ہیں خان صاحب! جان لیجئے ہماری خود مختاری پر حملہ بنوں میں ہوا، آر اے بازار میں ہوا، سوات میں، مردان میں، چار سدہ میں ہوا، صحافیوں پر حملے میں ہوا۔

ڈرون کی سیاست پر جینے والی تحریک الزام ذرا یہ تو بتادے کہ ہماری خودمختاری پر حملہ ڈرون ہے یا “پولیوبان”۔ داڑھی اور بغیر داڑھی کے پی کے حکومت میں شامل ہر دو طرح کی جماعت اسلامی کو پتہ ہونا چاہئے کہ ڈھائی سو کی دیہاڑی پر اپنے بچوں کو گھر چھوڑ کر جو لیڈی ہیلتھ ورکر گھر سے نکلتی ہے تو سردی گرمی نہیں دیکھتی۔ ایک صحت مند مرد بھی اپنا بچہ گود میں اٹھالے تو کچھ دیر بعد بازو بدلنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہ خواتین ایک وزنی کولر تھامے برائے نام سہولتوں کے ساتھ گھر گھر پیدل چکر لگاتی ہیں۔ دروازے کھٹکھٹاتی ہیں، ‘ہم پولیو کے قطرے پلانے آئے ہیں، آپ کے گھر میں پانچ سال تک کی عمر کے بچے ہیں؟’ اور پھر جواب میں کہیں حالات کے ڈسے اور کہیں خصلت سے مجبور لوگ ایسی ہی نگاہوں سے دیکھتے ہیں جیسے کوئی مانگنے والا سامنے ہو یا چھوٹتے ہی ڈکیتی کا شبہہ۔ کسی خدمت انجام دینے والے کی ایسی تضحیک دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہوتی مگر ہم! ہم زندہ قوم ہیں پایندہ قوم ہیں ہم سب کی ہے پہچان پوری دنیا میں پولیو بان۔ اور اس تضحیک پر مرے کو سو درے یہ کہ سڑک کی تعمیر کے ٹھیکے سے لے کر حج پر خدا کی بستی کو دکاں بنانے تک کے ہڑپشن کے ماہر عوام کے ووٹ سے پانچ سال کے لیے آنے والے عوام کے نوکر عوام کی زندگی حرام کرکے عوام کی گردن پر سوار محافظوں کی فوج کے جھرمٹ میں کیمرے کے گھونگٹ الٹ کر پوری قوم کو اپنی” دلہن” سمجھتے ہیں۔ فرمان جاری ہوتا ہے جتنی سیکیورٹی مل رہی ہے کافی ہے۔

یہاں دردر مسیحائی کرتی پولیوورکرز پابند ہیں اور موت بانٹنے والے بے خطر، گلی گلی کی خبر دینے والی آوازیں گنگ ہیں۔

کراچی میں ابھی تین شہادتیں اور ملک بھر میں درجن سے زائد حملے، پولیو مہم کا بار بار تعطل ؛ یہ حملے ہماری خود مختاری پر حملہ ہیں خان صاحب! جان لیجئے ہماری خود مختاری پر حملہ بنوں میں ہوا، آر اے بازار میں ہوا، سوات میں، مردان میں، چار سدہ میں ہوا، صحافیوں پر حملے میں ہوا۔ چوہدری اسلم پر حملے میں ضرب ہماری خود مختاری پر آئی۔ جسے اعتزاز نے ناکام بنایا وہ خودکش حملہ آور ہماری ریاست اور اس کے آئین پر حملہ آور ہونے کو لپکا تھا! ایک ملالہ نہیں تعلیم کے حق کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو سوات طالبان نے دبانے کی کوشش کی ہے۔ جو دہشت گرد اور قیدی بنوں اور ڈی آئی خان کی جیلوں پر ہونے والے حملوں میں بھگا لئے گئے وہ پاکستانی ریاست اور عوام کے مجرم تھے، ہماری خودمختاری کی چادر کا تقدس میرے پیارے کپتان پامال ہواتھا جب زیارت پر حملہ ہوا۔ جب کوئٹہ میں طالبات کی بس پر حملہ ہوا۔ جب بولان میڈیکل کمپلیکس پر حملہ ہوا، جب سعد خان شہید ہوا، جب صفوت غیور شہید ہوا، جب راولپنڈی سے کراچی تک ہمارے عسکری اداروں پر حملہ ہواتو خودمختاری کی اینٹ سے اینٹ بجی تھی۔ تسلیم کہ جب ڈرون طیاروں سے ہلاکتیں ہوتی ہیں تو بے گناہ مارے جاتے ہیں لیکن جب بم پھٹتا ہے، جب اپنی خود ساختہ جنت کا راہی پھٹتا ہے تو کیا بلی کے بچے مرتے ہیں۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والوں کا مسلک کوئی بھی ہے، قومیت بہرطور پاکستانی ہی ہے۔

زندگی بچانے کے لئے زندگی چھیننے والوں کے سامنے مزاحمت کرنی ہو گی۔ دشمن کو دشمن کہہ کر بات کرنی ہو گی۔

اگرتحریک الزام جاننا چاہے تو خودمختاری کی تعریف بھی آپ کے لیے پیش خدمت ہے لغت کی رو سے خودمختاری کا مطلب آزادی اور خود اختیاری کا تحفظ ہے۔ تو ہمارے عزیز وطن میں آزاد کون ہے وہی جس کے وکیل آپ ہیں، وہ جو سکول اڑانے کے لیے آزاد ہیں۔ محبت، امن اور سکون کی گہوارہ خانقاہوں کے صحن جن کی دہشت سے سمٹنے لگے ہیں، جن کی برسائی گولیوں سے دعاوں کے دامن چھلنی ہیں۔ جن کے خوف سے ڈھولچیوں کو ماترے بھول گئے ہیں اور دھمالیوں کے گھنگھرووں کا وجدان ساکت ہو گیا ہے۔ عزاداروں کے پاس رونے کو آنسو نہیں اورغم حسین کے ساتھ اب ہر گھر کا غم بھی اتنا ہی تازہ ہے۔ یہاں دردر مسیحائی کرتی پولیوورکرز پابند ہیں اور موت بانٹنے والے بے خطر، گلی گلی کی خبر دینے والی آوازیں گنگ ہیں۔ اور دھمکیاں ہر کان کو سنائی دے جاتی ہیں۔ محافظوں اور رکھوالوں کے ہاتھ بندھے ہیں اور غنیم کا راستہ کھلا ہے۔ غلامی کی باتیں کرنے والے میرے کرکٹرکپتان آپ کی گالیاں میدان میں کمزور کھلاڑیوں پر اثر کرتی تھیں مگر آپ کی کمزور اپیل منہ زور خودمختاروں پر اثر نہیں کرتی۔ حقیقیت یہ ہے کہ تنی ہوئی بندوق جھکانے کے لیے گری ہوئی بندوق اٹھانی پڑتی ہے، زندگی بچانے کے لئے زندگی چھیننے والوں کے سامنے مزاحمت کرنی ہو گی۔ دشمن کو دشمن کہہ کر بات کرنی ہو گی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *