عمید ملک

Foi report

پاکستان مختلف لسانی اور نسلی گروہوں کا مجموعہ ہے اور پاکستان کے بہت سے ثقافتی مسائل کی جڑ مختلف گروہوں میں آپس کی سماجی اجنبیت اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہے۔ اب تک مقتدر حلقوں نے لوگوں کی گروہی شناختوں کو قبول کرنے کی بجائے ان کی نفی کرتے ہوئے، گروہوں کے مابین فاصلے بڑھائے ہیں، جس سے یہ ثقافتی گروہ قومی دھارے کا حصہ بننے کی بجائے، ان میں رسہ کشی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر کوئی اپنی ہی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان کا ہر کونہ دوسرے دوسرے سے اجنبی ہے اور جہاں ہمیں یہ تمام گروہ اکٹھے نظر آتے ہیں، وہاں ان فاصلوں کی وجہ سے کراچی کے سے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ مقتدر حلقے ان تمام گروہوں کو ایک اعتماد دیں اور برابری کی سطح پر ان کے حقوق انہیں لوٹائیں۔

گزشتہ ہفتے اسی ثقافتی رنگارنگی کو جس احسن رنگ میں خودی پاکستان کے فیسٹیول آف آئیڈیاز میں نمایاں کیا گیا ہے، وہ داد کے قابل ہے۔ خودی پاکستان نے ملک کے تقریبا تمام نسلی و لسانی گروہوں کے نمائندوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا کہ وہ سب ایک ساتھ ایک جشن کی صورت میں منا سکیں۔

آج کا پاکستان جس سماجی ابتری کا شکار ہے اور جس طرح پاکستانی ایک دوسرے سے اجنبی ہیں، ایسے میں ڈھول کی تھاپ پر پیچیدہ مسائل کو زیر بحث لانا مختلف گروہوں کا ان پر مکالمہ کروانا ان کی مخالفانہ آراء لینا اور پھر مسائل کے حل کی طرف گامزن ہونا، پاکستانی قوم کے مزاج کے لحاظ سے جوے شیر لانے کے مترادف ہے۔

آج کا پاکستان جس سماجی ابتری کا شکار ہے اور جس طرح پاکستانی ایک دوسرے سے اجنبی ہیں، ایسے میں ڈھول کی تھاپ پر پیچیدہ مسائل کو زیر بحث لانا مختلف گروہوں کا ان پر مکالمہ کروانا ان کی مخالفانہ آراء لینا اور پھر مسائل کے حل کی طرف گامزن ہونا، پاکستانی قوم کے مزاج کے لحاظ سے جوے شیر لانے کے مترادف ہے۔ خودی پاکستان نے یہ تمام کام نہایت احسن رنگ میں سرانجام دیا ہے۔

خودی پاکستان کے میلے کا آغاز جمعہ کے روز مصنف، فلم ساز و سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کی تقریر سے ہوا جس میں انہوں نے ان خیالات کا اظہار کیا پاکستان کا وجود اپنے آپ میں ایک نیا خیال تھا۔ ملک کے قیام کے وقت وسائل نہایت قلیل تھے۔ ایسے میں انتھک محنت، لگن اور ایمان کی وجہ سے پاکستان آج اس مقام پر کھڑا ہے۔

ابتدائی تقریر کہ بعد ملک کے مختلف مقامات سے آئے ہوئے نمائندوں نے اپنی اپنی مقامی موسیقی پر رقص پیش کیا۔ یہ منظر بڑے دلفریب تھے کیونکہ اس سے تمام مختلف علاقوں سے آئے ہوئے نوجوان نمائندوں کو ایک دوسرے سے گھلنے ملنے کا موقع ملا اور اجنبیت کا خاتمہ ہوا۔ نوجوان دوسرے علاقوں کی لوک موسیقی پر رقص سے ناصرف محظوظ ہوتے رہے بلکہ بہت سوں نے خود اس میں شرکت بھی کی۔ فیسٹیول میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ تمام علاقوں کی موسیقی کو موقع ملے۔ میکال حسن بینڈ نے بھی جب دوسرے دن اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو تمام صوبوں اور علاقوں کے گیتوں کو جگہ دی۔ نوجوان ٹولیاں اس دوران رقص کرتی رہیں۔ البتہ رقص کا انداز روایتی گیتوں کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا اور اس تدبیر سے مکالمہ کے لیے نہایت سازگار ماحول پیدا ہو گیا۔

ہم جدید دنیا کو قدیم عینک سے دیکھ رہے ہیں، ممتاز قانون دان اور کالم نگار سروپ اعجاز کا کہنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملالہ کے خیالات ہمیں پریشان کر دیتے ہیں، کیونکہ یہ ہماری 15-16 سال کی لڑکی کے بارے میں روایتی سوچ سے مطابقت نہیں کھاتے۔ ایک موقعہ پر انہوں نے کہاکہ لبرل حلقوں کو اب مشہور قدامت پرستانہ نظریات کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔

دوسرے دن کے سیشن کا آغاز جمہوری تغیر کے عنوان پر نشست سے ہوا۔ شرکاء میں جناب طاہر مہدی، فہد حسین، اور ڈاکٹر تیمور رحمان شامل تھے۔ اس نشست میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جمہوریت صرف ایک طرز حکمرانی نہیں بلکہ یہ ایک طرز زندگی ہے۔اصل جمہوری تبدیلی لانے کے لئے ہمیں جمہوری روایات کو گھر اور دفاتر سمیت زندگی کے تمام پہلووں پر نافذ کرنا چاہیے۔
ایک اور نشست میں بانی جماعت اسلامی کے بیٹے حیدر فاروق مودودی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مذہب کے بےجا سیاسی استعمال نے پاکستان کو جہنم بنا دیا ہے۔ انھوں نے مزید کہاکہ پاکستان کسی مذہبی اختلاف کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے سیاسی وجوہات تھیں۔ انھوں نے مذہب کو ریاست کے معاملات سے جدا رکھنے پر زور دیا۔

دوسرے دن کی کاروائی میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز اے این پی کے مرکزی لیڈر اور سابق صوبائی وزیر میاں افتخار حسین کی تقریر تھی۔ میاں افتخار حسین نے شدت پسندی اور طالبانائزیشن کی روک تھام پر کلیدی خطاب کیا۔ اپنے خطاب کے دوران سابق وزیر نے پی ٹی آئی کی موجودہ مذاکراتی عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے مذاکرات کے لئے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا اور یہ سارا بوجھ وفاق کے کندھوں پر ڈال کہ سبکدوش ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان نے اب تک طالبان کے 53 دھڑوں میں سے جن کا وہ کہتے ہیں مذاکراتی عمل شروع نہیں کیا۔ میاں افتخار حسین سے کہا کہ اگر میرے جیسا سیاسی ورکر طالبان کے آفس بتا سکتا ہے تو پھر حکومت کو کیسے نہیں پتہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے شدت پسندی کے خلاف اپنی سوچ نہ بدلی اور اور شدت پسندوں کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا تو اے این پی کے 800 سے زائد شہید ورکرز کی قربانیاں رائیگاں جائیں گی جن میں ایک میرا بیٹا بھی ہے۔ سابق وزیر نے طالبان سے مذاکرات کے ضمن میں اپنے ذاتی تجربات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہاکہ مذاکرات کرنا پک نک منانے کی طرح نہیں کہ طالبان پشاور میں آفس کھول لیں۔ بلکہ مذاکرات میں بھی جان ہتھیلی پر رکھنا پڑتی ہے اور طرح طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایاز امیر صاحب نے کہاکہ مولوی کبھی بھی اتنا طاقتور نہیں ہوا تھا کہ وہ ریاست کو ان حالات تک پہنچا دے، ملک کے موجودہ حالات کا ذمہ دار مولوی نہیں بلکہ سول اور ملٹری لیڈر شپ کا سیکولر طبقہ ہے۔

فیسٹیول کا تیسرا اور آخری دن کافی گہما گمی کا مرکز رہا۔ سنسر شپ اور عوامی مکالمہ پر گفتگو کے دوران شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تاریخ میں ردوبدل اور مذہبی اوہام پرستی نے پاکستانی معاشرے کو مکالمے اور اختلاف کے بارے میں عدم برداشت کا شکار کر دیا ہے۔ معروف قانون دان یاسر لطیف ہمدانی نے اس بات پر زور دیاکہ اگر ہم پاکستان کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ریاست سے مذہب کو علیحدہ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا معاشرہ جو واحد فکری نظام کو نافذ کرنے پر مائل ہو وہاں کسی مخالف رائے کو برداشت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ محقق عامر مغل کے مطابق پاکستانی مسائل کے حل سے فرار کے لئے مسائل کے وجود کی ہی نفی کر دیتے ہیں۔

ایک اور نشست جو پاکستان عالمی میدان میں کے موضوع پر تھی شرکاء نے اتفاق کیا کہ پاکستانیوں کی دنیا کے بارے میں رائے عدم اعتماد اور حقارت پر مبنی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دنیا کے بارے میں اپنا علم بڑھائیں تاکہ ہمارا روایتی تنگ نظر طرز عمل تبدیل ہوسکے کہ دنیا ہمارے ملک کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔

ہم جدید دنیا کو قدیم عینک سے دیکھ رہے ہیں، ممتاز قانون دان اور کالم نگار سروپ اعجاز کا کہنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملالہ کے خیالات ہمیں پریشان کر دیتے ہیں، کیونکہ یہ ہماری 15-16 سال کی لڑکی کے بارے میں روایتی سوچ سے مطابقت نہیں کھاتے۔ ایک موقعہ پر انہوں نے کہاکہ لبرل حلقوں کو اب مشہور قدامت پرستانہ نظریات کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ دار ہمارا کمزور تعلیمی نظام ہے جو غور و فکر کی نفی کرتا ہے۔

جو بات اس فیسٹیول کی خاص تھی وہ یہ کہ اس فیسٹیول میں اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ مسائل کا حل امن و امان سے یکسو ہو کر ڈھونڈا جائے۔ تمام شرکاء کی رائے لی جائے مگر روز روز کے ٹی وی ٹاک شوز کی طرح جمعہ بازار نہ لگایا جائے۔

دانش مصطفیٰ جو کنگز کالج لندن میں جیوگرافی کے پروفیسر ہیں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنے ہوئے کہاکہ پاکستان خارجی تنہائی کا شکار ہے،’اسلام خطرے میں ہے’ جیسی سوچ نے ہمیشہ ہمیں دنیا سے خوف میں مبتلا رکھا۔
فیسٹیول کا اختتام معروف سیاست دان اور کالم نگار ایاز امیر کی تقریر پہ ہوا۔ ایاز امیر صاحب نے کہاکہ مولوی کبھی بھی اتنا طاقتور نہیں ہوا تھا کہ وہ ریاست کو ان حالات تک پہنچا دے، ملک کے موجودہ حالات کا ذمہ دار مولوی نہیں بلکہ سول اور ملٹری لیڈر شپ کا سیکولر طبقہ ہے۔ سابق پارلیمنٹرین نے کہاکہ جناح کی وفات کے بعد ایک کے بعد دوسرا بد سے بدتر لیڈر آتا گیا اور یہی پاکستان کی بدبختی ہے۔ موجودہ وزیراعظم کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حالیہ امریکا کے دورے کے دوران باراک اوباما کے سامنے ہمارا وزیرِاعظم ایک سہما ہوا جوان طالبعلم لگ رہا تھا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ آج پاکستان کو درست لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو پاکستان کو صحیح سمت فراہم کر سکے۔ ایاز امیر نے کہا پاکستان کو دو تاریخی واقعات نے بہت تبدیل کیا۔ ایک 1965 کی جنگ نے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کی خلیج آگئی اور دوسرا افغان جنگ نے جس نے سماجی طور پر پاکستان کو بہت متاثر کیا۔

ایاز امیر صاحب کی تقریر کے بعد خودی فیسٹیول آف آئیڈیاز اختتام پذیر ہوگیا مگر جو بات اس فیسٹیول کی خاص تھی وہ یہ کہ اس فیسٹیول میں اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ مسائل کا حل امن و امان سے یکسو ہو کر ڈھونڈا جائے۔ تمام شرکاء کی رائے لی جائے مگر روز روز کے ٹی وی ٹاک شوز کی طرح جمعہ بازار نہ لگایا جائے۔ بلا شبہ جس طرح مسائل کے حل کو اجتماعی جستجو سے ڈھونڈنے کی جو روایت "خودی پاکستان” نے شروع کی ہے اس کو قائم رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔


فیسٹیول کی تصاویر کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
https://www.facebook.com/khudipakistan/photos_stream


Leave a Reply