کراچی میں اسماعیلی برادری کے قتل عام کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بعض ایسے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے جنہیں اسماعیلی افراد کے قتل عام اور کراچی میں سبین محمود کے قتل کے علاوہ دہشت گردی کی کئی دوسری وارداتوں میں ملوث قرار دیا جارہا ہے۔انکشافات خاصے حیران کن ہیں لیکن غیر متوقع نہیں۔پاکستان سمیت کئی دوسرے ممالک میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت ایک بڑے گھمبیر مسئلے کا رخ اختیار کر چکی ہے اور مغربی ممالک میں اس حوالے سے کئی اقدامات تجویز کیے جارہے ہیں۔مثال کے طور پر دہشت و بربریت کی دلدادہ دولت اسلامیہ کے ارکان کی سب سے بڑی تعداد دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔بیرونی محاذوں پر مہمان اور رضاکارانہ انتہا پسندی کا بڑھتا ہوا رحجان اسلامی ممالک اور معاشروں کے لیے ایک براہ راست تشویشناک عنصراور خطرہ ہے۔ہمارے ہاں چوں کہ حقائق سے جان بوجھ کر نظریں پھیرنا ایک مخصوص قسم کی حب الوطنی اور حب اسلامی کے زمرے میں آتا ہے اس لیے ہم ابھی تک اپنے ملک اور سماج کو لاحق انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے اجزائے ترکیبی کا مکمل جائزہ نہیں لے پائے۔ اس کے اثرات اور مستقبل میں اس سے نبٹنے کے بارے میں کیا لائحہ عمل تیار کریں گے، کوئی نہیں جانتا۔اوراگر کہیں ایسی کوئی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستانی ریاست کو لاحق دہشت گردی اور فرقہ واریت کے حقیقی ماخذات کو سامنے لایا جائے تو لاتعداد مہم جو حملہ آور ہوجاتے ہیں اور اس طرح کے کام کو اسلام اور پاکستان کے خلاف گہری سازش سے جوڑ دیتے ہیں، جس کے بعدکچھ بھی نہیں بدلتا ۔ہم یہ تک نہیں سوچنا چاہتے کہ ہمارے اپنے بھائی بند جو کسی نہ کسی طرح انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی لہر میں شامل ہوگئے آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جو اِنہیں اس انتہائی قسم کے اقدام کی طرف لے آئیں۔
ہمارے ہاں چوں کہ حقائق سے جان بوجھ کر نظریں پھیرنا ایک مخصوص قسم کی حب الوطنی اور حب اسلامی کے زمرے میں آتا ہے اس لیے ہم ابھی تک اپنے ملک اور سماج کو لاحق انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے اجزائے ترکیبی کا مکمل جائزہ نہیں لے پائے
اس ضمن میں سب سے زیادہ دہرائی جانے والی منطق یہ ہے کہ ایسا سب کچھ اغیار کے ہاتھوں سرانجام پایا ہے اور یہودو نصاری کے ساتھ ساتھ ہنود کے شیطانی ہاتھوں نے ہمارے معصوم نوجوانوں کو ورغلا کر ہمارے ہی خلاف استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔لیکن اس منطق کو منطقی انجام دینے کے لیے کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاتا کہ اگر ایسا ہی ہوا ہے تو آخر اس کا بھی تو کوئی نہ کوئی علاج یا حل ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مصیبت کا حل وہ بتاتے ہیں جو اس صورت حال سے پھوٹنے والے فوائد سے براہ راست منسلک ہیں اور اُن کا تیارکردہ سادہ ترین حل یہ ہے کہ یہود و نصاری اور ہنود کے ساتھ فوری طور پر حتمی جنگ چھیڑ دی جائے اور اس فتنے کو نیست و نابود کردیا جائے۔اب مصیبت یہ ہے کہ مذکورہ بالا تینوں غلیظ فتنوں کو کیسے یک لخت نیست و نابود کردیا جائے؟ریاستوں کی معیشت جذبہ ایمانی سے زیادہ دوسرے عوامل پر پھلتی پھولتی ہے اور ہماری معیشت اس قدر لاغر ہے کہ اغیار کی بیساکھیوں کے بغیر ایک قدم نہیں اُٹھا سکتی۔ہم یہ تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ ہماری ریاست اندر سے کھوکھلی ہورہی ہے اور اس کے دشمن اندر ہی اندر توانا ہوگئے ہیں۔نہ صرف دہشت گردی کے بیشتر ذرائع اندرونی ہیں بلکہ اب اس قابل بھی ہیں کہ باقی دنیا کو اپنی’’پیداوار‘‘ برآمد کرسکیں۔یہ ایک مہلک قسم کی مصلحت ہے یا خوف کہ ہم اِن ذرائع کی طرف اشارہ بھی نہیں کرسکتے، پچھلے دنوں ایک وفاقی وزیر نے محض اشارے کی مدد سے مقامی انتہا پسندوں کی کمین گاہوں کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش تو اِنہیں اپنی جان اور وزارت کے لالے پڑگئے۔عین ممکن ہے اُنہیں نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی جائے کیوں کہ اُنہوں نے جو سچ بولا ہے وہ کسی طور ہضم نہیں ہورہا۔
جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک،جامع ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ،جامع منبع العلوم میران شاہ،جامع بنوریہ،جامع اسلامہ نیو ٹاون،جامعہ فاروقیہ،جامعہ رشیدیہ ،خیر المدارس،مدرسہ عثمان و علی اور سب سے بڑھ کر جامع محمدیہ کبیر والا نے جس قسم کا کردار پاکستان میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے حوالے سے ادا کیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی
اب یہ انتہائی ناگزیر ہے کہ ہم پاکستان کے اندر پلنے والی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے مقامی ذرائع کو غور سے دیکھیں اور اس حوالے سے معاون عناصر کی حقیقی نشاندہی کریں تاکہ مسئلے کا تدارک کیا جاسکے۔ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ کیوں ہمارے تعلیمی ادارے تعلیم یافتہ ماہرین کے ساتھ ساتھ دہشت گرد بھی پیدا کرنے لگے ہیں؟ ایسا کیا ہوا ہے کہ ایک انتہائی تعلیم یافتہ نوجوان دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوکر قتل و غارت کرنے پر اُتر آتا ہے؟کیا یہ سب کچھ اغیار کی کوششوں کا نتیجہ ہے یا ہمارے ہاں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں اور فرقہ پرستوں نے ریاست کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے اور اِن کی رسائی اس قدر مضبوط اور جاندار ہے کہ لاتعداد تعلیم یافتہ نوجوان قتل وغارت گری میں ملوث ہوچکے ہیں۔ ایک ایسا موقف جس کو قبول عام کا درجہ حاصل ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں جاری دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ہمارے مدارس کا کوئی کردار نہیں۔بعض بد بخت دین بیزار عناصر محض مدارس کو بدنام کرنے کے لیے اس قسم کی افواہیں پھیلاتے ہیں کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت میں مدارس مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔اسلام دشمن طاقتیں دینی مدارس کو ختم کروانا چاہتی ہیں تاکہ پاکستان کو سیکولر ملک بنانے میں آسانی رہے۔
ہمارے ہاں اس دعوئے کا رد اس لیے نہیں کیا جاتا کہ ملک میں تحقیقاتی صحافت کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے اور مٹھی بھر ایسے صحافی جو ملک میں جاری دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت پر لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ مدارس کی طرف اس لیے رجوع نہیں کرتے کہ اس کام میں خطرات بہت زیادہ ہیں۔مثال کے طور پر کوئی بھی مقامی صحافی یہ نہیں لکھ سکتا کہ پاکستان اور افغانستان میں طالبانائزیشن کا سہرا خیبر پختونخواہ اور کراچی کے مدارس کے سر بندھتا ہے۔جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک، جامع ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ، جامع منبع العلوم میران شاہ، جامع بنوریہ،جامع اسلامہ نیو ٹاون، جامعہ فاروقیہ،جامعہ رشیدیہ ،خیر المدارس، مدرسہ عثمان و علی اور سب سے بڑھ کر جامع محمدیہ کبیر والا نے جس قسم کا کردار پاکستان میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے حوالے سے ادا کیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔اِن مدارس کے ہزاروں طالب علم جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر میں کام آئے ہیں اور آج بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں سے لے کر سینٹرل ایشیاء تک اِنہیں سرگرم دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن مقامی سطح پر اس حوالے سے کوئی تشویش نہیں پائی جاتی بلکہ اِن مدارس کے بارے میں مبالغہ آمیز داستانیں سنائی جاتی ہیں اوراگر کوئی اِن کی طرف انگلی اُٹھانے کی کوشش بھی کرے تو اس کی خیر نہیں۔آج تک کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ پورے ملک میں فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے اور خودکش حملوں سے لے کر ٹارگٹ کلنگ تک ہورہی ہے، سماجی طور پر فرقہ وارانہ تقسیم واضح طور پر نظر آتی ہے، کیا یہ تمام ’’مصنوعات‘‘ دین بیزار لوگوں کی تیارکردہ ہیں؟ مسیحیوں اور ہندووں کی بستیوں پر حملے ہوتے ہیں، بے گناہوں کو توہین کے الزامات کے تحت سربازار قتل کردیا جاتا ہے،گورنر،ڈی سی،ایس ایس پی،کمشنر،وفاقی وزیر جیسے عہدیدار قتل کردئیے جاتے ہیں اور اِن تمام وارداتوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے،بچوں کے سکولوں پر وحشیانہ حملے ہوتے ہیں،پاکستانی افواج کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔کیا اِن تمام وارداتوں کا ارتکاب کرنے والے لاہور کے حلقہ ارباب ذوق سے آئے تھے؟ بوٹا ٹی سٹال پرانی انارکلی میں برسوں سے علمی محفلیں برپا کرنے والے چھ سات سرخوں نے یہ خون کی ہولی کھیلی ہے؟ یااِن تمام وارداتوں کی منصوبہ بندی نجم سیٹھی،عاصمہ جہانگیر،ڈاکٹر مہدی حسن،ڈاکٹر مبارک علی،ڈاکٹر مبارک حیدر،وجاہت مسعود،ایاز امیر،حسن نثار وغیرہ نے کی ہے؟
یہ سارا کام ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں،فرقہ پرست گروہوں اور پاکستان میں القاعدہ کے سہولت کاروں نے سرانجام دیا ہے اور اس کے لیے افرادی قوت ہمارے عظیم مدارس کی مہیا کردہ ہے۔اگر یقین نہ آئے تو اِن مدارس کے ماہانہ مجلے دیکھ لیے جائیں، اِن کے اداریے پڑھ لیے جائیں اور سب سے بڑھ کر ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس میں کی جانے والی جہادی و فرقہ وارانہ تقریریں سن لی جائیں۔اگر کوئی غیر جانبدار محقق صرف ماہنامہ الحق، ماہنامہ القاسم،ماہنامہ لولاک، ماہنامہ صدائے مجاہد، ماہنامہ الہلال، ماہنامہ بنات عائشہ، ماہنامہ خلافت راشدہ، ماہنامہ المرابطون، ہفت روزہ انصار اُمہ، ماہنامہ الحرمین اور ماہنامہ آب حیات ہی پڑھنے کی زحمت کرلے تو وہ آسانی سے دہشت گردی و فرقہ واریت کا ماخذوں کا کھوج لگا سکتا ہے۔لیکن چوں کہ عامتہ الناس کو یہ باور کروادیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل نہیں کرسکتا اور پاکستان جو اسلام کا قلعہ ہے اس میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کے تمام واقعات بیرونی ہاتھ کی کارستانی ہے تاکہ پاکستان کو کمزور کیا جاسکے، اس لیے ایسی کوئی کوشش بھی بے سود ہوگی جو مقامی دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کی جائے۔
ہمارے ہاں اس دعوئے کا رد اس لیے نہیں کیا جاتا کہ ملک میں تحقیقاتی صحافت کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے اور مٹھی بھر ایسے صحافی جو ملک میں جاری دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت پر لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ مدارس کی طرف اس لیے رجوع نہیں کرتے کہ اس کام میں خطرات بہت زیادہ ہیں۔مثال کے طور پر کوئی بھی مقامی صحافی یہ نہیں لکھ سکتا کہ پاکستان اور افغانستان میں طالبانائزیشن کا سہرا خیبر پختونخواہ اور کراچی کے مدارس کے سر بندھتا ہے۔جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک، جامع ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ، جامع منبع العلوم میران شاہ، جامع بنوریہ،جامع اسلامہ نیو ٹاون، جامعہ فاروقیہ،جامعہ رشیدیہ ،خیر المدارس، مدرسہ عثمان و علی اور سب سے بڑھ کر جامع محمدیہ کبیر والا نے جس قسم کا کردار پاکستان میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے حوالے سے ادا کیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔اِن مدارس کے ہزاروں طالب علم جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر میں کام آئے ہیں اور آج بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں سے لے کر سینٹرل ایشیاء تک اِنہیں سرگرم دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن مقامی سطح پر اس حوالے سے کوئی تشویش نہیں پائی جاتی بلکہ اِن مدارس کے بارے میں مبالغہ آمیز داستانیں سنائی جاتی ہیں اوراگر کوئی اِن کی طرف انگلی اُٹھانے کی کوشش بھی کرے تو اس کی خیر نہیں۔آج تک کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ پورے ملک میں فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے اور خودکش حملوں سے لے کر ٹارگٹ کلنگ تک ہورہی ہے، سماجی طور پر فرقہ وارانہ تقسیم واضح طور پر نظر آتی ہے، کیا یہ تمام ’’مصنوعات‘‘ دین بیزار لوگوں کی تیارکردہ ہیں؟ مسیحیوں اور ہندووں کی بستیوں پر حملے ہوتے ہیں، بے گناہوں کو توہین کے الزامات کے تحت سربازار قتل کردیا جاتا ہے،گورنر،ڈی سی،ایس ایس پی،کمشنر،وفاقی وزیر جیسے عہدیدار قتل کردئیے جاتے ہیں اور اِن تمام وارداتوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے،بچوں کے سکولوں پر وحشیانہ حملے ہوتے ہیں،پاکستانی افواج کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔کیا اِن تمام وارداتوں کا ارتکاب کرنے والے لاہور کے حلقہ ارباب ذوق سے آئے تھے؟ بوٹا ٹی سٹال پرانی انارکلی میں برسوں سے علمی محفلیں برپا کرنے والے چھ سات سرخوں نے یہ خون کی ہولی کھیلی ہے؟ یااِن تمام وارداتوں کی منصوبہ بندی نجم سیٹھی،عاصمہ جہانگیر،ڈاکٹر مہدی حسن،ڈاکٹر مبارک علی،ڈاکٹر مبارک حیدر،وجاہت مسعود،ایاز امیر،حسن نثار وغیرہ نے کی ہے؟
یہ سارا کام ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں،فرقہ پرست گروہوں اور پاکستان میں القاعدہ کے سہولت کاروں نے سرانجام دیا ہے اور اس کے لیے افرادی قوت ہمارے عظیم مدارس کی مہیا کردہ ہے۔اگر یقین نہ آئے تو اِن مدارس کے ماہانہ مجلے دیکھ لیے جائیں، اِن کے اداریے پڑھ لیے جائیں اور سب سے بڑھ کر ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس میں کی جانے والی جہادی و فرقہ وارانہ تقریریں سن لی جائیں۔اگر کوئی غیر جانبدار محقق صرف ماہنامہ الحق، ماہنامہ القاسم،ماہنامہ لولاک، ماہنامہ صدائے مجاہد، ماہنامہ الہلال، ماہنامہ بنات عائشہ، ماہنامہ خلافت راشدہ، ماہنامہ المرابطون، ہفت روزہ انصار اُمہ، ماہنامہ الحرمین اور ماہنامہ آب حیات ہی پڑھنے کی زحمت کرلے تو وہ آسانی سے دہشت گردی و فرقہ واریت کا ماخذوں کا کھوج لگا سکتا ہے۔لیکن چوں کہ عامتہ الناس کو یہ باور کروادیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل نہیں کرسکتا اور پاکستان جو اسلام کا قلعہ ہے اس میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کے تمام واقعات بیرونی ہاتھ کی کارستانی ہے تاکہ پاکستان کو کمزور کیا جاسکے، اس لیے ایسی کوئی کوشش بھی بے سود ہوگی جو مقامی دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کی جائے۔
اگر کوئی غیر جانبدار محقق صرف ماہنامہ الحق، ماہنامہ القاسم، ماہنامہ لولاک، ماہنامہ صدائے مجاہد، ماہنامہ الہلال، ماہنامہ بنات عائشہ، ماہنامہ خلافت راشدہ، ماہنامہ المرابطون، ہفت روزہ انصار اُمہ، ماہنامہ الحرمین اور ماہنامہ آب حیات ہی پڑھنے کی زحمت کرلے تو وہ آسانی سے دہشت گردی و فرقہ واریت کا ماخذوں کا کھوج لگا سکتا ہے
یہ ایک ایسی مہلک صورت حال ہے جو ریاست کی عملداری کو تقریباًختم کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور اس کا کوئی تدارک دور دور تک نظر نہیں آتا۔ملکی ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے دانش ور اس طرف دھیان دینے سے قاصر ہیں اور اگر کبھی ناچار اُنہیں اس موضوع پر بات کرنا پڑے تو اُن کے خیالات سن کر اُبکائی آتی ہے۔جب کہ زیادہ تر ایسے ہیں جو مذہبی انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کے لیے راستہ صاف کرنے میں مصروف ہیں اور قلمی ناموں کے ساتھ متشدد مذہبی رسائل و جرائد میں ایمانی مضامین لکھتے ہیں۔خوشامد اور ناراضی کے خوف کی وجہ سے پاک فوج کے جاری آپریشن ضرب عضب کے بارے میں یہ دانش ور اپنے آپ پر جبر کرکے چند تعریفی کلمات ادا کرتے ہیں جب کہ اِن کی اندرونی کیفیات اِن کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں کیوں کہ اِنہوں نے ایک ایسے جاندار بیانیے کو جنم دیا ہے جس کے سامنے کسی قسم کی حقائق پر مبنی تصویر کشی بھی بے اثر ہے۔پاکستان کے تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی میں سرایت کرجانے والی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا تدارک ممکن نظر نہیں آتا کیوں کہ اس حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے کے برابر ہے۔اب اعلیٰ تعلیم یافتہ فرقہ پرست قاتل ہمارے شہروں میں دندناتے پھر رہے ہیں اور اُن کے مددگاروں کا ایک ہجوم ہر جگہ موجود ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ریاست تیزی کے ساتھ اپنے انہدام کی طرف رواں دواں ہے اور سماجی سطح پر مہلک تقسیم اس کا واضح اشارہ ہے۔