[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
خودفریبی کے سرد خانے میں
[/vc_column_text][vc_column_text]
دنیا خود فریبی کے سرد خانے میں رکھا ہوا
گلا سڑا آلو ہے
جسے کائنات سے باہر پھینکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں
تا کہ باقی ماندہ خدائی کو
پھپھوندی لگنے سے بچایا جا سکے
گلا سڑا آلو ہے
جسے کائنات سے باہر پھینکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں
تا کہ باقی ماندہ خدائی کو
پھپھوندی لگنے سے بچایا جا سکے
نظمیں لکھتے اور پڑھتے ہوئے
مجھے رونا نہیں آتا
ہنسنا بھی نہیں آتا
جیسے کیفیت لاتعین ہو جائے
مجھے نہیں پتا میں کیا کہنا چاہتا ہوں
لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں
کہ جب دروازے کُھلے ہوں
اور ہوا گزرتی ہو
اور چاند چمکتا ہو
اور سورج نکلتا ہو
اور بچے اسکول جاتے ہوئے
اپنی عمروں سے بڑے ہو رہے ہوں
اور معنی کا متن سے باہر
اور نقادوں کی فہم سے بالا ہونے کے باوجود
تخلیق کا عمل جاری ہو
تو کچھ نہ کچھ اچھا ضرور ہوتا ہے
مجھے رونا نہیں آتا
ہنسنا بھی نہیں آتا
جیسے کیفیت لاتعین ہو جائے
مجھے نہیں پتا میں کیا کہنا چاہتا ہوں
لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں
کہ جب دروازے کُھلے ہوں
اور ہوا گزرتی ہو
اور چاند چمکتا ہو
اور سورج نکلتا ہو
اور بچے اسکول جاتے ہوئے
اپنی عمروں سے بڑے ہو رہے ہوں
اور معنی کا متن سے باہر
اور نقادوں کی فہم سے بالا ہونے کے باوجود
تخلیق کا عمل جاری ہو
تو کچھ نہ کچھ اچھا ضرور ہوتا ہے
یہ راز نہیں حقیقت ہے
کہ تنکا اپنے باطن میں
آگ کے علاوہ نمی بھی رکھتا ہے
جو اسے جلنے سے بچائے رکھتی ہے
ورنہ ہر شاعر اپنی ہی آگ میں جل جاتا ہے
خود شعلگی میں کوئی تھوڑا بہت بچ بھی جائے
تو اسے زمانے کی موت مار دیا جاتا ہے
کہ تنکا اپنے باطن میں
آگ کے علاوہ نمی بھی رکھتا ہے
جو اسے جلنے سے بچائے رکھتی ہے
ورنہ ہر شاعر اپنی ہی آگ میں جل جاتا ہے
خود شعلگی میں کوئی تھوڑا بہت بچ بھی جائے
تو اسے زمانے کی موت مار دیا جاتا ہے
شاعری اور موت کا سمبندھ بڑا پرانا ہے
اسی لیے میں اکثر کہتا ہوں
کہ کچن گارڈن میں سبزیاں اگا کر
زندہ رہنا
اور اپنے علاوہ سونڈیوں کا پیٹ بھرنا
بھوک ماری، گھن لگی دانش سے کہیں بہتر ہے
اسی لیے میں اکثر کہتا ہوں
کہ کچن گارڈن میں سبزیاں اگا کر
زندہ رہنا
اور اپنے علاوہ سونڈیوں کا پیٹ بھرنا
بھوک ماری، گھن لگی دانش سے کہیں بہتر ہے
چیونٹیوں کے سامنے عظیم ہونے کے لیے
شاعری کی نہیں
ایک معمولی انسان بننے کی ضرورت ہے
جو زمین کے سینے پر گھاس کی طرح پھیل سکے
اور ہوا کی طرح چل سکے
میں نے اس بار جو مرچوں کے پودے لگائے ہیں
دیکھنا!
جلد ہی وہ ہری کچور نظموں سے بھر جائیں گے!!
شاعری کی نہیں
ایک معمولی انسان بننے کی ضرورت ہے
جو زمین کے سینے پر گھاس کی طرح پھیل سکے
اور ہوا کی طرح چل سکے
میں نے اس بار جو مرچوں کے پودے لگائے ہیں
دیکھنا!
جلد ہی وہ ہری کچور نظموں سے بھر جائیں گے!!
(پروین طاہر کے لیے)
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]