ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نابینا حافظ صاحب کے ہاتھ راہ چلتےبٹیر آلگا۔ پاس سے گزرتے کسی دوسرے راہ گیر نے ستائشی انداز میں کہا،”واہ حافظ صاحب آپ نے تو کمال کر دیا، آپ نے تو بڑے بڑے نامی گرامی شکاریوں کی طرح بٹیر پکڑا ہے۔ حافظ صاحب مسکرائے اور فرمایا،” بھیا یہ تم رکھ لو میں اور پکڑ لوں گا۔” راہ گیر بٹیر لئے چلتا بنا اور حافظ صاحب لاکھ ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرے پر بٹیر کو ہاتھ نہ آنا تھا سو نہ آیا۔ مجھے ڈر ہے کہ ہمارے نابینا حافظ صاحب کے ہاتھ جو 35 بٹیر لگے ہیں کسی باوردی راہ گیر کی باتوں میں آ کر اپنے بٹیروں سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور جب وہ اور ان کے "ہم جماعت "دھرنوں سے لوٹیں تو اس گاوں کی طرح ان کے گھر بھی لٹ گئے ہوں جہاں ایک رات جب سب سو رہے تھے تو ایک جانب سے شور اٹھا تھا "چور، چور، پکڑو جانے مت دو” اور پورا گاوں چور پکڑنے نکل کھڑا ہوا اور جب سب گھروں کو لوٹے تو سبھی کے گھر لٹ چکے تھے۔ یہ نہ ہو کہ جب ہمارے انقلابیے پارلیمانی چور پکڑنے کی ناکام کوشش کے بعد واپس پلٹیں تو "تبدیلی” ان کے درودیوار اورسازوسامان میں آ چکی ہو۔
افواہ ہے کہ آخری گنتی کے بعد بادشاہ کے اپنے حواریوں میں سے 37 غائب پائے گئے ، غلام گردشوں سے وہ بغاوتیں اٹھیں کہ دارلخلافہ کی ہر گلی میں خندقیں کھودنے، کنٹینر لگانے، ناکے لگانے اور روک ٹوک کر نے کے باوجود محل کے سامنے ایک ہجوم تھا جو تاج و تخت اچھالنے کو اکٹھا ہو چکا تھا۔
خیر سیاست کے شوق میں کس نے گھر بار نہیں لٹائے، اس جوئے میں کون اُس دیہاتی امام مسجد کی طرح نہیں لُٹا جس نے اپنے گاوں والوں کو منا لیا تھا کہ اب کی بار انتخابات میں اسے امیدوار کھڑا کیا جائے۔ انتخابات کا اعلان ہونے تک وہ گاوں کے ہر باشندے کو اس بات پر قائل کرتے رہے کہ انتخابات جیت کر وہ سب مسائل حل کر دیں گے اس لئے ووٹ انہیں دیا جائے۔ ہر بار انتخابات سے پہلے سبھی گاوں والے یقین دلاتے کہ ووٹ انہیں ہی دیں گے لیکن ووٹ کسی اور کو ڈالتے ۔ آخر کار مولوی صاحب نے مدرسے کے لڑکوں کے ہم راہ جیتنے والے امیدوار کے گھرپر دھاوا بول دیا ۔ پولیس آتے ہی خود روپوش ہوگئے اور طالب عملوں کو اندرکرا بیٹھے، گاوں والوں کو یقین ہے کہ انقلاب آتے ہی مولوی صاحب لوٹ آئیں گے۔غلط آدمی منتخب کرنے اور نہ کرنے دونوں صورتوں میں نقصان انہی کا ہوتا ہے جو کسی غیر موزوں امیدوار کی دیکھے بھالے بنا حمایت کر بیٹھتے ہیں۔ امیدواری کا کیا ہے ہر ایرے غیرے کو چار بندے اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے نجات دہندہ ہونے کا یقین دلا دیتے ہیں۔یہ الو سیدھا کرنے والے ہمیشہ اُن تھڑے باز حجاموں کی طرح حمایت مانگتے ہیں جو کسی سے تبھی کچھ مانگتے ہیں جب ان کا استرا اگلے کی گردن پر ہو، اپنے قاف پور کے چوہدری بھی استرے تیز کرکے آج کل انقلابی حجامت بنا رہے ہیں۔
انقلاب آئے نہ آئے مشاورت کاروں، مصالحت کاروں اور مذاکرات کاروں کی خوب چاندی ہے۔آٹھ سو سال ہوئے ہندوستان کے ایک بادشاہ نے اپنے وزراء اور مشیران کو اکٹھا کیا اور ان سے اپنی بادشاہت کے استحکام اور باغیوں کی روک تھام کے لئے تجاویز طلب کیں۔ سبھی نے شہنشاہ کو اپنی دانست میں بہترین مشورے دیے، کسی نے کہا امن قائم کیجئے، محصولات گھٹا دیجئے، کو ئی بولا تعلیم عام کیجئے اور رعایا کو سہولیات دیجئے۔ شفاخانے، درس گاہیں اور سرائے بنوانے کی چرچا بھی ہوئی، میٹرو اور موٹروے کے نقشہ تیار ہوئے۔ مشیران کی آو بھگت جاری رہی، منصوبہ بندیوں کے دفتر بھر گئے، خزانہ خالی ہوتا رہا اور سلطنت پر سےظل الہی کا اقتدار کم زور پڑتا گیا۔ ایک صاحب نے تو بادشاہ کو اپنے تمام دشمنوں کو ٹھکانے لگانےکا مشورہ دیا۔ بادشاہ کی فوجوں نے سبھی دشمنوں کا پیچھا کیا اور ایک ایک کو موت کی نیند سلا دیا۔ افواہ ہے کہ آخری گنتی کے بعد بادشاہ کے اپنے حواریوں میں سے 37 غائب پائے گئے ، غلام گردشوں سے وہ بغاوتیں اٹھیں کہ دارلخلافہ کی ہر گلی میں خندقیں کھودنے، کنٹینر لگانے، ناکے لگانے اور روک ٹوک کر نے کے باوجود محل کے سامنے ایک ہجوم تھا جو تاج و تخت اچھالنے کو اکٹھا ہو چکا تھا۔ سنا ہے وہ شہنشاہ آج کل پھر اپنے سیاسی حریف، پیر سیاست کی بیعت کر چکا ہے جس کے مشوروں کے برعکس شہنشاہ نے سپہ سالاروں کو ناراض کیا،ہمسایہ ملکوں سے دوستیاں لگائیں اور اپنے اردگرد اپنے خاندان کے لوگ اکٹھے کر لئے۔ اسی پیر سیاست کی کمک طلب کی جا رہی ہے جسے سڑکوں پر گھسیٹنے اور پھانسی چڑھانے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔

Leave a Reply