وہ درخت ایک وسیع چراگاہ اور نیچی پہاڑیوں کے سنگم پر واقع تھا۔ تنہا اور کبڑا، ٹیڑھا، میڑھا اور چھوٹا سا درخت۔ موسم بہارجب اس پر سرخ پھول لاد دیتا تو وہ دور سے کیسر کا ڈھیر نظر آتا اور پھر ان پھولوں سے زرد رنگ کے پھل وجود میں آتے اور درخت سونے کا ڈھیر ہو جاتا۔ اس موسم میں وہ ہر طرف سے آنے والے پرندوں کی عارضی پناہ گاہ بن جایا کرتا۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ درختوں کے کس قبیل سے تعلق رکھتا ہے، مگر وہ جاننا ضرور چاہتا تھا۔

دریا کے کنارے کھڑے ہوئے درخت کسی نا معلوم وجہ کی بنا پر گھنٹیوں کی آواز تو نہ سن پائے تھے مگر ان کی چمک سے سہمے ہوئے، چھوٹے درخت کو دیکھتے رہے۔
اس کے قریب ترین پڑوسی بھی وہ درخت تھے جن کا جھنڈ چراگاہ کو آدھوں آدھ کرتے دریا کے کنارے کھڑا تھا۔ وہ اس سے خاصے دور تھے اور کسی موسم میں بھِی رنگ نہ بدلتے، ہمیشہ سبز ہی رہتے تھے۔ چھوٹے درخت کو اتنی دور سے بھی اندازہ تھا کے وہ اس سے بہت اونچے ہیں۔ وہ انہیں قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔

اسے پہاڑیوں کے دوسری طرف کی دنیا دریافت کرنے کی چاہ تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہاں اِس چراگاہ سے زیادہ حیرت انگیز دنیا موجود ہے، اور اس کی شاخوں میں پرندہ بن کر اڑ نے کی خواہش کلبلانے لگتی۔ پھر اس عظیم چراگاہ پر نظر پڑتی جس کی گھاس کا ہرا رنگ ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ لہراتا، مزید لہکتا چلا جاتا اور حد نظر تک کھلے ہوئے ہزار رنگ کے پھولوں کی مہک ان کے ختم ہونے کے بعد بھی برقرار رہتی، تو درخت جڑوں کی مٹی چھوڑ کر گلہریوں کے ساتھ کودنے پھاندنے کو مچلنے لگتا۔ اور جب نہ چاہتے ہوئے بھی نگاہ، چراگاہ، دریا، بڑے درختوں کے جھنڈ اور ان سے پرے، چراگاہ کے باقی حصے کے بعد، نظر سے تقریباً اوجھل گاؤں، اس سے اٹھتے دھوئیں کی طرف جاتی تو بالکل حواس باختہ ہو جاتا کے اب کیا بننے کی خواہش کرے کہ وہ یہ سب کچھ قریب سے دیکھ، سن، چھو، سونگھ اور چکھ سکے۔ وہ نظر میں آنے والی ہر چیز کے پیچھے بھاگنا چاہتا تھا یا کم سے کم اسے لگتا تھا وہ یہی چاہتا ہے۔

دریا کے کنارے کھڑے درختوں کا دھیان، تمام وقت اس اکیلے اور چھوٹے درخت کی طرف رہتا۔ وہ جانتے تھے کہ چھوٹا درخت کسی خواہش میں مبتلا ہے اور خواہشیں درختوں کے لیے اچھی نہیں ہوتیں۔ انھوں نے اپنے پرکھوں اور ان کے پرکھوں نے اپنے پرکھوں سے سن رکھا تھا کہ درختوں کی خواہش بہت جلدی قبول ہو جاتی ہے اس لیے انہیں کچھ بھی چاہنے سے پہلے ہزار برس سوچنا چاہیے۔ وہ اس لیے بھی پریشان تھے کہ مدتوں پہلے ان کے ایک بے چین ساتھی نے ہرن بننے کی خواہش کی تھی اور بن بھی گیا تھا۔ اور پھر پہلے انسان کی نظر پڑنے کی دیر تھی کہ اس کو مار گرایا گیا۔ اس کے پاوں، اپنی خواہش کے زور سے اٹھ تو جاتے تھے مگر ماضی، ابھی جڑیں بن کر ان سے پھوٹتا رہتا تھا سو وہ بھاگ نہ سکا۔ وہ سب بھی اس خیال پر متفق تھے کہ ابھی اُن میں جمود کی عادت، حرکت سے زیادہ تھی۔ انہیں خطرہ تھا کہ جس دن اس چھوٹے اور نا تجربہ کار درخت نے دل سے کوئی خواہش کی، وہ ضرور پوری ہو جائے گی اور وہی ہوا جس کا انہیں ڈر تھا۔

جھگڑا بڑھنے لگا اور اس چیخنے چلانے میں ایک طرف سے دوسری سمت ایک پتھر اچھال دیا گیا۔ اس کے بعد جس کے ہاتھ میں جو چیز آئی، اس نے اگلے کو کھینچ ماری۔ ذرا سی دیر میں چھوٹے درخت ک گرد لاٹھیوں، پتھروں اور لاشوں کا ڈھیر لگ گیا۔
ایک روز پہاڑیوں سے پرے کی وادی میں آباد، چھوٹے سے گاؤں سے ایک میمنہ اپنے ریوڑ سے بچھڑ کر درخت کی طرف آ نکلا۔ چرواہا اس دن ریوڑ کو چرانے کے لیے پہاڑی کی طرف لایا تھا۔ میمنے کے علاوہ باقی ریوڑ شام سے پہلے ہی گاؤں کو ہو لیا تھا اور ہنستے کھیلتے میمنے کوتب ہوش آیا جب سورج ڈوبنے لگا۔ شام کے اندھیرے میں دور سے چھوٹا درخت نظر آیا تو میمنہ پناہ کی تلاش میں اس کی طرف چل پڑا۔ سہمے ہوئے میمنے نے اس کی شاخوں میں رات تو خاموشی سے گزار لی مگر صبح ہوتے ہی اپنی ماں کو آوازیں دینے اور کودنے پھاندنے لگا۔ میمنے کے گلے میں چھوٹی سی گھنٹی بندھی تھی جو اس کی اچھل، کود کے ساتھ مسلسل بجے چلی جا رہی تھی۔ درخت کو میمنہ توبھایا ہی مگر گھنٹی کی آواز نے تو جیسے اسے موہ لیا۔ اب وہ نہیں چاہتا تھا کہ میمنہ اسے چھوڑ کر کہیں جائے۔ لیکن اسی دن کی شام تک کچھ لوگ میمنے کو ڈھونڈتے ہوئے آئے اور اسے ساتھ لے گئے۔ میمنہ تو چلا گیا مگر گھنٹی کی آواز، پھانس کی طرح درخت کے دل میں اٹکی رہ گئی۔ اب نہ اسے چراگاہ نظر آتی تھی، نہ دریا کنارے کھڑے درخت اور گاؤں سے اٹھتا دھواں۔ وہ گم سم کھڑا رہتا اور کسی چیز پر توجہ نہ دیتا۔ اس پر رہنے والے پرندے اور گلہریاں بھی اس کی یہ حالت دیکھ کر اداس رہنے لگے۔

موسم بےنیازی سے بدلتے رہے۔ گرمی سردی میں تبدیل ہوئی سردی خزاں میں، اور پھر جب بہار آئی تو چھوٹے درخت پر ہمیشہ سے زیادہ پھول آئے۔ اس پر رہنے والے پرندے اور گلہریاں سہم گئے، انہیں لگا کہ وہ کچھ ٹھان چکا ہے، اور ان کا خوف بجا تھا۔ اس بار اس پر زرد پھل کی بجائے چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں نمودار ہونے لگیں۔ شروع میں سبز، پھر زرد اور آخر میں سنہری، خالص سونے کی۔ گھنٹیاں پک گئیں تو جو پرندے، ہر سال پھل کھانے کے لیے جمع ہوتے تھے، اب پریشانی کے عالم میں اس کے اوپر منڈلاتے رہتے مگر کوِئی اس کی شاخوں پر نہ اترتا لیکن درخت کو کوئی پرواہ نہ تھی۔ وہ جو چاہتا تھا، اس نے حاصل کر لیا تھا۔ اور اب اس کی گھنٹیوں کی آواز دور دور تک گونجتی رہتی۔
دریا کے کنارے کھڑے ہوئے درخت کسی نا معلوم وجہ کی بنا پر گھنٹیوں کی آواز تو نہ سن پائے تھے مگر ان کی چمک سے سہمے ہوئے، چھوٹے درخت کو دیکھتے رہے۔

دریا کنارے کے درختوں نے یہ منظر انتہائی خوف کے عالم میں دیکھا۔ انہیں اب تک گھنٹیوں کی آواز سنائی نہ دی تھی۔ چھوٹا درخت اس سارے ہنگامے سے بےنیاز اپنی خواہش کی گھنٹیاں بجاتا رہا۔
انہی دنوں، آندھیوں کا موسم نہ ہونے کے باوجود ، ہوا اس زور کی چلی کہ گھنٹیوں کی آواز چراگاہ اور پہاڑیوں کو عبور کرتی ہوئی، دونوں گاؤں تک جا پہنچی۔ لوگ گھروں سے نکل کر گلیوں میں جمع ہونے لگے۔ انہوں نے آج تک اس سے دلکش موسیقی نہیں سنی تھی۔ یہ آواز گاؤں کے بہروں کو بھی سنائی دی اور ان کے لولے لنگڑے، اندھے اور اپاہج بھی اس سے ٹھیک ہونَے لگے۔ دونوں گاءوں کے بڑے چھوٹے، مرد، عورت، اچھے، برے، سبھی لوگ، اس آواز کی کشش میں جکڑے، بے اختیاری کے عالم میں گھنٹیوں والے درخت کی جانب چل دیے۔ وہ راستے کی اڑچنوں، کنکر، پتھر، گارے، دلدل، کانٹے اونچ نیچ غرض ہر شے سے بےنیاز درخت کی طرف کھنچتے چلے گئے۔

دونوں گاءوں کے لوگ تقریباً ایک ساتھ درخت تک پہنچے اور اسے دیکھ کر ٹھٹھک گئے۔ اتنا حسین منظر ان کے خوابوں کی گرفت میں بھی نہ آ سکتا تھا اور ایسی خوبصورت موسیقی کہ انھیں اپنے کانوں پر یقیںن نہ آتا تھا۔ وہ بہت دیر اسے دیکھتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ انہیں ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس ہونے لگا۔ دونوں طرف کے لوگ سرگوشیوں میں اپنے اپنے قبیلے کو دوسرے گروہ کی دراندازی کی خبر دینے لگے۔ سرگوشیاں گفتگو میں بدلیں اور گفتگو بحث میں، اور پھر کسی نے چلا کر کہا کہ یہ درخت ہمارا ہے۔۔۔ اب دونوں طرف کے لوگ اونچی آواز میں لڑنے اور درخت پر اپنا اپنا حق جتانے لگے۔

چراگاہ والے گاؤں کے لوگوں کا خیال تھا کہ درخت چونکہ چراگاہ میں واقع ہے لہذا ان کی ملکیت ہے اور وادی والوں کے مطابق وہ پہاڑ کی جڑ میں اگا تھا، اس لیے ان کا حق زیادہ ہے۔ جھگڑا بڑھنے لگا اور اس چیخنے چلانے میں ایک طرف سے دوسری سمت ایک پتھر اچھال دیا گیا۔ اس کے بعد جس کے ہاتھ میں جو چیز آئی، اس نے اگلے کو کھینچ ماری۔ ذرا سی دیر میں چھوٹے درخت ک گرد لاٹھیوں، پتھروں اور لاشوں کا ڈھیر لگ گیا۔ دونوں طرف کے لوگ یہ اطمینان کر کے مرے تھے کہ دوسری جانب کا کوئی فرد زندہ نہ بچا ہو۔

دریا کنارے کے درختوں نے یہ منظر انتہائی خوف کے عالم میں دیکھا۔ انہیں اب تک گھنٹیوں کی آواز سنائی نہ دی تھی۔

چھوٹا درخت اس سارے ہنگامے سے بےنیاز اپنی خواہش کی گھنٹیاں بجاتا رہا۔

Leave a Reply