اگر اخبارات میں رنگین اشتہارات کے ذریعے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہونا ہوتا تو پیپلز پارٹی گزشتہ عام انتخابات میں رسوا نہ ہوتی ۔ مسلم لیگ ن نے بھی شاید پی پی پی کی شکست سے کچھ نہیں سیکھا اور بہانہ سازی کی فیکٹری مسلسل چل رہی ہے۔ بجلی کا بحران پاکستان کا ایک سنگین اور سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا حل عوامی جلسوں میں پرجوش تقاریر اور ٹاک شوز میں بلند و بانگ دعووں سے ممکن نہیں ہے۔کاش اس بات کو حکمران جماعت سمجھ پاتی۔
ان حالات میں وزارت پانی و بجلی کو ایک متحرک اور کل وقتی وزیر کی اشد ضرورت ہے جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس پیچیدہ مسئلے سے نمٹ سکے اور عوام کو ’’لوریاں‘‘ نہ سنائے ۔ لیکن یہاں تو حالات کچھ اور ہی بتاتے ہیں ۔ میں یہاں وفاقی اداروں کی کارکردگی یا اعدادو شمار کی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا اور نہ ہی یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ کتنے ڈیم بنے اور کتنے پلانٹ لگے ہیں اور کتنوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، یہاں صرف ایک رہنما کی ضرورت کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی جا رہی ہیں جو الجھے ہوئے معاملات پر بھرپور توجہ دے سکے اور قوم کو کچھ مثبت نتائج دے سکے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نمبر ایک میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم پاکستان ہیں اور اس ناطے سے انہیں کئی دوسری مصروفیات بھی ہیں اس لیے قائد نمبر دو میاں شہباز شریف اس وزارت کے کام میں دل و جان سے شریک ہوتے ہیں اور اپنے ہر انقلابی خیال کو اس وزارت پر نافذ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر کسی کو شک ہو تو ایک تحقیق کی جا سکتی ہے کہ بجلی بحران کے حوالے سے قائد نمبر دو میاں شہباز شریف کے بیانات اور احکامات زیادہ ہیں یا پھر ’’با اختیار ‘‘ وزیر خواجہ آصف اس میدان میں آگے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آج تک حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے توانائی کے منصوبوں کے افتتاح کی تقریبات میں شہباز شریف زیادہ شریک رہے یا خواجہ آصف؟ صورتحال خودبخود واضح ہو جائے گی۔
ان حالات میں وزارت پانی و بجلی کو ایک متحرک اور کل وقتی وزیر کی اشد ضرورت ہے جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس پیچیدہ مسئلے سے نمٹ سکے اور عوام کو ’’لوریاں‘‘ نہ سنائے ۔ لیکن یہاں تو حالات کچھ اور ہی بتاتے ہیں ۔ میں یہاں وفاقی اداروں کی کارکردگی یا اعدادو شمار کی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا اور نہ ہی یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ کتنے ڈیم بنے اور کتنے پلانٹ لگے ہیں اور کتنوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، یہاں صرف ایک رہنما کی ضرورت کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی جا رہی ہیں جو الجھے ہوئے معاملات پر بھرپور توجہ دے سکے اور قوم کو کچھ مثبت نتائج دے سکے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نمبر ایک میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم پاکستان ہیں اور اس ناطے سے انہیں کئی دوسری مصروفیات بھی ہیں اس لیے قائد نمبر دو میاں شہباز شریف اس وزارت کے کام میں دل و جان سے شریک ہوتے ہیں اور اپنے ہر انقلابی خیال کو اس وزارت پر نافذ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر کسی کو شک ہو تو ایک تحقیق کی جا سکتی ہے کہ بجلی بحران کے حوالے سے قائد نمبر دو میاں شہباز شریف کے بیانات اور احکامات زیادہ ہیں یا پھر ’’با اختیار ‘‘ وزیر خواجہ آصف اس میدان میں آگے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آج تک حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے توانائی کے منصوبوں کے افتتاح کی تقریبات میں شہباز شریف زیادہ شریک رہے یا خواجہ آصف؟ صورتحال خودبخود واضح ہو جائے گی۔
اگر اخبارات میں رنگین اشتہارات کے ذریعے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہونا ہوتا تو پیپلز پارٹی گزشتہ عام انتخابات میں رسوا نہ ہوتی ۔ مسلم لیگ ن نے بھی شاید پی پی پی کی شکست سے کچھ نہیں سیکھا اور بہانہ سازی کی فیکٹری مسلسل چل رہی ہے۔
دوسری جانب فیصل آباد کے ایک نوجوان عابد شیر علی بھی اس وزارت کے وزیر مملکت ہیں اورملک بھر کے طوفانی دورے کر کے اپنی بھرپور کارکردگی کا مظاہر ہ کر رہے ہیں،’’ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ‘‘ کے محاورے پر وہ پورا اس لیے اترتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ انہوں نے ضد کر کے یہ منصب حاصل کیا اس لیے اپنی کارکردگی کے جھنڈے گاڑنا اب انکا فرض اولین ہے۔ اس وزارت میں ایک تیسرے فریق بھی ہیں ان کے بارے میں افسانوی کہانیاں مشہور ہیں اس لیے ان کا نام لینا مناسب نہیں ہے کچھ وجوہات کی بنا پر ان کی بھی خواجہ آصف سے نہیں بنتی لیکن بتانا بھی ضروری ہے کہ جس منصوبے میں ان ’’میاں‘ ‘کی ’’منشا‘‘ شامل نہ ہو تو وہ منصوبہ زیر زمین ہی دفن ہو جا تا ہے۔ ا س تمام منظر نامے میں اصل وزیر کا کردار گہنا سا گیا ہے اور وہ صرف ٹاک شوز میں دفاعی پوزیشن اختیار کیے پائے جاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف اور موجودہ وزیر خواجہ آصف میں کئی باتیں مشترک اور منفرد ہیں۔ دونوں کے بیانات میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ماضی کی حکومتوں کو بجلی بحران کا ذمہ قرار دیتے رہے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں سے بجلی بحران کی تازہ ترین صورتحال کا پوچھنے پر ایک ہی جواب ملتا تھا اور ہے کہ ’’دو ڈھائی سال میں بحران ختم ہو جائے گا‘‘۔ پیپلز پارٹی کے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف اور موجودہ وزیر میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ خواجہ آصف خوش شکل کشمیری ہونے کی وجہ سے ایک خوبرو دولہا بھی لگتے ہیں، جبکہ راجہ پرویز اشرف میں ایسی کوئی خوبی نہیں جس کی وجہ سے انکا کسی سے بھی خصوصی’’سلام و کلام‘‘ نہیں ہو سکا۔ بہتر نتائج کے لیے اشد ضروری ہے کہ صرف ایک فعال اور ماہر فرد وزارت پانی و بجلی کو سجبھالے تاکہ بیانات کا سہارا لینے کی بجائے کام کے ذریعے عوام کو فائدہ پہنچایا جا سکے ۔
وزارتِ دفاع ملنے سے پہلے تو موصوف حاضر سروس وردی والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے تھے لیکن اب کچھ سمجھدار ہو گئے ہیں اور صرف ریٹائرڈ جرنیلوں پر تنقید فرماتے ہیں۔
پانی و بجلی کے ذمہ دار خواجہ آصف کے پاس ایک اور وزارت بھی ہے کہ جس کا نام وزارت دفاع ہے۔ موصوف اس وزارت کے ‘ماتحت’ کام کرنے والے اکثر افراد کے خلاف تند و تیز بیانات دینے کے حوالے سے کافی مشہور ہیں۔ وزارت ملنے سے پہلے تو موصوف حاضر سروس وردی والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے تھے لیکن اب کچھ سمجھدار ہو گئے ہیں اور صرف ریٹائرڈ جرنیلوں پر تنقید فرماتے ہیں۔ پہلے یہ وزارت بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس تھی لیکن موصوف اس منصب پر ایسے پہنچے کہ وزیر اعظم پر ایک مقدمے کے سلسلے میں عدالتی دباؤ تھا اس لیے کسی کو تو عدالت کے حضور پیش ہونا تھا، قرعہ فال خواجہ آصف کے نام نکلا اور ایک عدالتی حاضری نے انہیں وزیر دفا ع کے منصب پر پہنچایا۔ اس تمام کہانی کے بعد بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر موصوف کا اس بھاری بھر کم وزارت میں کتنا ’’فعال‘‘ کردار ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ ’وزیر دفاع ہر اس معاملے کی منظوری دیتا ہے جو ملکی ضرورت سے متعلق ہو، بطور وزیر دفاع ان امور کی ’’منظوری‘‘ دیتا ہوں جو جی ایچ کیو سے ’’بھجوائے‘‘ جاتے ہیں۔ ویسے یہ وہ واحد وزارت ہے کہ جہاں کبھی بھی وزیر کی ضرورت کچھ خاص نہیں رہی ۔ یہ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والی وزارت ہے، اس لیے پانی و بجلی کے محکمے کے ساتھ ساتھ یہاں بھی خواجہ آصف کی خاص نہیں چلتی اور وہ اپنی عملداری کو یقینی بنانے کی کوشش بھی نہیں کرتے، اس لیے باہمی احترام کی وجہ سے وزارت کے معاملات ’’بہترین‘‘ انداز میں چل رہے ہیں۔ ہاں اگر کبھی کسی نجی ٹی وی چینل کے غداری کے ثبوت سامنے آئیں تو وہ وزیر موصوف کو ضرور دکھائے جاتے ہیں ورنہ وزارت کے اور کسی بھی کام میں ان کا خا ص عمل دخل نہیں ہے۔