اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا گیا لیکن عملاًپاکستان آج بھی عورت کی بنیادی آزادیوں اور ریاستی اور معاشرتی سطح پر جنسی امتیاز کے حوالے سے بدترین سطح پر ہے ۔ عالمی اداروں کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ریاستی پالیسیوں اور معاشرتی رویوں میں عورتوں سے امتیازی سلوک اور ان کے لئے “کم تر جنس” ہونے کا تصور روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہیں۔معروف کرکٹر شاہد آفریدی کی طرف سے خواتین کھلاڑیوں سے متعلق دیے گئے بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں عورتوں کو گھر سے باہر کسی “غیر روایتی” کردار میں پسند نہیں کیا جاتا اور اکثر انہیں امورِ خانہ داری تک محدود کیا جاتاہے۔پاکستان میں زیادہ تر پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات ملازمت یا کاروبار کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کے اطلاق کی بجائے گھریلو ذمہ داریاں قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے مردوں کی دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی شرط کو غیر شرعی قرار دیا ہے جس سے ریاست کے خواتین کے حوالے سے نقطہ نظر کی وضاحت ہوتی ہے۔حدود قوانین، عائلی قوانین اور نظام انصاف میں عورت کی حیثیت عملاً مرد کی محتاج اور غیر محفوظ تصور کی گئی ہے جس کی وجہ سے عورت عدم تحفظ کا شکار ہے۔ معاشرے کی قابل ذکر افرادی قوت صرف عورت ہونے کی وجہ سے نااہل اور ناکارہ تصور کی جاتی ہے۔
معروف کرکٹر شاہد آفریدی کی طرف سے خواتین کھلاڑیوں سے متعلق دیے گئے بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں عورتوں کو گھر سے باہر کسی “غیر روایتی” کردار میں پسند نہیں کیا جاتا اور اکثر انہیں امورِ خانہ داری تک محدود کیا جاتاہے۔پاکستان میں زیادہ تر پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات ملازمت یا کاروبار کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کے اطلاق کی بجائے گھریلو ذمہ داریاں قبول کرنے پر مجبور ہیں۔
معروف سماجیات کے ماہر فورئیر کے مطابق کسی بھی سماج کی ترقی و خوشحالی کا اندازہ اس سماج یا معاشرے میں رہنے والی خواتین کی حالت و کیفیت سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بالشوک انقلابی راہنما ولادیمیر لینن نے کہا تھا کہ ہماری محنت کش اور مزدور خواتین بہترین طبقاتی جنگجو ہیں اوردنیا کی کوئی بھی تحریک خواتین کی شعوری اورعملی شرکت کے بغیر کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے معاشرے کی تشکیل میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور معاشرے میں ترقی اور تبدیلی کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خواتین کی جہد مسلسل اور انتھک کوششوں کے نتیجے میں 1910 میں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگ میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تقریباً 17 مختلف ممالک کی سو کے قریب خواتین نے شرکت کی اور اس دن کو عورتوں کے حقوق ، ان پر ہونے والے مظالم اور استحصال کے خاتمے کے عنوان سے عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن پاکستان میں خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیمیں عموماً شک و شبہ کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں اور ان سے متعلق غیر ملکی تہذیب عام کرنے، بے راہ روی پھیلانے اور غیر ملکی ایجنڈا پر کام کرنے جیسے الزامات عام ہیں۔
خواتین پاکستانی آبادی کا نصف ہیں مگر ان کی حالتِ زار طبقاتی فرق، جاگیردارنہ نظام، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور رجعت پسند دینی طبقے کی بدولت قابل رحم نظر آتی ہے۔ عورتوں کی سماجی ، معاشی اور سیاسی زبوں حالی سے قطع نظر معیشت اور معاشرت میں ان کا حصہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک سماجی تنظیم کی طرف سے کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 43 فیصد دیہی خواتین زرعی کام کاج کے عمل سے وابستہ ہیں اور کھیتوں میں ہونے والی سر گرمیاں انہی خواتین کی بدولت ہی سر انجام پاتی ہیں ۔ جنوبی پنجاب کے بیشتر اضلاع میں تقریباً 12 لاکھ کے نزدیک خواتین کا م کرتی ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کوئی 25 فیصد کےقریب خواتین کھیتوں میں فیملی ورکرز کی حیثیت سے کا م کرتی ہیں جبکہ ان کو معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا ۔
پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں خواتین کو اپنے روز مرہ کے کام کرنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عورتوں پر ہونے والے تشدد کی داستانیں میڈیا یا سول سوسائٹی کے توسط سے کبھی کبھار ہی سامنے آتی ہیں وگرنہ ہزاروں داستانیں گھر کی چار دیواری میں ہی دفن کر دی جاتی ہیں۔ گھریلو تشدد اورجنسی طور پر خواتین کو ہراساں کرنا ہمارے معاشرے میں معمول کی بات ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں عورت ہی قصور وار قرار پاتی ہے اور اسے مزید سماجی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خواتین پاکستانی آبادی کا نصف ہیں مگر ان کی حالتِ زار طبقاتی فرق، جاگیردارنہ نظام، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور رجعت پسند دینی طبقے کی بدولت قابل رحم نظر آتی ہے۔ عورتوں کی سماجی ، معاشی اور سیاسی زبوں حالی سے قطع نظر معیشت اور معاشرت میں ان کا حصہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک سماجی تنظیم کی طرف سے کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 43 فیصد دیہی خواتین زرعی کام کاج کے عمل سے وابستہ ہیں اور کھیتوں میں ہونے والی سر گرمیاں انہی خواتین کی بدولت ہی سر انجام پاتی ہیں ۔ جنوبی پنجاب کے بیشتر اضلاع میں تقریباً 12 لاکھ کے نزدیک خواتین کا م کرتی ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کوئی 25 فیصد کےقریب خواتین کھیتوں میں فیملی ورکرز کی حیثیت سے کا م کرتی ہیں جبکہ ان کو معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا ۔
پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں خواتین کو اپنے روز مرہ کے کام کرنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عورتوں پر ہونے والے تشدد کی داستانیں میڈیا یا سول سوسائٹی کے توسط سے کبھی کبھار ہی سامنے آتی ہیں وگرنہ ہزاروں داستانیں گھر کی چار دیواری میں ہی دفن کر دی جاتی ہیں۔ گھریلو تشدد اورجنسی طور پر خواتین کو ہراساں کرنا ہمارے معاشرے میں معمول کی بات ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں عورت ہی قصور وار قرار پاتی ہے اور اسے مزید سماجی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عورتوں کی سماجی ، معاشی اور سیاسی زبوں حالی سے قطع نظر معیشت اور معاشرت میں ان کا حصہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک سماجی تنظیم کی طرف سے کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 43 فیصد دیہی خواتین زرعی کام کاج کے عمل سے وابستہ ہیں اور کھیتوں میں ہونے والی سر گرمیاں انہی خواتین کی بدولت ہی سر انجام پاتی ہیں ۔
روزنامہ نوائے وقت کی طرف سے انسانی حقوق کے حوالے سے منعقدہ ایک سمینار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال اندازاً 500 خواتین قتل کر دی جاتی ہیں۔ سیمینار میں شریک امریکہ کی ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی کے ماہر صحت ڈاکٹر معظم نصراللہ کے مطابق پاکستان میں پچھلے چار برس کے دوران 1957 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
پاکستان میں خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف جسم فروشی پر مجبور کرنا بھی ایک ایسا گھناونا عمل ہے جو معاشرے کی اخلاقی زبوں حالی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ لاہور میں ہونے والے ایک ایسے ہی معاملے میں جوہر ٹاؤن کی رہائشی ایک عورت نے غربت ، اپنے شوہر اور سسرال کے رویے سے تنگ آ کر اپنے دو بچوں کو قتل کر دیا اور ابتدائی رپورٹ سے معلوم ہو ا کہ اس کا شوہر اپنی بیوی سے جسم فروشی کروانا چاہتا تھا اور دبئی میں ثقافتی طائفے میں بھیجنا چاہتا تھا تاکہ وہاں سے جسم فروشی کی بنا پر بھاری رقم وصول کر پائے۔
پاکستان میں عورتوں کے حقوق کا مسئلہ ہمیشہ ہی نظر انداز رہا ہے اور عورت پر تشدد ہماری غیرت اور انا کا مسئلہ رہا ہے لیکن پاکستان میں عورتوں کے حقوق پر بڑی قدغن ضیا الحق کے زمانے میں متعارف کرائے گئے حدود قوانین کے باعث لگی ۔ ضیاء الحق کی فرسودہ اور رجعت پسند پالیسیوں کی بدولت پاکستان کے سماجی و ثقافتی اقدار بری طرح مسخ ہوئیں جس سے خواتین براہ راست متاثر ہوئیں۔ موجودہ حکومت جسے پاکستان کے روشن خیال حلقےضیاء الحق کا فکری وارث سمجھتی ہیں، ایک بار پھر رجعت پسند، عورتوں کے حقوق کو پامال کرنےوالی اور ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے والی قوتوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ نام نہاد مجاہدین اور رجعت پسند طالبان کس طرح افغانستان اور پاکستان کے بیشتر علاقوں میں انسانیت سوز کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں اور خواتین کے مسلمہ حقوق کو سلب کرتے چلے آ رہے ہیں ۔طالبان اور ان کے حمایتی سوات ، مالاکنڈ، خیبر ، کرم ایجنسی اور خیبر پختون خواہ کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کے سکولوں اور ہسپتالوں کو تباہ کرتے رہے ہیں۔پاکستانی سماج میں من پسند مذہبی تشریح کی بنیاد پرعورتوں کو چار دیواری میں مقید کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر علم کے دروازے بند کئے جاتے رہے ہیں۔ آج جب کہ پوری دنیا عورتوں کے حقوق اور سماج میں ان کی بنیادی آزادیوں کے حصول کیلئے عہد کر رہی ہے تو ہم ان کے برخلاف طالبان کی عورت دشمن ” شریعت” کے نفاذ کو عملی شکل دینے کے لئے محو مذاکرات ہیں۔طالبان سے مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی اور مذہبی شدت پسندوں کی عورت مخالف سوچ سے قطع نظر پاکستانی عورت کی ہمت اور عزم کی نمائندگی ملالہ یوسف زئی اور بے نظیر بھٹو جیسی خواتین کرتی ہیں جو مشکلات کے باوجود اپنے وجود کو منوانے اور اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔
پاکستان میں خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف جسم فروشی پر مجبور کرنا بھی ایک ایسا گھناونا عمل ہے جو معاشرے کی اخلاقی زبوں حالی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ لاہور میں ہونے والے ایک ایسے ہی معاملے میں جوہر ٹاؤن کی رہائشی ایک عورت نے غربت ، اپنے شوہر اور سسرال کے رویے سے تنگ آ کر اپنے دو بچوں کو قتل کر دیا اور ابتدائی رپورٹ سے معلوم ہو ا کہ اس کا شوہر اپنی بیوی سے جسم فروشی کروانا چاہتا تھا اور دبئی میں ثقافتی طائفے میں بھیجنا چاہتا تھا تاکہ وہاں سے جسم فروشی کی بنا پر بھاری رقم وصول کر پائے۔
پاکستان میں عورتوں کے حقوق کا مسئلہ ہمیشہ ہی نظر انداز رہا ہے اور عورت پر تشدد ہماری غیرت اور انا کا مسئلہ رہا ہے لیکن پاکستان میں عورتوں کے حقوق پر بڑی قدغن ضیا الحق کے زمانے میں متعارف کرائے گئے حدود قوانین کے باعث لگی ۔ ضیاء الحق کی فرسودہ اور رجعت پسند پالیسیوں کی بدولت پاکستان کے سماجی و ثقافتی اقدار بری طرح مسخ ہوئیں جس سے خواتین براہ راست متاثر ہوئیں۔ موجودہ حکومت جسے پاکستان کے روشن خیال حلقےضیاء الحق کا فکری وارث سمجھتی ہیں، ایک بار پھر رجعت پسند، عورتوں کے حقوق کو پامال کرنےوالی اور ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے والی قوتوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ نام نہاد مجاہدین اور رجعت پسند طالبان کس طرح افغانستان اور پاکستان کے بیشتر علاقوں میں انسانیت سوز کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں اور خواتین کے مسلمہ حقوق کو سلب کرتے چلے آ رہے ہیں ۔طالبان اور ان کے حمایتی سوات ، مالاکنڈ، خیبر ، کرم ایجنسی اور خیبر پختون خواہ کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کے سکولوں اور ہسپتالوں کو تباہ کرتے رہے ہیں۔پاکستانی سماج میں من پسند مذہبی تشریح کی بنیاد پرعورتوں کو چار دیواری میں مقید کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر علم کے دروازے بند کئے جاتے رہے ہیں۔ آج جب کہ پوری دنیا عورتوں کے حقوق اور سماج میں ان کی بنیادی آزادیوں کے حصول کیلئے عہد کر رہی ہے تو ہم ان کے برخلاف طالبان کی عورت دشمن ” شریعت” کے نفاذ کو عملی شکل دینے کے لئے محو مذاکرات ہیں۔طالبان سے مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی اور مذہبی شدت پسندوں کی عورت مخالف سوچ سے قطع نظر پاکستانی عورت کی ہمت اور عزم کی نمائندگی ملالہ یوسف زئی اور بے نظیر بھٹو جیسی خواتین کرتی ہیں جو مشکلات کے باوجود اپنے وجود کو منوانے اور اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔