Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

خشونت سنگھ

test-ghori

test-ghori

22 مارچ, 2014
بھارت کے مقبول مورخ، قانون دان، صحافی، ناول نگار، کالم نگار، ادیب اور دانشور خشونت سنگھ 99سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد بروز جمعرات 20 مارچ 2014 کو بھارتی درلحکومت دہلی میں انتقال کر گئے ۔ خشونت سنگھ دو فروری 1915 کو پاکستان کے چھوٹے سے گاؤں ہڈالی ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے تھے ، ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کی، سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی ، گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی زیر تعلیم رہے اور بعد میں لندن کی کیمبرج یونیورسٹی کے کنگز کالج سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ابتداء میں خشونت سنگھ وکالت سے پیشہ سے وابستہ ہوئے اور لاہور ہائی کورٹ میں کچھ عرصے تک وکالت بھی کرتے رہے۔ خشونت سنگھ کی شہرت کا آغاز متحدہ ہندوستان کے تقسیم اور آزادی کے بعد ہوا اور آزادی کے بعد وہ ہندوستان کے درالحکومت نئی دہلی میں منتقل ہو گئے۔ یہاں انہوں نے بھارت کی وزارت خارجہ میں بطور سفارتکار کے ذمہ داریاں سنبھالیں اور انہوں نے وزارت خارجہ میں ملازمت کے دوران میں کینیڈا، برطانیہ اور آئر لینڈ میں انفارمیشن آفیسر اور پریس اتاشی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس کے بعد وہ ادب کی دنیا میں وارد ہوئے جو کہ اس کی اصل وجہ شہرت بنی۔ اپنی مدت ملازمت کے دوران انہوں نے ایک جریدے ” یوجنا” کی ادارت کرتے ہوئے۔ صحافت کی دنیا میں باقاعدہ قدم رکھا اور جلد ہی سرکاری ملازمت کو خیر آباد کہہ کر 1951 میں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر کے اپنی صحافتی زندگی کے تابناک سفر کی شروعات کی۔ خشونت بھارتی جریدے السٹریٹڈ ویلی جس کا سابقہ نام نیشنل ہیرالڈ تھا میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا ۔
بطور ادیب انہوں نے 30 سے زیادہ ناولوں کے علاوہ درجنوں افسانے اور مضامین سمیت 80 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں اور اسی طرح تقسیم ہندوستان کے موضوع پر اپنا ناول ” ٹرین ٹو پاکستان” تحریر کیا جس کی بنا پر ان کو 1954 میں بین الاقوامی ایوارڈ ” گروو پریس” سے نوازا گیا۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس جریدے کی شہرت کو چار چاند لگانے والے خشونت سنگھ تھے تو یہ مبالغہ نہیں ہو گا۔ اسی طرح انہوں نے ایڈیٹر کے طور پر بھارت کے مشہور اخبار ہندوستان ٹائمز میں بھی فرائض سر انجام دئیے۔ مورخ کی حیثیت سے خشونت نے ” ہسٹری آف سکھ” تحریر کی جس میں سکھ دھرم کی تاریخ اور اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا اور ان کے اس کام کو خاصی پذیرائی ملی۔ بطور ادیب انہوں نے 30 سے زیادہ ناولوں کے علاوہ درجنوں افسانے اور مضامین سمیت 80 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں اور اسی طرح تقسیم ہندوستان کے موضوع پر اپنا ناول ” ٹرین ٹو پاکستان” تحریر کیا جس کی بنا پر ان کو 1954 میں بین الاقوامی ایوارڈ ” گروو پریس” سے نوازا گیا۔ ایک سال قبل ان کی ایک کتاب خشونت نامہ، دی لیسنز آف مائی لائف ” شائع ہوئی۔ ان کے مشہول ناولوں میں بلیک جیسمین، پنجاب کی روایات شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی آخری کتاب “دی گڈ، دی بیڈ اینڈ دی رڈی کیولس’ لکھی۔ خشونت سنگھ نے سیاست کے میدان میں بھی طبع آزامائی کی اور وہ 1980 سے 1986 میں بھارت راجیہ سبھا کے رکن رہے ۔ ہندوستان کی حکومت نے ان کی شاندار خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک سے دوسرے بڑے سرکاری ایوارڈ ” پدم بھوشن” سے 1974 میں نوازا گیا، لیکن انہوں نے 1984 میں یہ ایوارڈ امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل پرکیے جانے والے بلیو سٹار فوجی آپریشن پر بطور احتجاج واپس کر دیاتھا۔ ان کو دوبارہ پھر 2007 میں “پدم بھوشن ایوارڈ” سے نوازا گیا جو کہ ان کی بے نظیر خدمات کا سرکاری اعتراف تھا۔ خشونت سنگھ ایک ہمہ گیر شخصیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک من موجی انسان تھے، جو دل میں آیا انتہائی بے باک انداز سے زیب قرطاس کر دیا۔
ہندوستان کی حکومت نے ان کی شاندار خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک سے دوسرے بڑے سرکاری ایوارڈ ” پدم بھوشن” سے 1974 میں نوازا گیا، لیکن انہوں نے 1984 میں یہ ایوارڈ امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل پرکیے جانے والے بلیو سٹار فوجی آپریشن پر بطور احتجاج واپس کر دیاتھا۔ ان کو دوبارہ پھر 2007 میں “پدم بھوشن ایوارڈ” سے نوازا گیا جو کہ ان کی بے نظیر خدمات کا سرکاری اعتراف تھا۔
اپنی اس خصوصیت کی بنا پر کئی مواقعوں پر ان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ خاص کر جب انہوں نے انتہائی متنازعہ بنگالی لکھاری تسلیمہ نسرین کے کالم جس میں مسلم معاشرے میں راج برقعے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ 17 فروری 2007 کو ہندوستان ٹائم میں خشونت سنگھ نے اپنے ایک کالم میں تسلیمہ نسرین کے موقف کی تائید کچھ اس انداز سے کی تھی “مسلمان عورتوں کا گھر سے باہر برقعہ پہن کر نکلنا، ہندو اور مسلم میں تفریق پیدا کرتا ہے اور یہ تفریق نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ مسلمانوں کے لئے اچھا نہیں ہے۔ اس سے مسلم عورتیں، ہندو خواتین سے الگ تھلگ نظر آتی ہیں اور برقعہ، جہالت اور پچھڑے پن کی علامت ہے”۔ لیکن حقیقت یہ ہے خشونت سنگھ ایک متوازن، لبرل اور بے باک لکھاری رہے ہیں جو بات ان کے دل کو درست لگی وہ انہوں نے انتہائی جرات کے ساتھ تحریر کر دی ۔ یقینا” وہ ایک عہد ساز شخصیت اور متنوع مزاج انسان تھے اور ہر حثییت میں اپنے کردار کو باخوبی نبھایا۔ ان کی وفات پر بھارت سمیت دنیا بھر میں سیاستدانوں، صحافیوں، ادیبوں، دانشوروں کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں نے بھی گہرے دکھ اور رنج کا اظہا کیا ہے اور مرحوم کے علمی، ادبی اور تحقیقی کا م کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مرحوم نے اپنے پسماندگان میں ایک بیٹی مالاسنگھ اور ایک بیٹا راہول سنگھ چھوڑے ہیں جبکہ انکی اہلیہ کول ملک 2001 میں انتقال کر گئی تھیں۔