خرم سہیل سے میری ملاقاتوں کو ایک برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ کئی ادبی صحافیوں کی طرح میں ان کے بھی صرف نام سے ہی واقف تھا۔پہلی ملاقات گزشتہ سال حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاس میں ہوئی، تب سے آج تک ہمار ملناا برابر رہتا ہے۔دیکھنے میں تو یہ بہت تھوڑا ساعرصہ ہے۔ لیکن میں نے اس عرصے میں انہیں علم و ادب و فن کاجویا اور متجسس پایا۔وہ متواتر اور مسلسل کئی چیزوں کے لیے متحرک اور سرگرداں رہتے ہیں اور ان سب چیزوں کا علم و ادب و فن کے ساتھ ہماری سماجی، ثقافتی اور تہذیبی زندگی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ان کی دلچسپیوں کا دائرہ بے حد وسیع ہے، جو پھیلتا اور سکڑتا بھی رہتا ہے۔اس میں ریڈیو، فلم، تھیٹر، ٹی وی، ادب، کھیل، ترجمہ نگاری،کتابوں کی ترتیبِ و تدوین و اشاعت،غرض کہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ حتی کہ وہ آج کل فکشن لکھنے کے حوالے سے بھی سوچ رہے ہیں۔ان سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کسی روز فلم لکھنے اور بنانے کا بھی اعلان کردیں۔
سیمابی مزاج اوربے قرار دل و دماغ رکھنے والے خرم سہیل کی متنوع دل چسپیوں میں سے ایک ایسی ہے، جس میں وہ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مصروفِ کار ہیں اوروہ ہے انٹرویو نگاری۔یہ بات ان کی طبیعت میں موجودمستقل مزاجی کا بھی پتا دیتی ہے۔انٹرویو بنیادی طور پر دو افراد کے درمیان ایسی گفتگو ہے، جس میں انٹرویو لینے والا، دینے والے سے کسی بھی موضوع پر زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرتا ہے اور اسے دوسروں تک پہنچاتا ہے۔انٹرویو دینے والی شخصیت، اپنے اختصاص اور کسی شعبے یا شعبوں سے اپنی گہری وابستگی کے سبب ایک ایسی کان کی مانند ہوتی ہے، انٹرویو لینے والا اپنی اہلیت اور صلاحیت کے مطابق ہی جس میں سے معلومات کا سونا نکال سکتا ہے۔
انٹرویو ز کی ان کی پہلی کتاب ’’باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے‘‘اور دوسری کتاب ’’ سُر مایا‘‘ بہت پہلے ہی داد کی سند حاصل کرچکی ہیں۔جب کہ ابھی حال ہی میں ان کے کیے ہوئے انٹر ویوز کا ایک انگریزی ترجمہ چھپا ہے۔جس کا نام ہے۔A Conversation with legends– A History in session۔اس کتاب کا ترجمہ اور اس کی ایڈیٹنگ محترمہ عفرا جمال نے کی ہے۔میں ان تینوں کتابوں کے بارے میں چندخیالات کا اظہار کرنا چاہوں گا۔
عفرا جمال صاحبہ نے اس کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ اس کتاب پر کام کرنے کے منصوبے کا آغاز اس تجسس سے ہوا کہ کسی پڑھنے والے کو پاکستانی لیجینڈز کے بارے میں مواد کہاں سے میسر آسکتا ہے۔ کیوں کہ ان میں سے اکثر شخصیات اپنی زندگی میں خود تو تاریخ بنانے میں مصروف رہیں اور اپنی یادداشتیں لکھے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ایسے میں ان کی نظرِ انتخاب خرم سہیل کے اردو میں کیے ہوئے انٹرویوز کے مجموعوں کی جانب گئی، جو خود ان انٹرویوز کے لیے مترجم کے منتظر بیٹھے تھے۔
اس کتاب میں شامل چند شخصیات کو پڑھنے کے دوران مجھے احساس ہوا کہ شاید یہ کتاب انٹرویوز کی کتاب نہیں ہے۔اس کے بعد میں جوں جوں آگے بڑھا، یہ احساس ایک مضبوط خیال کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ مجھے تو یہ کتاب مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات پر مختصر اور درمیانے درجے کے مضامین کا مجموعہ معلوم ہوئی۔جسے عفرا جمال صاحبہ نے بے حد تخلیقی اور تخئیل سے معمور انگریزی نثر سے آراستہ کیا ہے۔ اس لحاظ سے وہ اس کتاب کی صرف ایڈیٹر اور مترجم نہیں رہتیں بلکہ مصنفہ معلوم ہوتی ہیں۔۔انہوں نے خرم سہیل کے پوچھے ہوئے سوالوں اور ان کے حاصل کردہ جوابوں کو اس طرح لکھا ہے کہ کہیں کہیں خاکہ نگاری کا گمان گزرتا ہے اور کہیں کہیں مضمون نگاری کا۔بہر حال یہ ان دونوں کی مشترکہ کاوش ہے۔اس کتاب میں لگ بھگ پچاس مختلف شخصیات کے حوالے سے مضامین یا Write-upsشامل ہیں اور سب شخصیات کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ہے۔ان کے بارے میں پڑھتے ہوئے ہم نہ صرف ان نادر افراد کے نادر خیالات سے روشناس ہوتے ہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے ان کی ایک جھلک بھی دیکھ لیتے ہیں۔
نجانے کیوں کئی شخصیات کے بارے میں پڑھتے ہوئے ایک تشنگی سی بھی محسوس ہوتی ہے۔ مطالعے کے دوران جی چاہتا ہے کہ کاش ان منفرد اور یکتا انسانوں کے بارے میں تھوڑی سی معلومات اور مل جاتیں۔ فنون سے وابستہ یہ اشخاص اپنے فن کے بارے میں دو چار گہری باتیں اور کر لیتے۔اب یہ اس کتاب کی خوبی ہے یا خامی، میں اس بارے میں تشکیک میں مبتلا ہوں۔
عبداللہ حسین، ڈاکٹر جمیل جالبی،مستنصر حسین تارڑ، بانو قدسیہ،ڈاکٹر انور سجاد،انتظار حسین،جیسے بڑے فکشن نگاروں کی عمریں اور کام جتنے پھیلاو کا حامل ہے، وہ اس بات متقاضی تھا کہ ان سے ان کے کام اور ان کے زمانے کے حوالے سے طویل مکالمہ کیا جاتا۔ میری ناقص رائے میں کئی ہزار صفحات لکھنے والے ان اہم ترین ادیبوں کو چند صفحات کے انٹر ویو کے ذریعے دریافت کرنا کارِ دشوار ہے۔اس لیے اس کتاب میں شامل تحریروں کا تاثر تعارفی محسوس ہوتا ہے مگر یہ تعارف پاکستان میں اپنی زندگی گزارنے والے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کا ہے، اس لیے اس کی تحسین ضروری ہے۔
کتاب کے ٹائیٹل میں شامل دو الفاظ ’’Legend‘‘ اور ’’ History‘‘ اپنے معانی میں جس گہرائی اور وسعت کے حامل ہیں، کاش اس میں شامل تمام کی تمام شحصیات بھی اس گہرائی اور وسعت کی حامل ہوتیں۔کچھ کمی بیشی کرنے سے کتاب پر یقیناً خوشگوار اثر مرتب ہوتا۔ جیسے خلیل الرحمن قمر،اصغر ندیم سید، امجد اسلام امجد، عاطف اسلم،ٹی وی آرٹسٹ نبیل،نعیم بخاری، شاہد آفریدی اور ایسے ہی کچھ اور نام بھی ہیں، جو کسی طرح لیجنڈز کہلانے کے مستحق نہیں۔میرے خیال میں ہر مشہور شخصیت لیجنڈ نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی وہ کوئی تاریخ بناتی ہے۔اس کتاب میں شامل کئی مشہور شخصیات کو لیجنڈ قرار دینا درست رویہ نہیں ہے۔
اس کے بعد مجھے خرم سہیل کی اس کتاب کا ذکر کرنا ہے،جس میں اس کے انٹرویوز خوب نکھر کر آئے ہیں اور وہ ہے سُر مایا۔یہ ترتیب کے اعتبار سے ان کی دوسری کتاب ہے۔اس میں انہوں نے پاکستان کی دنیائے موسیقی کے اہم ترین ناموں کے انٹرویوز یکجا کیے ہیں۔ اس کا ہر انٹرویو موسیقی کے حوالے سے ہماری معلومات میں بیش قیمت اضافہ کرتا ہے۔ ہم کچھ نئی، انوکھی اور منفرد باتیں جانتے اور سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر مشہور ستار نواز استاد رئیس خان نے خرم کے ایک سوال کے جواب میں کلاسیکل ساز ’’سارنگی‘‘ کے بارے میں بتایا کہ اس کا اصل نام تو سو رنگی تھا، جو بعد میں سارنگی ہوگیا۔اس کتاب میں آپ کو شام چوراسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ریاض علی خان کی المیہ کہانی بھی پڑھنے کو ملے گی۔ موسیقاروں کو ان کی زندگی میں کیسی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کا احوال پڑھنے کو ملتا ہے۔یہ جاننے کو ملتا ہے کہ معروف موسیقارگھرانوں کے بزرگ اپنے بیٹوں کو یہ فن سکھانے کے لیے کتنی سخت گیری سے کام لیا کرتے تھے مگر اس سخت گیری کی وجہ سے ان کی اولادوں نے ان کیسے شان دار انداز میں اپنے بزرگوں کا نام روشن۔اس کتاب کے آخر میں گیت نگاری کا فن مستقل اختیار کرنے والے چند شاعروں کے بھی انٹرویوز شامل ہیں۔ان میں ممتاز غزل گو صابر ظفر بھی ہیں، جن سے بہت اچھی باتیں کی گئی ہیں۔ جنہیں پڑھ کر ان کی زندگی اور شاعری سے گہری وابستگی کا احوال پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس کتاب مین اور بھی بہت کچھ ہے۔
معروف براڈکاسٹر اور ادیب رضا علی عابدی نے خرم کی اس محنت کو موسیقی سے خراجِ عقیدت کا انداز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موسیقی کی لطافتوں اور نزاکتوں کے بھیدخرم سہیل نے اپنی کتاب ’’سُر مایا‘‘ میں کھولے ہیں۔اس کتاب میں کوئی ساٹھ ایسے لوگوں کی باتیں جمع ہیںجن کو موسیقی کے کسی نہ کسی اسلوب سے نہ صرف گہرا تعلق رہا ہے بلکہ جنہوں نے سر کے ذریعے نام کمایا ہے اور موسیقی کے سراہنے والے والوں کے دل و دماغ پر اپنانقش چھوڑا ہے۔
گلزار نے سُر مایا کے فلیپ پر لکھا ہے کہ خرم سہیل کو سوال بہت پریشان کرتے ہیں۔وہ ہر آنے جانے والے سے اس کا پتا پوچھتا رہتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ وہ لوگ گھروں میں نہیں رہتے، وہ فنکار ہیں، وہ گھروں میں تو صرف رکتے ہیں، رہتے کہیں اور ہیں۔وہ سروں میں رہتے ہیں اور بستے کہیں اور ہیں۔
میرا خیال ہے کہ خرم سہیل، سوال کی بھڑکتی لو میں ٹھٹھک کر چلتا اسرارِ موسیقی کی غلام گردش میں تنہا گھومتا رہا لیکن جب وہاں سے لوٹا تو سُر مایا جیسی کتاب ہمارے سامنے لایاتا کہ ہم بھی موسیقی کے بھید جاننے میں اس کے ساتھ شامل ہوجائیں۔
اب خرم کی پہلی کتاب’’ باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے‘‘کے بارے میں چند باتیں۔یہ کتاب 2009-10میں پہلی بار شا یع ہوئی تھی۔اس کا بیشتر حصہ ادب کے مختلف شعبوں یعنی افسانہ، ناول،نظم، غزل، تنقید، تحقیق سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جب کہ ایک حصے میں تھیٹر، فلم،ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ افراد اورا ایک حصہ بین الاقوامی شخصیات پر مشتمل ہے۔ انہیں پڑھ کر ہمیں ان تمام افراد کے بارے میں خاطر خواہ باتیں معلوم ہوتی ہیں۔یہ انٹر ویوز روزنامہ آج کل میں شایع ہوئے تھے۔
فراست رضوی صاحب اس کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں؛’’خرم سہیل گو انٹرویو لینے کے فن میں نئے ہیں لیکن اتنے نئے لگتے نہیں۔وہ ادبی اور ثقافتی موضوعات پر بات کرتے ہوئے پختہ کار نظر آتے ہیں۔شاید اس کا سبب ان کی محنت اور اکتساب ہے۔‘‘
ادب، موسیقی یا دیگر شعبوں سے وابستہ افراد اپنی پوری زندگی اپنے کام کے لیے وقف کرتے ہیں۔ اسی لیے ان شخصیات کے کام کی وسعت، باریکی اور گہرائی کا احاطہ کرنے لیے ایک سے زائد نشستیں کی جانی چاہئیے تھیں۔ تاکہ اپنے کام کے ساتھ ایک عمر گزارنے والی شخصیات کا بہتر طور پر احاطہ کیا جاسکتا،کیوں کہ اسی طرح کوئی انٹرویو تاریخ میں مستقل حیثیت کا حامل بن سکتا ہے، ورنہ تاریخ تو ہر روز تبدیل ہوتی ہے اورہر روز کئی انٹر ویو شایع ہوتے ہیں۔خرم سہیل اب زیاد ہ پختہ کار ہوچکے ہیں، اس لیے میں ان سے توقع زیادہ رکھتا ہوں۔امید ہے وہ اس توقع پر پورا اتریں گے۔