youth-yell-featured

ایک انتہائی مشہور کہاوت ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ اگر اس کہاوت کو غور سے سمجھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم تعلیمی نظریے کی بڑی سادہ توجیہہ ہے۔ البرٹ بنڈورا صاحب نے مشاہدے سے سماجی ادراک کے تحت تعلیم کا نظریہ پیش کیا تھاجس کا لبِ لباب یہ ہے کہ انسان اپنے ماحول سے سیکھتا ہے،خوب سیکھتا ہے اور تا حیات سیکھتا ہے۔ماحول سے ہم اپنی دلچسپی کی چیزیں سیکھتے ہیں اور اس دوران ہم سماجی ادراک کی صلاحیت کے تحت سیکھتے ہیں یعنی ہم میں سے ہر خربوزہ اپنی پسند کے خربوزے سے سیکھتا ہے۔ ہم نے چلنا، بولنا، کھانا اسکول سے نہیں سیکھا، اپنے ماحول سے سیکھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سیکھنے سکھانے کے اس عمل میں ہم پٹڑی سے اتر جاتے ہیں اور اوٹ پٹانگ چیزیں سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔جب تک ہم معاشرے سے نیک اور مثبت چیزیں سیکھتے رہتے ہیں تب تک تو معاملات ٹھیک رہتے ہیں لیکن جیسے ہی ہم منفی عادات اور برائیاں سیکھنا شروع کرتے ہیں ہمارا بیڑہ غرق ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
دوست، اگر سگریٹ پینے سے آواز بھاری ہوجاتی تو میرے ابا کی آواز طلعت حسین صاحب جیسی ہوچکی ہوتی، لیکن ان کی آواز بھی اتنی ہی باریک ہے جتنی میری۔
کوئی دو سال پرانی بات ہے کہ ایک دوست دانت نکالے میرے پاس آیا اور خوشی خوشی پوچھا، "میری آواز کیسی لگ رہی ہے؟” (میں چونکہ اس کی نیت بھانپ چکا تھا اس لیے) میں نے کہا”دوست، اگر سگریٹ پینے سے آواز بھاری ہوجاتی تو، میرے ابا کی آواز طلعت حسین صاحب جیسی ہوچکی ہوتی، لیکن ان کی آواز بھی اتنی ہی باریک ہے جتنی میری۔” اس پر میرے دوست نے برا سا منہ بنایا اور کہا، "یہ فیشن ہے، تمہاری سمجھ سے آگے کی چیز ہے۔”
سال و ماہ گذرتے رہے، اور موصوف سگریٹ کے بلینڈ بدلتے رہے، اب وہ دو موبائل ایک "چھوا موا”(Touch Screen)،دوسراqwerty کی بورڈ والااور ایک عدد مہنگے سگریٹ کا پیکٹ ہاتھ میں لیے گھومتے رہتے ہیں۔ وجہ؟ مشہور لوگ ایسا کرتے ہیں، سب بڑی عزت کرتے ہیں! بڑا بڑا لگتا ہوں! اور جب بھی میں اس سے یہ کہوں کہ تمباکو نوشی مضرِ صحت ہے تو جواب آتا ہے یہ (میڈیا میں) ترقی کے لیے ضروری ہے!
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ قابلیت، تعلیم، تدریس اور تجربے پر ایک سگریٹ کا پیکٹ، کئی ایک مہنگے جوتے، (نقلی مہنگی گھڑی اور نت نئے موبائل کس طرح بھاری ہیں؟ پھر تو ہمیں اپنی تعلیمی و پیشہ ورانہ اسناد جلا دینی چاہئیں اور سگریٹ کے ڈبےخرید لینے چاہئیں۔خدانخواستہ اگر کل کلاں کوئی انتہائی مشہور اور قابل شخص کھلے بندوں عورتوں کی تحقیر شروع کر دے تو پھر تو یہ بھی رواج پاجائے گا؟ اسی طرح اگر پتہ چلے کہ کوئی کامیاب ڈائریکٹر ہیروئن کا عادی ہے تو کیا اس علت کو بھی بطور فیشن اپنا لینا باعثِ فخر و انبسا ط ٹھہرے گا؟چلیں ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں، دنیا کا عقلمند ترین سائنسدان (زندہ) اسٹیون ہاکنگ کہلاتا ہے، ڈاکٹر صاحب نوجوانی سے ہی مفلوج ہیں،تو کیا جسمانی معذوری کو عقلمندی کی دلیل مان لیا جائے؟پھر توطبعیات کے ہر طالب علم کو اپنی ریڑھ کی ہڈی توڑ ڈالنی چاہیے، مبادا ایسا کرنے سے کائنات کا سارا علم اس پر وارد ہوجائے۔اقوام ِمتحدہ سمیت دنیاکےکئی اداروں میں تمباکونوشی پرپابندی عائدہے،توکیا وہاں لوگ ترقی نہیں کرتے ہیں؟
صرف سگریٹ نوشی ہی نہیں میڈیا سمیت ہر شعبے میں موجودپھیکے خربوزے نئے خربوزوں کو ترقی کی جعلی معجونیں، دو نمبر پھکیاں اور ملاوٹ شدہ چورن بیچتے پھرتے ہیں۔میرےناقص علم کےحساب سے جو ششخص اپنی کامیابی کے لیے پکی پکائی کا عادی ہووہ شدید احساسِ کمتری کا شکار ہوتا ہےاور اکثر و بیشتر کامیاب افراد کی قابلیت کا اقبال کرنے کی بجائے ان کی کمزوریوں پرمَر مٹتا ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ خربوزوں کی طرح انسان بھی دوسرے خربوزوں کو دیکھ کر رنگ پکڑنے کے باوجود پھیکے اور بے ذائقہ ہی ہیں۔
ایک انتہائی قابل انسان جس نے سالہا سال محنت کے بعد ایک باوقار مقام حاصل کیا ہو بجائے اس کے کہ اس کے علم اور تجربہ کی قدر کی جائے لوگ اس بحث میں پڑ جاتے ہیں کہ وہ سگریٹ کونسی سی پیتا ہے اور کپڑے کس درزی سے سلاتا ہے۔ کوئی اس سے یہ نہیں پوچھتا ہے کہ وہ اس مقام تک کیسے پہنچا؟ جب وہ نوجوان تھا کیا تب بھی وہ سگریٹ نوشی کرتا تھا؟ کیا ضروری ہے کہ سگریٹ کا کش لگا کر ہی وہ اچھی ہدایت کاری یا ادا کاری کرسکتا ہے؟ اور یہ جو بھاری آواز ریڈیو کے ایک صدا کار نے پائی ہے، اس کے پیچھے سالوں بلکہ دہائیوں کی ریاضت ہے یا پھروہسکیی ووڈکا اور چرس؟لوگوں کی محنت اور قابلیت کواتنے بےمعنی استعاروں سےمنسلک کرکےان کے ہنراورعلم کی یوں بے توقیری اور بےحرمتی کی جاتی ہے کہ شرم آنے لگتی ہے۔عین ممکن ہےکہ مشہور شخصیات کی عجیب و غریب عادات سے متعلق قصے محض بہتان تراشی اور گپ بازی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی نشےکی لت کوفیشن کا نام دےکراوردوسروں پرالزام لگاکرہم محنتی اورباوقارافرادکی کردارکشی کےمرتکب ٹھہرتے ہوں؟
معاملہ یہ ہے کہ خربوزوں کی طرح انسان بھی دوسرے خربوزوں کو دیکھ کر رنگ پکڑنے کے باوجود پھیکے اور بے ذائقہ ہی ہیں۔ ہم بھی اپنے ماحول سے محض ظاہری نمود کا رنگ چڑھانے کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ایسے افراد جو منشیات اور دکھاوے کا سہارا لیتے ہیں انہیں چاہیے کہ خود شناسی حاصل کریں، اپنا مقصدِ حیات پہچانیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، پڑھیں، لکھیں، فکری نشستوں میں بیٹھیں اور اپنی قابلیت کا لوہا منوائیں، عوام کو ٹوپیاں نہ پہنائیں۔ سگریٹ نوشی اور خربوزہ گردی کی بجائے سچ بولیں، جھوٹ کا سہارا نہ لیں، نہ اس سے پیٹ کا درد ٹھیک ہوتا ہے، نہ ہی اس سے آواز بھاری ہوتی۔ لہٰذا اگر رنگ ہی پکڑنا ہے تو کسی خوش ذائقہ خربوزے کا پکڑیے، بلکہ اس کا ذائقہ اور خوشبو بھی پکڑیے ورنہ آپ بھی پھیکے رہ جائیں گے۔

Leave a Reply